کراچی:
دنیا میں ہر باپ ہی اپنی اولاد سے بے تحاشا محبت کرتا ہے، اس کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ بہت بڑا آدمی بنے اور اس کیلیے سخت محنت بھی کرتا ہے، البتہ بڑی کامیابی صرف چند فیصد کے حصے میں ہی آتی ہے۔
بابر اعظم کے والد اعظم صدیقی اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ انھوں نے اپنے بیٹے کو انٹرنیشنل کرکٹر بنانے کیلیے جو تگ و دو کی اس میں کامیاب بھی رہے، کسی انسان کیلیے اس سے بڑی کوئی بات ہو ہی نہیں سکتی کہ اس کا بیٹا بڑی شخصیت بن جائے اور دنیا بھر میں نام کمائے۔
زیادہ تر کرکٹرز کو دیکھیں تو ان کے والدین پڑھائی پر توجہ دینے کی تلقین کرتے رہے، البتہ بڑے بھائیوں نے کھیلنے میں مدد دی، یہاں معاملہ الٹ رہا،بابر کے والد نے ان کی بھرپور حوصلہ افزائی کی، میں نے ایسے کرکٹرز بھی دیکھے جو ساتھی کے ہوٹل روم میں آ کر کہتے تھے کہ ’’یار میرا باپ مجھے بہت تنگ کر رہا ہے، اسپیس ہی نہیں دیتا، تیرے پاس فون آئے تو بولنا یہاں نہیں ہوں‘‘ پھر یہی ہوا جب فون آیا تو جھوٹ کہا گیا۔
دوسری جانب بابر جیسے تابعدار بیٹے ہیں جو اب بھی والد سے پوچھے بغیر کوئی بڑا قدم نہیں اٹھاتے، جو کسی کا عروج دیکھے تو زوال آنے پر سب سے زیادہ دکھ اسی کو ہوتا ہے۔
بدقسمتی سے بابر اعظم کی کارکردگی اب ماضی جیسی نہیں رہی جس کی وجہ سے وہ قومی ٹیم سے باہر ہوچکے،کپتانی پہلے ہی چھن چکی تھی، پی ایس ایل کا سیزن بھی مایوس کن گذرا، کنگ کا لقب پانے والے بابر کو ایسا دن دیکھنا پڑے گا شاید ہی کسی نے یہ سوچا ہوا۔
ظاہر سی بات ہے والد کو اس کا سب سے زیادہ دکھ ہو رہا ہو گا، ابھی انھیں اپنے بیٹے کو سنبھالنا اور سمجھانا چاہیے کہ ہمت نہ ہارو،محنت جاری رکھو، یہ وقت بھی گذر جائے گا، البتہ اعظم صاحب لگتا ہے خود ہی ہمت ہارنے لگے ہیں،کم از کم ان کے سوشل میڈیا پیغامات تو یہی بیان کر رہے ہیں۔
کامران اکمل نے یہ بات کہی کہ ’’بابر اعظم اور محمد رضوان کو وائٹ بال کی جگہ صرف ٹیسٹ میں حصہ لینا چاہیے‘‘ وہ پاکستان کی جانب سے 250 سے زائد انٹرنیشنل میچز کھیل چکے اور اپنی رائے کا اظہار کرنے کا مکمل حق رکھتے ہیں، کئی دیگر سابق کرکٹرز نے بھی بابر اور رضوان کے بارے میں ایسی باتیں کی ہیں۔
آپ جانتے ہوں گے بابر کے والد اکمل برادرز کے چچا ہیں لہذا انھیں بھتیجے کا مشورہ پسند نہ آیا اور لمبی چوڑی پوسٹ کر دی، میڈیا میں چچا بھتیجے کی لفظی جنگ کا خاصا چرچا رہا، اس منفی پبلسٹی کا کوئی فائدہ نہ ہوا البتہ فرسٹریشن ظاہر ہو گئی۔
بدقسمتی سے ہم کسی کو بہت جلد اوپر پہنچاتے ہیں اور زمین پر واپس لانے میں تو بالکل بھی تاخیر نہیں برتتے، بابر نے اپنی بہترین کارکردگی سے دنیا بھر میں نام کمایا، ہرکھلاڑی کے کیریئر میں بْرا وقت آتا ہے لیکن ان کے والد یا بھائی ناقدین سے لڑنے نہیں لگ جاتے، بابر کو کسی کی ٹویٹ، خبر یا سپورٹ ٹیم میں واپس نہیں لا سکتی، اس کے لیے ان کا بیٹ ہی کافی ہے لیکن متنازع بننے کا کوئی فائدہ نہ ہو گا، ان کی وجہ سے والد بھی ’’منی سیلیبریٹی‘‘ بن چکے ہیں۔
سوشل میڈیا پر ہزاروں فالوورز ہیں، وہ کوئی سخت بات کریں تو میڈیا خبر بنا کر چلا دیتا ہے، اس شہرت کا فائدہ نہیں نقصان ہی ہوگا، لائم لائٹ میں بابر کو ہی رہنے دیں، بطور والد ان کی پریشانی سب سمجھتے ہیں لیکن وہ خود کچھ نہیں کر سکتے، بابر کو ہی ماضی جیسی پرفارمنس سے دوبارہ اوپر آنا ہے۔
دراصل سوشل میڈیا نے بھی کھلاڑیوں کے مسائل بڑھائے ہیں، بابر کے نام پر بعض لوگوں نے اتنا کمایا کہ آج بیرون ملک جائیدادوں کے مالک ہیں، یوٹیوب چینلز سے بھی رقوم کمائیں، ایک ’’کرکٹر‘‘ سابق بورڈ چیف تو ان کے پیچھے چھپ کر اپنی خامیاں چھپاتے رہے۔
ان سب نے اپنی دکان چمکانے کیلیے بابر کو کرکٹ سے بڑھ کر شخصیت جیسا روپ دیا، کنگ بنا کر پیش کیا، جب تک بیٹ نے ساتھ دیا سب ٹھیک رہا اب کل کے بچے ٹی وی پر کہتے ہیں کہ ’’بابر کی کمی کوئی بھی پوری کر سکتا ہے‘‘۔
وہ بعض لوگوں کی باتوں میں آکر ان تک ہی محدود رہے، حلقہ احباب بڑھانے کی ضرورت نہ سمجھی، بابر تو برانڈ تھے ان کو کیش کر کے وہ لوگ مڈل کلاس سے اپر کلاس بن گئے، بابر اب تنہا ہیں، صرف ان کے والد ہی ساتھ نظر آتے ہیں، بابر نے بیٹ تو بدل لیا اب اردگرد موجود لوگوں کو بھی بدل کر دیکھیں یقینی طور پر فائدہ ہوگا۔
چمچہ گیری کر کے آسمان پر چڑھانے والے لوگوں سے اب دور ہوں،والد صاحب یقینی طور پر مخلص ہیں ان کی مشاورت سے آگے بڑھیں لیکن ساتھ انھیں بھی کہہ دیں کہ سوشل میڈیا سے ناطہ توڑ لیں۔
بابر کی حال ہی میں ایک ویڈیو آئی جس میں وہ پرستاروں سے الجھ رہے ہیں ایسے معاملات سے بھی بچنے کی کوشش کریں،لوگ تنگ کرتے ہیں ایسے میں نظرانداز کرنا ہی بہتر حل ہے،مداح بھی انھیں غصہ نہ دلائیں اور کھیل پر فوکس کرنے دیں، بابر سوشل میڈیا واریئرز سے دور رہیں جو اب انھیں محمد حارث اور سلمان علی آغا جیسے کرکٹرز سے بھی لڑانے کی کوشش کر رہے ہیں، فلاں نے ان فالو کر دیا فلاں نے نام نہ لیا، ان باتوں میں پڑ کر کچھ حاصل نہیں ہوگا، صرف کارکردگی سے ہی ایسا جواب آ سکتا ہے جو سب دیکھیں گے۔
بدقسمتی سے پی ایس ایل میں بابر کو یہ موقع ملا تھا جس سے وہ فائدہ نہ اٹھا سکے، پاکستان کو موجودہ دور میں جو کرکٹرز ملے بلاشبہ بابر اعظم ان میں بہترین ہیں، انھوں نے ملک کیلیے بڑے کارنامے سرانجام دیے اور وہ بدستور ایسا کر سکتے ہیں، مگر اس کے لیے کھیل پر فوکس رکھیں باقی غیرضروری باتوں کو چھوڑ دیں۔
انھیں انا کو بھی پس پشت رکھنا ہوگا، سابق کرکٹرز سے بھی بات کریں تاکہ فارم واپس لانے میں مدد مل سکے،انگلینڈ ہی چلے جاتے جہاں سیزن جاری ہے،اعظم صدیقی صاحب کو بھی سمجھنا چاہیے کہ یہ کوئی فلم نہیں جہاں شاہ رخ خان کی طرح ڈائیلاگ بول دیا کہ ’’ بیٹے کو ہاتھ لگانے سے پہلے باپ سے بات کر‘‘ اصل زندگی میں جب بیٹا مشکل میں پڑا تھا تو بیچارے شاہ رخ بھی خوب پریشان ہو گئے تھے، وہ یہ یاد رکھیں کہ اسٹار بابر ہے وہ نہیں۔
لوگوں سے سوشل میڈیا پر بحث نہ کریں، بابر کو مشورے دیں، اب سائیکل نہیں تو مرسیڈیز میں ہی بٹھا کر گراؤنڈ لے جایا کریں جہاں وہ پریکٹس کر کے پہلے والی فارم میں واپس آ سکیں۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سوشل میڈیا فائدہ نہ بابر کو کے والد سے بھی
پڑھیں:
’’عشق پیغمبر اعظم، مرکز وحدت مسلمین‘‘ کانفرنس
اسلام ٹائمز: اس اجتماع میں ملک بھر سے مذہبی و سیاسی جماعتوں کے قائدین، علمائے کرام و مشائخ عظام اور مرکزی رہنماوں نے خطاب کیا، کانفرنس سے میزبان سربراہ مجلس وحدت مسلمین سینیٹر علامہ راجہ ناصر عباس نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت بشریت ظلم و استبداد کی چکی کے دو پاٹوں میں پس رہی ہے اور ویسٹ کی برہنہ تہذیب کے ظلم و جبر کا شکار ہے، اس ظلم کی جڑیں مغربی تہذیب میں ہیں، لوگ سمجھتے تھے کہ مغرب نے اپنی ترقی سے دنیا کو جنت بنا دیا ہے، لیکن مغرب نے اپنا مکروہ چہرہ میڈیا کے لبادے میں چھپایا ہوا ہے۔ ترتیب و تدوین: سید عدیل عباس
ہفتہ وحدت کی مناسبت سے گذشتہ چند سالوں سے پاکستان میں قائم مختلف مذہبی جماعتوں کے اتحاد ملی یکجہتی کونسل کی جانب سے اور مجلس وحدت مسلمین کے زیراہتمام ہر سال اسلام آباد میں ’’عشق پیغمبر اعظم، مرکز وحدت مسلمین‘‘ کانفرنس کا انعقاد کیا جاتا ہے، اس سال بھی ولادت باسعادت سرور کونین، سید الانبیاء، رحمت اللعالمین حضرت محمد مصطفیٰ (ص) کے موقع پر اسلام آباد میں سالانہ کانفرنس کا اہتمام کیا گیا، جس میں مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے مذہبی شخصیات اور علماء کرام نے شرکت کی۔ اس موقع پر پاکستان کے مخصوص حالات اور خاص طور پر غزہ اور مشرق وسطیٰ کی صورتحال کے تناظر میں امت مسلمہ کو امریکہ اور اس کی ناجائز اولاد اسرائیل کے خلاف متحد ہو کر جواب دینے اور باہمی اتحاد کو فروغ دینے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ کانفرنس کی خاص بات اتحاد بین المسلمین کا وہ عملی مظاہرہ تھا کہ جس کو مدنظر رکھتے ہوئے ملی یکجہتی کونسل جیسا پلیٹ فارم قائم کیا گیا، کانفرنس میں تمام مقررین حضرات نے سب سے زیادہ امت مسلمہ کے مابین اتحاد اتفاق کی ضرورت پر زور دیا۔
اس اجتماع میں ملک بھر سے مذہبی و سیاسی جماعتوں کے قائدین، علمائے کرام و مشائخ عظام اور مرکزی رہنماوں نے خطاب کیا، کانفرنس سے میزبان سربراہ مجلس وحدت مسلمین سینیٹر علامہ راجہ ناصر عباس نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت بشریت ظلم و استبداد کی چکی کے دو پاٹوں میں پس رہی ہے اور ویسٹ کی برہنہ تہذیب کے ظلم وجبر کا شکار ہے، اس ظلم کی جڑیں مغربی تہذیب میں ہیں، لوگ سمجھتے تھے کہ مغرب نے اپنی ترقی سے دنیا کو جنت بنا دیا ہے، لیکن مغرب نے اپنا مکروہ چہرہ میڈیا کے لبادے میں چھپایا ہوا ہے، جب یہ ہمارے نبی ختمی المرتب (ص) کی شان میں گستاخی کرتے ہیں تو اپنی مغربی تہذیب کے برہنہ پن کو واضح کرتے ہیں، ان کی حقیقت آپ غزہ میں دیکھ لیں، جب تک تم ان جیسے نہ ہو جاؤ، وہ راضی ہو ہی نہیں سکتے، یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ امریکہ اسرائیل کے قطر پر حملے میں ملوث نہ ہو، قطر نے چار سو ملین ڈالر کا جہاز دیا ہے، ٹرمپ کو، پھر بھی حملہ ہوا اور مزاحمت کے رہنما شہید ہوئے۔
علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کہا کہ امریکہ قابل اعتماد نہیں ہے، اپنے وطن کے خزانے ان کے حوالے کر رہے ہو، اس کے ساتھ سی آئی اے آئے گی اور حرام ہے یہود و نصاریٰ کو دوست بنانا، یہ قرآن کہہ رہا ہے، وہ انہیں میں سے ہو جائے گا، یہ دین اور انسانیت سے دور ہیں، ان کی تہذیب میں انسانیت کی تحقیر اور بزدلی، بے وفائی اور بے حرمتی ہے، تحقیر ہے۔ نائب امیر جماعت اسلامی لیاقت بلوچ نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پوری قیادت کو غور کرنا ہوگا کہ امت اور قوم منتشر کیوں ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ نفسا نفسی کی دوڑ ہے، ہر کوئی اپنی انا میں ڈوبا ہوا ہے، استعمار ہماری ملت کو ملین ڈالرز خرچ کرکے تقسیم در تقسیم کر رہا ہے، ایران میں جب انقلاب آیا تو پوری مسلم دنیا سمیت پاکستان میں بہت خوشی کا اظہار کیا گیا، لیکن امریکہ نے عظیم الشان اسلامی انقلاب کو شیعہ انقلاب بنا کر پیش کیا کہ یہ اب عربوں کے تخت بہا لے جائے گا، ملی یکجہتی کونسل نے اس سازش کو ناکام بنانے کیلئے یہ پلیٹ فارم بنایا، تاکہ آپس کے اختلافات ختم ہوں اور امت میں وحدت پیدا ہوسکے، لیکن ہم معیشت پر اکٹھے نہیں۔
لیاقت بلوچ نے کہا کہ سود کے نظام پر کھلم کھلا عمل ہو رہا ہے، پارلیمنٹ میں قرآن و سنت کے خلاف قوانین بن رہے ہیں، لیکن عالمی پریشر کی وجہ سے یہ سب رک نہیں رہا، فلسطین اور غزہ کی بربادی پر سب مجرمانہ طور پر دیکھ رہے ہیں، عرب کہتے رہے کہ حماس اور حزب اللہ ختم ہو جائے، ہم معاملات سنبھال لیں گے، لیکن پھر قطر بھی محفوظ نہ رہا، یہ درندہ صفت اسرائیل کا حملہ اب انقرہ و اسلام آباد تک بھی ہوسکتا ہے، سری لنکا، بنگلہ دیش اور اب نیپال کی صورتحال سب کے سامنے ہے، مودی بھی وطن عزیز میں یہ سب دوہرانا چاہتا تھا، لیکن اسے منہ کی کھانی پڑی، حکومت سے کہنا چاہتا ہوں، لوگ اس غیر آئینی اور ناانصافی کے اقدامات سے تنگ ہیں، لوگ تمہارے کشکول سے بھی تنگ ہیں، لیکن رسول اکرم (ص) کے خلاف کوئی قانون سازی نہیں ہونے دیں گے اور قادیانیوں کی بھی کوئی سازش کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ اس کانفرنس کا پیغام یہ ہے کہ قرآن و سنت بالا دست ہے، حکومت کو پیغام دیتا ہوں کہ عوام معاشی حوالے سے تنگ ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ناموس مصطفیٰ کے قانون میں تبدیلی نہیں ہونے دیں گے، ملی یکجہتی کونسل تحفظ ناموس رسالت کا ہراول دستہ ہے، اقلیتوں کی آڑ میں گستاخوں کو قانونی تحفظ نہیں لینے دیں گے۔ کانفرنس سے سربراہ جماعت اہل حرم مفتی گلزار نعیمی، وائس چیئرمین مجلس وحدت مسلمین علامہ سید احمد اقبال رضوی، پیر غلام رسول اویسی، ڈاکٹر ضمیر اختر، مولانا طیب شاہ بخاری، مرکزی رہنماء ایم ڈبلیو ایم سید ناصر عباس شیرازی، رکن قومی اسمبلی انجینئر حمید حسین طوری، علامہ اختر عباس، سید فدا احمد شاہ، علامہ سید اکبر کاظمی، خواجہ مدثر محمود تونسوی، سید عبدالوحید شاہ و دیگر مقررین نے بھی خطاب کیا۔ تمام مقررین نے جناب رسالت مآب حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذات اقدس کو مرکز وحدت مسلمین قرار دیتے ہوئے امت مسلمہ کو امت واحدہ بننے کی ضرورت پر زور دیا۔ مقررین نے مجلس وحدت مسلمین کی میزبانی میں منعقد ہونے والی اس کانفرنس کے انعقاد کو بھی خوش آئند قرار دیا۔