آپریشن سندور کے نقصانات پر سی ڈی ایس کے بیان نے بھارتی سیاست میں شدید تشویش پیدا کر دی جس پر پارلیمنٹ کا اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔

بھارتی چیف آف ڈیفنس اسٹاف جنرل انیل چوہان کی جانب سے آپریشن سندور میں نقصانات کو جنگ کا معمول اور حصہ قرار دینے پر بھارتی سیاست میں طوفان برپا ہے۔

جنرل انیل چوہان نے سری لنکن میڈیا کو دیے گئے انٹرویو میں آپریشن سندور کے نقصانات کو جنگ کا معمول قرار دیا تھا جس پر بھارت میں سیاسی ہنگامہ آرائی ہے۔

کانگریس صدر ملکارجن کھرگے کی قیادت میں اپوزیشن نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے فوری پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا ہے۔

مودی حکومت پر ملک کو گمراہ کرنے کا الزام لگایا جا رہا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ آپریشن سندور اور اس کے بعد کے حالات پر عوام سے دروغ گوئی بند کی جائے۔

کانگریس نے الزام لگایا ہے کہ مودی حکومت نے عوام سے حقائق چھپائے، قومی سلامتی کے نام پر حقائق کیوں چھپائے جا رہے ہیں۔

رہنما کانگریس منوج کمار نے کہا کہ گزشتہ دو ہفتوں میں مودی سرکار 12 مرتبہ بیان بدل چکی ہے، یہ بات شاید پاکستان کے لیے اہم نہ ہو، مگر ہماری بھارتی عوام کے لیے ضرور ہے۔ کل کے انٹرویو میں سی ڈی ایس کے بیان کو میں سمجھتا ہوں کہ بہت سنجیدگی سے لینا چاہیے، کیونکہ اس میں اہم سوالات پوشیدہ ہیں۔

پون کھیرا نے کہا کہ چیف آف ڈیفنس اسٹاف نے سنگاپور میں اعتراف کیا کہ ہمارے جہاز پاکستان نے گرائیں ہیں، جو کہ ایک سنجیدہ معاملہ ہے اور حکومت کو اس پر آگے آنا ہوگا، 1962 میں جنگ کے دوران پارلیمنٹ سیشن ہو سکتا ہے تو اب کیوں نہیں؟ مودی حکومت بتائے سیز فائر کی امریکی شرائط کیا تھیں۔

یونین منسٹر گجیندر سنگھ شکھاوت نے کہا کہ مودی سرکار عوام کو سچ سے کیوں دور رکھ رہی ہے؟

.

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

غیر دانشمندانہ سیاست کب تک؟

2002 میں آئینی طور پر ہٹائے جانے والے پی ٹی آئی کے وزیر اعظم نے تین سال گزر جانے کے بعد اپنی برطرفی قبول نہیں کی حالانکہ تحریک عدم اعتماد پیش کیے جانے والے غیر قانونی منسوخ کیے جانے والے اجلاس کے دوبارہ انعقاد کا حکم عدالت کا تھا اور آئینی طور پر ہٹائے جانے والے وزیر اعظم اجلاس سے قبل ہی ایوان وزیر اعظم چھوڑ کر اپنے گھر بنی گالہ چلے گئے تھے اور تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کا فیصلہ انھوں نے قبول کر لیا تھا، اسی لیے انھوں نے اس وقت اپنی برطرفی اور نئے وزیر اعظم کے انتخاب کا قومی اسمبلی کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج بھی نہیں کیا تھا جو ظاہر ہے کہ ملک کے آئین کے مطابق ہی تھا اور چیلنج ہو بھی نہیں سکتا تھا۔

پی ڈی ایم، پیپلز پارٹی و دیگر نے مل کر شہباز شریف کی قیادت میں جو حکومت بنائی تھی وہ تقریباً 16 ماہ کے لیے تھی جس کے بعد عام انتخابات ہونے ہی تھے۔ نئی حکومت نے جن برے معاشی حالات میں حکومت سنبھالی تھی وہ اپنے 16 ماہ کے عرصے میں کوئی کامیابی حاصل کرسکتے تھے نہ اچھی کارکردگی دکھانے کی پوزیشن میں تھے اور مسلم لیگ (ن) میں میاں شہباز شریف کے وزیر اعظم بننے پر باہمی اختلافات بھی تھے کہ نئے الیکشن ہونے ضروری ہیں تاکہ نئی حکومت 5 سال کے لیے منتخب ہو سکتی۔

اس وقت پی ٹی آئی عدم مقبولیت کا شکار بھی تھی اور اس کی مخالف پارٹیاں مل کر کامیابی حاصل کر کے اپنی حکومت بنا سکتی تھیں مگر لگتا ہے کہ ملک کے برے معاشی حالات کے باوجود میاں شہباز شریف نے چیلنج سمجھ کر وزارت عظمیٰ کو قبول کیا، دوسری جانب پیپلز پارٹی بھی اپنی جان چھڑا کر 16 ماہ کا اقتدار (ن) لیگ کو دلانا چاہتی تھی تاکہ بعد میں اپنے اقتدار کی راہ ہموار کر سکے۔

اس طرح نئی حکومت بن گئی اور وہ سولہ ماہ تک ملک کی خراب معاشی صورتحال کا ذمے دار پی ٹی آئی حکومت کو قرار دیتی رہی۔ آئینی برطرفی پر بانی پی ٹی آئی نے نئی حکومت کے خلاف انتہائی جارحانہ سیاست کا آغازکیا اور اپنی برطرفی کا الزام مبینہ سائفر کو بنیاد بنا کر کبھی امریکا پر کبھی ریاستی اداروں پر عائد کرتے رہے۔ حقائق کے برعکس بانی نے منفی سیاست شروع کی اور غیر ضروری طور پر ملک میں لاتعداد جلسے کیے اور راولپنڈی کی طرف نئے آرمی چیف کی تقرری روکنے کے لیے جو لانگ مارچ کیا۔

اس سے انھیں کوئی سیاسی فائدہ نہیں ہوا بلکہ نقصان ہی ہوا۔ جلد بازی میں وقت سے قبل کے پی اور پنجاب اسمبلیاں تڑوانے جیسے بانی کے تمام فیصلے غیر دانشمندانہ ثابت ہوئے اور انھوں نے دونوں جگہ اپنے وزرائے اعلیٰ مستعفی کرا کر دونوں صوبوں کا اقتدار اپنے مخالفین کے حوالے کرا دیا اور چاہا کہ دونوں صوبوں میں دوبارہ اقتدار حاصل کرکے وفاق میں پی ٹی آئی کو اکثریت دلا کر اقتدار میں آ سکیں مگر سپریم کورٹ نے دونوں صوبوں میں نئے انتخابات کی تاریخ بھی مقرر کر دی مگر الیکشن نہ ہوئے کیونکہ حکومت بانی کے عزائم جان چکی تھی اور کے پی و پنجاب میں وفاقی حکومت کی اپنی نگراں حکومتیں آنے سے وفاق مضبوط ہو گیا اور قومی اسمبلی میں حاصل معمولی اکثریت کو اپنے حق اور مفاد میں استعمال کرکے پی ڈی ایم حکومت نے بانی پی ٹی آئی کے تمام غیر دانشمندانہ سیاسی فیصلوں کو نہ صرف ناکام بنایا بلکہ انھیں گرفتار کرا کر عوام سے بھی دور کر دیا تھا۔

نگراں حکومتوں میں جو انتخابات 8 فروری کو ہوئے ایسے ہی الیکشن جولائی 2018 میں ہوئے تھے جن میں پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت پونے چار سال چلی تھی اور اب 8 فروری کی حکومت اپنا ڈیڑھ سال گزار چکی۔ قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی واحد بڑی پارٹی ہے مگر اپنی پارٹی کے بجائے ایک نشست والے محمود خان اچکزئی کو اپوزیشن لیڈر بنانے کا بانی کا فیصلہ تو خود پی ٹی آئی میں بھی قبول نہیں کیا گیا جو انتہائی غیر دانشمندانہ، غیر حقیقی اور اصولی سیاست کے خلاف تھا ۔ بانی پی ٹی آئی نے اپنی غلط پالیسی سے اپنے لیے ہی مشکلات بڑھائی ہیں اور ان کے ساتھ سزا پارٹی بھی بھگت رہی ہے جو بانی کے غیر دانشمندانہ فیصلوں کا نتیجہ ہے۔

متعلقہ مضامین

  • بھارتی صحافی رویش کمار کا اپنے ہی اینکر پر وار، ارنب گوسوامی کو دوغلا قرار دیدیا
  • سیلاب ،بارش اور سیاست
  • موجودہ حالات میں جلوس نکالنا سیاست نہیں، بے حسی ہے‘سکھد یوہمنانی
  • ترک و مصری وزرائے خارجہ کا رابطہ، غزہ کی صورتحال پر تشویش اور فوری جنگ بندی پر زور
  • کیا بھارت آپریشن سندور جیت گیا تھا؟ بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ اپنی ہی ٹیم کے کھلاڑیوں پر برس پڑے
  •  وزیر اعظم کی خصوصی ہدایت پر این ڈی ایم اے کا سیلاب متاثرہ علاقوں میں امدای آپریشن جاری
  • غیر دانشمندانہ سیاست کب تک؟
  • مودی پہلگام فالس فلیگ اور آپریشن سندور کی ناکامیاں کھوکھلے دعووں سے چھپانے میں مصروف
  • بھارتی جنرل یا سیاسی ترجمان؟ عسکری وقار مودی سرکار کی سیاست کی نذر
  • ایران کا مسلم ممالک سے اسرائیل کے خلاف مشترکہ آپریشن روم بنانے کا مطالبہ