بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کو مہنگائی کے تناسب سے ریلیف دینے کا فیصلہ
اشاعت کی تاریخ: 2nd, June 2025 GMT
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)حکومت نے نئے بجٹ میں سرکاری ملازمین کو مہنگائی کے تناسب سے تنخواہوں میں ریلیف دینے کا فیصلہ کرلیا۔
نجی ٹی وی سما نیوز ذرائع کے مطابق حکومت نے نئے بجٹ میں سرکاری ملازمین کو مہنگائی کے تناسب سے تنخواہوں میں ریلیف دینے کا فیصلہ کرلیا جبکہ کیش ٹرانزیکشن کی حوصلہ شکنی کےلیے فنانس بل 2025میں اہم تجاویز زیر غور ہیں۔
خیال رہے کہ سرکاری ملازمین نے تنخواہوں اور الاؤنسز میں نمایاں اضافے کا مطالبہ کیا ہے، ملازمین نے کم ازکم ماہانہ اجرت یا تنخواہ 50 ہزار مقرر کرنے کا مطالبہ کیا ہے، مطالبات پورے نہ ہونے کی صورت میں 10 جون کو پارلیمنٹ کے سامنے دھرنا دینے کا اعلان ہے۔
ایشین کرکٹ کونسل نے ایمرجنگ ویمنز ایشیا کپ ملتوی کردیا
ذرائع ایف بی آر کے مطابق کیش ملک میں ٹرانزیکشن کی حوصلہ شکنی کے لیے بجٹ میں پیٹرول پمپ سے نقد تیل خریدنے پر تین روپے تک اضافی وصولی کی تجویز ہے، اس سے ٹیکس چوری اور ملاوٹ پر قابو پانے میں مدد ملے گی، مینوفیکچررز اور درآمد کنندگان نقد فروخت پر اضافی2 فیصد ٹیکس وصول کرسکیں گے۔
بجٹ میں ٹیئرون ری ٹیلرزپر نقد خریداری پر بھی اضافی ٹیکس عائد کرنے کی تجویز ہے، ریسٹورنٹس پر پہلے ہی ڈیبٹ کریڈٹ کارڈ سے ادائیگی پر ٹیکس چھوٹ ہے، پیٹرول پمپس پر نقد کے ساتھ ڈیجیٹل پیمنٹ کے آپشنز استعمال کیے جاسکیں گے۔ کیوآر کوڈز، ڈیبٹ، کریڈٹ کارڈز، موبائل ادائیگی کی خدمات فراہم کرنے کے اقدامات شامل ہیں، خریدار زیادہ ٹیکس اداکرنے کے بعد نقد ادائیگی کرنے میں آزاد ہوں گے۔
کراچی: شہری پر تشدد میں ملوث شخص کا ڈرائیور اور سکیورٹی گارڈ گرفتار
ذرائع ایف بی آر کے مطابق نئے بجٹ میں ایونٹ مینجرز، جیولرز، شادی ہالز، ڈاکٹر اور وکلا کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی کوئی تجویز نہیں۔
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: دینے کا
پڑھیں:
تنخواہ دار طبقےکو ریلیف کیلئے بچت سکیموں اور بینک ڈپازٹ پر ٹیکس میں اضافے پر غور
ویب ڈیسک :عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف )کی رضامندی سے تنخواہ دار اور دیگر شعبوں کو ریلیف فراہم کرنے کی کوشش میں ایف بی آر کمرشل بینکوں اور بچت سکیموں میں رکھے گئے ڈپازٹس پر حاصل ہونے والی سود کی آمدنی پر ٹیکس کی شرح میں 2فیصد اضافے پر غور کر رہا ہے۔
آئندہ مالی سال 2025-26 کے بجٹ میں فائلرز اور نان فائلرز دونوں کے لیے ٹیکس کی شرح میں اضافے کی تجویز دی گئی ہے۔
کراچی کے مختلف علاقوں میں پھر سے زلزلہ، خوف وہراس پھیل گیا
ایک اعلیٰ عہدیدارکے مطابق آئی ایم ایف نے ابھی اس تجویز کی حتمی منظوری نہیں دی ہے ‘ آئی ایم ایف نے تنخواہ دار طبقے اور دیگر شعبوں کو ریلیف فراہم کرنے کی صورت میں پیدا ہونے والے خسارے کو پورا کرنے کے لیے مختلف ٹیکس تجاویز کی تفصیلات طلب کی ہیں، جہاں رسمی شعبوں کا حجم سکڑ رہا ہے، جس کے نتیجے میں آئی ایم ایف پروگرام کے تحت گزشتہ مالی سال 2024-25 کے بجٹ میں عائد کی گئی بھاری شرحوں کے بعد ٹیکس ریونیو کی وصولی میں کمی واقع ہوئی ہے۔
اے ٹی ایم سے رقم نکالنے پر کتنا ٹیکس ہوگا؟ شہریوں کیلئے بری خبر
ایف بی آر کے سابق ممبر ٹیکس پالیسی ڈاکٹر محمد اقبال کے مطابق اگر اس ٹیکس کی شرح میں اضافہ کیا گیا تو اس سے اُن لوگوں کی زندگی مشکل ہو جائے گی جو بینکوں اور سیونگز اسکیموں میں اپنی جمع شدہ رقم سے حاصل ہونے والی سودی آمدن پر منحصر ہیں‘ اسی طرح، کمرشل بینکوں کو بھی نقصان ہوگا کیونکہ ان کی جمع شدہ رقوم میں کمی آ سکتی ہے۔
ایک اعلیٰ عہدیدار نےبتایا کہ یہ غیر فعال آمدنی پر ٹیکس کی شرح بڑھانے کے طریقوں میں سے ایک ہے، کیونکہ افراد کے ساتھ ساتھ کمپنیاں بھی کمرشل بینکوں اور بچت اسکیموں میں پیسہ لگاتی ہیں۔ فائلرز کے لیے سود کی آمدنی پر موجودہ ٹیکس کی شرح 15 فیصد تھی، جبکہ نان فائلرز کے لیے یہ بڑھا کر 35 فیصد کر دی گئی تھی۔
باٹا پور : گھریلو جھگڑے پر فائرنگ،ماں بیٹی قتل
آئندہ بجٹ میں فائلرز اور نان فائلرز دونوں کی غیر فعال آمدنی پر ٹیکس کی شرح میں 2 فیصد اضافہ زیر غور ہے۔ رابطہ کرنے پر، ایف بی آر کے سابق ممبر ٹیکس پالیسی ڈاکٹر محمد اقبال نے کہا کہ سود کی آمدنی پر 15 فیصد کی شرح پہلے ہی کافی زیادہ تھی کیونکہ بینک ڈپازٹس جن پر بینکوں سے آمدنی حاصل ہوتی تھی وہ بھی ایسی آمدنی سے پیدا ہوتی تھی جو کمانے کے وقت پہلے ہی ٹیکس کے تابع تھی۔
مزید برآں، انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ 15 فیصد کی یہ شرح صرف اُن افراد پر لاگو ہوتی ہے جن کی سالانہ سودی آمدن 50 لاکھ روپے تک محدود ہو۔ انہوں نے وضاحت کی کہ اگر سودی آمدن 50 لاکھ روپے سالانہ سے تجاوز کر جائے تو پھر مجموعی آمدن (بشمول سودی آمدن) پر معمول کے مطابق قابل اطلاق ٹیکس شرح لاگو ہوتی ہے، اور پوری آمدن پر وہی عمومی ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے۔
ہمارے زمانے میں ترقی کی شرح 7 فیصد کو چھو رہی تھی، نواز شریف
کمپنیوں کی جانب سے حاصل کی جانے والی سودی آمدن پر بھی کمپنیوں کے معمول کے ٹیکس کی شرح کے تحت ٹیکس عائد ہوتا ہے، جو کہ 29 فیصد کے علاوہ سرچارج اور سپر ٹیکس پر مشتمل ہوتا ہے۔
اگر اس ٹیکس کی شرح میں اضافہ کیا گیا تو اس سے اُن لوگوں کی زندگی مشکل ہو جائے گی جو بینکوں اور سیونگز اسکیموں میں اپنی جمع شدہ رقم سے حاصل ہونے والی سودی آمدن پر منحصر ہیں۔ وہ پہلے ہی پالیسی ریٹ میں کمی کی وجہ سے بینکوں سے ملنے والے منافع میں کمی کا سامنا کر رہے ہیں۔ اسی طرح، کمرشل بینکوں کو بھی نقصان ہوگا کیونکہ ان کی جمع شدہ رقوم میں کمی آ سکتی ہے۔
پاکستان نے ترکی کا سب سے مطلوب شخص پکڑ کر استبول کے حوالے کردیا
ان کا کہنا تھا کہ ڈیویڈنڈ پر ٹیکس کی شرح 15 فیصد تھی، تو حکومت ایک اور بگاڑ پیدا کرنے پر کیوں غور کر رہی ہے؟ ۔