ہانگ کانگ میں بین الاقوامی تنظیم برائے ثالثی کا آغاز ایک انقلابی منصوبہ ہے، پاکستانی سفیر خلیل ہاشمی
اشاعت کی تاریخ: 2nd, June 2025 GMT
بیجنگ: چین میں پاکستان کے سفیر خلیل ہاشمی نے کہا ہے کہ ہانگ کانگ کی تجارتی ثالثی میں طویل تاریخ اور عالمی سطح پر اس کی رابطہ کاری اسے بین الاقوامی ثالثی کا ایک مثالی مرکز بناتی ہے۔ انہوں نے ہانگ کانگ کے تنازعات کے پرامن حل میں نئے کردار کو سراہا۔سفیر ہاشمی نے ہانگ کانگ میں بین الاقوامی تنظیم برائے ثالثی کے آغاز کو ایک “انقلابی منصوبہ” قرار دیا، جو تنازعات کے حل کے لیے ایک نیا نقطہ نظر فراہم کرتا ہے، جو ایشیائی حکمت اور چین کے زورِ اتحاد و ہم آہنگی کی عکاسی کرتا ہے۔
ہانگ کانگ خصوصی انتظامی علاقے میں بین الاقوامی تنظیم برائے ثالثی کے قیام کے کنونشن پر دستخط کی تقریب منعقد ہوئی تھی جس میں 33 ممالک نے بانی ارکان کے طور پر شمولیت اختیار کی۔ پاکستان کی جانب سے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ محمد اسحاق ڈار نے معاہدے پر دستخط کیے اور چین کے اقدام کو بروقت قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ کثیرالجہتی نظام کو مضبوط بنانے کی جانب ایک اہم قدم ہے۔
’’چائنا ڈیلی‘‘ کو دئیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں سفیر ہاشمی نے کہا کہ ہانگ کانگ کے پاس بین الاقوامی ثالثی مرکز بننے کی مضبوط صلاحیت موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ اختلافات اور تنازعات ناگزیر ہیں لیکن مفاہمت اور ثالثی کے ذرائع تلاش کر کے انہیں حل کرنا بھی ممکن ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس تنظیم کی بنیاد چین کے نظریہ ٔ ہم آہنگی پر ہے ، جس کا مقصد لوگوں کو ایک خاندان کی طرح قریب لانا ہے ۔انہوں نے کہا کہ تنظیم کی سب سے بڑی انفرادیت یہ ہے کہ یہ ریاستوں کے درمیان ثالثی کے لیے ایک منفرد پلیٹ فارم فراہم کرتی ہے، جو اس سے قبل اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 33 کے تحت جزوی طور پر موجود تھا۔ اگرچہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل مخصوص صورتحال کے لیے خصوصی ایلچی مقرر کرتا رہا ہے، یہ نئی تنظیم ایک مکمل فریم ورک مہیا کرتی ہے، جو ریاستوں اور تجارتی اداروں کے درمیان تنازعات کے حل کے لیے ضروری فریم ورک فراہم کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جیسے جیسے چین پاکستان اقتصادی راہداری ( سی پیک ) اپنے دوسرے عشرے میں داخل ہو رہی ہے، زیادہ تر توجہ رابطہ کاری پر ہی مرکوز رہے گی، ساتھ ہی ساتھ سبز ٹیکنالوجی، ڈیجیٹل جدت، اور زراعت میں توسیع پر بھی کام جاری رہے گا۔لہٰذا، سفیر ہاشمی نے کہا کہ وہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کے فریم ورک کے تحت ہانگ کانگ، وسیع تر گریٹر بے ایریااور پاکستان کے درمیان تعاون کے مواقع تلاش کریں گے،
جہاں ان کے پاس ڈیجیٹل معیشت سمیت دیگر منصوبوں کو مکمل کرنے والی صلاحیتیں موجود ہیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کی نوجوان آبادی، جو انگریزی زبان کی مہارت اور آئی ٹی کے علم سے لیس ہے، گریٹر بے ایریا کے مالیات، ٹیکنالوجی اور انتظامی مہارتوں کے وسائل کی تکمیل کرتی ہے۔
گزشتہ ماہ ایک عوامی تقریب میں پاکستان کی قومی اسمبلی کے اسپیکر سردار ایاز صادق نے کہا کہ کئی ارب ڈالر مالیت کا چین۔پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ پاکستان کے توانائی اور بنیادی ڈھانچے کے شعبوں کو جدید بنا چکا ہے، علاقائی رابطے کو فروغ دیا ہے، اور وسطی ایشیائی اور مشرقی یورپی ممالک کی بڑھتی ہوئی دلچسپی کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔
سفیر ہاشمی نے کہا کہ پاکستان نے ہانگ کانگ ثالثی مرکز کی کامیابیوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ چین اور پاکستان نے سی پیک کو افغانستان تک وسعت دینے پر اتفاق کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ سب سے بڑھ کر، یہ اقدام 40 ملین سے زائد افغان عوام کو، جنہوں نے دہائیوں تک مشکلات برداشت کی ہیں، نئی اقتصادی امیدیں اور مواقع فراہم کرتا ہے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
اسرائیلی حکومت غزہ کے عوام کو مکمل طور پر ختم کرنے کا منصوبہ بناچکی ہے، جماعت اسلامی ہند
سید سعادت اللہ حسینی نے کہا کہ اسرائیلی مصنوعات اور اس نسل کشی میں شریک کمپنیوں کا بائیکاٹ کریں اور فلسطینی مزاحمت کے خلاف پھیلائی جارہی گمراہ کن معلومات کا مؤثر جواب دیں۔ اسلام ٹائمز۔ جماعت اسلامی ہند کے امیر سید سعادت اللہ حسینی نے غزہ میں جاری نسل کشی اور انسانی بحران پر اپنی شدید مذمت کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے بھارتی حکومت سمیت عالمی طاقتوں اور دنیا بھر کے باضمیر شہریوں سے اپیل کی ہے کہ وہ غزہ میں ہونے والے مظالم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور اسرائیل کے مسلسل حملوں کو فوری طور پر روکنے کے لئے عملی اقدامات کریں۔ میڈیا کے لئے جاری اپنے بیان میں سید سعادت اللہ حسینی نے کہا کہ غزہ میں 21 لاکھ سے زائد فلسطینی جن میں 11 لاکھ سے زائد بچے شامل ہیں، مسلسل محاصرے اور شدید بمباری کی زد میں ہیں۔ 18 مارچ 2025ء کو جنگ بندی کے خاتمے کے بعد اسرائیل نے اپنی فوجی جارحیت کو مزید تیز کردیا ہے اور بنیادی ضروریات اور امداد پر مکمل پابندی عائد کر رکھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ غزہ کے عوام بھوک سے مر رہے ہیں۔ ان کے گھر تباہ ہوچکے ہیں اور ان کی آوازیں خاموش کردی گئی ہیں۔ غزہ کی صورتحال انتہائی نازک ہے اور فوری توجہ کی مستحق ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیلی حکومت غزہ کے عوام کو مکمل طور پر ختم کرنے کا منصوبہ بنا چکی ہے، اب یہ عالمی برادری کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس المیے کو روکنے کے لیے فوری اقدامات کرے۔
سید سعادت اللہ حسینی نے کہا کہ اطلاعات کے مطابق غزہ کے 90 فیصد طبی مراکز تباہ یا ناکارہ ہوچکے ہیں۔ پورے غزہ میں صرف چند غذائی مراکز کام کررہے ہیں جبکہ ہزاروں ٹن خوراک اور دوائیں کئی مہینوں سے سرحدی راستوں پر رکی ہوئی ہیں۔ صفائی، پینے کے صاف پانی اور طبی سہولیات کی تباہی کے باعث اسہال، ہیپاٹائٹس اے اور سانس کی بیماریاں تیزی سے پھیل رہی ہیں۔ یونیسیف کے مطابق 6 لاکھ 60 ہزار بچے اسکولوں سے محروم ہیں اور 17 ہزار سے زائد بچے یتیم یا اکیلے رہ گئے ہیں، اگر غزہ کا محاصرہ ختم نہ ہوا تو ستمبر 2025ء تک مکمل قحط پڑنے کا خطرہ ہے۔ جماعت اسلامی ہند کے امیر نے عالمی برادری سے فیصلہ کن اقدام کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ عالمی نظام کے لئے ایک سخت آزمائش کا وقت ہے۔ ہم تمام ممالک سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اسرائیل سے فوجی اور معاشی تعلقات ختم کریں۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل کے تعلق سے امیر اور طاقتور ممالک بالخصوص امریکہ کی دوہری پالیسی کا خاتمہ ہونا چاہیئے، امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کو رسمی بیانات سے آگے بڑھ کر امن اور انصاف کے بنیادی اصولوں پر عمل کرنا چاہیئے، جن کا وہ دعویٰ کرتے ہیں۔
سید سعادت اللہ حسینی نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنا تاریخی اور اخلاقی فریضہ ادا کرے، بھارت نے ہمیشہ فلسطین کے جائز موقف کی حمایت کی ہے۔ اس نازک وقت میں ہماری آواز پہلے سے زیادہ بلند اور واضح ہونی چاہیئے۔ حکومت کو اسرائیلی مظالم کی کھل کر مذمت کرنی چاہیئے، اس کے ساتھ تمام عسکری اور اسٹریٹجک تعلقات معطل کرنے چاہئیں اور مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے بین الاقوامی اقدامات کی پرزور حمایت کرنی چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری آواز سیاسی مصلحتوں کے بجائے آئینی اقدار اور تہذیبی ورثے سے رہنمائی حاصل کرے۔ نسل کشی کے وقت غیر جانبدارانہ سفارتکاری کی پالیسی انسانی قدروں کو نظرانداز کرنے کے مترادف ہے۔ انہوں نے آخر میں ملک کے عوام سے پرامن مزاحمت میں فعال شرکت کی اپیل کی۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیلی مصنوعات اور اس نسل کشی میں شریک کمپنیوں کا بائیکاٹ کریں اور فلسطینی مزاحمت کے خلاف پھیلائی جا رہی گمراہ کن معلومات کا مؤثر جواب دیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ہر فورم، سوشل میڈیا، عوامی اجتماعات اور ذاتی روابط کا استعمال کرتے ہوئے غزہ کی حقیقت دنیا کے سامنے رکھنی چاہیئے اور مظلوموں کے ساتھ کھل کر کھڑے ہونا چاہیئے۔