اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 02 جون 2025ء) پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان نے موجودہ حکومتی اتحاد (مسلم لیگ ن) کے خلاف ملک گیر احتجاجی تحریک کا اعلان کیا ہے۔ جیل میں قید سابق وزیر اعظم کے بقول وہ اس احتجاج کی قیادت خود جیل سے ہی کریں گے۔

پی ٹی آئی کے سینیٹر بیرسٹر علی ظفر، جنہوں نے عمران خان کا فیصلہ میڈیا کو بتایا، کا کہنا ہے کہ خان نے پارٹی قیادت کو ہدایت کی ہے کہ آنے والی احتجاجی تحریک فیصلہ کن ہونی چاہیے۔

پی ٹی آئی نے انتخابات کے دن سے ہی عام انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دیا ہے اور اس معاملے کی تحقیقات کا مطالبہ کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ پارٹی قیادت کا ماننا ہے کہ جب بھی کوئی کیس پی ٹی آئی، اس کی قیادت یا خاص طور پر عمران خان سے متعلق ہوتا ہے، عدالتیں انصاف فراہم نہیں کرتی ہیں۔

(جاری ہے)

پی ٹی آئی کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ حالیہ ضمنی انتخاب، جو ضلع سیالکوٹ کے شہر سمبڑیال کی صوبائی اسمبلی کی نشست پر ہوا، بھی بڑے پیمانے پر دھاندلی زدہ تھا۔

پارٹی کا الزام ہے کہ پولیس اور انتظامیہ نے انتخابی عمل میں کھلم کھلا مداخلت کی، جس کے غیر سرکاری نتیجے میں مسلم لیگ (ن) کی امیدوار حنا ارشد وڑائچ کامیاب ہوئیں، جنہوں نے 78,702 ووٹ حاصل کیے جبکہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار فاخر نشاط گھمن کو 39,018 ووٹ ملے۔ پی ٹی آئی کے پاس احتجاج کی کیا حکمت عملی ہے؟

اگرچہ یہ تمام عوامل بظاہر پی ٹی آئی کو ملک گیر احتجاج کی طرف دھکیل رہے ہیں لیکن سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ احتجاجی تحریک کامیاب نہیں ہو سکے گی۔

ان کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی قیادت کو حکومت سے مذاکرات کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ تاہم پی ٹی آئی قیادت کا مؤقف ہے کہ حکومت اُس وقت تک مذاکرات کی میز پر نہیں آئے گی جب تک اُس کو دباؤ محسوس نہ ہو۔

پی ٹی آئی کے رہنما سینیٹر ڈاکٹر محمد ہمایوں مہمند نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی اور عمران خان کے پاس احتجاج کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں بچا۔

احتجاج کی ممکنہ کامیابی یا ناکامی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اس بار پارٹی ایک مختلف حکمت عملی اپنائے گی اور اسلام آباد مارچ کے بجائے احتجاج یونین کونسل کی سطح پر ہو گا، جہاں نچلی سطح کی قیادت چھوٹے شہروں، قصبوں اور یونین کونسلز کو بند کرنے میں کردار ادا کرے گی۔ انہوں نے کہا، "اس طریقے سے حکومت نہ تو ان پر فائرنگ کر سکتی ہے اور نہ ہی ہزاروں مقامات پر کنٹینر لگا سکتی ہے۔

"

ڈاکٹر ہمایوں نے کہا کہ متوقع احتجاج صرف سمبڑیال کے الیکشن تک محدود نہیں بلکہ انتخابی دھاندلی ایک بڑی بیماری ہے اور یہ احتجاج حکومت کو مجبور کرنے کے لیے ہے تاکہ وہ پورے انتخابی عمل کو درست کرے اور پی ٹی آئی کو وہ انصاف فراہم کرے جو اسے طویل عرصے سے نہیں دیا جا رہا۔

جیل سے احتجاج کی قیادت کے حوالے سے ڈاکٹر ہمایوں کا کہنا تھا کہ یہ لمحہ بہ لمحہ احتجاج کی قیادت کرنے جیسا نہیں ہو گا بلکہ عمران خان ایک حکمتِ عملی بنائیں گے جسے وہ پارٹی رہنماؤں اور کارکنوں تک پہنچائیں گے اور وہ اسی حکمتِ عملی پر عمل کریں گے۔

کیا پی ٹی آئی کو احتجاج کا کوئی فائدہ ہو گا؟

جہاں پارٹی قیادت سمجھتی ہے کہ "گوریلا جنگ" طرز کا احتجاج ہی واحد راستہ ہے تاکہ پی ٹی آئی اپنی شکایات درج کرا سکے اور انصاف حاصل کر سکے، وہیں ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ طریقہ کار شاید مؤثر نہ ہو کیونکہ ماضی میں بھی اس سے پارٹی کو فائدہ نہیں ہوا۔

معروف اینکر اور تجزیہ کار نسیم زہرہ نے پی ٹی آئی کے ایک اور ملک گیر احتجاج کے خیال کی مخالفت کی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی آمنے سامنے آ چکے ہیں اور پی ٹی آئی کو احتجاج کا حق حاصل ہے، لیکن یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ حکومت سیکشن 144 نافذ کرکے احتجاج کو دبانے کی کوشش کرے گی، جس سے عوام کو سڑکوں پر لانا مشکل ہو جائے گا۔

نسیم زہرہ نے مزید کہا کہ اگر پی ٹی آئی یہ سمجھتی ہے کہ وہ موجودہ حالات میں احتجاج سے کچھ حاصل کر سکتی ہے تو یہ ایک بہت بڑی غلطی ہوگی اور "مذاکرات ہی واحد راستہ ہے جو پارٹی اور اس کی قیادت کے لیے باقی بچا ہے۔

"

ایسے وقت میں جب کچھ حلقے یہ سمجھتے ہیں کہ مذاکرات ہی واحد راستہ ہیں اور احتجاج ایک غلط حکمتِ عملی ہے، بعض ماہرین کا خیال ہے کہ اگرچہ احتجاج بظاہر کامیاب نہ بھی ہو، لیکن اس سے پارٹی کی عوامی حمایت کم نہیں ہو گی بلکہ یہ عمل پارٹی اور اس کے کارکنوں کو دوبارہ متحرک کرنے کا ایک مؤثر ذریعہ بن سکتا ہے۔

سیاسی تجزیہ کار زاہد حسین کا کہنا ہے کہ انہیں نہیں لگتا کہ یہ احتجاج نتائج کے لحاظ سے کامیاب ہو گا، لیکن ممکن ہے کہ پارٹی نے اپنے کارکنوں اور صفوں کو منظم اور فعال کرنے کے لیے یہ راستہ چنا ہو۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "پی ٹی آئی اب بھی ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے اور اس حقیقت کو کوئی جھٹلا نہیں سکتا۔" تاہم انہوں نے مزید کہا، "پی ٹی آئی اس وقت حکومت یا اسٹیبلشمنٹ پر احتجاج کے ذریعے دباؤ نہیں ڈال سکتی اور نہ ہی احتجاج سے کوئی ریلیف حاصل کر سکتی ہے۔"

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے پی ٹی آئی کو کہ پی ٹی آئی احتجاج کی کی قیادت انہوں نے سکتی ہے نہیں ہو کہا کہ ہے اور اور اس

پڑھیں:

یوم تکبیر:غیرت،قوت اور قوم پرستی کا دن

28 مئی 1998ء کا دن محض کیلنڈر کی ایک تاریخ نہیں، بلکہ پاکستان کے تابناک عزم،قومی غیرت اور ناقابل تسخیر حوصلے کی ایک گونجتی ہوئی صدا ہے۔ یہ وہ دن ہے جب ایک طرف دشمن کے عزائم خاک میں ملائے گئے تو دوسری طرف پوری دنیا کو یہ باور کرایا گیاکہ پاکستان ایک زندہ قوم ہے۔جس کے نظریے، سلامتی اور خودمختاری پر کوئی سمجھوتہ ممکن نہیں۔یوم تکبیر، اس دن کی علامت ہے جب چاغی کی سنگلاخ پہاڑیوں نے ”اللہ اکبر” کی صداؤں کو اپنے دامن میں سمیٹ کر ایک نئی تاریخ رقم کی۔ یہ وہ لمحہ تھا جب پوری قوم نے یکجہتی، اعتماداور حب الوطنی کےجذبےمیں ڈوب کراپنےسرفروش سائنسدانوں، عسکری قیادت اور سیاسی حوصلے کو سلام پیش کیا۔ یہ صرف ایٹمی دھماکے نہیں تھے، یہ ایک غیر معمولی پیغام تھا کہ ہم نہ صرف اپنے دفاع کے لیے مکمل طور پر تیار ہیں بلکہ اپنی خودمختاری پر کوئی آنچ نہیں آنے دیں گے۔پاکستان نے ایٹمی طاقت بن کر جنوبی ایشیا میں طاقت کا توازن بحال کیا۔ بھارت نے 1974ء میں پہلا ایٹمی تجربہ کیا اور پھر 1998ء میں پانچ ایٹمی دھماکوں کے ذریعے خطے میں اپنی بالادستی قائم کرنے کی کوشش کی مگر پاکستان نے صرف 17دن کے اندراندرجواب دےکر دشمن کو اس کےخوابوں سے بیدار کر دیا۔ ان دھماکوں کے ساتھ ہی پاکستان دنیا کی ساتویں اور مسلم دنیا کی پہلی ایٹمی قوت بن گیا۔ یہ محض ایک سائنسی کارنامہ نہیں تھا بلکہ یہ ہمارے قومی وجود، نظریاتی اساس اور دفاعی وقار کی مکمل تصویر تھی۔یوم تکبیر ہمیں یاد دلاتا ہے کہ کسی قوم کی عظمت اس کے وسائل یا ساز و سامان میں نہیں بلکہ اس کے نظریے، عزم اور حوصلے میں پنہاں ہوتی ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیرخان اور ان کی ٹیم نے جو کارنامہ سرانجام دیاوہ صدیوں تک یاد رکھا جائے گا۔ انہوں نے نہ صرف ایک ناممکن کو ممکن بنایابلکہ پوری دنیا کو حیران کر دیا کہ محدود وسائل اور پابندیوں کے باوجود، اگر نیت صاف ہو اور منزل کا تعین ہو، تو کچھ بھی ناممکن نہیں۔ایٹمی طاقت حاصل کرنے کا عمل راتوں رات مکمل نہیں ہوا۔ یہ برسوں پر محیط ایک مسلسل جدوجہد، تحقیق، ایثار، اور قربانیوں کا ثمر تھا۔ ان سا ئنسدانوں نے اپنے دن رات ایک کر کے اس منصوبے کو کامیاب بنایا اور وہ بھی اس وقت جب عالمی پابندیاں، سفارتی دباؤ اور اندرونی مسائل پاکستان کے گرد شکنجہ کس چکے تھے۔ مگر قیادت کی بصیرت، عوام کا اعتماداور افواجِ پاکستان کی پشت پناہی نے اس قومی خواب کو حقیقت کا روپ دے دیا۔یوم تکبیر اس عہد کی تجدید کا دن ہے کہ ہم اپنی آزادی، خودمختاری اور قومی وقار پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ آج جب ہم اس دن کو مناتے ہیں تو ہمیں اس کے پس پردہ چھپی قربانیوں کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ وہ سائنسدان جو گمنامی میں رہ کر ملک کے لیے خدمات انجام دیتے رہے، وہ فوجی جو اس اثاثے کی حفاظت میں سرد و گرم جھیلتے رہے وہ حکمران جنہوں نے عالمی دباؤ کے باوجود قومی مفاد کو ترجیح دی، سب کے سب ہمارے محسن ہیں۔یوم تکبیر نہ صرف پاکستان کی دفاعی طاقت کی علامت ہے بلکہ یہ پوری ملت اسلامیہ کے لیے فخر کا مقام ہے۔ جب چاغی کی پہاڑیاں گونجیں تو عالم اسلام کا سر فخر سے بلند ہوا۔ دشمنانِ اسلام کے لیے یہ ایک واضح پیغام تھا کہ مسلم دنیا کمزور نہیں اوراگر متحد ہوجائے تودنیاکی کوئی طاقت اس کا راستہ نہیں روک سکتی۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام مسلم امہ کی اجتماعی سوچ، نظریاتی بنیاد اور قومی حمیت کا آئینہ دار ہے۔
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اس طاقت کو نہ صرف برقرار رکھیں بلکہ اس کی افادیت کو مزید مؤثر بنائیں۔ صرف اسلحے سے قومیں محفوظ نہیں ہوتیں، بلکہ علمی، سائنسی، اقتصادی اور اخلاقی میدانوں میں ترقی ہی حقیقی خودمختاری کی ضامن ہوتی ہے۔ ہمیں یوم تکبیر کے جذبے کو ہر شعبہ زندگی میں منتقل کرنا ہوگا۔ ہم نے جس عزم سے چاغی کے پہاڑوں کو لرزایا تھا اسی حوصلے سے ہمیں جہالت، غربت، بے روزگاری اور کرپشن جیسے دشمنوں کے خلاف بھی لڑنا ہوگا۔یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہمارا وطن کسی مصلحت یامروّت کے تحت حاصل نہیں ہوابلکہ لاکھوں قربانیوں، خون کی دھاراؤں اور جذبہ ایثار سے حاصل کیا گیا۔ ہمیں اس دن کو صرف جلسوں، تقاریر، یا ٹی وی پر مباحثوں تک محدود نہیں رکھنا چاہیے بلکہ ہر پاکستانی کو اپنی سطح پر یہ عہد کرنا چاہیے کہ وہ ملک کے دفاع، ترقی اور استحکام میں اپنا کردار بھرپور طریقے سے ادا کرے گا۔ یہ وہ دن ہے جب ہم نے دنیا کو دکھایا کہ پاکستانی قوم صرف نعرے لگانے والی نہیں بلکہ عمل کا ہنر بھی جانتی ہے۔ آج وقت ہے کہ ہم اپنی خودی کو پھر سے بیدار کریں، تعلیم، صحت، معیشت، سائنس اور اخلاقی اقدار کے میدانوں میں بھی ایٹمی دھماکےکریں، تاکہ دنیا دیکھ لے کہ یہ قوم صرف دفاعی لحاظ سے ہی نہیں بلکہ ہر میدان میں ناقابل تسخیر ہے۔یاد رکھیں، ایٹمی طاقت ہونا ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ ہمیں اپنے اس اسٹریٹجک پروگرام کی حفاظت کرنی ہے اسے سیاسی یا ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے بجائے قومی سلامتی کے دائرے میں رکھنا ہے۔ دشمن ہماری صلاحیتوں سے خوفزدہ ہے اور وہ ہمیشہ سازش کرے گا۔ ہمیں اس سازش کا جواب بھی ویسے ہی دینا ہے جیسے 1998ء میں دیا تھا: اتحاد، یگانگت، اور قربانی سے۔یوم تکبیر صرف ماضی کی فتح کا جشن نہیں، بلکہ ایک مسلسل عزم اور استقامت کا دن ہے۔ یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اگر قوم متحد ہوجائے، تو دنیا کی کوئی طاقت اسے روک نہیں سکتی۔ ہمیں اپنے نوجوانوں کو اس دن کی اہمیت سے روشناس کرانا ہے تاکہ وہ جان سکیں کہ ان کے بزرگوں نے کس حوصلے سے یہ دن ممکن بنایا اور اب ان کی باری ہے کہ وہ اس ورثے کو سنبھالیں، سنواریں اور آگے بڑھائیں۔یوم تکبیر ایک نظریہ، ایک پیغام اور ایک مشن ہے۔ یہ پیغام ہے غیرت کا، یہ مشن ہے وقار کا، یہ نظریہ ہے بقا کا۔ آج جب دنیا بدل رہی ہے۔ طاقت کے پیمانے تبدیل ہو رہے ہیں اورچیلنجز نئی شکلوں میں سامنے آ رہے ہیں تو ہمیں بھی اپنے عزم، اپنی سمت اور اپنی حکمت عملی کو ازسرنو استوار کرنا ہوگا۔ ہمیں ہر دن کو یوم تکبیر کے جذبے کے ساتھ جینا ہوگا تاکہ ہم ایک باوقار، خوشحال اور مضبوط پاکستان کی طرف بڑھ سکیں۔
نہ جھکے، نہ رکے، نہ کبھی ہم تھکے
یہ وطن ہے ہمارا ہم محافظ بنے اسکے

متعلقہ مضامین

  • عمران خان پی ٹی آئی کے پیٹرن ان چیف، احتجاج اب خود لیڈ کریں گے: بیرسٹر گوہر
  • بانی نے کہا اب احتجاجی تحریک کے سوا کوئی راستہ نہیں بچا، بیرسٹر گوہر
  • عمران خان کو بڑا عہدہ مل گیا
  • عمران خان پاکستان تحریک انصاف کے پیٹرن انچیف بن گئے
  • پاکستان خطہ میں نئی طاقت بن کر ابھرا ہے،چوہدری شجاعت 
  • عام انتخابات کے بعد کل سمبڑیال میں دوبارہ عوام کے ووٹ پر ڈاکا ڈالا گیا، سلمان اکرم راجا
  • یوم تکبیر:غیرت،قوت اور قوم پرستی کا دن
  • تحریک انصاف نے تحریک چلائی تو کیا ہو گا ۔۔۔؟ رانا ثناء اللہ کھل کر بول پڑے
  • احتجاجی سیاست دوبارہ سے شروع کرنے کیلئے پارٹی نے لائحہ عمل تیار کرلیا: شبلی فراز