ماہر ارضیات پروفیسر عدنان خان نے بتایا کہ کراچی ایک پیسو مارجن (Passive Margin) پر واقع ہے، جو کہ فالٹ لائنز سے کافی فاصلے پر ہے، اس لیے یہاں بڑے زلزلوں کے امکانات نہایت کم ہیں، یہ زلزلے دراصل زمین کی تہہ میں بڑھتے ہوئے دباؤ کے باعث آتے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ ماہر ارضیات نے کراچی میں آنے والے زلزلوں کیوجہ مسلسل بورنگ اور صنعتی فضلے کو نذر آتش کرنے کی وجہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ شہریوں کو احتیاط اور نہ گھبرانے کا مشورہ دیا ہے۔ جامعہ کراچی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر عدنان خان نے بتایا کہ کراچی میں زلزلوں کی شدت معمولی ہے اور یہ فالٹ لائنز کی ہلکی متحرک سرگرمیوں کا نتیجہ ہیں۔ انہوں نے وضاحت کی کہ کراچی ایک پیسو مارجن (Passive Margin) پر واقع ہے، جو کہ فالٹ لائنز سے کافی فاصلے پر ہے، اس لیے یہاں بڑے زلزلوں کے امکانات نہایت کم ہیں، یہ زلزلے دراصل زمین کی تہہ میں بڑھتے ہوئے دباؤ کے باعث آتے ہیں۔ ماہر ارضیات پروفیسر عدنان خان نے کہا کہ ہمالیہ کی پہاڑی سلسلہ ہر سال 4 سے 5 سینٹی میٹر شمال کی جانب بڑھ رہا ہے، جس سے فالٹ لائن پر دباؤ بڑھ رہا ہے اور اس دباؤ کے نتیجے میں زمین معمولی طور پر ہلتی ہے۔

عدنان خان کے مطابق کراچی میں رپورٹ ہونے والے زلزلے کے جھٹکے "مائلڈ ٹرمرز" (Mild Tremors) کے زمرے میں آتے ہیں، اور ان سے کسی جانی یا مالی نقصان کا اندیشہ نہیں ہوتا۔ ماہر ارضیات نے یہ بھی نشاندہی کی کہ کراچی میں صنعتی فضلہ جلانے اور زمین میں گہرائی سے گراؤنڈ واٹر نکالنے جیسے عوامل بھی زمین کی ساخت میں معمولی تبدیلیوں کا سبب بن سکتے ہیں، جو کسی حد تک زلزلے کی سرگرمی کو متاثر کرتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کوئٹہ اور چمن کے علاقے فالٹ لائن کے بالکل قریب واقع ہیں اور وہاں زلزلے کی سرگرمی قدرے زیادہ اور شدید نوعیت کی ہوسکتی ہے، تاہم کراچی میں ایسے زلزلے کا خطرہ فی الوقت موجود نہیں۔ پروفیسر نے مشورہ دیا کہ شہریوں کو چاہیے معمولی جھٹکوں پر گھبراہٹ سے گریز کریں، اور کسی بھی ہنگامی صورت میں کھلی جگہ کی طرف نکلنے اور عمارتوں کی بنیادوں سے دور رہنے جیسے احتیاطی اقدامات پر عمل کریں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: ماہر ارضیات کراچی میں

پڑھیں:

زیرِ زمین پانی اور آبی ذخائر کو گندے پانی بچانے کےلئے پنجاب میں ہاﺅ سنگ سوسائٹیز کیلئے سخت فیصلہ

لاہور(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔16 ستمبر ۔2025 )ادارہ تحفظ ماحولیات پنجاب نے ہاﺅ سنگ سوسائٹیز کےلئے ہر گھر اور پلازہ میں سیپٹک ٹینک بنانا لازمی قراردینے کا فیصلہ کیا ہے رپورٹ کے مطابق اس فیصلے کا مقصد زیرزمین پانی اور آبی ذخائر کو گندے پانی سے بچانا ہے کیونکہ بغیر علاج کے چھوڑا جانے والا سیوریج پانی آلودگی پھیلا رہا ہے اور اس سے پانی کے ذریعے پھیلنے والی بیماریوں کا خطرہ بڑھ رہا ہے.

(جاری ہے)

ڈی جی ماحولیات عمران حامد شیخ کے مطابق ہاﺅ سنگ سوسائٹیز کو ڈوئل واٹر مینجمنٹ اپنانے کی ہدایت کی گئی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر گھر کے ساتھ تین خانوں والا سیپٹک ٹینک بنایا جائے گا اور سوسائٹی کی سطح پر بھی ایک ٹریٹمنٹ پلانٹ لگایا جائے گا تحقیق سے پتا چلا ہے کہ تین خانوں والے سیپٹک ٹینک پانی میں موجود تقریبا 70 فیصد گندے ذرات اور 40 فیصد آلودگی کو کم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں.

ادارے نے گھروں اور پلازوں کے لئے سیپٹک ٹینک کے سائز بھی طے کر دئیے ہیں پانچ مرلہ گھر کے لئے 6 فٹ لمبا، 4 فٹ چوڑا اور 4 فٹ اونچا ٹینک ہوگا دس مرلہ گھر کے لیے 9 فٹ لمبا، 6 فٹ چوڑا اور 4 فٹ اونچا، ایک کنال کے پلازے کے لئے 10 فٹ لمبا، 6 فٹ چوڑا اور 5 فٹ اونچا، تین سے چار کنال کے پلازوں کے لئے 15 فٹ لمبا، 6 فٹ چوڑا اور 5 فٹ اونچا جبکہ چار کنال سے زیادہ بڑے پلازوں کےلئے 16 فٹ لمبا، 6 فٹ چوڑا اور 5 فٹ اونچا ٹینک لازمی ہوگا.

ڈی جی ماحولیات نے بتایا کہ اب نئی ہاﺅ سنگ سوسائٹیز کو ماحولیاتی منظوری صرف اسی صورت میں ملے گی جب وہ سیپٹک ٹینک کی شرط پوری کریں گی اس بارے میں ایل ڈی اے، ایف ڈی اے، جی ڈی اے، آر ڈی اے سمیت تمام اداروں کو ہدایت نامے جاری کر دئیے گئے ہیں ڈپٹی کمشنرز کو بھی کہا گیا ہے کہ زمین کی تقسیم کے وقت اس فیصلے پر سختی سے عمل کرایا جائے. رپورٹ کے مطابق جوڈیشل واٹر اینڈ انوائرمنٹ کمیشن اور دیگر اداروں کو بھی اس بارے میں آگاہ کر دیا گیا ہے ای پی اے کے فیلڈ افسران کو واضح ہدایت دی گئی ہے کہ وہ ہاﺅ سنگ سوسائٹیز میں سیپٹک ٹینک کی تنصیب پر کڑی نظر رکھیں تاکہ زیرِ زمین پانی اور ماحول کو گندے پانی سے محفوظ بنایا جا سکے.

ادارہ تحفظ ماحولیات لاہور کے ڈپٹی ڈائریکٹرعلی اعجاز نے بتایا کہ سیپٹک ٹینک دراصل ایک زیرِ زمین ٹینک ہوتا ہے جو کنکریٹ یا اینٹوں سے بنایا جاتا ہے اور گھروں یا عمارتوں سے آنے والے گندے پانی کو جمع کرکے اس میں موجود گندگی اور آلودگی کو جزوی طور پر صاف کرتا ہے یہ عام طور پر دو یا تین خانوں پر مشتمل ہوتا ہے تاکہ پانی مرحلہ وار صاف ہو سکے.

انہوں نے کہا اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ جب بیت الخلا یا کچن کا پانی سیپٹک ٹینک میں داخل ہوتا ہے تو سب سے پہلے بھاری ذرات نیچے بیٹھ جاتے ہیں، چکنائی اور جھاگ اوپر جمع ہو جاتے ہیں جبکہ درمیان کا پانی نسبتا صاف شکل میں اگلے خانے میں چلا جاتا ہے تین خانوں والے سیپٹک ٹینک میں یہ عمل اور بھی بہتر انداز میں ہوتا ہے اور یوں تقریبا 70 فیصد گندے ذرات اور 40 فیصد آلودگی کم ہو جاتی ہے.

اس کے بعد یہ پانی ٹریٹمنٹ پلانٹ یا زمین میں جذب ہونے کے قابل ہوتا ہے، مگر اسے مکمل طور پر پینے کے قابل نہیں کہا جا سکتا علی اعجاز نے بتایا کہ سیپٹک ٹینک گندے پانی کو براہِ راست زمین میں جانے سے روکتا ہے اگر یہ نظام نہ ہو تو گندا پانی زیرِ زمین پانی کو آلودہ کر دیتا ہے، جس کے نتیجے میں ہیضہ، ٹائیفائیڈ اور ہیپاٹائٹس جیسی خطرناک بیماریاں پھیل سکتی ہیں اس لیے سیپٹک ٹینک کو گھروں اور عمارتوں کے ساتھ لازمی قرار دینا ماحول اور انسانی صحت دونوں کے تحفظ کے لئے ایک ضروری قدم سمجھا جاتا ہے.

متعلقہ مضامین

  • تعلیمی دباؤ کا نقصان: بچے کی طبیعت مسلسل 14 گھنٹے سے ہوم ورک کرتے کرتے بگڑ گئی
  • سیلابی صورتحال:پنجاب کے علاقوں سے پانی اُترنا شروع ، سندھ کے بیراجوں پر دباؤ بڑھنے لگا، کچا ڈوب گیا
  • کراچی، ریڈ لائن منصوبے میں غیر معمولی تاخیر، شہری اذیت کا شکار
  • بارشوں اور سیلاب سے بھارتی پنجاب میں فصلوں کو بڑے پیمانے پر نقصان
  • کراچی: ریڈ لائن منصوبے میں غیر معمولی تاخیر، شہری اذیت کا شکار
  • بارشوں کے باوجود لاہور میں زیر زمین پانی کی سطح تیزی سے کمی ریکارڈ
  • زیرِ زمین پانی اور آبی ذخائر کو گندے پانی بچانے کےلئے پنجاب میں ہاﺅ سنگ سوسائٹیز کیلئے سخت فیصلہ
  • گڈو بیراج پر پانی کے بہاؤ میں کمی، سکھر بیراج پر دباؤ برقرار، کچے سے نقل مکانی جاری
  • لاہور میں زیر زمین پانی تیزی سے نیچے جا رہا ہے، ڈائریکٹر ایری گیشن ریسرچ
  • زیارت: خشک سالی اور حکومتی بے توجہی نے پھلوں کے بیشتر باغات اجاڑ دیے