عید قربان پر بھاگ ناڑی کے بیل کی دھوم: طاقت، خوبصورتی اور ثقافت کا امتزاج
اشاعت کی تاریخ: 3rd, June 2025 GMT
عید قربان قریب آتے ہی ملک بھر میں قربانی کے جانوروں کی خرید و فروخت میں تیزی آ جاتی ہے، لیکن اگر بات ہو بلوچستان کے علاقے بھاگ ناڑی کی، تو یہاں کے بیل نہ صرف اپنی جسامت اور طاقت کے باعث ممتاز مقام رکھتے ہیں بلکہ ان کی شہرت بلوچستان سے نکل کر پنجاب اور سندھ تک پھیل چکی ہے۔
بھاگ ناڑی، جو بلوچستان کے ضلع بولان میں واقع ہے، ایک زرخیز وادی ہے جو قدرتی چراگاہوں سے مالا مال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں کے بیل قدرتی غذا، کھلی چراگاہوں اور خاص مقامی نسلوں کی بدولت نہایت توانا، مضبوط اور دیدہ زیب ہوتے ہیں۔ ان جانوروں کی خاص بات ان کا قد، وزن، مضبوط جسمانی ساخت اور سفید و سیاہ دھاری دار رنگت ہے، جو دور سے ہی لوگوں کو متوجہ کرتی ہے۔
یہ بیل نہ صرف قربانی کے لیے پسند کیے جاتے ہیں بلکہ انہیں روایتی بیل دوڑوں اور مقابلہ حسن میں بھی شامل کیا جاتا ہے۔
بیوپاری دین محمد کے مطابق ایک مکمل تیار شدہ بھاگ ناڑی بیل کی قیمت لاکھوں روپے تک پہنچ سکتی ہے، اور عید قربان سے چند ہفتے قبل ہی ان جانوروں کی پیشگی بکنگ شروع ہو جاتی ہے۔ بڑے شہروں کے خریدار، جیسے لاہور، کراچی اور ملتان سے لوگ خصوصی طور پر یہ بیل خریدنے بھاگ ناڑی آتے ہیں یا آن لائن آرڈر کرتے ہیں۔
مقامی کسان اور مویشی پال حضرات سال بھر ان بیلوں کی خصوصی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ ان کے لیے قدرتی چارہ، دودھ، دیسی گھی اور کبھی کبھار خشک میوہ جات پر مبنی خوراک دی جاتی ہے تاکہ ان کی جسامت اور توانائی برقرار رہے۔ ان بیلوں کو نہلانے، تیل لگانے اور روزانہ چہل قدمی کروانے کے معمولات بھی باقاعدگی سے کیے جاتے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
پڑھیں:
کراچی: ملیر جیل سے قیدیوں کا فرار قدرتی آفت کے باعث پیش آیا کوئی بڑی سائنس نہیں، وزیر داخلہ سندھ
کراچی کی ملیر جیل سے قیدیوں کے فرار کا واقعہ سندھ کی تاریخ کا سنگین سیکیورٹی چیلنج بن گیا ہے۔ اس واقعے پر وزیر داخلہ سندھ ضیا الحسن لنجار نے کہا ہے کہ ملیر جیل کی دیوار نہیں ٹوٹی بلکہ قیدی جیل کے گیٹ سے باہر نکلے۔ واقعہ قدرتی آفت کے باعث پیش آیا کوئی بڑی سائنس نہیں ہے۔
انہوں نے بتایا کہ زلزلے کے جھٹکوں کے باعث قیدیوں میں خوف و ہراس پھیل گیا، جس کے نتیجے میں قریباً 700 سے 1000 قیدی جیل کے مرکزی دروازے پر جمع ہو گئے اور موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فرار ہو گئے۔
انہوں نے کہا کہ 5 سے زائد قیدی اور پولیس اہلکار زخمی ہیں جبکہ ایک قیدی کی موت بھی واقع ہوئی ہے۔ فرار ہونے والے قیدی سنگین جرائم میں ملوث نہیں ہیں۔
مزید پڑھیں: کراچی میں زلزلے کے دوران ملیر جیل میں ہنگامہ، 200 سے زائد قیدی فرار
ابتدائی اطلاعات کے مطابق، 100 کے قریب قیدی فرار ہوئے تھے، جن میں سے 46 واپس آ گئے تھے۔ تاہم، دیگر ذرائع کے مطابق، فرار ہونے والے قیدیوں کی تعداد 200 سے زائد ہوسکتی ہے۔ پولیس اور رینجرز کی مشترکہ کارروائیوں کے دوران اب تک 80 سے زائد قیدیوں کو دوبارہ گرفتار کیا جا چکا ہے، جبکہ 18 سے 20 قیدی تاحال مفرور ہیں۔
وزیر داخلہ نے واقعے کا سخت نوٹس لیتے ہوئے ایس ایس پی ملیر کو فوری طور پر جیل پولیس سے رابطہ کرنے اور مفرور قیدیوں کی تلاش کے لیے ہنگامی اقدامات کرنے کی ہدایت جاری کی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہر قیدی کا ڈیٹا موجود ہے اور مفرور قیدیوں کی گرفتاری کے لیے مؤثر اقدامات کیے جا رہے ہیں ۔
ملیر جیل میں قریباً 6000 قیدی موجود ہیں، جبکہ جیل پولیس کی تعداد صرف 200 اہلکاروں پر مشتمل ہے، جو قیدیوں کی تعداد کے مقابلے میں انتہائی کم ہے ۔ یہ عملہ قیدیوں کی نگرانی کے لیے ناکافی ہے، جس کے باعث اس قسم کے واقعات کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
کراچی ملیر جیل وزیر داخلہ سندھ ضیا الحسن لنجار