بیلٹ اور بندوق: بھارت کے انتخابات پاکستان کے ساتھ کشیدگی پر کیوں انحصار کرتے ہیں؟ WhatsAppFacebookTwitter 0 3 June, 2025 سب نیوز

تحریر: محمد محسن اقبال

بھارت، جو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلاتا ہے، نے 15 اگست 1947 کو آزادی حاصل کرنے کے بعد سے باقاعدگی سے انتخابات منعقد کیے ہیں۔ آج 90 کروڑ سے زائد اہل ووٹروں کے ساتھ، بھارتی انتخابات کو اکثر ایک عظیم جمہوری عمل قرار دیا جاتا ہے۔ تاہم، جب ہم بھارت کی انتخابی تاریخ کا تنقیدی جائزہ لیتے ہیں تو ایک تشویشناک رجحان سامنے آتا ہے۔ خارجی خطرات، خصوصاً پاکستان کے ساتھ کشیدگی کو جان بوجھ کر ہوا دینا، تاکہ قوم پرستی کے جذبات کو ابھار کر ووٹ حاصل کیے جا سکیں۔ یہ انتخابی حکمت عملی نہ صرف بھارت کے سیاسی نتائج پر اثرانداز ہوئی ہے بلکہ جنوبی ایشیا کے امن کو بھی مسلسل عدم استحکام سے دوچار کیا ہے۔

بھارت کے پہلے عام انتخابات 25 اکتوبر 1951 سے 21 فروری 1952 تک ہوئے، جو وزیرِاعظم جواہر لعل نہرو کی قیادت میں منعقد ہوئے۔ یہ ایک نئی آزاد، نوآبادیاتی اور اکثریتی طور پر ناخواندہ قوم کے لیے ایک عظیم جمہوری کارنامہ تھا۔ اگرچہ ابتدائی دہائیوں میں انڈین نیشنل کانگریس غالب رہی، لیکن سیاسی مفاد پرستی کے بیج وہیں بو دیے گئے تھے۔ جیسے جیسے داخلی مسائل بڑھتے گئے، خارجی خطرات—خصوصاً پاکستان—کا سہارا لینے کا رجحان بھی بڑھتا گیا تاکہ انتخابی فائدے حاصل کیے جا سکیں۔

پہلا بڑا موقع 1965 کی بھارت-پاکستان جنگ تھی، جو 6 ستمبر 1965 کو شروع ہوئی اور 23 ستمبر 1965 کو جنگ بندی پر ختم ہوئی۔ وزیر اعظم لال بہادر شاستری اس جنگ کے بعد “جئے جوان، جئے کسان” کے نعرے کے ساتھ قومی ہیرو کے طور پر اُبھرے۔ اگرچہ وہ 11 جنوری 1966 کو تاشقند میں پراسرار طور پر انتقال کر گئے، لیکن کانگریس پارٹی نے اس جنگی قوم پرستی کی لہر کو 1967 کے عام انتخابات میں اپنے حق میں استعمال کیا۔

اسی طرح 1971 کی جنگ، جو 3 دسمبر 1971 کو شروع ہوئی اور 16 دسمبر 1971 کو پاکستان کی ڈھاکہ میں ہتھیار ڈالنے پر ختم ہوئی، ایک اور اہم موڑ تھا۔ وزیر اعظم اندرا گاندھی نے اس جنگی فتح کو اپنی مقبولیت بڑھانے کے لیے استعمال کیا اور انہیں بھارت کی “آئرن لیڈی” کے طور پر پیش کیا گیا۔ 1972 کے ریاستی انتخابات اور 1977 میں ایمرجنسی کے بعد ہونے والے انتخابات میں بھی اس جنگی ہیرو ازم کو بار بار دہرایا گیا، اگرچہ اس دور میں آمرانہ رجحانات بھی نمایاں تھے۔

جب 1990 کی دہائی میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے ابھار حاصل کیا، تو پاکستان مخالف بیانیہ انتخابات کا مرکزی نکتہ بن گیا۔ کارگل جنگ (3 مئی تا 26 جولائی 1999) بی جے پی کی زیر قیادت اٹل بہاری واجپائی کی حکومت کے دوران ہوئی، جو مئی 1998 کے ایٹمی تجربات اور 21 فروری 1999 کے لاہور اعلامیہ کے فوراً بعد تھی۔ انٹیلی جنس کی ناکامیوں کے باوجود، بی جے پی نے 1999 کے عام انتخابات جیت لیے، کیونکہ وہ قوم پرستی کے جذبات کو اپنے حق میں موڑنے میں کامیاب رہی۔

ایک افسوسناک اور سیاسی رنگ لیے واقعہ 26 نومبر 2008 کے ممبئی حملے تھے، جن میں مسلح افراد نے بیک وقت کئی مقامات پر حملے کیے، جن میں تاج محل ہوٹل بھی شامل تھا، اور 100 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے۔ اگرچہ فوراً پاکستان میں موجود گروہوں پر الزام لگا دیا گیا، لیکن ان حملوں کے وقت اور طریقہ کار نے بھارتی سیاست پر گہرے اثرات ڈالے۔ 2009 کے انتخابات سے قبل، کانگریس کی زیر قیادت یو پی اے حکومت نے سخت رویہ اپنایا، عوامی غصے سے فائدہ اٹھایا، اور اس سانحے کو قومی سلامتی کی اپیل میں بدل دیا۔ جذباتی فضا اور میڈیا کے ذریعے بھڑکائی گئی قوم پرستی نے اندرونی ناکامیوں سے توجہ ہٹا کر حکمران اتحاد کو کامیابی دلوائی۔

شاید سب سے نمایاں مثال فروری 2019 کے پلوامہ حملے کی ہے، جس میں 14 فروری 2019 کو کشمیر میں بھارتی نیم فوجی دستے کے 40 اہلکار جاں بحق ہوئے۔ 26 فروری کو بھارت نے بالا کوٹ پر فضائی حملے کیے اور 27 فروری کو پاکستان نے جوابی کارروائی میں بھارتی طیارہ گرایا اور پائلٹ کو گرفتار کیا۔ یہ واقعہ پوری طرح سے سیاسی رنگ اختیار کر گیا۔ نریندر مودی نے اپنی 2019 کی انتخابی مہم کو مکمل طور پر قومی سلامتی کے گرد گھمایا، اور بی جے پی کو زبردست اکثریت سے کامیابی ملی۔

تازہ ترین اور ممکنہ طور پر سب سے خطرناک پیش رفت 7 مئی 2025 کو دیکھنے میں آئی، جب بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک روزہ جنگ چھڑ گئی۔ کئی ہفتوں سے کشیدگی بڑھ رہی تھی، بھارت کی جانب سے اشتعال انگیز بیانات اور فوجی چالیں دیکھی گئیں۔ 7 مئی کی صبح بھارتی طیاروں نے لائن آف کنٹرول عبور کی، جس پر پاکستان نے جوابی کارروائی کی۔ یہ جنگ 24 گھنٹے سے کم رہی مگر درجنوں جانیں لے گئی اور دونوں ایٹمی طاقتوں کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا۔

اہم بات یہ ہے کہ یہ جنگ بھارت کے عام انتخابات (19 اپریل تا 7 مئی 2025) کے آخری مرحلے سے مکمل طور پر متصادم تھی۔ وقت کا تعین ظاہر کرتا ہے کہ حکمران جماعت، جو معاشی سست روی، مہنگائی، سماجی بے چینی اور کسانوں کی خودکشیوں پر تنقید کا سامنا کر رہی تھی، ایک بار پھر پرانے ہتھکنڈے پر اتری—پاکستان کے ساتھ جنگ جیسی صورتحال پیدا کر کے عوام کی توجہ ہٹانا اور جذبات کو ابھارنا۔

یہ رجحان واضح اور خطرناک ہے۔ جب بھی داخلی کارکردگی ووٹرز کو قائل کرنے میں ناکام ہو، پاکستان کو قومی سلامتی کا دشمن قرار دے کر ووٹ بٹورے جاتے ہیں۔ میڈیا، جو اکثر ریاست کے زیر اثر ہوتا ہے، ہیجان انگیز خبریں پھیلانا شروع کر دیتا ہے، اور جذباتی بیانیے معیشت، روزگار اور گورننس جیسے حقیقی مسائل کو پس منظر میں دھکیل دیتے ہیں۔ یہ قلیل مدتی سیاسی فائدہ، طویل مدتی علاقائی امن اور جمہوری اقدار کی قیمت پر حاصل کیا جاتا ہے۔

14  اگست 1947 کو جب پاکستان نے آزادی حاصل کی، اس کے بعد سے برصغیر میں تین بڑی جنگیں (1948، 1965، 1971)، ایک محدود جنگ (1999)، متعدد جھڑپیں اور سرحدی تنازعات رونما ہو چکے ہیں۔ یہ سب نہ صرف زخم چھوڑ گئے بلکہ وسائل بھی کھا گئے اور عدم اعتماد کو بڑھاوا دیا۔ لیکن جب جنگ کو انتخابی ہتھیار بنا لیا جائے، تو علاقائی استحکام کا خطرہ وجودی بن جاتا ہے۔ 7 مئی 2025 کی ایک روزہ جنگ اس حکمت عملی کا سب سے افسوسناک استعمال ہے۔

لہٰذا، بھارتی انتخابات کو محض ان کی وسعت یا تعداد کے لحاظ سے نہیں بلکہ اس رجحان کے پس منظر میں بھی دیکھنا چاہیے کہ کس طرح قوم پرستانہ جنگی جنون ان پر غالب آ چکا ہے۔ 1971 کی جنگ سے لے کر 2008 کے ممبئی حملے، 2019 کا بالا کوٹ واقعہ، اور اب 2025 کی مختصر جنگ—ایک بات مشترک ہے: پاکستان کو دشمن بنا کر ووٹ حاصل کرنا۔ نتیجہ ایک ایسی جمہوریت جو کارکردگی، ترقی یا انصاف پر نہیں بلکہ انتشار اور خوف پر پنپتی ہے۔

جنوبی ایشیا اس سے بہتر کا مستحق ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ یہ چکر توڑا جائے—اور ووٹ نفرت کے بجائے امید کے لیے ڈالے جائیں۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرہماری معاشی خود انحصاری کا دارومدار سستی بجلی اور زراعت پر ہے: وزیراعظم مُودی کا ”نیو نارمل”  اور  راکھ ہوتا سیندور! اٹھائیس مئی قوم کی خودمختاری کا دن سائبر سکیورٹی اور اپنے آپ کو محفوظ بنانے کے طریقے ارتھنگ: فطرت کے لمس میں شفا جوہری بازدارندگی اور قومی وقار،28 مئی کی میراث سات مئی : جنوبی ایشیا کے لیے سچائی کی گھڑی TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: پاکستان کے ساتھ بھارت کے

پڑھیں:

ارشد بمقابلہ نیرج: کیا بھارت پاکستان ہینڈشیک تنازع ٹوکیو تک پہنچے گا؟

ٹوکیو(سپورٹس ڈیسک) ٹوکیو ورلڈ ایتھلیٹکس چیمپئن شپ کی تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں، شائقین کی نظریں نیرج چوپڑا اور ارشد ندیم کے جاولین مقابلے پر مرکوز ہیں۔

پیرس 2024 اولمپکس کے بعد یہ دونوں عالمی معیار کے کھلاڑی مقابلے میں آ رہے ہیں اور سب یہ دیکھنے کے لیے بیتاب کہ آیا ایشیا کپ T20 کے ہینڈشیک تنازعے کا سایہ دوبارہ منڈلائے گا یا دونوں کھلاڑی اپنے باہمی احترام کو برقرار رکھیں گے۔

تاریخ گواہ ہے کہ کھیل اکثر ایک پل کی طرح کام کرتا ہے، جہاں کھلاڑی اپنی قومیت یا سیاسی اختلافات کو ایک لمحے کے لیے بھول کر مہارت دکھاتے ہیں۔

1999 میں کارگل تنازعے کے چند ماہ قبل پاکستان کی ٹیسٹ ٹیم چنئی میں شائقین کی زرودا تالیاں اسٹیڈیم میں گونجی، جب بھارت کے شائقین نے پاکستان کے حوصلہ اور کھیل کی مہارت کو سراہا۔

پچھلے برسوں میں بھی خیر سگالی کے ایسے لمحات نظر آئے، جیسے شاہین آفریدی کا جسپریت بمراہ کو بچوں کے کپڑوں کا تحفہ دینا یا پاکستانی ٹیم کا 2016 کے بعد بھارت میں پرتپاک استقبال۔

مگراب حالات نے کروٹ لے لی ہے اور اپریل 2025 میں پہلگام حملے اور مئی کے تنازعے نے سیاسی کشیدگی میں اضافہ کردیا ہے اور دبئی میں ایشیا کپ T20 کے دوران ہینڈشیک تنازعہ نے حالات کو مزید حساس بنا دیا۔

کرکٹ کے برعکس، جاولین کا شعبہ چھوٹا اور اعلیٰ معیار کا ہے، جہاں کھلاڑی ایک دوسرے کے ساتھ نہ صرف مقابلہ کرتے ہیں بلکہ باہمی احترام کو بھی اہمیت دیتے ہیں۔

ارشد اورنیرج کا تعلق اس خاص ماحول سے ہے، جہاں مقابلہ دشمنی کی بنیاد پر نہیں، بلکہ کھیل کی مہارت اور باہمی عزت پر مبنی ہے۔

شروعات 2016 میں ہوئی، جب دونوں نے بین الاقوامی سطح پر پہلا مقابلہ کیا۔ نیرج نے فوراً اپنا غالب مقام قائم کیا، جبکہ ارشد دھیرے دھیرے اپنی صلاحیتوں کو نکھارتا گیا۔

2018 کے ایشین گیمز جکارتہ میں نیرج نے 88.06 میٹر کے تھرو کے ساتھ گولڈ میڈل جیتا، اور ارشد نے 80.75 میٹر کے ساتھ کانسی کا تمغہ حاصل کیا۔ اس دوران دونوں کی پوڈیم تصویر وائرل ہوئی، جس میں دونوں اپنے قومی جھنڈے اوڑھے، ہاتھ ملا کر سر جھکائے ہوئے تھے۔

پیرس اولمپکس میں ارشد نے 92.97 میٹر کے تھرو کے ساتھ پاکستان کا پہلا اولمپک گولڈ جیتا، جبکہ نیرج 89.45 میٹر کے ساتھ پیچھے رہ گئے۔ اس کے بعد مقابلہ حقیقی دشمنی اور باہمی احترام کی علامت بن گیا۔ نیرج اور ارشد نے نہ صرف اپنی صلاحیتیں بڑھائیں بلکہ جنوبی ایشیا کو جاولین کے عالمی نقشے پر لے آئے۔

نیرج کی والدہ سروج دیوی نے ارشد کے لیے محبت ظاہر کی اور ارشد کی والدہ نے نیرج کے لیے یہی جذبات دہرائے، یہ شائقین کے لیے انمول لمحات تھے، جہاں کھیل میں سیاست کی بجائے انسانیت اور احترام بازی لے گئی۔

پہلگام حملے کے بعد نیرج نے یوٹرن لیتے ہوئے صاف کہہ دیا کہ وہ اور ارشد کبھی قریبی دوست نہیں تھے۔

انہوں نے کہا، ’احترام تھا، لیکن بھائی چارے کی کہانی کو زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا۔ اب چیزیں پہلے جیسی نہیں رہیں گی۔‘

نیرج چوپڑا کلاسک کے دوران بھی ارشد کی شرکت حالات کی وجہ سے ممکن نہ ہو سکی۔

ارشد نے ٹوکیو جانے سے قبل کہا ہے کہ،’میرا سب سے بڑا مقابلہ ہمیشہ نیرج چوپڑا کے ساتھ ہوتا ہے، لیکن اصل مقابلہ اپنے آپ سے ہے۔ میں اچھی حالت میں ہوں اور مکمل تیاری کے ساتھ ٹوکیو آ رہا ہوں۔‘

ٹوکیو میں ارشد اپنی اولمپک فتح کو مستحکم کرنے کے لیے میدان میں ہیں تو دوسری جانب نیرج عالمی چیمپیئن کے طور پر اپنی برتری برقرار رکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں، جبکہ دونوں کھلاڑی جرمن حریف جولیان ویبر سے بھی مقابلہ کریں گے۔

شائقین نہ صرف ریکارڈ توڑنے والے تھروز دیکھیں گے بلکہ چھوٹے اشارے، مشترکہ نظروں اور باہمی احترام کے لطیف لمحات بھی اہم ہوں گے۔

موجودہ حالات میں ہینڈشیک کا نظرانداز ممکن ہے، مگر ان لوگوں کے لیے جو اس دشمنی کو ایشیائی سطح سے عالمی سطح تک فالو کر رہے ہیں، یہ لمحہ یادگار ہوگا۔

Post Views: 4

متعلقہ مضامین

  • بھارت کو شکست دینے کےبعد آج عرب ممالک میں پاکستان کو وہی عزت حاصل ہے جو بڑے ممالک کو دی جاتی ہے، حنیف عباسی
  • بھارت کی مشکلات میں اضافہ، سعودی عرب کے ساتھ دفاعی معاہدے نے پاکستان کو کتنا مضبوط بنادیا؟
  • ’میچ کھیل سکتے ہیں، تو سکھ یاتری پاکستان کیوں نہیں جا سکتے؟‘
  • بسکٹ میں سوراخ کیوں ہوتے ہیں؟ حیران کن وجہ جانیے
  • مشاہد حسین سید کا پاکستان کو بھارت کے ساتھ نہ کھیلنے کا مشورہ
  • مئی 2025: وہ زخم جو اب بھی بھارت کو پریشان کرتے ہیں
  • جنگ میں 6 جہاز گرنے کے بعد بھارت کھیل کے میدان میں اپنی خفت مٹا رہا ہے، وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ
  • چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری سے چائنا اسٹیٹ کنسٹرکشن انجینئرنگ کارپوریشن کے وفد کی ملاقات
  • ارشد بمقابلہ نیرج: کیا بھارت پاکستان ہینڈشیک تنازع ٹوکیو تک پہنچے گا؟
  • کامیابی کا انحصار پالیسی استحکام، تسلسل اور قومی اجتماعی کاوشوں پر ہے،احسن اقبال