بجٹ میں نئے ٹیکسزمتعارف کرانے کی تیاریاں
اشاعت کی تاریخ: 3rd, June 2025 GMT
اسلام آباد(طارق محمودسمیر)نئے وفاقی بجٹ کی تیاریاں آخری مراحل میں ہیں،ایک طرف مہنگائی میں ریکارڈکمی کے دعوے کئے جارہے ہیں اوردوسری طرف
ریونیوبڑھانے کے لئے نئے اندازمیں نئے ٹیکسزمتعارف کرانے کی تیاریاں کی جارہی ہیں،آئی ایم ایف کے ساتھ کئی معاملات میں اتفاق رائے کے باوجود عوام کے لئے اس بجٹ میں کوئی بڑا ریلیف ملنے کے امکانات ابھی واضح نہیں ہوئے،چھوٹی گاڑیوں پرٹیکس میں اضافہ یاپھربینکوں سے نقدرقم نکالنے پر بھی ٹیکس بڑھایاجارہاہے اور تو اور،ڈیجیٹل بینکنگ کو فروغ دینے کے نام پر ایک نیاٹیکس بھی متعارف کرایاجارہاہے جس کے تحت پیٹرول پمپوں پر کریڈٹ اور اے ٹی ایم کارڈکے علاوہ جو بھی شخص کیش میں ادائیگی کرے گااس سے اضافی رقم فی لیٹرتین روپے وصول کی جائے گی ،یہ تجویزانتہائی غیرمناسب اور غریب عوام کے لئے ناقابل قبول ہے کیونکہ اس کی زدمیں لاکھوں موٹرسائیکل سوار،عام ٹیکسی ڈرائیورآئیں گے جن کے پاس نہ تو کریڈٹ کارڈ اور نہ ہی اے ٹی ایم کارڈہوتاہے بلکہ اکثرکے بینک اکاونٹس بھی نہیں ہوتے لہذا اس تجویزپرعملدرآمدہونے کی صورت میں شدیدعوامی ردعمل آسکتاہے،وزیراعظم شہبازشریف کو چاہئے کہ وہ بجٹ کے معاملات پرخودتمام تجاویزفائنل ہونے سے پہلے بریفنگ لیں اور پھر حتمی فیصلے کئے جائیں جب کہ دوسری جانب وفاقی وزیرمنصوبہ بندی احسن اقبال کا کہنا ہے کہ نصف سے زائد بجٹ قرضوں کی ادائیگی میں جائے گا، ترقیاتی بجٹ کی رقم رواں سال کے مقابلے میں 100 ارب روپے کم ہے ، 118 سے زائد غیر ضروری منصوبے بندکردئیے ہیں، وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا کہ اس وقت وفاقی بجٹ کا نصف سے زائد حصہ قرضوں کی ادائیگی میں صرف ہو رہا ہے اور موجودہ وسائل میں ترقیاتی بجٹ کو مینج کرنا انتہائی مشکل ہو چکا ہے،منصوبے بند کرناتو مسائل کا حل نہیں ہوتا ویسے احسن اقبال صاحب،منصوبہ بندی اور پلاننگ کی وزارت چلانے کا سب سے زیادہ تجربہ رکھتے ہیں تقریباًگیارہ سال وہ اس وزارت پرکام کرچکے ہیں کئی بڑے پروگرام بھی دیئے ،حال ہی میں انہوں نے اڑان پاکستان پروگرام دیا ،اس میں کوئی شک نہیں کہ وزیراعظم شہبازشریف کی انتھک محنت کے نتیجیمیں پاکستانی معیشت میں بہتری آئی ہے،مہنگائی میں کمی ہوئی لیکن سرکاری اور نجی شعبے کے ملازمین شدیدمشکلات کا شکارہیں،سرکاری ملازمین کی تنخواہوںمیں تو ہرسال دس سے پندرہ فیصد اضافہ ہوجاتاہے لیکن نجی شعبے میں بہت کم ایساہوتا کہ ملازمین کی تنخواہوں میں ہرسال اضافہ ہو،بجٹ میں ملازمین کو ہرصورت میں ریلیف دیاجائے،دوسری جانب سیالکوٹ کے پی پی 52کے ضمنی الیکشن میں ن لیگ نے میدان مارلیا،ن لیگ کے امیدوار حناارشدوڑائچ نے 78ہزار702،پاکستان تحریک انصاف کے فاخرنشاط گھمن نے39ہزار پیپلزپارٹی کے امیدوارنے 6832اور ٹی ایل پی کے امیدوار نے 4851ووٹ حاصل کئے،اعدادوشماردیکھے جائیں تو ن لیگ کے ووٹ بینک میں بڑا اضافہ ہواہے ،8فروری 2024کے جنرل الیکشن میں اسی نشست پر ن لیگ کے امیدوار چوہدری ارشد وڑائچ مرحوم نے 58ہزار350،تحریک انصاف کے فاخرنشاط گھمن نے 49ہزار 850 ووٹ حاصل کئے تھے اس طرح پی ٹی آئی کا ووٹ بینک دس ہزار کم ہوا،پیپلزپارٹی کے ووٹ بینک میں اضافہ ہواہے جب کہ ٹی ایل پی کے ووٹ بینک میں بھی پچاس فیصد سے زائد کمی ہوئی ہے۔ن لیگ کاووٹ بینک بڑھنے کی کئی وجوہات ہیں ،پنجاب میں وزیراعلیٰ کی کارکردگی اور وفاق میں حکومت کی طرف سے معیشت کو بہتربنانیاور استحکام پیداکرنے کے اقدامات شامل ہیں ۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
اسٹیٹ بینک کے فیصلے پر صدر ایف پی سی سی آئی کا شدید ردعمل
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250916-06-6
کراچی (کامرس رپورٹر)صدرایف پی سی سی آئی عاطف اکرام شیخ نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے شر ح سود کو 11 فیصد پر برقرار رکھنے کے فیصلے پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے اس فیصلے کو ”ناقابلِ فہم” قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ کاروباری ماحول، سرمایہ کاری اور مجموعی قومی معیشت کے لیے نقصان دہ ثابت ہو گا۔صدر عاطف اکرام شیخ نے کہا کہ موجودہ معاشی حقائق، خصوصاً مہنگائی میں نمایاں کمی، شرح سود میں فوری کمی کا تقاضا کرتے ہیں۔ ان کے مطابق:”جب اگست 2025 میں حکومت کے اپنے اعدادو شمار کے مطابق مہنگائی کی شرح صرف 3 فیصد تک آ گئی ہے تو پالیسی ریٹ کو کم کر کے اصولی طور پر 6 سے 7 فیصد کے درمیان لایا جانا چاہیے تھا؛ تاکہ معیشت کو سہارا مل سکے ”۔انہوں نے مزید کہا کہ اگر شرح سود میں کمی کی جاتی تو حکومت کا قرضوں کا بوجھ تقریباً 3,500 ارب روپے تک کم ہو سکتا تھا؛ جوکہ، مالیاتی دباؤ میں کمی کے لیے نہایت اہم ہے۔سینئر نائب صدر، ایف پی سی سی آئی، ثاقب فیاض مگوں نے کہا کہ بلند شرح سود پیداواری لاگت کو بڑھاتی ہے ؛جس سے مہنگائی میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ سنگل ڈیجٹ شرح سود کے ذریعے اشیاء سستی ہوں گی؛ عوام کو ریلیف ملے گا اور معیشت میں بہتری آئے گی۔انہوں نے کہا کہ بلند شرح سود کرنسی کی گردش کو بھی محدود کرتی ہے؛ جس سے معاشی سرگرمیوں میں جمود پیدا ہوتا ہے۔ثاقب فیاض مگوں نے مزید کہا کہ شرح سود کو موجودہ سطح پر برقرار رکھنا بزنس کانفیڈنس کو بری طرح متاثر کرے گا؛ سرمایہ کاری میں کمی لائے گا اور معیشت کی بحالی کی رفتار کو سست کر دے گا۔انہوں نے اسٹیٹ بینک سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری طور پر اپنے فیصلے پر نظرثانی کرے اور ایسی پالیسی اپنائے جوکاروبار دوست ہو؛قرضوں کی لاگت کو کم کرے؛صنعتی سرگرمیوں کو فروغ دے اور روزگار کے مواقع پیدا کرے۔نائب صدر و ریجنل چیئرمین سندھ، ایف پی سی سی آئی،عبدالمہیمن خان نے مطالبہ کیا کہ اسٹیٹ بینک شرح سود کو فوری طور پر سنگل ڈیجٹ میں لائے ؛نجی شعبے کے لیے قرضوں کی رسائی آسان بنائے اورکاروباری برادری کو پالیسی سازی میں شامل کرے۔ عبدالمہیمن خان نے واضح کیاکہ کاروباری برادری پاکستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ اس کے لیے ایک مثبت، کاروبار دوست اور حقیقت پسندانہ مالیاتی پالیسی ناگزیر ہے۔ اسٹیٹ بینک کو اب معیشت کی ضرورت کے مطابق فیصلے کرنا ہوں گے ۔