بھارتی خفیہ ایجنسی را نے جدوجہد آزادی کشمیر کو کمزور کرنے کیلئے تحریک طالبان کشمیر کو تشکیل دیا
اشاعت کی تاریخ: 3rd, June 2025 GMT
تجزیہ کاروں کے مطابق ٹی ٹی کے را سے وابستہ ایک پراکسی تنظیم ہے جس کا مقصد پاکستان کو کمزور، آزاد جموں و کشمیر کو غیر مستحکم اور بھارتی قبضے کے خلاف کشمیری عوام کی حق پر مبنی جدوجہد آزادی کو غیر قانونی قرار دینا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ تحریک طالبان کشمیر کے نام سے ابھرنے والے ایک مشتبہ عسکریت پسند گروپ نے سکیورٹی تجزیہ کاروں اور مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر نظر رکھنے والے ماہرین کو سخت تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق بھارت کے غیر قانونی طور پر زیر قبضہ جموں و کشمیر اور آزاد کشمیر دونوں میں کارروائیوں کے دعویدار تحریک طالبان کشمیر نے ایک بیان میں خود کو ایک "آزاد مزاحمتی گروپ” کے طور پر پیش کیا ہے، جو بھارت اور پاکستان دونوں سے جموں و کشمیر کی مکمل آزادی کا حامی ہے۔ گروپ کا دعویٰ ہے کہ اس کا مقصد مذہبی نظریے پر مبنی ہے۔ تاہم اس کی کارروائیوں کا مرکز بنیادی طور پر پاکستانی مسلح افواج، ریاستی اداروں اور آزاد جموں و کشمیر کے استحکام کو نشانہ بنا کر بدنام زمانہ بھارتی خفیہ ایجنسی را کے مذموم مقاصد کو تقویت پہنچانا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ٹی ٹی کے را سے وابستہ ایک پراکسی تنظیم ہے جس کا مقصد پاکستان کو کمزور، آزاد جموں و کشمیر کو غیر مستحکم اور بھارتی قبضے کے خلاف کشمیری عوام کی حق پر مبنی جدوجہد آزادی کو غیر قانونی قرار دینا ہے۔
تحریک طالبان کشمیر کی سرگرمیاں بلوچستان لبریشن آرمی جیسے دیگر بھارتی حمایت یافتہ گروپوں کی طویل عرصے جاری پاکستان مخالف کارروائیوں سے ملتی جلتی ہیں، جن کا مقصد پاکستان کو غیر مستحکم کرنا ہے۔ بھارت نے یہ مذموم ہدف بی ایل اے کی سونپ رکھا ہے اور آزاد جموں و کشمیر میں ٹی ٹی کے نام سے گروپ کا منظر عام پر آنے سے واضح ہو گیا ہے کہ را مقبوضہ کشمیر میں جھوٹے فلیگ آپریشنز کے ذریعے بے گناہ شہریوں کو اغوا اور قتل کر کے پاکستان کو بدنام کر رہی ہے۔ ایک سینئر سکیورٹی تجزیہ کار نے کہا ہے کہ ٹی ٹی کے کی عوام میں جڑیں موجود نہیں ہیں بلکہ یہ نظریات کے بھیس میں ایک انٹیلی جنس آپریشن ہے۔ یہ تنظیم من گھڑت نظریاتی نعروں کے ذریعے عام کشمیری نوجوانوں کو متاثر کر رہی ہے۔
ایک سیاسی تجزیہ کار نے کہا ہے کہ بھارت آزاد جموں و کشمیر میں اندرونی انتشار کو بڑھا کر آزادی کی حقیقی تحریکوں اور غیر ملکی حمایت یافتہ عسکریت پسندی کے درمیان فرق کو مٹانا چاہتا ہے۔ ٹی ٹی کے بنیادی طور پر مقبوضہ کشمیر میں عوام کی حالت زار کو اجاگر کرنے کی بجائے پاکستانی سکیورٹی فورسز کو ہدف تنقید بنا رہی ہے۔ تاہم کشمیری اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ پاکستان کی حکومت اور سکیورٹی فورسز نے ہمیشہ عالمی سطح پر کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کی حمایت کی ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق بھارت تحریک طالبان کشمیر جیسے گروپوں کو تشکیل دیکر مقبوضہ کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں سے عالمی برادری کی توجہ ہٹانا چاہتا ہے۔ آپریشن سندور کی ناکامی کے بعد بھارت پاکستان خاص طور پر آزاد کشمیر میں بی ایل اے کی طرز پر پراکسی گروپ نیٹ ورک کو پھیلانا چاہتا ہے تاکہ آزاد کشمیر کے استحکام کو نقصان پہنچایا جا سکے۔ جہاں لوگوں کو سیاسی خودمختاری اور اظہار رائے کی جمہوری آزادی حاصل ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: تحریک طالبان کشمیر تجزیہ کاروں پاکستان کو کشمیر کو ٹی ٹی کے کا مقصد کو غیر
پڑھیں:
سول سوسائٹی ارکان نے اگست 2019ء کے بعد کے اقدامات کو مسترد کر دیا
انہوں نے کہا کہ بھارت نے دفعہ370 اور 35A کو منسوخ کر کے جموں و کشمیر کے لوگوں کی شناخت، حقوق، وسائل اور میڈیا کی آزادی چھین لی ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں سول سوسائٹی کے ارکان نے اگست 2019ء کے بعد کئے گئے غیر قانونی اقدامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ جموں و کشمیر ویسا ہی رہے جیسا 04 اگست 2019ء کو تھا۔ ذرائع کے مطابق سرینگر میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے سول سوسائٹی کے ارکان نے ایک اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اگست 2019ء کے بعد بی جے پی حکومت کی طرف سے کئے گئے ظالمانہ اقدامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ اقوام متحدہ کی طرف سے تسلیم شدہ کشمیری عوام کے حق خود ارادیت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ بی جے پی، آر ایس ایس کی حکومت نے ڈومیسائل قانون میں ترمیم کر کے مقبوضہ جموں و کشمیر کی حیثیت کو تبدیل کر دیا ہے جس کا مقصد جموں و کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کی طرف سے ترمیم شدہ قوانین کے تحت جاری کی گئی نام نہاد ڈومیسائل سرٹیفکیٹس کی بنیاد پر باہر کے لوگوں کو مقبوضہ جموں و کشمیر کے شہری کے طور پر کبھی قبول نہیں کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ بھارت نے دفعہ370 اور 35A کو منسوخ کر کے جموں و کشمیر کے لوگوں کی شناخت، حقوق، وسائل اور میڈیا کی آزادی چھین لی ہیں۔ سول سوسائٹی کے ارکان نے کہا کہ 05 اگست 2019ء سے پہلے کشمیری خواتین کے شوہروں کو جو علاقے سے باہر شادی کر چکی ہوں، انہیں علاقے میں جائیداد خریدنے یا مقبوضہ جموں و کشمیر میں نوکریوں کے لیے درخواست دینے کا کوئی حق نہیں تھا، جبکہ اب ڈومیسائل ایکٹ میں ترمیم کے بعد انہیں تمام حقوق حاصل ہیں۔ بھارتی حکومت نے تحصیلداروں کو شریک حیات کو ایسے سرٹیفکیٹ جاری کرنے کا اختیار دیا ہے، جبکہ ڈپٹی کمشنر اس کے لیے اپیلٹ اتھارٹی ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر ڈومیسائل سرٹیفکیٹ کے اجراء کے رولز 2020ء کے مطابق تمام مستقل رہائشی سرٹیفکیٹ ہولڈرز اور مقبوضہ علاقے سے باہر رہنے والے ان کے بچوں کو ڈومیسائل سرٹیفکیٹ جاری کیے جائیں گے۔
سول سوسائٹی کے ارکان نے بھارتی سیاسی جماعتوں پر زور دیا کہ وہ بی جے پی حکومت پر دبائو ڈالیں کہ وہ دفعہ370 اور35/A کے تحت مقبوضہ جموں و کشمیر کے لوگوں کے آئینی حقوق بحال کرے۔ انہوں نے بھارت اور مقبوضہ علاقے کی مختلف جیلوں میں غیر قانونی طور پر نظر بند تمام حریت رہنمائوں، کارکنوں اور نوجوانوں کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ سول سوسائٹی کے اراکین نے امریکہ، اقوام متحدہ، یورپی یونین اور او آئی سی سمیت بین الاقوامی برادری پر بھی زور دیا کہ وہ جنوب ایشیائی خطے کے امن، سیاسی اور اقتصادی استحکام کے لیے تنازعہ کشمیر کے حل کے لیے ٹھوس اقدامات کریں۔