انجینئر سلیم نے کہا کہ بھارت میں گزشتہ برسوں سے مسلمانوں کے خلاف ہجومی تشدد اور نفرت انگیز جرائم کے واقعات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر انجینئر سلیم نے کہا کہ ہم علی گڑھ میں چار مسلم گوشت تاجروں پر ہولناک حملے کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ انتہائی افسوسناک ہے کہ ایک مشتعل ہجوم نے ان چاروں افراد کو روک کر ان کے کپڑے اتار دئے اور بیلٹ و لاٹھیوں سے بری طرح پیٹا، جس سے وہ لہو لہان ہوکر از جان ہوئے۔ ان باتوں کا اظہار جماعت اسلامی ہند کی ماہانہ پریس کانفرنس میں نائب امیر انجینئر سلیم، ملک معتصم خان اور سلمان احمد نے کیا۔ انہوں نے کہا کہ مذکورہ چاروں مسلمانوں کی ہلاکت سے بھی زیادہ حیرت انگیز معاملہ یہ ہے کہ پولیس نے حملہ آوروں اور متاثرین دونوں کے خلاف "گاؤ کشی ایکٹ" کے تحت مقدمات درج کئے۔ انجینئر سلیم نے کہا کہ یہ انصاف کا صریحاً قتل ہے اور ان مجرموں کی پشت پناہی ہے، جنہوں نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسے اقدامات ان شرپسند عناصر کو مزید حوصلہ دیتے ہیں، جو سمجھتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کے خلاف کسی بھی جرم کے بعد سزا سے بچ نکلیں گے۔

انجینئر سلیم نے کہا کہ یہ کوئی اکیلا واقعہ نہیں ہے بلکہ بھارت میں گزشتہ برسوں سے مسلمانوں، دلتوں اور دیگر پسماندہ طبقات کے خلاف ہجومی تشدد اور نفرت انگیز جرائم کے واقعات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کبھی کرناٹک کے بنٹوال میں عبدالرحمن کا قتل، کبھی منگلور میں اشرف کا بہیمانہ قتل، کبھی ناگپور میں فرقہ وارانہ تصادم، تو کبھی کشمیری مسلمانوں کو ملک بھر میں نشانہ بنانا، یہ سب ہمارے قومی وقار پر ایک بدنما داغ ہے۔ انجینئر سلیم نے کہا کہ اگرچہ سپریم کورٹ نے 2018ء میں ہجومی تشدد کے خلاف فیصلہ دیا تھا لیکن اس پر عمل درآمد انتہائی ناقص رہا ہے، ایسے معاملوں میں مجرموں کو سزا شاذ و نادر ہی ملتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم تمام شہریوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ نفرت کو مسترد کریں، انسانی وقار کو مقدم رکھیں اور امن و انصاف پر مبنی معاشرے کی تشکیل میں اپنا فعال کردار ادا کریں۔

انجینئر سلیم نے کہا کہ جماعت اسلامی ہند اترپردیش سمیت ملک کی مختلف ریاستوں میں مسلمانوں کی جائیدادوں، گھروں اور تعلیمی اداروں خصوصاً مدارس کو غیر قانونی اور غیر انسانی طور پر منہدم کرنے کے مسلسل عمل کی شدید مذمت کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک خطرناک رجحان یہ سامنے آیا ہے کہ دینی مدارس کو کمزور وجوہات کی بنیاد پر انہدامی کارروائیوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان حقائق کا بھی انکشاف ہوا ہے کہ کئی مدارس جن کے پاس قانونی رجسٹریشن اور منظوری موجود تھی، انہیں بھی بغیر کسی قانونی کارروائی کے سیل یا منہدم کردیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بغیر کسی عدالتی فیصلے کے بلڈوزر کو بطور سزا استعمال کرنا پولیس اور انتظامیہ کو جج، جیوری اور جلاد بنا دیتا ہے، یہ آئینی اصولوں کی صریح خلاف ورزی اور ہماری جمہوریت کے لئے ایک سنگین خطرہ ہے۔ جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر انجینئر سلیم نے کہا کہ یہ اقدامات مسلمانوں میں خوف و عدم تحفظ کا ماحول پیدا کرتے ہیں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: انجینئر سلیم نے کہا کہ جماعت اسلامی ہند انہوں نے کہا کہ نے کہا کہ یہ کے خلاف

پڑھیں:

ایشیاء میں بڑھتا معاشی بحران

میری بات/روہیل اکبر

ایشیا میں امیر اور غریب کے درمیان تیزی سے بڑھتے ہوئے فرق کے نتیجے میں 50 کروڑ افراد کو شدید معاشی بوجھ کا سامنا ہے ۔ پاکستان میں سب سے امیر 10فیصد افراد قومی آمدنی کا 42 فیصد رکھتے ہیں، جو بڑی ایشیائی معیشتوں کی اوسط سے کم ہے، لیکن پھر بھی یہ اتنا بڑا فرق پیدا کرتا ہے کہ منصفانہ اور پائیدار معاشرہ قائم کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔یہ آکسفیم کی رپورٹ کا ایک اہم نتیجہ ہے، جو دولت کی غیر مساوات، ماحولیاتی تبدیلی اور ڈیجیٹل فرق کی وجہ سے ہونے والی اقتصادی ترقی کے غیر مساوی پیٹرن کو ظاہر کرتی ہے۔رپورٹ کا عنوان غیر مساوی مستقبل ،ایشیا کی انصاف کیلئے جدوجہد ہے اور یہ ایک مایوس کن حقیقت سامنے لاتی ہے کہ سب سے امیر 10 فیصد لوگ قومی آمدنی کا 60 سے 77 فیصد حاصل کرتے ہیں، جب کہ غریب ترین 50 فیصد صرف 12 سے 15 فیصد کماتے ہیں اور سب سے امیر 1 فیصد کے پاس تقریبا آدھی دولت ہے گزشتہ دہائی میں ایشیائی ارب پتیوں کی دولت دوگنا ہو چکی ہے جب کہ چین، بھارت، انڈونیشیا اور کوریا جیسے ممالک میں غریب ترین نصف آبادی کی آمدنی کا حصہ کم ہو گیا ہے۔ غریب ترین 50 فیصد کی آمدنی کا حصہ تقریبا تمام ممالک میں کم ہوا ہے ۔سوائے بنگلہ دیش، کمبوڈیا، ملائیشیا، میانمار، نیپال، پاکستان، فلپائن، سری لنکا، تھائی لینڈ، تیمور-لیسٹ اور ویتنام کے ان ممالک میں بھی اضافہ کم ہے، تقریبا 1 فیصد، سوائے کمبوڈیا، ملائیشیا، میانمار، فلپائن اور تیمور-لیسٹ کے۔
لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز میں غربت اور عدم مساوات پڑھانے والے ڈاکٹر عابد امان برکی اس رپورٹ کو اس خطے میں آمدنی اور دولت کی عدم مساوات کو اجاگر کرنے کی ایک جرت مندانہ کوشش سمجھتے ہیں آکسفیم انٹرنیشنل کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر امیتابھ بہار کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں پاکستان کے لیے یہ رپورٹ اہمیت رکھتی ہے کیونکہ پاکستان ایشیا کے ان ممالک میں شامل ہے جو سیلاب اور ماحولیاتی اتار چڑھا سے سب سے زیادہ متاثر ہیں پھر بھی سب سے امیر طبقہ دولت اکٹھی کرتا رہتا ہے اور ٹیکسوں سے بچتا ہے جس سے عام لوگ تباہی کا سامنا کرتے ہیں ۔ڈاکٹر عابد امان برکی پاکستان میں بڑھتی ہوئی عدم مساوات کیلئے موجودہ اقتصادی ماڈل کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں ان کے بقول یہ ماڈل طاقتور اشرافیہ کو فائدہ پہنچاتا ہے جب کہ ٹیکس کا نظام غیر مستقیم ٹیکسوں پر انحصار کرتا ہے جو کم اور متوسط آمدنی والے خاندانوں پر غیر متناسب بوجھ ڈالتا ہے ۔عوامی اخراجات زیادہ تر قرضوں کی ادائیگی، دفاع اور اشرافیہ کیلئے سبسڈیوں پر خرچ ہو رہے ہیں۔ صحت، تعلیم اور سماجی تحفظ کے لئے بہت کم بچتا ہے آکسفیم کی تحقیق اس دعوے کی حمایت کرتی ہے کہ 2022 میں بھوٹان اور کرغزستان میں تعلیم میں عوامی سرمایہ کاری جی ڈی پی کا 8 فیصد تھی جب کہ پاپوا نیو گنی، پاکستان، کمبوڈیا، لاس اور سری لنکا میں یہ جی ڈی پی کا 2 فیصد سے بھی کم تھی رپورٹ میں یہ بھی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے کہ کیسے غیر مستقیم ٹیکسوں کا اثر کم آمدنی والے خاندانوں پر غیر متناسب طور پر پڑتا ہے ۔ 2022 میں، جاپان، کوریا اور نیوزی لینڈ میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی کا تناسب 30 فیصد یا اس سے زیادہ تھا ۔لاس اور پاکستان میں یہ تقریبا 10 فیصد تھا اسی طرح نیوزی لینڈ، آسٹریلیا، کوریا اور جاپان جیسے ممالک میں براہ راست ٹیکسوں کی شرح زیادہ ہے۔ متوسط ویلیو ایڈڈ ٹیکسز ہیں اور مضبوط سماجی خرچ کی صلاحیت ہے ۔افغانستان، بنگلہ دیش، بھوٹان، ملائیشیا، انڈونیشیا، پاکستان، فلپائن، تھائی لینڈ اور ویتنام جیسے ممالک میں غیر مستقیم ٹیکسوں پر انحصار جاری ہے۔ لہٰذا بوجھ اب بھی غریب خاندانوں پر غیر متناسب طور پر پڑتا ہے۔ صرف اقتصادی اصلاحات سے امیر اور غریب کے درمیان بڑھتے ہوئے فرق کو ختم نہیں کیا جا سکتا ۔ماحولیاتی بحران اور ڈیجیٹل فرق کو بھی حل کرنا ضروری ہے کیونکہ دونوں خطے میں عدم مساوات کو مزید بڑھاتے ہیں ۔ایشیا میں یہ فرق سب سے زیادہ نمایاں ہے جسے عالمی موسمیاتی تنظیم نے سب سے زیادہ آفات کا شکار خطہ قرار دیا ہے اور گزشتہ دہائی میں یہاں 1 ہزار 800 سے زائد واقعات ہوئے ہیں جن میں 1 لاکھ 50 ہزار سے زائد افراد کی جانیں گئیں اور 120کروڑ سے زائد افراد متاثر ہوئے ۔دنیا کے پانچ سب سے زیادہ خطرے سے دوچار ممالک بنگلہ دیش، نیپال، میانمار، پاکستان اور سری لنکا جو 50 کروڑ سے زائد افراد کا گھر ہیں ۔ماحولیاتی آفات کے باعث سب سے زیادہ بوجھ اٹھاتے ہیں آفات سے نمٹنے اور ان کے مطابق ڈھالنے کے لیے ایشیا کو سالانہ تقریبا 1 کھرب 11 ارب ڈالر کی ضرورت ہے لیکن صرف 333ارب ڈالر ملتے ہیں اور اس کا بیشتر حصہ قرضوں کی شکل میں آتا ہے۔ امیر ممالک اب بھی ان ممالک جیسے پاکستان میں ماحولیاتی نقصان کے لیے اپنے ذمہ داریوں کو نظرانداز کرتے ہیں جو انہوں نے پیدا کیا ہے ۔اس لیے ڈیجیٹل فرق کو ختم کرنا ضروری ہے جو بڑی حد تک جغرافیہ، استطاعت اور سماجی حیثیت کے ذریعے متعین ہوتا ہے ۔ایشیا پیسیفک میں، 83فیصد شہری آبادی کو انٹرنیٹ تک رسائی حاصل ہے جب کہ دیہی علاقوں میں یہ صرف 49فیصد ہے ۔ ایشیا بھر میں خاص طور پر جنوبی ایشیا میں خواتین مردوں کے مقابلے میں بہت کم انٹر نیٹ سے جڑی ہوئی ہیں کم اور درمیانہ آمدنی والے ممالک میں 88کروڑ 50لاکھ خواتین موبائل انٹرنیٹ استعمال نہیں کر رہیں جن میں سے 33کروڑ جنوبی ایشیا میں ہیںجس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان خواتین کو ڈیجیٹل اور ٹیک ڈرائیوڈ نوکریوں سے باہر رکھنے کیلئے سہولت کی کمی، ڈیجیٹل خواندگی کی کمی، حفاظت کے مسائل اور غیر ادائیگی والے دیکھ بھال کے کام جیسے رکاوٹیں ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

متعلقہ مضامین

  • جماعت اسلامی ہند کا بھارت میں خواتین کے خلاف بڑھتے ہوئے جنسی جرائم پر اظہار تشویش
  • سی پیک فیز ٹو کا آغاز ہو چکا، چین نے کبھی کسی دوسرے ملک سے تعلق نہ رکھنے کی شرط نہیں لگائی، احسن اقبال
  • عوام پر اضافی بوجھ ڈالا جارہا ہے: حافظ نعیم سندھ حکومت کے ای چالان سسٹم کے خلاف بول پڑے
  • جماعت اسلامی کا مینار پاکستان پر ہو نے والا اجتماع عام تاریخی ہو گا،ڈاکٹر طارق سلیم
  • مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے‘ کبھی تھا نہ کبھی ہوگا‘ پاکستانی مندوب
  • ایشیاء میں بڑھتا معاشی بحران
  • مجھے کبھی نہیں لگا کہ میں شاہ رُخ خان جیسا دکھائی دیتا ہوں، ساحر لودھی
  • غازی علم الدین شہید کا کارنامہ جرأت مند ی کا نشان ہے‘جماعت اہلسنت
  • کراچی سمیت سندھ کے مہاجروں کو دیوار سے لگایا جارہا ہے، ڈاکٹر سلیم حیدر
  • پی پی کشمیر کاز کی علمبردار،کبھی حقوق پر سودا نہیں کریں گے،بلاول بھٹو