امام خمینیؒ نے امت مسلمہ کو طاقتور بننے کا راستہ دکھایا، علامہ مقصود ڈومکی
اشاعت کی تاریخ: 3rd, June 2025 GMT
کوئٹہ میں منعقدہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے علامہ مقصود ڈومکی نے کہا کہ امام خمینیؒ کی انقلابی فکر نے اسلامی جمہوریہ ایران کو اتنا مضبوط کر دیا کہ آج امریکہ اور اسرائیل اس پر حملہ کرنے سے پہلے سو بار سوچتے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی سیکرٹری نشر و اشاعت علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا ہے کہ دین اسلام نے اہل حق اہل ایمان کو طاقت کے حصول کا حکم دیا ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے "اور دشمن کے مقابلے میں جتنی طاقت جمع کر سکتے ہو، کرو۔" ایسی طاقت حاصل کرو کہ دشمن تم سے خوفزدہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ امام خمینیؒ اللہ کی طاقت پر کامل یقین رکھتے تھے، اسی لیے وہ امریکہ، اسرائیل اور عالمی استعمار سے خوفزدہ نہیں تھے۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ "امریکہ ھیچ غلطی نمی تواند بکند" یعنی امریکہ کوئی غلط قدم نہیں اٹھا سکتا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے بانی انقلاب اسلامی، رہبر کبیر حضرت امام خمینیؒ کی 36ویں برسی کی مناسبت پر منعقدہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ خانہ فرہنگ اسلامی جمہوریہ ایران کوئٹہ کے زیر اہتمام "اقتدار امام خمینی کی نگاہ میں" کے عنوان سے کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ علامہ مقصود علی ڈومکی نے اس موقع پر کہا کہ امام خمینیؒ نے امت مسلمہ کو طاقتور بننے کا راستہ دکھایا۔ اللہ کی ذات کے بعد آپ نے ہمیشہ عوامی طاقت پر بھروسہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ آپ کا یہ تاریخی جملہ ’’میزان، رائے ملت است‘‘ یعنی "پیمانہ ملت کی رائے ہے"، آج بھی اسلامی جمہوریہ کی سیاست کی بنیاد ہے۔ انہوں نے کہا کہ امام خمینیؒ نے اسلامی افواج کو طاقتور دیکھنا چاہا۔ فلسطین کے نہتے مجاہدین، جن کے ہاتھوں میں صرف پتھر اور غلیل تھے، انہی کے ہاتھوں میں رائفل، میزائل اور راکٹ لانچر دیئے تاکہ وہ اسرائیل جیسے غاصب کے مقابلے میں ڈٹ سکیں۔ امام خمینیؒ کی انقلابی فکر نے اسلامی جمہوریہ ایران کو اتنا مضبوط کر دیا کہ آج امریکہ اور اسرائیل اس پر حملہ کرنے سے پہلے سو بار سوچتے ہیں۔ علامہ مقصود ڈومکی نے کہا کہ اقتدار اور طاقتور دفاع کی تازہ مثال ہمیں وطن عزیز پاکستان میں دیکھنے کو ملی، جب بھارتی وزیراعظم مودی نے طاقت کے نشے میں پاکستان پر حملہ کیا، تو پاک فضائیہ کے بہادر جوانوں نے بھارتی جہازوں کو سرنگوں کرکے دشمن کو منہ توڑ جواب دیا۔ اگر پاکستان کا دفاع کمزور ہوتا تو دشمن مزید حملوں کا مرتکب ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ امام خمینیؒ کی فکر آج بھی دنیا بھر کے مظلوموں کے لیے امید کا چراغ ہے، اور امت مسلمہ کو چاہئے کہ وہ اپنے دفاع، معیشت، سیاست اور ٹیکنالوجی میں خودکفالت حاصل کرے تاکہ عالم کفر کے سامنے اپنا سر بلند رکھ سکے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: نے کہا کہ امام خمینی انہوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ علامہ مقصود ڈومکی نے کو طاقت
پڑھیں:
سائنس دانوں کی حیران کن دریافت: نظروں سے اوجھل نئی طاقتور اینٹی بائیوٹک ڈھونڈ لی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ویانا: سائنس دانوں نے ایک حیران کن دریافت کی ہے، ایک نیا اینٹی بائیوٹک جو پچاس سال سے موجود تھا لیکن ہر کسی کی نظروں سے اوجھل تھا۔
یہ نیا مرکب ”پری میتھلینومائسن سی لیکٹون“ (Pre-methylenomycin C lactone) کہلاتا ہے۔ ماہرین نے بتایا کہ یہ مشہور اینٹی بایوٹک ”میتھلینومائسن اے“ بننے کے عمل کے دوران قدرتی طور پر بنتا ہے، مگر اب تک اسے نظرانداز کیا جاتا رہا۔
یہ تحقیق یونیورسٹی آف واراِک اور موناش یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے مشترکہ طور پر کی اور اسے جرنل آف دی امریکن کیمیکل سوسائٹی (جے اےسی ایس) میں شائع کیا گیا ہے۔
یونیورسٹی آف واراِک اور موناش یونیورسٹی سے وابستہ پروفیسر گریگ چالس کے مطابق، ’میتھلینومائسن اے کو 50 سال قبل دریافت کیا گیا تھا۔ اگرچہ اسے کئی بار مصنوعی طور پر تیار کیا گیا، لیکن کسی نے اس کے درمیانی کیمیائی مراحل کو جانچنے کی زحمت نہیں کی۔ حیرت انگیز طور پر ہم نے دو ایسے درمیانی مرکبات شناخت کیے، جو اصل اینٹی بایوٹک سے کہیں زیادہ طاقتور ہیں۔ یہ واقعی حیرت انگیز دریافت ہے۔‘
اس تحقیق کی شریک مصنفہ اور یونیورسٹی آف واراِک کی اسسٹنٹ پروفیسر،ڈاکٹر لونا الخلف نے کہا، ’سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ نیا اینٹی بایوٹک اسی بیکٹیریا میں پایا گیا ہے جسے سائنس دان 1950 کی دہائی سے بطور ماڈل جاندار استعمال کرتے آرہے ہیں۔ اس جانی پہچانی مخلوق میں ایک بالکل نیا طاقتور مرکب ملنا کسی معجزے سے کم نہیں۔‘
تحقیق سے پتا چلا ہے کہ شروع میں S. coelicolor نامی بیکٹیریا ایک بہت طاقتور اینٹی بایوٹک بناتا تھا، لیکن وقت کے ساتھ اس نے اسے بدل کر ایک کمزور دوائی، میتھلینومائسن اے، میں تبدیل کر دیا، جو شاید اب بیکٹیریا کے جسم میں کسی اور کام کے لیے استعمال ہوتی ہے۔
ماہرین کے مطابق، یہ دریافت نہ صرف نئے اینٹی بایوٹکس کی تلاش میں ایک اہم پیش رفت ہے بلکہ اس بات کی یاد دہانی بھی کراتی ہے کہ پرانے تحقیقی راستوں اور نظرانداز شدہ مرکبات کا دوبارہ جائزہ لینا نئی دواؤں کے لیے نیا دروازہ کھول سکتا ہے۔