عید الاضحیٰ پر قربانی سے لیکر کھانے پکانے پرتک کن احتیاطوں کی ضرورت ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 4th, June 2025 GMT
بقرہ عید جسے نمکین عید بھی کہتے ہیں، گوشت کی مزیدار ڈشز کے حوالے سے یاد کی جاتی ہے۔ تاہم جانور ذبح ہونے سے لیکر گوشت بنانے، اسے محفوظ کرنے اور پکانے تک درج ذیل حفاظتی تدابیر پیش نظر رکھنا ضروری ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:عید الاضحیٰ کے روز ملک بھر میں موسم کیسا ہو گا؟
1.گوشت کی صفائی اور ذبح کے وقت:
۔ ذبح گاہ صاف ہو:جانور کو صاف اور جراثیم سے پاک جگہ پر ذبح کریں۔
۔ اوزاروں کی صفائی: چھری، تھال اور دیگر اوزاروں کو گرم پانی اور صابن سے دھوئیں۔
۔ جانور کی صحت یقینی بنائیں: بیمار یا غیر صحت مند جانور نہ ذبح کریں۔
2.
گوشت کی ہینڈلنگ اور ذخیرہ کرنے کا طریقہ:
۔ فوری پروسیس کریں: ذبح کے بعد گوشت کو 2 گھنٹے کے اندر فریج یا فریزر میں رکھ دیں۔
۔ ٹھنڈا رکھیں:اگر گوشت کا فوری استعمال نہیں کرنا تو اسے -18°C پر فریز کریں۔
۔ پلاسٹک/ایئر ٹائٹ کنٹینر استعمال کریں: گوشت کو کھلے میں نہ رکھیں، کیونکہ مکھیاں اور جراثیم حملہ آور ہو سکتے ہیں۔
3. گوشت پکانے اور کھانے میں احتیاط:
۔ اچھی طرح پکائیں: گوشت کو کم از کم 70°C درجہ حرارت پر پکائیں تاکہ تمام جراثیم مر جائیں۔
۔ زیادہ چکنائی والا گوشت کم کھائیں: دل، جگر اور گردے کو اعتدال میں کھائیں، خاص طور پر بلڈ پریشر یا کولیسٹرول کے مریض۔
۔ کچا یا نیم پکا گوشت نہ کھائیں: اس سے پیٹ کے انفیکشنز (مثلاً Salmonella, E. coli) کا خطرہ ہوتا ہے۔
4. صحت مند کھانے کی عادات:
۔ سبزیاں اور سلاد شامل کریں: گوشت کے ساتھ پودینے، کھیرے یا لیموں کا استعمال ہاضمے میں مددگار ہے۔
۔ زیادہ مصالحہ دار اور تلی ہوئی چیزوں سے پرہیز کریں: تلی ہوئی چیزیں (مثلاً کباب، تکے) معدے پر بوجھ ڈال سکتی ہیں۔
۔ پانی زیادہ پیئیں: گرمی کی وجہ سے ڈی ہائیڈریشن سے بچنے کے لیے روزانہ 8-10 گلاس پانی ضرور پیئیں۔
5. ماحولیاتی اور ذاتی حفاظت:
۔ کچرے کا مناسب انتظام: جانور کے فضلات اور خون کو فوری طور پر ٹھکانے لگائیں تاکہ بدبو اور بیماریاں نہ پھیلیں۔
۔ ہاتھ دھوئیں: گوشت ہینڈل کرنے سے پہلے اور بعد میں صابن سے 20 سیکنڈ تک ہاتھ دھوئیں۔
۔ زخموں کو ڈھانپیں: اگر ہاتھ پر کٹ لگا ہو تو گوشت ہینڈل کرتے وقت دستانے استعمال کریں۔
6. خصوصی ہدایات (حساس افراد کے لیے):
۔ دل کے مریض: سرخ گوشت کی بجائے مچھلی یا مرغی کا استعمال کریں۔
۔ ذیابیطس کے مریض: چربی والے گوشت سے پرہیز کریں اور پورشن کنٹرول کریں۔
۔ بچے اور بوڑھے: انہیں ہلکا پکا ہوا اور کم مصالحہ دار گوشت دیں۔
7. اجتماعی تقاریب میں احتیاط:
۔ بھیڑ سے گریز کریں: اگر COVID-19 یا دیگر وبائی امراض پھیل رہے ہوں تو سماجی دوری اختیار کریں۔
۔ کھانے کی شیئرنگ کم کریں: ایک دوسرے کے پلیٹ، کٹلری یا گلاس استعمال کرنے سے گریز کریں۔
عید کے موقع پر خوشی منائیں، لیکن اپنی اور دوسروں کی صحت کا خیال رکھیں۔ اگر کھانے کے بعد پیٹ درد، متلی یا بخار محسوس ہو تو فوری ڈاکٹر سے رجوع کریں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اجتماعی تقریب احتیاطی تدابیر بقرہ عید عیدالاضحیٰذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: احتیاطی تدابیر عیدالاضحی گوشت کی
پڑھیں:
قربانی۔۔۔ ہر کوئی لوٹنے میں مصروف
تاجروں اور دکانداروں کے لیے پہلے رمضان المبارک اور عیدالاضحی کمائی کا ذریعہ ہوتے تھے۔مہنگائی بڑھنے کے ذمے دار تاجر اور دکاندار حکومت کو ٹھہراتے ہی ہیں مگر ریٹیلر خود نرخ بڑھا کر بڑی ہول سیل مارکیٹوں کے مالکان اور تاجروں کو مہنگائی کا ذمے دار قرار دیتے ہیں کہ حکومتی افسران ان برے ہول سیلرز کو نہیں پوچھتے بلکہ جرمانے، چھاپے اور برائے نام گرفتاریاں صرف ہماری ہوتی ہیں۔
جب سے 18 ویں ترمیم کے بعد وفاق کے بہت سے اختیارات صوبوں کو منتقل ہوئے ہیں تو مہنگائی پر کنٹرول کا اختیار بھی صوبوں کو مل گیا ہے جنھوں نے یہ اختیار ضلعی انتظامیہ کو دے دیا ہے جس کو حکومت کے سیاسی مفادات کے تحفظ، امن و امان برقرار رکھنے اور حکومتوں کے سیاسی مخالفین پر حکومت مخالف مقدمات بنانے اور دیگر معاملات میں ہی فرصت نہیں تو وہ عوام کے اہم مسئلے مہنگائی پرکیوں توجہ دیں گے؟
حکومت، ارکان پارلیمنٹ کی طرح مہنگائی بیوروکریٹس کا بھی مسئلہ نہیں ہوتا اور ہر قسم کے اختیارات کے حامل ان بڑے افسروں کو نہ آٹے دال کا پتا ہوتا ہے نہ ملاوٹی اشیا اور مہنگائی کا، نہ وہ خریداری کرنے جاتے ہیں اور سرکاری طور پر ان کے گھروں میں کام کرنے والوں کو متعلقہ دکاندار اچھی طرح پہچانتے ہیں کہ وہ فلاں صاحب کا سامان خریدتے ہیں۔ اس لیے دکاندار انھیں معیاری اشیا کم نرخوں پر اور بعض دفعہ مفت بھی دے دیتے ہیں جس کی وجہ سے صاحب لوگوں کو پتا ہی نہیں چلتا کہ ان کے علاقوں میں گراں فروشی، مضر صحت اشیا و دیگر چیزوں پر عوام کو کس طرح لوٹ رہے ہیں۔
ہر صوبے میں ضلعی انتظامیہ صرف رمضان المبارک میں متحرک ہوتی ہے۔ چھاپوں، جرمانوں کے ذریعے سرکاری آمدنی میں اضافہ کر کے متعلقہ حکام گیارہ مہینے اپنے دفاتر سے ہی نہیں نکلتے تو انھیں کیا پتا کہ عوام کو مہنگائی کے ذریعے کس طرح لوٹا جا رہا ہے۔
عید قرباں پر سنت ابراہیمی کی ادائیگی کے لیے بھی بڑے افسران خود مویشی منڈیوں میں نہیں جاتے بلکہ اب تو بڑے لوگوں اور افسروں کے لیے جانوروں کے فارم ہاؤس بن گئے ہیں جہاں صاف ستھری جگہوں پر ان کے مہنگے اور خوبصورت جانور شامیانوں کے سائے، روشنی اور پنکھوں میں خریداروں کو متوجہ کرتے ہیں۔ پہلے یہ فارموں والے بڑے مویشی منڈی میں خصوصی انتظام کے تحت جانور فروخت کرتے تھے مگر اب انھوں نے مویشی منڈیاں چھوڑ کر اپنے فارم پر ہی جانوروں کو پالنے اور فروخت کرنے کا کاروبار شروع کر رکھا ہے جہاں وی آئی پیز آ کر منہ مانگے داموں مہنگے جانور خرید کر لے جاتے ہیں۔
مویشی منڈیاں اب متوسط طبقے کے لیے ہر سال خاص طور پر خریداروں کو لوٹنے کے لیے لگائی جاتی ہیں جو انتظامیہ کی بھی کمائی کا بڑا ذریعہ بن گئی ہیں جب کہ عام دنوں میں لگی رہنے والی منڈیاں الگ ہیں اور جو بڑی منڈیاں شہر سے باہر خصوصی طور پر عید قرباں کے لیے لگائی جاتی ہیں وہ نہ صرف مہنگی ہوتی ہیں بلکہ لوگوں اور فیملیز کی تفریح کا بھی ذریعہ بنی ہوئی ہیں۔
کراچی میں پہلے سپر ہائی وے پر ایشیا کی سب سے بڑی منڈی لگتی تھی جو اب ناردرن بائی پاس کے ویران علاقے میں لگتی ہے اور ڈاکوؤں کے لیے سیزن ہوتا ہے جہاں لوٹ مار، ڈکیتی بلکہ اب جانور چھین کر لے جانے کی بھی وارداتیں ہو چکی ہیں۔ منڈیوں میں مہنگے جانوروں کی خریداری پر کراچی انتظامیہ مجبور کرتی ہے کہ قربانی کے لیے جانور خریدنے والے شہر کی کم قیمت منڈیوں سے جانور نہ خریدیں بلکہ خصوصی مہنگی منڈیوں میں جا کر مہنگے جانور خریدیں اور آتے جاتے ڈکیتوں کے ہاتھوں لٹیں اور قربانی کرنے کی سزا بھگتیں۔
روزنامہ ایکسپریس کے مطابق کورنگی میں برسوں سے لگنے والی مویشی منڈی کا اجازت نامہ انتظامیہ نے منسوخ کر دیا ہے جو مقررہ طریقہ کار کے تحت انتظامیہ نے باقاعدہ نیلامی کے ذریعے 70 لاکھ روپے ادائیگی پر دیا تھا جو بلدیہ عظمیٰ کراچی نے وصول کیا مگر ایک عدالتی حکم پر منسوخ کر دیا گیا۔ بڑی منڈی کی انتظامیہ نہیں چاہتی کہ لوگ شہر میں جانور خریدیں اس لیے منڈی لگوا کر کمائی کرنے والے نہیں چاہتے کہ لوگ شہر سے کم قیمت پر جانور خریدیں۔ ہر مویشی ٹھیکیدار اور مویشی فروخت چاہتے ہیں کہ خریدار بڑی منڈی میں آ کر مہنگی خریداری کریں اور واپسی پر گائے خریداری پر بلدیہ عظمیٰ کو میونسپل ٹیکس کے پانچ سو روپے ادا کرے اور خریداری کے بعد ٹرانسپورٹ کا ہزاروں روپے کرایہ ادا کرکے جانور اپنے گھر لے جائے۔
منڈی میں جانور لانے والوں کو مختلف ٹیکس پہلے دینا پڑتا ہے اور وہ منڈی میں مقررہ ٹھیکیداروں سے ہر چیز مہنگی خرید کر وہ بھی خریداروں کو جانور مہنگا فروخت کرکے لوٹتے ہیں۔ اس طرح ہر ادارے نے عید قرباں کو کمائی کا ذریعہ بنا دیا ہے اور جانوروں کی خریداری بے حد مشکل بنا دی ہے تاکہ ضرورت مند قربانی ہی نہ کر سکیں یا لٹتے رہیں۔