Daily Ausaf:
2025-11-03@18:58:49 GMT

فتح کے گواہ مگر کریڈٹ سےخائف!

اشاعت کی تاریخ: 4th, June 2025 GMT

کامیابی کسی ایک فردیاادارےکا تنہاکارنامہ نہیں ہوتی۔ یہ درحقیقت اجتماعی کاوش، فکری ہم آہنگی، قربانی، مہارت اورعزم کا نچوڑ ہوتی ہے۔ جب کسی مہم میں کامیابی حاصل ہوتی ہے تو اس کا اخلاقی، پیشہ ورانہ اور تہذیبی تقاضا یہی ہوتا ہے کہ ہر کردار کو اس کی خدمات کے مطابق کریڈٹ دیاجائے، سراہاجائے، اور انصاف کے ساتھ اس کا مقام تسلیم کیا جائے۔’’کریڈٹ‘‘ محض انگریزی کالفظ نہیں، بلکہ یہ کسی کامیاب عمل یا کارکردگی کے پیچھے موجود دماغوں کو اعتراف کی وہ مالا پہناتا ہےجو معاشرتی انصاف اور تہذیب یافتہ رویوں کی بنیاد ہے لیکن افسوس، ہمارے معاشرے میں یہ وصف روز بروز مفقود ہوتا جا رہا ہے۔ حالیہ پاک-بھارت کشیدگی اس بات کی واضح مثال ہے۔چھ اور سات مئی کی درمیانی شب بھارت نےپاکستان کی فضائی اورزمینی حدودکی سنگین خلاف ورزی کرتے ہوئےشہری آبادیوں کو میزائل حملوں کانشانہ بنایا۔ دشمن نےسوچا تھاکہ رات کی تاریکی، غافل قوم اوربکھرا دفاع انکی بزدلانہ چال کوکامیاب بنادے گامگر یہ ان کی بھول ثابت ہوئی۔پاکستان کی افواج نےنہ صرف ان حملوں کوناکام بنایابلکہ دشمن کوایسامنہ توڑ جواب دیاکہ دنیاحیرت زدہ رہ گئی۔ پاکستان کےایئرڈیفنس سسٹم ،ریڈار، کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹرزاور جنگی تیاریوں کی چابک دستی نےدشمن کےعزائم خاک میں ملادیئے۔
یہی نہیں، اگلے دن دشمن نے درجنوں نہیں، سینکڑوں ڈرونز پاکستانی فضائوں میں چھوڑ کر پوری قوم کو خوفزدہ کرنےکی کوشش کی مگر ہم نےدیکھا کہ یہ قوم ڈرنے والی نہیں۔ یہ وہ قوم ہے جو دشمن کو للکارنےکاحوصلہ رکھتی ہے۔ لوگ گھروں کی چھتوں پر چڑھ کر دشمن کےڈرونز پرفائرنگ کرتےنظرآئے۔نوجوانوں، بزرگوں، حتی کہ بچوں تک میں ایسا جوش و جذبہ نظر آیاجو شاید ہی دنیا میں کسی قوم میں دیکھاگیا ہو۔ وہ مناظر یوں لگ رہے تھے جیسے بسنت کاتہوارہو، فرق صرف یہ تھاکہ آسمان پرپتنگیں نہیں بلکہ دشمن کے ڈرونز تھے،اور قوم انہیں گراکر اپنی حب الوطنی کاعملی مظاہرہ کررہی تھی۔
آٹھ اورنومئی کی شب دشمن نےایک بار پھر ہماری غیرت کو للکارا،جب اس نے پاکستانی شہروں کو میزائلوں سے نشانہ بنانےکی کوشش کی لیکن ہماری افواج،خاص طور پر ایئر فورس اورایئرڈیفنس یونٹس نےایک بارپھر دشمن کے ہروارکو ناکام بناکر ثابت کردیا کہ یہ سرزمین نہ صرف غیرت مندہےبلکہ مکمل طورپرمحفوظ ہاتھوں میں ہے۔ لائن آف کنٹرول پر دشمن کی کئی چوکیاں تباہ کی گئیں۔بھارتی فوج کوکئی مقامات پرپوزیشن چھوڑ کر پسپائی اختیارکرناپڑی جہاں ہماری فوج نےسبز ہلالی پرچم لہراکر ایک نئی تاریخ رقم کی۔
یہ ساری داستان صرف ایک جنگ کی نہیں،یہ پاکستانی قوم کی غیرمعمولی مزاحمت، عسکری مہارت،اور یکجہتی کا عکس ہے۔ دنیا بھر کےتجزیہ نگاراس بات کااعتراف کرچکے ہیں کہ پاکستان نےمحدود وسائل،بیرونی دبائو اور داخلی چیلنجز کےباوجودجس ذمہ داری، دلیری اورسوجھ بوجھ سےدشمن کو شکست دی، وہ قابلِ تحسین ہےلیکن افسوس، ملک کے اندر ایک ایساطبقہ بھی موجود ہےجو اس کامیابی کے باوجودشش و پنج جیسی الجھن میں مبتلا ہےکہ آخر اس فتح کاکریڈٹ دے توکسے؟
یہی وہ اصل مسئلہ ہے۔ کریڈٹ دینےمیں کنجوسی،تنگ نظری اوربغضِ مسلسل کا مظاہرہ کیاجا رہا ہے۔ ایک مخصوص حلقہ جو گزشتہ کچھ برسوں سےافواجِ پاکستان اورموجودہ حکومت کےخلاف زہرافشانی کررہاہے،آج اس کامیابی کوتسلیم کرتےہوئےبھی تذبذب کاشکار ہے ۔ وہ لوگ جو دشمن کےمیڈیا پر بیٹھ کرپاکستان کےموقف کی تضحیک کرتےرہے،جو پاک فوج کوبدنام کرنےکاکوئی موقع ہاتھ سےجانےنہیں دیتے، وہ آج عجیب ذہنی کشمکش کاشکارہیں، کیونکہ سچ ان کے بیانیے کو جھٹلارہا ہے۔ایک نام نہاد انقلابی خاتون نےجنگ کے آغاز پر پاک فوج کی طرف اشارہ کرتےہوئےکہا’’اب پتہ چلے گا تمہاری اصلیت کیاہے‘‘۔چلوتیارہوجاواب بارڈر پہ جانےکےلئے۔انکے الفاظ انکی ذہنی ساخت اورخاص بغض کی عکاسی کررہےتھےیہ خواہش کہ فوج ناکام ہو،یہ حسرت کہ پاکستان مشکل میں پڑےمگرخدا کےفضل سےنہ صرف پاکستان محفوظ رہابلکہ اسکی فوج نےتاریخ رقم کردی۔اب ایسےعناصر کریڈٹ دینےسےقاصرہیں، کیونکہ ایسا کرنےسے انکابیانیہ اورسیاسی مفاد زمین بوس ہوجائےگا۔
اسی طرح ایک اور موصوف جوقانونی ماہربھی ہے، نے اعتراض اٹھایا کہ جب بری فوج نے کوئی زمینی کارروائی نہیں کی تو اس کے سربراہ کوفیلڈ مارشل کیسے بنادیاگیا؟ یہ بیان یا تو لاعلمی کی انتہاہےیابغض کی، کیونکہ حقیقت یہی ہےکہ زمینی کارروائیاں ہوئیں، دشمن کی چوکیوں کو نشانہ بنایاگیا،اورکئی مقامات پرہماری زمینی افواج نے براہِ راست شرکت کی۔
یہ سب کچھ ثابت کرتا ہےکہ کریڈٹ نہ دینے والےدراصل ایک خاص ذہنی تذبذب میں مبتلا ہیں۔ ان کےپاس اب نہ کوئی موثردلیل بچی ہے، نہ ہی سچائی کاسامناکرنے کاحوصلہ۔ ان کی سیاسی ساکھ،بیانیہ اورتنقیدی شناخت زمین بوس ہوچکی ہے، اور یہی حقیقت ان کے بیانات، تحریروں اور تجزیوں سے عیاں ہو رہی ہے۔
مزیدشرمناک بات یہ ہے کہ یہ عناصر سوشل میڈیا پر من گھڑت خبروں، جھوٹے دعووں اور جعلی تجزیوں کےذریعے عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں مگر اب قوم باشعور ہو چکی ہے۔ وہ جان چکی ہےکہ خواب بیچنے والےکون ہیں اورتعبیر فراہم کرنےوالے کون۔حال ہی میں ایک ضمنی انتخاب میں عوام نےجس دانائی اورفہم و فراست کامظاہرہ کیا، وہ قابلِ تقلیدمثال ہے۔ ووٹرز نےکارکردگی،حب الوطنی اورخدمت کےجذبے کوووٹ دیا،اورنفرت، جھوٹ، منفی پروپیگنڈےاورادارہ دشمن بیانیےکو یکسر مستردکر دیا۔ عوام نے ثابت کر دیا کہ وہ صرف سننے والےنہیں، دیکھنے اور سمجھنے والےبھی ہیں۔آخر میں یہی کہناچاہوں گا کہ کسی سے کریڈٹ چھین لینا یااسے محروم رکھنا صرف ایک اخلاقی جرم نہیں بلکہ ایک قومی سانحہ ہے۔ اگر ہم اپنے محسنوں کااعتراف نہیں کریں گےتو آنےوالی نسلیں ہم پرہنسیں گی۔ ہمیں چاہیےکہ سچ کو سچ کہیں، حق دارکو حق دیں، اور قوم کےان عظیم بیٹوں کو سلام پیش کریں جنہوں نے اپنی جانوں کوخطرے میں ڈال کر ہمیں سکون کا سانس دیا۔کریڈٹ دیجیے، کیونکہ یہ محض الفاظ نہیں، بلکہ وہ دعا ہےجو کسی کے دل کو زندگی بخش سکتی ہے اور کسی قوم کو عظمت کا راستہ دکھا سکتی۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: دشمن کے

پڑھیں:

تجدید وتجدّْد

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

 

 

3

مْجدِّد یقینا اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ظہور میں آتا ہے‘ وہ ماضی کے علمی ذخیرہ سے انحراف کرتا ہے اور نہ پہلے سے تسلسل کے ساتھ روبہ عمل مسلّمہ فقہی اصولوں سے تجاوز کرتا ہے‘ بلکہ وہ جدید پیش آمدہ مسائل کو بھی دین کے مسلَّمات سے انحراف کیے بغیر حل کرنے کی سعی کرتا ہے اور ماضی کی علمی وفقہی روایت سے رشتہ توڑنے کے بجائے اسی تسلسل کو قائم رکھنا ہی اس کی تگ ودو کا سب سے بڑا ہدف ہوتا ہے۔ اب تک امت میں جن بزرگوں کو مْجدِّددین کی فہرست میں مسلَّمہ طور پر شامل سمجھا گیا ہے‘ ان میں سے ہر ایک کی محنت کا فرداً فرداً جائزہ لیا جائے تو بھی سب کی محنت کا ایک ہی محور دکھائی دے گا کہ حال کو ماضی سے جوڑ کر رکھا جائے۔

متحدہ ہندوستان میں اکبر بادشاہ کو جب مْجدِّد اعظم اور مْجتہد اعظم کا لقب دے کر اس سے دین کے پورے ڈھانچے کی تشکیلِ جدیدکی درخواست کی گئی تو اس کے ساتھ یہ تصور بھی شامل تھا کہ دین اسلام کی پرانی تعبیر وتشریح کو ایک ہزار سال کا عرصہ گزر چکا ہے‘ اس لیے اگلے ہزار سال کے لیے نئی تعبیر وتشریح کے ساتھ دین کے نئے ڈھانچے کی تشکیل ضروری ہو گئی ہے‘ جو اکبر بادشاہ نے ’’دینِ الٰہی‘‘ کے نام سے پیش کی۔ جبکہ اس مکر وفریب کے تار وپود کو بکھیرنے میں شیخ احمد سرہندی نے مسلسل محنت کر کے فقہ وشریعت کی اصل روایت کو باقی رکھنے کی کامیاب جدوجہد کی۔ اس پس منظر میں انہیں ’’مجدّدِ الفِ ثانی‘‘ کا خطاب دیا گیا کہ اگلے ہزار سال میں بھی اکبر بادشاہ کی پیش کردہ تعبیر وتشریح کے بجائے وہی پرانی اِجماعی تعبیر وتشریح ہی چلے گی جس کی نمائندگی شیخ احمد سرہندی کر رہے تھے اور الحمدللہ! اب تک عملاً ایسا ہی ہو رہا ہے۔ ان کی بابت علامہ اقبال نے کہا: ’’گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے؍ جس کے نفَسِ گرم سے ہے گرمیِ احرار ٭ وہ ہِند میں سرمایہ؍ ملّت کا نِگہباں؍ اللہ نے بروقت کیا جس کو خبردار‘‘۔

مغل بادشاہ جلال الدین اکبر کو اس کے نو رتنوں (چاپلوس درباریوں) نے یہ باور کرایا کہ وہ اسلام‘ ہندومت‘ بدھ مت وغیرہ تمام ادیان کے من پسند اجزا کو جمع کر کے ایک نیا دین وضع کریں جو اْن کے نام سے منسوب ہو اور ’’اکبر شاہی دینِ الٰہی‘‘ کا لیبل لگا کر اسے رائج کیا جائے۔ یہ ’’وحدتِ ادیان‘‘ کا ایک فتنہ تھا اور ہر دور میں رنگ بدل بدل کر اس کی مارکیٹنگ کی جاتی ہے‘ گویا ’’کہیں کی اینٹ‘ کہیں کا روڑا‘ بھان متی نے کنبہ جوڑا‘‘۔ اس کے نو رتنوں میں راجا بیربل‘ ابوالفیض فیضی‘ ابوالفضل‘ تان سین‘ عبدالرحیم المعروف خانِ خاناں‘ راجا مان سنگھ‘ ابوالحسن المعروف ملا دو پیازہ‘ راجا ٹوڈرمل اور مرزا عزیز کوکلتاش تھے۔ رتن کے معنی ہیں: ’’ہیرا‘‘۔ اس کے برعکس مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر نے علماء کی ایک مجلس تشکیل دی اور فقہِ حنفی پر مشتمل ایک جامع کتاب ’’فتاویٰ عالمگیری‘‘ مرتب کرائی‘ جس میں انفرادی اور اجتماعی زندگی کے تمام شعبوں کے بارے میں شرعی احکام یکجا ہو گئے۔

تجدّْد پسندوں کا گروہ ایک طرف تو اپنی تجدد پسندی کو تجدید کا نام دے کر سندِ جواز فراہم کرنے کی کوشش کرتا ہے تو دوسری طرف دین اسلام کے بیان کردہ حقائق کے وزن کو گھٹانے کے لیے تسلسل اور توارث کے ساتھ منتقل ہونے والے اصل دین اور اس کے حقیقی مفہوم وتفسیر کو جو سلفِ صالحین سے تعامل وتوارث کے ساتھ چلی آ رہی ہوتی ہے‘ اْسے روایتی فکر کا نام دیتا ہے۔ روایتی فکر کی اس تعبیر میں دراصل ایک قسم کا طنز پوشیدہ ہے اور یہ تعبیر بالکل مغربی مصنّفین کی اس تعبیر سے قریب ہے جو اسلام کو رَجعت پسندی اور دقیانوسیت قرار دیتے ہیں۔ یہ تجدّد پسند حضرات شاید یہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح تہذیب ترقی کے مدارج طے کرتی ہے‘ اسی طرح مذہب کو بھی ترقی کرنی چاہیے۔ حالانکہ دینِ اسلام سراپا تسلیم ورضا کا نام ہے‘ اس میں جدت کے نام پر بدعت کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور نہ کسی نئی تعبیر یا تفسیر کی ضرورت ہے۔ البتہ جدید نادر مسائل کا حل بھی پرانے مسائل ہی میں تلاش کیا جائے گا‘ اْنہیں قیاس کے ذریعے یا نصوص کے عموم سے یا اْصول فقہ کے قواعد کی روشنی میں حل کیا جائے گا۔ سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا: ’’تم طے شدہ طریقے پر چلو اور نئی نئی باتوں کے چکر میں نہ پڑو‘ کیونکہ تمہیں ایسی کسی بھی جدت سے بے نیاز کر دیا گیا ہے‘‘۔ (سننِ دارمی)

آپ تجدّْد پسندوں کا گہری نظر سے جائزہ لیں تو ان کے اندر یہ بات قدرِ مشترک ہے کہ ان میں سے اکثر کا حدیث وسنت کا علم سطحی درجے کا ہوگا۔ بعض تو اس سطحی علم سے بھی کورے ہوں گے‘ الٹا وہ یہ باور کرائیں گے کہ ان کو حدیث کی روایت سے آگے کی چیز‘ یعنی عقلیت وتجدّْد پسندی حاصل ہے‘ اس لیے ان سے روایتِ حدیث کی بابت سوال کرنا دراصل سائل کی کم فہی یا کج فہمی کی دلیل ہے۔ ساتھ ہی وہ یہ بھی باور کرائیں گے کہ جس شعور وآگہی کے ہم حامل ہیں‘ علماء کا طبقہ اس سے محروم ہے‘ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ علما ان وادیوں سے بخوبی واقف ہیں‘ جن وادیوں کے شناسا یہ تجدّد پسند ہیں اور اس سفر کے انجام سے بھی باخبر ہیں‘ اس لیے وہ اس راہ پر نہیں چلتے جو تجدّد پسندوں کی نظر میں شاہراہ ہے‘ وہ اسے بدعت یا آزاد خیالی سمجھتے ہیں‘ جیسا کہ آوارہ منش شعرا کے بارے میں قرآنِ کریم میں ہے: ’’اور (آوارہ) شاعروں کی پیروی گمراہ لوگ کرتے ہیں‘ کیا آپ نے انہیں دیکھا نہیں کہ وہ ہر وادی میں بھٹکتے پھرتے ہیں اور بیشک وہ جو کچھ کہتے ہیں‘ اس پر عمل نہیں کرتے‘‘۔ (الشعراء: 224 تا 226)۔ پاکستان کے حکمرانوں میں لبرل ازم اور آزاد روی کے پْرجوش علمبردار جنرل پرویز مشرف نے اسی کو ’’اعتدال پر مبنی روشن خیالی‘‘ کا نام دیا تھا۔

الغرض انہی خطرات کا ادراک کرتے ہوئے عمر بن عبدالعزیزؒ نے فرمایا تھا: ’’تم دین کے معاملہ میں خود کو وہاں پر روک لو‘ جہاں وہ (سلَف صالحین) رک گئے تھے‘ کیونکہ وہ علم رکھتے ہوئے رکے ہیں اور گہری نظر کی وجہ سے باز آ گئے ہیں۔ حالانکہ وہ ان باتوں پر سے پردہ اٹھانے کی پوری علمی صلاحیت رکھتے تھے اور اگر ایسا کرنا کوئی فضیلت کی بات ہوتی تو وہ اس کے زیادہ اہل تھے۔ اگر تم کہتے ہو کہ یہ (تجدّد پسندی) ان کے دور کے بعد وجود میں آئی ہے تو پھر جان لو کہ یہ ایسے ہی شخص کی ایجاد ہے جو ان کے راستے سے ہٹ کر چل رہا ہے اور ان کے طریقے سے منہ موڑ رہا ہے۔ سلَفِ صالحین نے اس دین کے وہ مَبادیات‘ اصولی عقائد اور مسلّمات بتا دیے ہیں جو کافی وشافی ہیں اور دین کے جتنے مسائل کی انہوں نے وضاحت کر دی ہے وہ کافی ہے۔ ان سے آگے بڑھ کر کوئی معرکہ سر ہونے والا نہیں ہے اور ان سے پیچھے رہ جانے سے بڑی کوئی تقصیر نہیں ہے۔ بعض لوگوں نے ان سے پیچھے رہ جانا پسند کیا تو وہ جفاکار ہوئے اور بعض لوگوں نے ان سے آگے بڑھ جانا چاہا تو غْلوّ کا شکار ہوئے اور سلَفِ صالحین اِفراط وتفریط اور غْلْو وجفا کے مابین ہمیشہ توسط واعتدال کی راہ پر گامزن رہے ہیں‘‘۔ (ابودائود) علامہ اقبال نے بھی اسی فکر کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا: اجتہاد اندر زمانِ اِنحطاط ؍ قوم را برہم ہمی پیچد بساط…زِاجتہادِ عالمانِ کم نظر ؍ اِقتدا بر رفتگاں محفوظ تر

مفہومی ترجمہ: ’’زوال کے زمانے میں (کم نظروں اور کم ہمتوں کا) اجتہاد امت کے نظم وضبط کی بساط کو لپیٹ دیتا ہے اور کم نظر عالموں کے اجتہاد کے مقابلے میں گزشتہ بزرگوں کی اقتدا (دین کے لیے) زیادہ محفوظ حکمتِ عملی ہے‘‘۔

غامدی صاحب کے استاذ امام مولانا امین احسن اصلاحی نے بھی تدبرِ قرآن کی نویں جلد کے دیباچے میں سیدنا علیؓ کا یہ قول کسی حوالے کے بغیر نقل کیا ہے: ترجمہ: ’’اس امت کے پچھلے دور کے لوگ بھی اسی چیز سے اصلاح پائیں گے‘ جس سے دورِ اول کے لوگ اصلاح پذیر ہوئے‘‘۔ (الریاض النضرۃ فی مناقب العشرۃ)۔

(جاری)

مفتی منیب الرحمن

متعلقہ مضامین

  • لبنان دشمن کے ساتھ مذاکرات کرنے پر مجبور ہے، جوزف عون
  • ہم ہر قسم کے جواب کے لیے تیار ہیں، ایرانی مسلح افواج کی دشمن کو وارننگ
  • 9 مئی؛ زمان پارک میں پولیس کی گاڑیاں جلانے کے مقدمے میں گواہ طلب
  • سانحہ9 مئی؛ زمان پارک میں پولیس کی گاڑیاں جلانے کے مقدمے میں گواہ طلب
  • معرکہ 1948، گلگت بلتستان کی آزادی کی داستان شجاعت غازی حوالدار بیکو کی زبانی
  • دشمن کو رعایت دینے سے اسکی جارحیت کو روکا نہیں جا سکتا، حزب اللہ لبنان
  • میرا لاہور ایسا تو نہ تھا
  • جرات، بہادری و ہمت کے نشان، غازیانِ گلگت بلتستان کو سلام
  • پارا چنار حملہ کیس، راستہ دوسرے ملک سے آتا ہے، دشمن پہچانیں: سپریم کورٹ
  • تجدید وتجدّْد