ایلون مسک نے ڈونلڈ ٹرمپ کے مجوزہ اخراجات بل کو’ ’گھناﺅنی حرکت“ قراردے دیا
اشاعت کی تاریخ: 4th, June 2025 GMT
واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔04 جون ۔2025 )دنیا کے امیر ترین شخص اور امریکی صدر کی الیکشن مہم میں سب سے زیادہ چندہ دینے والے ایلون مسک وائٹ ہاﺅس چھوڑنے کے بعد دوبارہ ٹرمپ مخالف رویہ اپنارہے ہیں فرانسیسی نشریاتی ادارے کے مطابق ”ڈوج“کے سربراہ کا عہدہ چھوڑنے سے چند دن بعد ہی ایلون مسک نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مجوزہ اخراجات کے بل کو’ ’گھناﺅنی حرکت“ قراردیتے ہوئے نشانہ بنایا ہے.
(جاری ہے)
انہوں نے وائٹ ہاﺅس کے بل کو نشانہ بنایا ہے جس میں صحت اور غذائی امداد کے پروگراموں میں کئی گنا کٹوتیوں کے باوجود 10 سالہ مدت کے دوران امریکی خسارے میں 30 لاکھ ڈالر کے اضافے کی تجویز دی گئی ہے تاہم ایلون مسک کی پچھلی تنقید کو مسترد کردیا گیا تھا کیونکہ ٹرمپ کے محکمہ برائے حکومتی کارکردگی (ڈوج) ٹاسک فورس کے سابق سربراہ ان معاملات پر منفی تبصرے کر رہے ہیں جو ان کی لاگت میں کمی کی کوششوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں.
ایلون مسک نے کہا کہ یہ بل جس پر کانگریس میں غور کیا جارہا ہے شہریوں پر ناقابل برداشت قرضوں کا بوجھ ڈالے گا دونوں جانب سے بیان بازی میں اضافے سے وائٹ ہاﺅس اور ایلون مسک کے درمیان تلخی واضح انداز میں نظرآنا شروع ہوگئی ہے حالانکہ ایلون مسک نے صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم کے لیے تقریباً 30 کروڑ ڈالر کی فنڈنگ بھی کی تھی لیکن اب وہ مایوسی کا اظہار کرتے دکھائی دے رہے ہیں. وائٹ ہاﺅس کی پریس سیکرٹری کیرولین لیویٹ نے صحافیوں سے گفتگو میں ایلون مسک کے ٹویٹ پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ صدر ٹرمپ پہلے ہی جانتے ہیں کہ ایلون مسک اس بل پر کہاں کھڑے تھے اس سے ان کی رائے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے انہوں نے کہا کہ ”یہ ایک بڑا خوبصورت بل ہے“ اور صدراس پر قائم ہیں اگرچہ دنیا کے سب سے امیر ترین شخص نے ٹرمپ انتظامیہ سے دستبرداری اختیار کرلی ہے لیکن ان کا رشتہ اس وقت بھی مضبوط نظر آیا جب ریپبلکن صدر نے اپنے ساتھی ارب پتی کی ”ناقابل یقین خدمات‘ ‘کی تعریف کی. ڈونلڈ ٹرمپ نے یہاں تک اصرار کیا کہ ایلون مسک ہنگامہ خیز چار مہینوں کے بعد بھی انہیں حقیقی طور پر نہیں چھوڑ رہے جس مدت کے دوران بزنس ٹائیکون نے ہزاروں ملازمتیں ختم کیں، کئی ایجنسیوں کو مکمل طور پر بند کردیا اور غیر ملکی امداد میں کمی کی ماضی میں مسک نے صدر ٹرمپ کے مصنوعی ذہانت کے ایک منصوبے کو نشانہ بناتے ہوئے ایکس پر پیغام میں اسے ناقابل عمل قراردیا تھا وہ وائٹ ہاﺅس میں اس منصوبے کی نقاب کشائی کی تقریب میں بھی شریک نہیں ہوئے تھے .ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ایلون مسک نے وائٹ ہاﺅس ٹرمپ کے رہے ہیں
پڑھیں:
ضرورت پڑی تو دوبارہ حملہ کردیں گے، ڈونلڈ ٹرمپ کی ایران کو دھمکی
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران پر دوبارہ حملے کی دھمکی دے دی۔ ٹرتھ سوشل پلیٹ فارم پر ایران کے وزیرخارجہ عباس عراقچی کے بیان پر سخت ردعمل کا اظہار کیا۔
ایرانی جوہری تنصیبات پر امریکی حملوں کا دفاع کرتے ہوئے تہران کو متنبہ کیا کہ اگر ضرورت پڑی تو واشنگٹن دوبارہ حملہ کرے گا۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم ”ٹروتھ سوشل“ پر ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ امریکی فضائی حملے ایران کی جوہری تنصیبات کو “صفحۂ ہستی سے مٹا چکے ہیں اور اگر ضرورت پڑی تو امریکا دوبارہ حملہ کرنے میں ہچکچاہٹ نہیں کرے گا۔
ٹرمپ کا یہ بیان ایرانی نائب وزیر خارجہ عباس عراقچی کے اس اعتراف کے بعد سامنے آیا جس میں انہوں نے امریکی و اسرائیلی بمباری کے باعث ایرانی جوہری تنصیبات کو ”شدید نقصان“ پہنچنے کا اعتراف کیا۔
عراقچی کے مطابق ایران کا جوہری پروگرام فی الحال رک چکا ہے، لیکن ایران یورینیم کی افزودگی سے کبھی دستبردار نہیں ہوگا۔
حملے کے بعد صدر ٹرمپ کی ایران کو سخت وارننگ: ’جوابی کارروائی پر پہلے سے کہیں زیادہ شدید طاقت کا مظاہرہ کریں گے‘
واضح رہے کہ 2 جون کو امریکی فضائیہ نے B-2 بمبار طیاروں کے ذریعے ایران کے حساس ترین جوہری مقامات ، نطنز، فردو اور اصفہان کو نشانہ بنایا۔ ان حملوں میں فردو کا وہ زیرِ زمین مرکز بھی شامل تھا جو نصف میل گہرائی میں واقع ہے۔
سی آئی اے، امریکی محکمہ دفاع اور بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی نے ان حملوں کو ”ایران کے ایٹمی ڈھانچے کے لیے کاری ضرب“ قرار دیا ہے۔
سی آئی اے ڈائریکٹر جون ریٹکلف کے مطابق، 18 گھنٹوں میں 14 انتہائی طاقتور ”بنکر بسٹر“ بم گرائے گئے، جنہوں نے زیرِ زمین تنصیبات کو تباہ کر دیا۔ بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے سربراہ رافائل گروسی نے بھی اس نقصان کو ”انتہائی شدید“ قرار دیا۔
اسرائیلی جوہری توانائی ادارے نے بھی تصدیق کی ہے کہ فردو کا مقام ”ناقابلِ استعمال“ ہو چکا ہے جبکہ نطنز میں سینٹری فیوجز ناقابلِ مرمت ہیں۔ ان کے مطابق ایران حملوں سے پہلے افزودہ یورینیم کو منتقل کرنے میں ناکام رہا، جس سے اس کے ایٹمی عزائم کو کئی سال پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔
دوسری جانب، ایران نے ان حملوں کو اپنی خودمختاری پر حملہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگرچہ پروگرام متاثر ہوا مگر افزودگی سے پیچھے ہٹنا ممکن نہیں۔
عباس عراقچی نے یہ بھی واضح کیا کہ ایران فی الوقت امریکہ سے کسی قسم کے مذاکرات کا ارادہ نہیں رکھتا۔