Islam Times:
2025-07-25@14:16:39 GMT

یورپ جنگ کے دہانے پر ہے، تجزیہ کار

اشاعت کی تاریخ: 4th, June 2025 GMT

یورپ جنگ کے دہانے پر ہے، تجزیہ کار

ایران کے معروف تجزیہ کار حنیف غفاری نے اپنے تجزیے میں اس بات پر زور دیا ہے کہ یورپ روز بروز جنگ کے خطرے سے قریب ہوتا جا رہا ہے اور اب وہاں ڈیٹرنس کی جگہ جنگ نے لے لی ہے جبکہ یورپی ممالک ممکنہ جنگ کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ یورپ کے امور کے ماہر اور تجزیہ کار حنیف غفاری اپنے تازہ ترین کالم میں لکھتے ہیں: "یورپ میں ڈیٹرنس کی جگہ جنگ نے لے لی ہے۔ پولینڈ اور بالٹک ممالک بیرونی خطرات کے مقابلے میں اپنی حفاظت کے لیے یورپی یونین کی سرحدوں پر ٹینک تعینات کر رہے ہیں اور مائنیں بچھانے میں مصروف ہیں۔ اس دورا لتھوانیہ نے اپنے تعلیمی نصاب میں فوجی کتابوں کا اضافہ کر دیا ہے اور انہیں لازمی قرار دے دیا ہے جبکہ جرمنی نے بھی اپنی فوجی ڈاکٹرائن میں تبدیلی کا اعلان کیا ہے۔ پولینڈ، لتھوانیہ، لیٹونیا، اسٹونیا اور فن لینڈ جیسے ممالک بھی روس کے ساتھ مشترکہ سرحد رکھتے ہیں۔ ان ممالک نے روس اور بلاروس کی سرحد پر "اژدھا کے دانت" نامی کنکریٹ کی دیواریں تعمیر کرنا شروع کر دی ہیں۔ یہ دیواریں ٹینکوں کو روکنے کے لیے ہیں۔ لتھوانیہ اس طرح یورپی یونین کی کچھ سرحدوں کی حفاظت کرنے میں مصروف ہے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ یہ دیواریں 2028ء تک مکمل کر لی جائیں گی۔ مذکورہ بالا مطالب سے ظاہر ہوتا ہے کہ آج کا یورپ پوری طرح جنگ کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ لیکن یہاں ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یورپ کی جنگ اور بدامنی کی جانب واپس پلٹ جانے کی بنیادی وجہ کیا ہے؟ کیا اس کا حقیقی سبب روس ہے یا "نیٹو کے توسیع پسندانہ عزائم" ہیں؟
 
حقیقت یہ ہے کہ یورپ اس سبز براعظم میں جنگی حالات پیدا ہونے میں دیگر ممالک میں مداخلت پر مبنی اپنی خطرناک پالیسیوں کو نظرانداز نہیں کر سکتا اور یوں روس کو موجودہ حالات کا قصوروار نہیں ٹھہرا سکتا۔ مغربی ذرائع ابلاغ روس کی جانب سے "مشرق کی جانب نیٹو کے توسیع پسندانہ عزائم" کے مقابلے میں ردعمل کو ایک بے رحمانہ اقدام قرار دیتے ہیں لیکن اپنے جارحانہ اقدامات اور پالیسیوں کے بارے میں کوئی بات نہیں کرتے۔ جب یورپی یونین تشکیل پائی تھی تو اس کا بنیادی مقصد براعظم یورپ میں نئے بحران جنم لینے کی روک تھام کرنا تھا۔ لیکن خود یورپی حکمران ہی مختلف قسم کے اسٹریٹجک اور سیکورٹی بحرانوں کی پیدائش کا سبب بن گئے۔ یہی بحران آج یوکرین جنگ کی صورت میں ظاہر ہوئے ہیں اور اس کی بنیادی ترین وجہ نیٹو فوجی اتحاد کی جانب سے روس کا اسٹریٹجک گھیراو کرنے پر اصرار تھا۔ دوسری طرف یوکرین میں جنگ بندی اور امن میں اصل رکاوٹ بھی یورپی حکمران ہی ہیں کیونکہ انہوں نے یوکرین جنگ کے ابتدائی مہینوں میں جنگ بندی کے لیے مذاکرات منعقد ہی نہیں ہونے دیے اور اس وقت بھی وہ روس کو یہ یقین دہانی دینے پر تیار نہیں کہ جنگ بندی کے بعد روس کے قریبی علاقوں میں مداخلت پر مبنی پالیسیاں اور اقدامات ختم کر دیں گے۔
 
یورپی حکمران اپنے براعظم میں جنم لینے والے ماضی، حال اور اور مستقبل کے بحرانوں کے حقیقی ذمہ دار ہیں۔ انہوں نے ڈیٹرنس اور مداخلت کے مفاہیم کو آپس میں گڈ مڈ کر دیا ہے اور "مداخلت پسندی" نام کی خطرناک ترکیب تشکیل دے دی ہے۔ یہی خطرناک نتیجہ یوکرین جنگ کا باعث بنا ہے اور مستقبل میں بھی نئی جنگوں کا باعث بنتا رہے گا۔ یوکرین جنگ اور موجودہ بحرانوں کے خاتمے کا واحد راہ حل بھی یہی ہے کہ یورپی حکمران "امن پر استوار ڈیٹرنس" پر توجہ مرکوز کریں اور پوٹینشل جنگوں سے گریز کریں۔ جب تک یورپی حکمران اپنی اس حکمت عملی کو تبدیل نہیں کرتے اس وقت تک بحرانی حالات جاری رہیں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ براعظم یورپ اپنی خطرناک غلطیوں کا ملبہ روس یا دیگر غیر یورپی قوتوں پر نہیں ڈال سکتا۔"

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: یورپی حکمران یوکرین جنگ ہے کہ یورپ میں مصروف کی جانب دیا ہے ہے اور

پڑھیں:

’اداکار نہیں بن سکتے‘ کہنے والوں کو قہقہوں سے جواب دینے والے ورسٹائل ایکٹر محمود

بھارتی فلم انڈسٹری کے لیجنڈ اداکار اور مزاح کے بادشاہ محمود نے وہ مقام حاصل کیا جو صرف مسلسل جدوجہد، بے پناہ صبر اور خالص جذبے سے ممکن ہوتا ہے۔ جنہیں کبھی کہا گیا کہ یہ اداکار بننے کے قابل نہیں، وہی محمود ایک دن سینما اسکرین پر قہقہوں کا راج لے کر آئے اور تقریباً 300 فلموں میں اپنی موجودگی سے لوگوں کو ہنسانے والا ’کنگ آف کامیڈی‘ بن گیا۔

29 ستمبر 1932 کو ممبئی میں پیدا ہونے والے محمود علی کے والد ممتاز علی بمبئی ٹاکیز سے وابستہ تھے مگر گھر کے حالات نہایت خراب تھے۔ کم عمری میں ہی محمود کو لوکل ٹرینوں میں ٹافیاں بیچنی پڑیں۔ مگر دل میں اداکار بننے کا خواب پوری شدت سے زندہ تھا۔

ابتدائی موقع فلم ’قسمت‘ (1943) میں اشوک کمار کے بچپن کا کردار ادا کرنے کی صورت میں ملا۔ مگر یہ صرف آغاز تھا، اصل جدوجہد ابھی باقی تھی۔

ڈرائیور سے اداکار تک

محمود نے مختلف فلمی شخصیات کے لیے بطور ڈرائیور کام کیا، صرف اس لیے کہ اسٹوڈیوز تک رسائی ہو جائے۔ ایک دن فلم ’نادان‘ کے سیٹ پر قسمت نے دروازہ کھٹکھٹایا جب ایک جونیئر آرٹسٹ ڈائیلاگ بولنے میں ناکام رہا تو ہدایت کار نے وہ مکالمہ محمود کو دیا۔

انہوں نے پہلی کوشش میں ایسا ادا کیا کہ سب دنگ رہ گئے۔ انعام میں 300 روپے ملے جو اس وقت ان کی مہینے بھر کی تنخواہ سے بھی 4 گنا زیادہ تھے۔ وہیں سے فلمی سفر نے نیا رخ لیا۔

ناکامی کا سامنا اور پھر کامیابیوں کے انبار

محمود نے چھوٹے موٹے کرداروں سے شروعات کی ’دو بیگھہ زمین‘، ’سی آئی ڈی‘، ’پیاسا‘ جیسی فلموں میں نظر آئے، مگر کوئی خاص پہچان نہ بنا سکے۔ اس دوران انہیں فلم ’مس میری‘ کے لیے اسکرین ٹیسٹ سے مسترد کر دیا گیا۔ یہاں تک کہ کمال امروہی جیسے فلمساز نے کہا کہ ’تم میں اداکاری کی صلاحیت نہیں ہے، اداکار کا بیٹا ہونا کافی نہیں‘۔

محمود کے صاحبزادے مقصود محمود علی عرف لکی علی (بائیں) بھی شوبز انڈسٹری سے وابستہ ہیں۔

مگر محمود نے ہار نہیں مانی۔ ایک فلم میں اپنی سالی مینا کماری کی سفارش پر کام مل رہا تھا مگر انہوں نے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ ’میں اپنی پہچان سفارش سے نہیں، محنت سے بناؤں گا‘۔

سنہ1958 میں فلم ’پرورش‘ میں انہیں راج کپور کے بھائی کا کردار ملا، جس کے بعد ’چھوٹی بہن‘ نے ان کے لیے فلمی دروازے کھول دیے۔ ٹائمز آف انڈیا نے ان کی اداکاری کو سراہا۔ ان کو معاوضہ 6000 روپے ملا تھا جو ان وقتوں میں کسی خواب سے کم نہ تھا۔

محمود کے ورسٹائل انداز

سال1961  کی فلم ’سسرال‘ میں شوبھا کھوٹے کے ساتھ ان کی جوڑی مقبول ہوئی اور اسی سال انہوں نے بطور ہدایت کار اپنی پہلی فلم ’چھوٹے نواب‘ بنائی، جس سے آر ڈی برمن (پنچم دا) نے بطور موسیقار ڈیبیو کیا۔

اداکاری میں جدت، کرداروں میں رنگینی

محمود نے خود کو ایک جیسے کرداروں میں محدود نہیں رکھا۔ فلم ’پڑوسن‘ (1968) میں جنوبی ہند کے موسیقار کا کردار ان کی ورسٹائل اداکاری کا شاہکار تھا۔

سنہ 1970  کی فلم ’ہمجولی‘ میں انہوں نے ٹرپل رول ادا کر کے اپنی وسعت فن کا لوہا منوایا۔

محمود، صرف اداکار نہیں بلکہ ایک ادارہ

انہوں نے اداکاری کے ساتھ ساتھ کئی فلموں کی ہدایت کاری، پروڈکشن اور گلوکاری بھی کی۔ فلمی کیریئر میں تقریباً 300 فلمیں کیں اور 3 فلم فیئر ایوارڈز جیتے۔ محمود نہ صرف ہنسانے والا اداکار تھا بلکہ ایک پورا عہد تھا۔

23  جولائی 2004 کو محمود دنیا سے رخصت ہو گئے لیکن ان کی مسکراہٹ، منفرد انداز اور ناقابلِ فراموش مزاح آج بھی ہر نسل کے دلوں میں زندہ ہے۔

وہ ہر اس شخص کے لیے مثال بن گئے جو بار بار یہ سنتا ہے کہ ’تم یہ نہیں کر سکتے‘ اور پھر اپنے وہ اپنی صلاحیتیوں کا کمال دکھا کر دنیا کو غلط ثابت کر دیتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اداکار محمود بھارتی اداکار محمود لکی علی

متعلقہ مضامین

  • چین اور یورپ اگلے 50 سالوں میں باہمی فائدے اور جیت کے نتائج حاصل کر سکتے ہیں، چینی میڈیا
  • حکومت ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے معاملے میں کسی طور غافل نہیں: وزیراعظم
  • کمالیت پسندی: خوبی، خامی یا ایک نفسیاتی مرض!
  • حمزہ علی عباسی کو حجاب سے متعلق متنازع بیان دینا مہنگا پڑگیا
  • سینئر صحافی سہیل وڑائچ کا سکردو میں "حسین سب کا" کانفرنس سے خطاب
  • ’اداکار نہیں بن سکتے‘ کہنے والوں کو قہقہوں سے جواب دینے والے ورسٹائل ایکٹر محمود
  • یہ کون لوگ ہیں جو اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر ہمارے لیے سیلاب میں اترتے ہیں؟
  • عمران خان کو دس سال قید نہیں بلکہ آرٹیکل 6 کے تحت عمر قید یا سزائے موت ہو سکتی ہے: نجم ولی خان کا تجزیہ 
  • آج کا دن کیسا رہے گا؟
  • دو عورتیں دو دنیائیں