یورپ جنگ کے دہانے پر ہے، تجزیہ کار
اشاعت کی تاریخ: 4th, June 2025 GMT
ایران کے معروف تجزیہ کار حنیف غفاری نے اپنے تجزیے میں اس بات پر زور دیا ہے کہ یورپ روز بروز جنگ کے خطرے سے قریب ہوتا جا رہا ہے اور اب وہاں ڈیٹرنس کی جگہ جنگ نے لے لی ہے جبکہ یورپی ممالک ممکنہ جنگ کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ یورپ کے امور کے ماہر اور تجزیہ کار حنیف غفاری اپنے تازہ ترین کالم میں لکھتے ہیں: "یورپ میں ڈیٹرنس کی جگہ جنگ نے لے لی ہے۔ پولینڈ اور بالٹک ممالک بیرونی خطرات کے مقابلے میں اپنی حفاظت کے لیے یورپی یونین کی سرحدوں پر ٹینک تعینات کر رہے ہیں اور مائنیں بچھانے میں مصروف ہیں۔ اس دورا لتھوانیہ نے اپنے تعلیمی نصاب میں فوجی کتابوں کا اضافہ کر دیا ہے اور انہیں لازمی قرار دے دیا ہے جبکہ جرمنی نے بھی اپنی فوجی ڈاکٹرائن میں تبدیلی کا اعلان کیا ہے۔ پولینڈ، لتھوانیہ، لیٹونیا، اسٹونیا اور فن لینڈ جیسے ممالک بھی روس کے ساتھ مشترکہ سرحد رکھتے ہیں۔ ان ممالک نے روس اور بلاروس کی سرحد پر "اژدھا کے دانت" نامی کنکریٹ کی دیواریں تعمیر کرنا شروع کر دی ہیں۔ یہ دیواریں ٹینکوں کو روکنے کے لیے ہیں۔ لتھوانیہ اس طرح یورپی یونین کی کچھ سرحدوں کی حفاظت کرنے میں مصروف ہے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ یہ دیواریں 2028ء تک مکمل کر لی جائیں گی۔ مذکورہ بالا مطالب سے ظاہر ہوتا ہے کہ آج کا یورپ پوری طرح جنگ کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ لیکن یہاں ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یورپ کی جنگ اور بدامنی کی جانب واپس پلٹ جانے کی بنیادی وجہ کیا ہے؟ کیا اس کا حقیقی سبب روس ہے یا "نیٹو کے توسیع پسندانہ عزائم" ہیں؟
حقیقت یہ ہے کہ یورپ اس سبز براعظم میں جنگی حالات پیدا ہونے میں دیگر ممالک میں مداخلت پر مبنی اپنی خطرناک پالیسیوں کو نظرانداز نہیں کر سکتا اور یوں روس کو موجودہ حالات کا قصوروار نہیں ٹھہرا سکتا۔ مغربی ذرائع ابلاغ روس کی جانب سے "مشرق کی جانب نیٹو کے توسیع پسندانہ عزائم" کے مقابلے میں ردعمل کو ایک بے رحمانہ اقدام قرار دیتے ہیں لیکن اپنے جارحانہ اقدامات اور پالیسیوں کے بارے میں کوئی بات نہیں کرتے۔ جب یورپی یونین تشکیل پائی تھی تو اس کا بنیادی مقصد براعظم یورپ میں نئے بحران جنم لینے کی روک تھام کرنا تھا۔ لیکن خود یورپی حکمران ہی مختلف قسم کے اسٹریٹجک اور سیکورٹی بحرانوں کی پیدائش کا سبب بن گئے۔ یہی بحران آج یوکرین جنگ کی صورت میں ظاہر ہوئے ہیں اور اس کی بنیادی ترین وجہ نیٹو فوجی اتحاد کی جانب سے روس کا اسٹریٹجک گھیراو کرنے پر اصرار تھا۔ دوسری طرف یوکرین میں جنگ بندی اور امن میں اصل رکاوٹ بھی یورپی حکمران ہی ہیں کیونکہ انہوں نے یوکرین جنگ کے ابتدائی مہینوں میں جنگ بندی کے لیے مذاکرات منعقد ہی نہیں ہونے دیے اور اس وقت بھی وہ روس کو یہ یقین دہانی دینے پر تیار نہیں کہ جنگ بندی کے بعد روس کے قریبی علاقوں میں مداخلت پر مبنی پالیسیاں اور اقدامات ختم کر دیں گے۔
یورپی حکمران اپنے براعظم میں جنم لینے والے ماضی، حال اور اور مستقبل کے بحرانوں کے حقیقی ذمہ دار ہیں۔ انہوں نے ڈیٹرنس اور مداخلت کے مفاہیم کو آپس میں گڈ مڈ کر دیا ہے اور "مداخلت پسندی" نام کی خطرناک ترکیب تشکیل دے دی ہے۔ یہی خطرناک نتیجہ یوکرین جنگ کا باعث بنا ہے اور مستقبل میں بھی نئی جنگوں کا باعث بنتا رہے گا۔ یوکرین جنگ اور موجودہ بحرانوں کے خاتمے کا واحد راہ حل بھی یہی ہے کہ یورپی حکمران "امن پر استوار ڈیٹرنس" پر توجہ مرکوز کریں اور پوٹینشل جنگوں سے گریز کریں۔ جب تک یورپی حکمران اپنی اس حکمت عملی کو تبدیل نہیں کرتے اس وقت تک بحرانی حالات جاری رہیں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ براعظم یورپ اپنی خطرناک غلطیوں کا ملبہ روس یا دیگر غیر یورپی قوتوں پر نہیں ڈال سکتا۔"
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: یورپی حکمران یوکرین جنگ ہے کہ یورپ میں مصروف کی جانب دیا ہے ہے اور
پڑھیں:
شنگریلا ڈائیلاگ کے بعد امریکہ اور چین کس طرف جا رہے ہیں؟
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 03 جون 2025ء) ایشیا کا سب سے بڑا دفاعی اور سکیورٹی فورم، شنگریلا ڈائیلاگ ہر سال سنگاپور میں منعقد ہوتا ہے۔ امسالہ اس فورم کا اختتام ایک واضح پیغام کے ساتھ گذشتہ ویک اینڈ پر ہوا۔ '' ٹرمپ انتظامیہ کے لیے ہند بحرالکاہل اولین ترجیح ہے جبکہ امریکہ چین کے انداز کو جارحانہ سمجھتا ہے۔‘‘
امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگستھ، جو اس بار شنگریلا ڈائیلاگ میں پہلی بار تقریر کر رہے تھے، نے ایشیائی اتحادیوں پر زور دیا کہ وہ تائیوان کے قریب چین کی فوجی موجودگی میں اضافے کے جواب میں اپنے دفاع کو تیز اور مضبوط تر کریں۔
تائیوان ایک خود مختار جزیرہ ہے، جس پر بیجنگ اپنا دعویٰ جتاتا ہے۔ اپنی تقریر میں امریکی وزیر دفاع نے چین کا نام 20 مرتبہ سے زیادہ لیا۔(جاری ہے)
ساتھ ہی انہوں نے چین کو تائیوان پر قبضہ کرنے کے اس کے ممکنہ منصوبے سے اجنتاب برتنے کے بارے میں براہ راست انتباہ کیا۔
گزشتہ ہفتے کے روز اپنی تقریر میں ہیگستھ نے کہا،''کمیونسٹ چین کی طرف سے طاقت کے ذریعے تائیوان کو فتح کرنے کی کسی بھی کوشش کے ہند بحرالکاہل اور دنیا کے لیے تباہ کن نتائج برآمد ہوں گے اور اس اہم مسئلے کو بظاہر خوش آئند بنا کر پیش کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔
‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ چین سے حقیقی خطرات لاحق ہیں۔ انہوں نے کہا،''ہم امید کرتے ہیں کہ ایسا نہ ہو لیکن یہ یقینی طور پر ہو سکتا ہے۔‘‘اُدھر چینی رئیر ایڈمرل ہو گینگ فینگ، جو ''نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی آف دی پیپلز لبریشن آرمی‘‘ کے وفد کی قیادت کر رہے تھے، نے ان ریمارکس کو ''بے بنیاد الزامات‘‘ قرار دیا۔
اگلے روز چین کی وزارت خارجہ نے بھی امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگستھ کے ریمارکس پر احتجاج کرتے ہوئے ایک بیان میں دعویٰ کیا کہ ایشیا پیسیفک میں امریکی فوجی موجودگی خطے کو ''بارود کے ڈھیر میں تبدیل کر رہی ہے۔‘‘
چین کے وزیر دفاع نے دوری کیوں اختیار کی؟
شنگریلا ڈائیلاگ میں چین حسب معمول ہر سال اپنی ''انڈو پیسیفک‘‘ ہند بحرالکاہل حکمت عملی کا خاکہ پیش کرتا تھا اس سال اسے منسوخ کر دیا گیا اور اس بارے میں بھی قیاس آرائیاں کی گئیں کہ بیجنگ نے چینی وزیر دفاع ڈونگ جون کو سنگاپور نہ بھیجنے کا انتخاب تین روزہ سربراہی اجلاس کے دوران کیوں کیا۔
سنگھوا یونیورسٹی کے سنٹر فار انٹرنیشنل سکیورٹی اینڈ اسٹریٹیجی کے سینئر فیلو ژو بو نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ چینی وزیر کسی اسٹریٹجک وجہ سے نہیں بلکہ سفری شیڈول کے انتظامات کی وجہ سے غیر حاضر تھے۔
دیگر تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ چین کی اپنی سکیورٹی کے معاملات پر سخت سوالات سے بچنے کی کوشش ہو سکتی ہے۔ ایک اور ممکنہ عنصر یہ ہے کہ شنگریلا ڈائیلاگ میں واشنگٹن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دوسرے دور میں پہلی بار عالمی سطح پر اپنی انڈو پیسیفک پالیسی کو پیش کر رہا تھا۔
چین امریکہ تعلقات کا مستقبل
چین، جس کے پاس جنگی جہازوں کی تعداد کے لحاظ سے اب دنیا کی سب سے بڑی بحریہ ہے، نے مبینہ طور پر مئی کے اوائل سے مشرقی ایشیائی پانیوں میں بحری اور ساحلی محافظ جہازوں کی تعیناتی میں اضافہ کر دیا ہے۔
چین کے عسکری ماہر ژاؤ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ امریکی وزیر دفاع ہیگستھ نے جو لہجہ امریکہ اور چین کے مابین مقابلے کے ضمن میں اپنے خطاب میں اختیار کیا وہ بائیڈن انتظامیہ کے مقابلے میں ''تقریباً 180 ڈگری تبدیلی‘‘ کو ظاہر کرتا ہے۔
گذشتہ سال اسی اجلاس میں پوڈیم پر کھڑے ہو کر، سابق امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے اس بات پر زور دیا تھا کہ چین کے ساتھ جنگ کے آثار نہ تو نمایاں ہیں اور نہ ہی یہ ناگزیر ہے۔ انہوں نے کسی غلط اندازے یا حساب سے بچنے کے لیے دونوں ممالک کے درمیان نئے سرے سے مذاکرات کی اہمیت پر زور دیا تھا۔
اس بار شنگریلا ڈائیلاگ میں چین کے رویے کے بارے میں تائیوان کی تمکانگ یونیورسٹی کے گریجویٹ انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل افیئرز اینڈ اسٹریٹیجک اسٹڈیز کے اسسٹنٹ پروفیسر لن ینگ یو نے کہا،''مجھے ایسا لگتا ہے کہ چین نے اس بار زیادہ محتاط اور دفاعی انداز اختیار کیا ہے۔
وہ امریکہ کی طرف سے قدم اٹھانے کا انتظار کر رہا تھا۔‘‘سنگھوا یونیورسٹی میں سینٹر فار انٹرنیشنل سکیورٹی اینڈ اسٹریٹیجی (CISS) کے ڈائریکٹر ڈا وائی سے چینی امریکی تعلقات کے مستقبل کے بارے میں پوچھے جانے والے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا انہیں ''دونوں طرف سے روزانہ کی دفاعی کارروائیاں میں اضافہ کی توقع ہے، اس کا مقصد دوطرفہ تعلقات کو مزید کشیدہ کرنا نہیں ہوگا بلکہ دونوں'' زیادہ متصادم دکھائی دینے کی کوشش کریں گے۔
‘‘فرانسیسی صدرکا عالمی تقسیم سے خبردار
اس بار کے شنگریلا ڈائیلاگ میں شریک فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے چین اور امریکہ کے درمیان بڑھتی ہوئی تقسیم کو اس وقت دنیا کو درپیش سب سے بڑا خطرہ قرار دیا۔ ماکروں کا کہنا تھا،''دوسروں کو دی گئی ہدایات کے دوران اگر ہم اپنی سائیڈ کا انتخاب اپنے حساب سے کریں گے تو ہم عالمی نظام کو ختم کر دیں گے اور ہم ان تمام اداروں کو تباہ کر دیں گے جنہیں ہم نے دوسری عالمی جنگ کے بعد بنایا تھا۔‘‘
ادارت: عاطف توقیر