یہ بجٹ کا موسم ہے، بجٹ آ کر چلا بھی جائے گا اور پھر سرکاری ملازم کی تنخواہوں میں 10 فی صد جیسا کہ کہا جا رہا ہے اضافہ ہوگا۔ وہ یہ قلیل رقم لے کر پورا سال حکومتی وعدوں کے سہانے خواب کو لے کر پھر مہنگائی سے لڑتا رہے گا، نجی پرائیویٹ اداروں، دکانوں، دفتروں، کارخانوں اور ہر طرح کی معاشی سرگرمیوں میں مصروف عمل، جو ایک بار پھر چند ہزار لے کر یہ نہیں خرید سکتے وہ نہیں کھا سکتے، پیسے نہیں ہیں۔ ہفتہ نہیں گزرا پیسے ختم ہو گئے۔
تمام نجی ملازمین کی اکثریت اسی طرح جفاکشی اور فاقہ کشی میں مہینہ گزارتے رہیں گے، پنشن میں محض 10 فی صد اضافے کا خواب اور مالک مکان کی بھیانک آواز، کرایہ 10 فی صد بڑھا کردینا۔ بہت صبر کر لیا، اب تو پنشن 10 فی صد بڑھ گئی ہے، کرایہ 10 فی صد بڑھا کر نہیں دیا تو تمہیں سامان سمیت باہر پھینک دوں گا۔ پھر گلہ نہ کرنا۔ پنشنرز کی پنشن میں کم از کم 20 فی صد اضافہ ہونا چاہیے۔
اب کہا جا رہا ہے کہ تعلیم کے بجٹ میں 27 فی صد کمی کے ساتھ 20 ارب روپے کی کمی کر دی جائے گی، شاید یہ صرف صوبائی معاملہ ہے۔ وفاق کو تعلیم سے کوئی سروکار نہیں۔ تعلیم پر اخراجات GDP کا اوسط 4.
تعلیم دستور پاکستان میں اسے ایک بنیادی حق تسلیم کیا گیا، لیکن شاید حکومت سمجھتی ہے کہ وفاق اب تعلیم کا ذمے دار نہیں ہے، صوبے ہیں، جہاں کے اکثر اسکولوں کی حالت کسی غریب کی کٹیا سے کم نہیں۔ بہت سے ایسے ہیں جہاں طلبا کو پنکھوں کا غم نہیں، بجلی نہیں تو کیا ہوا، استاد غیر حاضر ہوگئے تو کیا ہوا، آخر ہم کسی سے کم نہیں۔ ان تمام کمیوں، کوتاہیوں، خامیوں، محرومیوں کا مقابلہ کرنے کا ہم طلبا میں کیا دم خم نہیں۔
کبھی لیپ ٹاپ اسکیمیں چلتی تھیں اور آئی ٹی کی تعلیم سے مزین کرنے کا خواب حکومت بیچتی تھی۔ بھارت نے 2023 میں 2 لاکھ سے زائد طلبا کو بیرون ملک اعلیٰ تعلیم کے لیے بھیج دیا ہے، دنیا AI کی تعلیم، روبوٹ کے استعمال تک، خلا کی تعلیم تک اور اعلیٰ تعلیم کی اونچی منزل تک پہنچنے کے لیے اربوں ڈالر لگائے چلی جا رہی ہے اور ہم تعلیم سے پیسہ کھینچ رہے ہیں۔ وہ بھی 27 فی صد کی بڑی کمی سے۔ 20 ارب روپے کی کمی بہت بڑی رقم ہے۔ اس میں کم از کم 50 یا 60 ارب روپے مزید اضافہ کرنا چاہیے تھا۔
اس کے علاوہ صحت کے شعبے سے بھی وفاق راہ فرار چاہتا ہے۔ حکومت کم از کم پنشنروں کا خیال کرے، وفاق کے زیر انتظام اسپتالوں کی تعداد کو بڑھائے، صرف کراچی میں لاہور میں 10 سے 12 مزید بڑے وفاقی اسپتال قائم بھی ہو جائیں تو کہہ نہیں سکتے کہ صحت کا شعبہ خود مختار اور خودکفیل ہو گیا ہے۔
تعلیم کا بھی فوری خیال کریں، بجٹ بڑھائیں اس کا دائرہ کار بڑھائیں،کم ازکم ہر وہ طلبا و طالبات جنھوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کر لی،کوئی ایم بی اے کرگیا، کسی نے ایم بی بی ایس یا ڈاکٹر آف فزیو تھراپی کی تعلیم حاصل کرلی اس لیول کے جتنے بھی طلبا و طالبات ہیں، ان سب کو لیپ ٹاپ دیا جائے۔ دنیا نے تعلیم پر بے تحاشا خرچ کر کے معاشی ترقی حاصل کی ہے۔ ہمارا ہدف4.2 فی صد معاشی شرح نمو کا ہے، ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ بغیر تعلیم کے بجٹ کو بڑھائے ترقی کا ہدف حاصل کرلیں۔ سائنس و ٹیکنالوجی کی اعلیٰ ترین تعلیم کا خواب ادھورا رہ جائے گا۔
حکومت کچھ خیال کرے، تعلیم کو وفاق کی سطح پر یتیم نہ کرے۔ بجٹ میں بہت کچھ ہوتا ہے، اگر ایک طالب علم کے تعلیم کا خواب اگر نہ سجا سکی حکومت تو یہ بجٹ محض اعداد و شمار کا گورکھ دھندا ہوگا، حکومت تعلیم، صحت کے علاوہ ایک اورکارنامہ انجام دینے جا رہی ہے۔ بھاشا ڈیم جس پر 2024-25 میں 40 ارب رکھے گئے، اب اس پر 35 ارب روپے یعنی 5 ارب روپے کی کمی ہوگئی، بھارت سے پانی کے مسئلے پر ٹھن گئی ہے، ایسے میں بھاشا ڈیم کے لیے مختص رقم کو دگنا کرنا چاہیے تھا، تاکہ جلد از جلد مزید ڈیم بھی بنائیں اور پانی کا ذخیرہ محفوظ کر لیں سستی بجلی حاصل کر سکیں۔
اب بھلا بتائیے جب بجلی سستی نہیں ملے گی، پانی کے منصوبوں کے لیے رقم کم مہیا کی جائے گی،کراچی میں پانی کا مسئلہ اتنا پرانا ہے کہ انگریز جب یہاں آئے تو آبادی ہزاروں میں تھی، اب ساڑھے تین کروڑ کی آبادی میں سے ڈھائی کروڑ کی آبادی کے لیے پانی کا مسئلہ شدت اختیارکرگیا ہے۔ پھر گزشتہ کئی سال سے پانی ٹینکرز والوں کی چاندی ہوگئی اور غریب سے غریب بھی پانی کے حصول کے لیے اب ہزاروں روپے خرچ کرنے پر مجبور ہو گیا ہے۔
پاکستان میں صحت پر GDP کا 1.2 فی صد خرچ ہوتا ہے۔ WHO کی سفارش ہے کہ خرچ کی کم از کم حد 5 فی صد ضرور ہونی چاہیے۔ وفاقی سطح پر صحت کو مکمل طور پر صوبائی مسئلہ قرار دے کر اس سے پہلو تہی کر لی گئی ہے۔ ہر شخص کو مفت صحت کی سہولت فراہم کرنا وفاقی حکومت کی ترجیحات میں سے ہونا چاہیے، اب اس کے لیے صحت کے لیے اپنی رقم میں زیادہ سے زیادہ اضافہ انتہائی ضروری ہے تاکہ ملک میں صحت کا سنجیدہ مسئلہ حل ہو سکے۔
سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فی صد کا معمولی اضافہ، پنشنروں کی پنشن میں معمولی اضافہ اور نجی پرائیویٹ ملازمین کی تنخواہوں میں معمولی اضافہ ہوتا ہے، وہ یہ رقم لے کر بازار چلے جائیں تو ان کا استقبال کس طرح ہوتا ہے، چینی کے دام بڑھ گئے، اب 200 روپے فی کلو تک جا پہنچی ہے، سبزیوں اور پھلوں کے دام بڑھ گئے، مہنگائی کی شرح بڑھ گئی، مقابلہ تنخواہ دار نہیں کر پا رہا ہے۔ پنشن میں جب معمولی اضافہ لے کر کوئی بازار جاتا ہے تو جیب بھی خالی ہو جاتی ہے لیکن مراد پوری نہیں ہوتی۔ کم از کم گریڈ ایک سے گریڈ سترہ یا اٹھارہ تک کے پنشن میں 20 فی صد کا اضافہ ہونا چاہیے۔
حکومت ترقیاتی اخراجات کو زمینی حقائق سے جوڑے، ترقی کی شرح ہدف کے مطابق حاصل کرنی ہے تو تعلیم کے بغیر ناممکن ہے، بچے بوڑھے، جوان صحت مند تندرست و توانا ہوں گے تو پھر شرح نمو حاصل ہو کر رہے گی۔ پانی پر اور ڈیمز پر خرچ کو مزید بڑھانا ہوگا۔ تب شرح افزائش 4.2 فی صد حاصل ہو سکے گی۔ حکومت ترقیاتی اخراجات کا رخ زمینی حقائق کے مطابق اس جانب موڑے تاکہ 4.2 فی صد کی شرح افزائش کا حصول ممکن ہو۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: معمولی اضافہ تعلیم کا تعلیم کے کی تعلیم ارب روپے کا خواب ہوتا ہے کے لیے
پڑھیں:
سیلاب زدگان کی فوری امداد
پاکستان کی معیشت ایک بار پھر قدرتی آفات کے سامنے کھڑی ہے۔ رات کے وقت جب خیموں میں یہ خوف طاری ہوتا ہے کہ اندھیرے میں کہیں کوئی سانپ نہ آجائے، بوڑھا کسان جب یہ سوچ رہا ہوتا ہے کہ اس کی ساری زندگی کی جمع پونجی کو بھارتی آبی جارحیت نے لوٹ لیا، اس کے کھیتوں میں کھڑی فصل ڈوب گئی ہے، وہ جس کنارے پر بیٹھا ہے، چند انچ نیچے سیلابی پانی موجود ہے، خطرہ ہے کہ مزید سیلابی پانی آ گیا تو یہ کیمپ بھی ڈوب جائیں گے۔
روزنامہ ایکسپریس کی اس خبر پر میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے جس میں یہ چھپا تھا کہ بھارت نے پھر پانی چھوڑ دیا ہے، جنوبی پنجاب میں ہر طرف تباہی، مزید 8 افراد ڈوب گئے، جلال پور پیر والا میں موٹروے کا حصہ بہہ گیا۔
متاثرین کو خوراک کی قلت کا سامنا ہے، ریلے سکھر میں داخل، مزید دیہات ڈوب گئے، ایسے میں کسان سوچ رہا ہوگا کہ میرا تو سب کچھ نقصان ہو گیا اور ایسا نقصان جسے وقتی نہیں کہا جا سکتا۔ یہ تو میرے کئی عشرے کھا جائے گا، کیوں کہ یہ نقصان اب قلیل مدت کا نہیں رہا، یہ تو کئی سالوں کے مضر اثرات والا ہے۔
ایسے میں کسی نے اسے تسلی دی ہوگی کہ اسٹیٹ بینک نے اپنی تازہ رپورٹ میں یوں کہا ہے کہ سیلاب نے پاکستان کی معیشت کو قلیل مدتی طور پر متاثر کیا ہے۔ کسان کی پیشانی کی لکیروں پر ارتعاش پیدا ہوا۔ چہرہ فق ہونے لگا، سانس لینے میں دشواری محسوس کر رہا تھا۔
اسے معلوم نہیں کہ یہ پاکستان کی معیشت کی بات ہو رہی ہے۔ ٹھیک ہے اس کی معیشت اجڑ گئی، کھیتوں کی لہلہاتی فصلیں زمین میں دفن ہوکر رہ گئیں، مال مویشی اس سے جدا ہو گئے، کئی عزیز و اقارب پانی کی نذر ہوگئے، ایسے میں یہ خبر بھی مزید پریشانی کا باعث تھی کہ بھارت نے پھر پانی چھوڑ دیا۔ مزید 8 افراد ڈوب گئے۔
اسٹیٹ بینک نے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھنے کا امکان ظاہرکیا ہے۔ 2010 میں جو سیلاب آیا تھا، اس نے بڑی تباہی مچائی تھی، اس وقت سیلاب کا نقصان10 ارب ڈالر بتایا گیا تھا۔
ہ سیلاب اس سے کہیں زیادہ پیمانے پر ہے، بہت سے افراد کا بالکل صحیح خیال ہے کہ انھوں نے اپنی زندگی میں ایسا سیلاب نہیں دیکھا۔ اتنا زیادہ پانی، اتنا نقصان، اتنے سانپ، اتنی اموات، ہر طرف پانی ہی پانی، پانی کا ایک ریلا گزرتا نہیں، بھارت دوسرا ریلا چھوڑ دیتا ہے۔
15 تاریخ کو ایک اور بہت بڑا ریلا چھوڑ دیا، یہ سیلاب کوئی معمولی نقصان، وقتی نقصان، قلیل مدتی متاثر کن نہیں ہے اس نے مستقبل اجاڑ کر رکھ دیا ہے۔ مہنگائی میں بہت زیادہ اضافہ ہوگا، برآمدات کم ہوں گی اور غذائی درآمدات میں بھی بہت زیادہ اضافہ ہوگا۔
اس سیلاب نے کپاس کی فصل بالکل ہی تباہ کر کے رکھ دی ہے، ہماری مجموعی برآمدات میں ٹیکسٹائل برآمدات کا حصہ 55 سے 60 فی صد تک بنتا ہے، اب کارخانوں کی شفٹیں کم ہوں گی، بے روزگاری بھی بڑھے گی۔
گزشتہ مالی سال 32 ارب ڈالرکی برآمدات کے مقابلے میں پاکستان پھر پیچھے جا کر 25 ارب ڈالر سے زائد کی برآمدات کر پائے گا اور درآمدات 58 ارب ڈالر سے بڑھ کر 65 ارب ڈالر سے زائد ہو سکتی ہے۔
اس طرح تجارتی خسارہ بڑھ کر رہے گا۔ حکومت اسے وقتی نقصان کہتی رہے لیکن عالمی موسمیاتی تبدیلی چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ یہ اب مستقل کا معاملہ اختیار کر چکا ہے۔ پہلے سے بھی کہیں زیادہ تیاری کرنا ہوگی۔ ابھی ہم اس سیلاب کے نقصان کو برسوں تک پھیلا ہوا دیکھ رہے ہیں، لیکن موسمیاتی تبدیلی جس نے پاکستان کے پہاڑوں، گلیشیئروں، دریاؤں، کھیتوں کا مستقل رخ کر لیا ہے اور پاکستان کو ہی اپنے نشانے پر رکھ لیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ آنے والے کئی عشروں کے خواب ڈبو دیے ہیں۔ ہمیں سنبھلنا پڑے گا، وقتی نقصان قرار دینے کے علاوہ عملاً مستقبل کے لیے بھرپور تیاری کرنا ہوگی۔ 2022 میں جن علاقوں سے سیلاب ہو کرگزرگیا تھا، وہاں کے کسان مدتوں تک اپنے کھیتوں سے پانی نکالنے کے لیے حکومتی پلان کا انتظار کرتے رہے۔ یہ سب سستی کاہلی ہماری معاشی ناتوانی، منصوبہ بندی کا فقدان اور بہت کچھ ظاہر کرتی ہے۔
اس مرتبہ سیلاب کے اترنے کے فوری بعد تمام زمینوں کو کاشت کے قابل بنا کر دینا، ہر صوبائی اور وفاقی حکومت کی بھی ذمے داری ہے۔ سڑکیں جس طرح ٹوٹ پھوٹ کر گڑھوں کی شکل اختیارکرچکی ہیں ان کی فوری تعمیر کی ضرورت ہے۔
ہماری حکومت تنقید کے جواب میں اپنی توانائی ضایع کرتی ہے حکومت چاہے صوبائی ہو یا مقامی انتظامیہ، وہ سب اپنی پھرتی، کارکردگی دکھائیں تو جواب عملی طور پر سامنے آجائے گا۔ اس وقت پوری قوم مشکل میں ہے اور جنوبی پنجاب اور سندھ کے کئی اضلاع سیلاب کی شدید لپیٹ میں آ چکے ہیں۔
مخیر حضرات اب آگے بڑھیں، خاص طور پر اشرافیہ اپنی بڑی بڑی دیوہیکل گاڑیاں لے کر ٹوٹی پھوٹی سڑکوں اور گڑھوں کو عبور کرتے ہوئے خوراک، ادویات،کپڑے، جوتے، مچھردانیاں اور ضرورت کا بہت سا سامان، خاص طور پر پکا پکایا کھانا یہ سب لے کر ضرورت مندوں، بھوکوں کو لے جا کر دیں اور یہ ثواب کمانے کا نادر موقعہ ہے۔