خواتین کے لیے روشنی کا مینار
اشاعت کی تاریخ: 5th, June 2025 GMT
بھارت کی ریاست کرناٹک کی معروف مسلمان ادیبہ بانو مشتاق کو دنیا کا سب سے بڑا ادب ایوارڈ بین الاقوامی بکر پرائزInternational Booker Prize ملنا، اس خطے کی تمام باشعور خواتین کے لیے ایک بڑا اعزاز ہے۔ بانو مشتاق کو ان کی بارہ مختصر کہانیوں پر مشتمل کتاب "Heart Lamp" پر یہ ایوارڈ دیا گیا ہے۔
بانو مشتاق کرناٹک کی مقامی زبان میں لکھتی ہیں۔ بھارت کی ایک اور ادیبہ Deep Ashasti نے ان کی کتاب کا انگریزی میں ترجمہ کیا ہے۔ بانو اپنے اطراف کی مسلمان خواتین کے مسائل کے بارے میں عمومی طور پر لکھتی ہیں کہ انٹرنیشنل بکر پرائز ایوارڈ کا اجراء برطانیہ میں جون 2004 میں ہوا تھا۔ یہ ایوارڈ برطانیہ کے Mangroupکی طرف سے دیا جاتا ہے۔ یہ انتہائی اہمیت کا حامل ادبی ایوارڈ اپنے اجراء کے بعد سے 2015سے ہر سال دیا جانے لگا۔ یہ ایوارڈ اگرچہ انگریزی زبان میں لکھی جانے والی کتابوں پر دیا جاتا ہے مگر دنیا کی اعلیٰ ادبی کتابوں جن کا انگریزی میں ترجمہ دستیاب ہوتا ہے۔
انعام دینے والی جیوری ان کتابوں کو بھی اپنی ترجیحی فہرست میں شامل کرتی ہے۔ اس انعام کی انتظامی کمیٹی کا دعویٰ ہے کہ انعام کا فیصلہ کرتے وقت مصنف یا مصنفہ کی تخلیقی صلاحیتوں کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔ اس انعام کے مستحق ادیب کو 50,000 پونڈ دیے جاتے ہیں۔ پہلے اس ایوارڈ کے لیے دولتِ مشترکہ کے ممالک کے ادیبوں کو ہی مناسب امیدوار سمجھا جاتا تھا پھر اس ایوارڈ کا دروازہ پوری دنیا کے ادیبوں کے لیے کھول دیا گیا۔ اس ایوارڈ کے مستحق ادیب کے انتخاب کے لیے ہر سال مارچ کے مہینے میں پوری دنیا سے 12 سے 13 کتابیں منتخب کی جاتی ہیں۔
اپریل کے مہینے میں 9 کتابیں منتخب ہوتی ہیں اور مئی میں ایوارڈ کا اجلاس ہوتا ہے۔ بانو مشتاق 3 اپریل 1948 کو بھارت کی ریاست حسن کرناٹکہ میں پیدا ہوئیں۔ جب بانو 8 سال کی تھیں تو ان کا داخلہ Kannada Language Missionary School میں ہوا مگر ان کی والدہ نے یہ شرط رکھی کہ بانو چھ ماہ کی مدت میں مقامی زبان سیکھیں گی۔ کرناڈا میں مسلمانوں کی خاصی بڑی آبادی ہے مگر مسلمانوں کا بیشتر حصہ رجعت پسند دقیانوسی خیالات کا حامل ہے۔ اس علاقے میں عورت کو برقع اور محرم کے بغیر گھر سے نکلنے کی آزادی نہیں ہے مگر بانو نے ان رکاوٹوں کو عبور کیا۔ انھوں نے اپنی پسند کی شادی کی جو اس وقت ایک مسلمان عورت کے لیے ایک بہت بڑا اقدام تھا۔ انھیں اپنی ازدواجی زندگی میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ خاندان اور برادری کے دباؤ پر انھیں زبردستی برقعہ پہننے پر مجبور کیا گیا۔
بانو ایک وقت ان حالات سے اتنی پریشان ہوئیں کہ انھوں نے اپنے جسم پر مٹی کا تیل ڈال دیا۔ اس دوران ان کے شوہر آگئے اور انھیں بانو کے خطرناک عزائم کا احساس ہوا۔ بانو کے شوہر نے اپنا بیٹا ان کے سامنے ڈالا، ان سے معافی مانگی اور التجاء کی کہ وہ شوہر اور بچے کو چھوڑ کر نہ جائیں، یوں بانو میں ایک دفعہ پھر جینے کا حوصلہ پیدا ہوگیا۔ بانو کچھ عرصہ تک ایک مقامی اخبار میں رپورٹر رہیں اور کچھ عرصہ انھوں نے آل انڈیا ریڈیو میں کام کیا۔ انھوں نے وکالت کا پیشہ اختیار کیا اور ایک سماجی تنظیم میں عورتوں کی بہبود کے لیے کام کرنا شروع کیا۔
بانو کے افسانوں نے مسلمان عورتوں میں خاص طور پر آگاہی کا عمل تیز کیا تو رجعت پسند سماج کے دعویداروں نے بانو کے عزائم کو شکست دینے کے لیے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرنے شروع کیے۔ ایک گمراہ کن نوجوان نے بانو پر چاقو سے حملہ کیا، اگر بانو کے شوہر بانو کی جان نہ بچاتے تو وہ قتل ہو جاتیں۔ بانو اور ان کے خاندان کا سوشل بائیکاٹ کیا گیا۔ بانو کے خلاف فتویٰ بھی جاری کیا گیا مگر بانو نے ان ہتھکنڈوں کو اہمیت نہ دی۔ بانو مشتاق کی تخلیقات کو اب ملک میں تسلیم کیا جانے لگا۔ کرناٹک کا سب سے بڑا اعزاز Karnataka Sahitya Academy Award بھی انھیں دیا گیا اور کئی ادبی تنظیموں نے انھیں مختلف قسم کے ایوارڈ دیے۔
بانو نے ایک انٹرویو میں کہا کہ ان کی کہانیوں کا محور غریب خواتین ہیں، جو اب بھی سماج کا سب سے پسماندہ طبقہ ہیں۔ انھوں نے اپنی ایک کہانی کے ایک کردار کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس بدقسمت عورت کو یہ بات سمجھا دی گئی تھی کہ مذہب عورت کو تعلیم کا حق نہیں دیتا۔ یہ بات اسلام کے بنیادی اصولوں کی واضح خلاف ورزی ہے مگر صدیوں کی پسماندہ رسومات کو مذہبی رنگ دے کر عورتوں کو گھروں میں مقید کیا جاتا ہے۔ ان کی کم عمری میں زبردستی شادی کردی جاتی ہے اور ان ہی رسومات اور رواج کا سہارا لیتے ہوئے مسلمان عورتوں کو جائیداد کے حق سے محروم کیا جاتا ہے۔ بانو مشتاق کا کہنا ہے کہ وہ سماج کے بیہمانہ حقائق پاور اسٹرکچر کے سامنے بیان کرتی ہیں۔
یہ پاور اسٹرکچر پدرسری نظام اور مذہبی سیاست کے ساتھ منسلک ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ انھیں اپنی کہانیوں میں وہ حقائق کو سنسر کرنے پر یقین نہیں رکھتیں مگر Sarcastition میں بیان کرتی ہیں تاکہ قاری اصل حقائق کو آسانی سے سمجھ سکے۔ ان کی کتاب کا ترجمہ کرنے والی مصنفہ Bashti کہتی ہیں کہ بانو کی کہانیوں میں بین السطور یہ لائن اہم ہوتی ہے کہ آج بھی مرد مکمل طور پر عورت کو کنٹرول کرتا ہے، وہ بانو مشتاق ادبی اور احتجاجی ادب کی تحریک Bandaya Sahitya سے متاثر ہیں۔ 1970سے شروع ہونے والی اس تحریک کا بنیادی نعرہ یہ تھا کہ "If you are writer, you are also a fighter"۔ یعنی اگر آپ لکھاری ہیں تو آپ کو ایک فائٹر بھی ہونا چاہیے۔ یہ تحریک ذات پات کے نظام کے خلاف بغاوت اور اقلیتوں کے حقوق کے لیے ادبی محاذ پر آگاہی کی تحریک تھی۔
اس تحریک کا ایک خاص مقصد اقلیتی مذاہب کی ادیبوں کو تمام پسماندہ طبقات کے حقوق کے لیے ادب تخلیق کرنا تھا۔ بانو کے خلاف فتوے تو ضرور جاری ہوئے مگر رائے عامہ ان کے حق میں تھی۔ یہی وجہ تھی کہ تین ماہ بعد یہ فتوے واپس لے لیے گئے اور اب کرناٹک میں مسلمان عورتوں کو مساجد میں جانے اور نماز پڑھنے کی اجازت مل گئی ہے۔اب عورتیں رمضان المبارک کے علاوہ عید کے تہواروں میں مساجد میں جا کر نماز ادا کرتی ہیں۔ چند برسوں پہلے تک یہ تصور کرنا بھی ناممکن تھا۔ بانو مشتاق کا یہ بھی کہنا ہے کہ اب سماج میں عورتوں کے حالات خاصی حد تک بہتر ہوگئے ہیں ۔ اب عورتوں کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا حق حاصل ہوگیا ہے مگر اب بھی ایک برادری کی لڑکی دوسری برادری کے لڑکے سے شادی کرنے کی خواہش کا اظہار کرتی ہے تو ایک طوفان کھڑا ہوجاتا ہے۔
کرناٹک ایک تاریخی ریاست ہے، اس کی آبادی کا 13 فیصد حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ کرناٹک میں خواندگی کا تناسب 75.
معروف محقق اور انگریزی ادب کے طالب علم ڈاکٹر عرفان عزیز نے لکھا ہے کہ کرناٹک کی مسلمان خاتون ادیب بانو مشتاق کا کہنا ہے کہ سیاست، مذہب اور معاشرہ عورتوں کو فقط فرمانبردار بنانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ ان کی کہانیوں کا مرکزی خیال عورتوں کی کم ترین سماجی حیثیت ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ موجودہ دور میں ’’ سچ عام طور پر ناپسندیدہ ہوتا ہے‘‘ ہم ایک ایسے وقت میں جی رہے ہیں جہاں سچ بولنے والوں کو دبایا جا رہا ہے اور اظہارِ رائے کے لیے برداشت مسلسل کم ہو رہی ہے۔ مذہب، سیاست اور معاشرے کے دیگر طاقتور طبقات عوام کو تقسیم کرنے میں مصروف ہیں۔ ایسے ماحول میں بانو مشتاق کا ادب، کہانی، موسیقی اور رقص کو جوڑنے والی قوت کے طور پر پیش کرتا ہے یہ صرف لکھنے والوں ہی کا نہیں، ہم سب کا فریضہ ہے کہ ہم نفرت اور تعصب کے خلاف اتحاد اور ہم آہنگی کے بیانیے کو فروغ دیں۔
ان حالات میں ادب کو ایک پل کا کردار ادا کرنا چاہیے۔ جس کا مقصد معاشرے کے کمزور طبقات کے درمیان تعلق پیدا کرنا ہے۔ انھوں نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ ’’ لوگوں کو ایک دوسرے کا ہاتھ تھامنا چاہیے‘‘ بظاہر یہ انتہائی سادہ لیکن گہرا اور انقلابی پیغام ہے۔ ایک ایسا پیغام جو ہمیں یاد دلاتا ہے کہ جُڑے رہنا، ساتھ چلنا اور ایک دوسرے کو سننا، یہی ہماری بقا اور ترقی کا راستہ ہے۔ بانو مشتاق اور دیگر جرات مند خواتین کی جدوجہد کے اثرات بھارت کے دیگر ریاستوں کی مسلمان خواتین پر بھی پڑرہے ہیں۔
کورونا کی وباء سے پہلے دہلی کی پسماندہ بستی شاہین باغ کی مسلمان خواتین کا مودی حکومت کی انتہا پسندانہ پالیسیوں کے خلاف احتجاج اس کی کڑی تھی۔ بانو مشتاق کا اعزاز بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کی خواتین کے لیے ایک لائٹ ہاؤس کے مانند ہے، وہ وقت جلد آئے گا جب پاکستان کی کسی خاتون مصنفہ کو یہ عالمی ایوارڈ ملے گا۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: میں خواندگی کا تناسب کی مسلمان خواتین بانو مشتاق کا خواتین کے عورتوں کو کرناٹک کی انھوں نے جاتا ہے عورت کو کے خلاف بانو کے ہے مگر ہیں کہ کے لیے اور ان
پڑھیں:
مسلمان حکمرانوں کو بھلائی کی توفیق، ہدایت اور تقویٰ کیلئے دعا، اے اللہ فلسطینیوں کو دشمن پر غالب فرما: خطبہ حج
ریاض +مدینہ منورہ (ممتاز احمد بڈانی+ نوائے وقت رپورٹ+جاوید اقبال بٹ) مسجد الحرام کے امام و خطیب شیخ صالح بن حمید نے خطبہ حج میں کہا کہ اے اللہ! فلسطین کے بھائیوں کی مدد فرما، عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے والوں کو برباد کر دے، ان کے قدم اکھیڑ دے۔ مسجد الحرام کے امام و خطیب شیخ صالح بن حمید نے خطبہ حج دیا۔ امام شیخ صالح بن حمید کا کہنا تھا کہ تقوی اختیار کرو، اللہ کی پکڑ بہت سخت ہے، تقویٰ اختیار کرنا ایمان والوں کی شان ہے، تقویٰ اختیار کرنے پر اللہ جنت عطا فرمائے گا۔ انہوں نے کہا نبی کریمؐ نے فرمایا اللہ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔ نیکو کاروں، تقویٰ اختیار کرنے والوں کیلئے آخرت میں اچھا انجام ہے۔ چھوٹی سے چھوٹی نیکی کو بھی حقیر نہ جانو۔ اللہ فخر اور تکبر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔ نماز قائم کرو، یہ اللہ اور بندے کے درمیان ایک بہترین رابطہ اور سب سے زیادہ درمیان کی نماز کی حفاظت کرو۔ اللہ تعالیٰ نے فساد فی الارض سے سختی سے منع فرمایا ہے۔ شیطان انسان کا دشمن ہے، شیطان سے بچو، شیطان تمہارے اندر دشمنی ڈالنا چاہتا ہے۔ اللہ تمہیں آزماتا ہے۔ اللہ نے ہر چیز کا وقت مقرر کر رکھا ہے۔ نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں لہٰذا نیکیوں کی زیادہ سے زیادہ کوشش کرنی چاہیے۔ نیک لوگ جنت میں جائیں گے اور ہمیشہ وہیں رہیں گے۔ نیکی اور برائی کبھی برابر نہیں ہو سکتی۔ شیخ صالح بن حمید نے امت مسلمہ کو بدعت اور غیبت سے دور رہنے کی تلقین کرتے ہوئے کہا کہ اللہ سے دعا مانگتے رہو، اس کی عبادت کرتے رہو۔ اللہ کی توحید، اس کے رسولوں پر ایمان لانا ایمان کا حصہ ہے۔ قیامت، جہنم، جنت پر ایمان ہونا چاہیے۔ اللہ کی رضا جنت سے بھی بڑی ہے۔ دنیا میں ہمارے ساتھ جو ہو رہا ہے وہ لوح محفوظ میں لکھا ہے۔ دین اسلام کے تین درجات ہیں اور سب سے بڑا درجہ احسان ہے۔ والدین سے صلہ رحمی، نرمی اور وعدوں کی تکمیل بھی دین کا حصہ ہے۔ حیا ایمان کی شاخ ہے، ایمان اور حیا دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ حج کے دوران اللہ کا بہت زیادہ ذکر کرنا، دعائیں کرنی چاہئیں اور دنیا و آخرت کی بھلائیاں مانگنی چاہیے۔ اللہ نے فرمایا کہ نیکی میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں اور بری باتوں سے رک جائیں۔ اللہ صبر کرنے والوں کو پورا ثواب عطا کرتا ہے اور ایمان والوں کو سچی باتیں کہنی چاہئیں، جھوٹ سے بچنا چاہیے۔ امام حرم نے امت مسلمہ کیلئے دعا کرتے ہوئے کہا کہ اے اللہ! مسلمانوں کے احوال اچھے کر دے، ہمارے دل جوڑ دے، ہمارے دلوں میں محبت ڈال دے۔ انہوں نے فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کیلئے خصوصی دعا کرتے ہوئے کہا کہ اے اللہ! فلسطین کے بھائیوں کی مدد فرما، ان کے شہداء کو معاف کر دے، زخمیوں کو شفا دے۔ اے اللہ! عرفات سے دعا کی جا رہی ہے، اہل فسلطین کے دشمنوں کو تباہ و برباد کردے، ان میں تفریق ڈال دے۔ اے اللہ! وہ بچوں کے قاتل ہیں، ان میں تفریق ڈال دے۔ اے اللہ! مسلمانوں کو ہدایت عطا فرما۔ اے اللہ فلسطین میں ہمارے بھائیوں کا خیال رکھ، فلسطینی بھائیوں کی بھوک، مصائب اور تکالیف کا خاتمہ فرما۔ اے اللہ فلسطین کے گھروں کو آسرا دے، انہیں امن عطا کر، دشمنوں کے شر سے نجات دے۔ فلسطین میں ہمارے بھائیوں کو دشمن پر غالب فرما۔ مسلمان حکمرانوں کو بھائی کی توفیق دے، انہیں ہدایت اور تقویٰ عطا فرما۔ اس موقع پر امام حرم نے خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی صحت اور ولی عہد محمد بن سلمان کیلئے آسانی کی دعا فرمائی۔ خطبہ حج کے بعد حجاج کرام نے میدان عرفات میں امام شیخ صالح بن حمید کی امامت میں ظہر اور عصر کی نمازیں ملا کر ادا کیں۔ اذان مغرب کے بعد نماز پڑھے بغیر حجاج کرام میدان عرفات سے مزدلفہ روانہ ہو گئے۔ مزدلفہ میں حجاج کرام نے مغرب اور عشاء کی نمازیں ملا کر ادا کیں۔ مزدلفہ میں حجاج کرام نے شیطان کو مارنے کیلئے کنکریاں جمع کیں اور پھر حجاج نے مزدلفہ میں کھلے آسمان تلے رات گزاری۔ آج 10 ذوالحجہ کو وقوف مزدلفہ کے بعد حجاج رمی کیلئے روانہ ہوں گے۔ حجاج بڑے شیطان کو 7 عدد کنکریاں ماریں گے اور قربانی کریں گے۔ حجاج کرام حلق کرانے کے بعد احرام کھول دیں گے۔ کل 11 ذوالحجہ کو حجاج کرام چھوٹے، درمیانے اور بڑے شیطان کو سات سات کنکریاں ماریں گے۔ رمی جمرات کے بعد حجاج کرام طواف زیارت کیلئے خانہ کعبہ روانہ ہوں گے۔ طواف زیارت کے بعد حجاج کرام صفا مروہ کی سعی کریں گے۔ 12 ذوالحجہ کو زوال آفتاب کے بعد تینوں شیطانوں کو کنکریاں ماری جائیں گی۔ 13 ذوالحجہ کو حجاج کرام رمی جمرات کے بعد منیٰ سے اپنی رہائش گاہ روانہ ہو جائیں گے۔ شیخ ڈاکٹر صالح بن حمید نے خطبہ حج میں قوانین و ضوابط کی پابندی کرنے پر زور دیتے ہوئے اسے نظم وضبط کیلئے انتہائی اہم قرار دیا۔ خطیب حرم نے خطبہ حج میں حجاج اور ملت اسلامیہ سے تقویٰ اختیار کرنے پر زور دیا کہ اسی میں دنیا اور آخرت کی فلاح و بھلائی ہے۔ شیخ صالح بن حمید نے والدین سے حسن سلو ک، مشکلات و پریشانیوں پر صبر اور کثرت سے توبہ و استغفار کرنے پر زور دیا۔