Express News:
2025-07-25@02:24:29 GMT

خواتین کے لیے روشنی کا مینار

اشاعت کی تاریخ: 5th, June 2025 GMT

بھارت کی ریاست کرناٹک کی معروف مسلمان ادیبہ بانو مشتاق کو دنیا کا سب سے بڑا ادب ایوارڈ بین الاقوامی بکر پرائزInternational Booker Prize ملنا، اس خطے کی تمام باشعور خواتین کے لیے ایک بڑا اعزاز ہے۔ بانو مشتاق کو ان کی بارہ مختصر کہانیوں پر مشتمل کتاب "Heart Lamp" پر یہ ایوارڈ دیا گیا ہے۔

بانو مشتاق کرناٹک کی مقامی زبان میں لکھتی ہیں۔ بھارت کی ایک اور ادیبہ Deep Ashasti نے ان کی کتاب کا انگریزی میں ترجمہ کیا ہے۔ بانو اپنے اطراف کی مسلمان خواتین کے مسائل کے بارے میں عمومی طور پر لکھتی ہیں کہ انٹرنیشنل بکر پرائز ایوارڈ کا اجراء برطانیہ میں جون 2004 میں ہوا تھا۔ یہ ایوارڈ برطانیہ کے Mangroupکی طرف سے دیا جاتا ہے۔ یہ انتہائی اہمیت کا حامل ادبی ایوارڈ اپنے اجراء کے بعد سے 2015سے ہر سال دیا جانے لگا۔ یہ ایوارڈ اگرچہ انگریزی زبان میں لکھی جانے والی کتابوں پر دیا جاتا ہے مگر دنیا کی اعلیٰ ادبی کتابوں جن کا انگریزی میں ترجمہ دستیاب ہوتا ہے۔

انعام دینے والی جیوری ان کتابوں کو بھی اپنی ترجیحی فہرست میں شامل کرتی ہے۔ اس انعام کی انتظامی کمیٹی کا دعویٰ ہے کہ انعام کا فیصلہ کرتے وقت مصنف یا مصنفہ کی تخلیقی صلاحیتوں کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔ اس انعام کے مستحق ادیب کو 50,000 پونڈ دیے جاتے ہیں۔ پہلے اس ایوارڈ کے لیے دولتِ مشترکہ کے ممالک کے ادیبوں کو ہی مناسب امیدوار سمجھا جاتا تھا پھر اس ایوارڈ کا دروازہ پوری دنیا کے ادیبوں کے لیے کھول دیا گیا۔ اس ایوارڈ کے مستحق ادیب کے انتخاب کے لیے ہر سال مارچ کے مہینے میں پوری دنیا سے 12 سے 13 کتابیں منتخب کی جاتی ہیں۔

اپریل کے مہینے میں 9 کتابیں منتخب ہوتی ہیں اور مئی میں ایوارڈ کا اجلاس ہوتا ہے۔ بانو مشتاق 3 اپریل 1948 کو بھارت کی ریاست حسن کرناٹکہ میں پیدا ہوئیں۔ جب بانو 8 سال کی تھیں تو ان کا داخلہ Kannada Language Missionary School میں ہوا مگر ان کی والدہ نے یہ شرط رکھی کہ بانو چھ ماہ کی مدت میں مقامی زبان سیکھیں گی۔ کرناڈا میں مسلمانوں کی خاصی بڑی آبادی ہے مگر مسلمانوں کا بیشتر حصہ رجعت پسند دقیانوسی خیالات کا حامل ہے۔ اس علاقے میں عورت کو برقع اور محرم کے بغیر گھر سے نکلنے کی آزادی نہیں ہے مگر بانو نے ان رکاوٹوں کو عبور کیا۔ انھوں نے اپنی پسند کی شادی کی جو اس وقت ایک مسلمان عورت کے لیے ایک بہت بڑا اقدام تھا۔ انھیں اپنی ازدواجی زندگی میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ خاندان اور برادری کے دباؤ پر انھیں زبردستی برقعہ پہننے پر مجبور کیا گیا۔

بانو ایک وقت ان حالات سے اتنی پریشان ہوئیں کہ انھوں نے اپنے جسم پر مٹی کا تیل ڈال دیا۔ اس دوران ان کے شوہر آگئے اور انھیں بانو کے خطرناک عزائم کا احساس ہوا۔ بانو کے شوہر نے اپنا بیٹا ان کے سامنے ڈالا، ان سے معافی مانگی اور التجاء کی کہ وہ شوہر اور بچے کو چھوڑ کر نہ جائیں، یوں بانو میں ایک دفعہ پھر جینے کا حوصلہ پیدا ہوگیا۔ بانو کچھ عرصہ تک ایک مقامی اخبار میں رپورٹر رہیں اور کچھ عرصہ انھوں نے آل انڈیا ریڈیو میں کام کیا۔ انھوں نے وکالت کا پیشہ اختیار کیا اور ایک سماجی تنظیم میں عورتوں کی بہبود کے لیے کام کرنا شروع کیا۔

بانو کے افسانوں نے مسلمان عورتوں میں خاص طور پر آگاہی کا عمل تیز کیا تو رجعت پسند سماج کے دعویداروں نے بانو کے عزائم کو شکست دینے کے لیے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرنے شروع کیے۔ ایک گمراہ کن نوجوان نے بانو پر چاقو سے حملہ کیا، اگر بانو کے شوہر بانو کی جان نہ بچاتے تو وہ قتل ہو جاتیں۔ بانو اور ان کے خاندان کا سوشل بائیکاٹ کیا گیا۔ بانو کے خلاف فتویٰ بھی جاری کیا گیا مگر بانو نے ان ہتھکنڈوں کو اہمیت نہ دی۔ بانو مشتاق کی تخلیقات کو اب ملک میں تسلیم کیا جانے لگا۔ کرناٹک کا سب سے بڑا اعزاز Karnataka Sahitya Academy Award بھی انھیں دیا گیا اور کئی ادبی تنظیموں نے انھیں مختلف قسم کے ایوارڈ دیے۔

بانو نے ایک انٹرویو میں کہا کہ ان کی کہانیوں کا محور غریب خواتین ہیں، جو اب بھی سماج کا سب سے پسماندہ طبقہ ہیں۔ انھوں نے اپنی ایک کہانی کے ایک کردار کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس بدقسمت عورت کو یہ بات سمجھا دی گئی تھی کہ مذہب عورت کو تعلیم کا حق نہیں دیتا۔ یہ بات اسلام کے بنیادی اصولوں کی واضح خلاف ورزی ہے مگر صدیوں کی پسماندہ رسومات کو مذہبی رنگ دے کر عورتوں کو گھروں میں مقید کیا جاتا ہے۔ ان کی کم عمری میں زبردستی شادی کردی جاتی ہے اور ان ہی رسومات اور رواج کا سہارا لیتے ہوئے مسلمان عورتوں کو جائیداد کے حق سے محروم کیا جاتا ہے۔ بانو مشتاق کا کہنا ہے کہ وہ سماج کے بیہمانہ حقائق پاور اسٹرکچر کے سامنے بیان کرتی ہیں۔

یہ پاور اسٹرکچر پدرسری نظام اور مذہبی سیاست کے ساتھ منسلک ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ انھیں اپنی کہانیوں میں وہ حقائق کو سنسر کرنے پر یقین نہیں رکھتیں مگر Sarcastition میں بیان کرتی ہیں تاکہ قاری اصل حقائق کو آسانی سے سمجھ سکے۔ ان کی کتاب کا ترجمہ کرنے والی مصنفہ Bashti کہتی ہیں کہ بانو کی کہانیوں میں بین السطور یہ لائن اہم ہوتی ہے کہ آج بھی مرد مکمل طور پر عورت کو کنٹرول کرتا ہے، وہ بانو مشتاق ادبی اور احتجاجی ادب کی تحریک Bandaya Sahitya سے متاثر ہیں۔ 1970سے شروع ہونے والی اس تحریک کا بنیادی نعرہ یہ تھا کہ "If you are writer, you are also a fighter"۔ یعنی اگر آپ لکھاری ہیں تو آپ کو ایک فائٹر بھی ہونا چاہیے۔ یہ تحریک ذات پات کے نظام کے خلاف بغاوت اور اقلیتوں کے حقوق کے لیے ادبی محاذ پر آگاہی کی تحریک تھی۔

اس تحریک کا ایک خاص مقصد اقلیتی مذاہب کی ادیبوں کو تمام پسماندہ طبقات کے حقوق کے لیے ادب تخلیق کرنا تھا۔ بانو کے خلاف فتوے تو ضرور جاری ہوئے مگر رائے عامہ ان کے حق میں تھی۔ یہی وجہ تھی کہ تین ماہ بعد یہ فتوے واپس لے لیے گئے اور اب کرناٹک میں مسلمان عورتوں کو مساجد میں جانے اور نماز پڑھنے کی اجازت مل گئی ہے۔اب عورتیں رمضان المبارک کے علاوہ عید کے تہواروں میں مساجد میں جا کر نماز ادا کرتی ہیں۔ چند برسوں پہلے تک یہ تصور کرنا بھی ناممکن تھا۔ بانو مشتاق کا یہ بھی کہنا ہے کہ اب سماج میں عورتوں کے حالات خاصی حد تک بہتر ہوگئے ہیں ۔ اب عورتوں کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا حق حاصل ہوگیا ہے مگر اب بھی ایک برادری کی لڑکی دوسری برادری کے لڑکے سے شادی کرنے کی خواہش کا اظہار کرتی ہے تو ایک طوفان کھڑا ہوجاتا ہے۔

کرناٹک ایک تاریخی ریاست ہے، اس کی آبادی کا 13 فیصد حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ کرناٹک میں خواندگی کا تناسب 75.

36 فیصد ہے جس میں مردوں میں خواندگی کا تناسب 82.47 فیصد اور خواتین میں یہ تناسب 68.00 فیصد ہے مگر مسلمانوں میں خواندگی کا تناسب 79.5 فیصد ہے۔ اعداد و شمار یہ بھی بتاتے ہیں کہ اقلیتوں میں مسلمان خواتین میں خواندگی کا تناسب سب سے زیادہ ہے مگر اس کے باوجود گزشتہ صدی میں کرناٹک کی مسلمان خواتین کو پسماندہ رکھا گیا۔

 معروف محقق اور انگریزی ادب کے طالب علم ڈاکٹر عرفان عزیز نے لکھا ہے کہ کرناٹک کی مسلمان خاتون ادیب بانو مشتاق کا کہنا ہے کہ سیاست، مذہب اور معاشرہ عورتوں کو فقط فرمانبردار بنانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ ان کی کہانیوں کا مرکزی خیال عورتوں کی کم ترین سماجی حیثیت ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ موجودہ دور میں ’’ سچ عام طور پر ناپسندیدہ ہوتا ہے‘‘ ہم ایک ایسے وقت میں جی رہے ہیں جہاں سچ بولنے والوں کو دبایا جا رہا ہے اور اظہارِ رائے کے لیے برداشت مسلسل کم ہو رہی ہے۔ مذہب، سیاست اور معاشرے کے دیگر طاقتور طبقات عوام کو تقسیم کرنے میں مصروف ہیں۔ ایسے ماحول میں بانو مشتاق کا ادب، کہانی، موسیقی اور رقص کو جوڑنے والی قوت کے طور پر پیش کرتا ہے یہ صرف لکھنے والوں ہی کا نہیں، ہم سب کا فریضہ ہے کہ ہم نفرت اور تعصب کے خلاف اتحاد اور ہم آہنگی کے بیانیے کو فروغ دیں۔

ان حالات میں ادب کو ایک پل کا کردار ادا کرنا چاہیے۔ جس کا مقصد معاشرے کے کمزور طبقات کے درمیان تعلق پیدا کرنا ہے۔ انھوں نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ ’’ لوگوں کو ایک دوسرے کا ہاتھ تھامنا چاہیے‘‘ بظاہر یہ انتہائی سادہ لیکن گہرا اور انقلابی پیغام ہے۔ ایک ایسا پیغام جو ہمیں یاد دلاتا ہے کہ جُڑے رہنا، ساتھ چلنا اور ایک دوسرے کو سننا، یہی ہماری بقا اور ترقی کا راستہ ہے۔ بانو مشتاق اور دیگر جرات مند خواتین کی جدوجہد کے اثرات بھارت کے دیگر ریاستوں کی مسلمان خواتین پر بھی پڑرہے ہیں۔

 کورونا کی وباء سے پہلے دہلی کی پسماندہ بستی شاہین باغ کی مسلمان خواتین کا مودی حکومت کی انتہا پسندانہ پالیسیوں کے خلاف احتجاج اس کی کڑی تھی۔ بانو مشتاق کا اعزاز بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کی خواتین کے لیے ایک لائٹ ہاؤس کے مانند ہے، وہ وقت جلد آئے گا جب پاکستان کی کسی خاتون مصنفہ کو یہ عالمی ایوارڈ ملے گا۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: میں خواندگی کا تناسب کی مسلمان خواتین بانو مشتاق کا خواتین کے عورتوں کو کرناٹک کی انھوں نے جاتا ہے عورت کو کے خلاف بانو کے ہے مگر ہیں کہ کے لیے اور ان

پڑھیں:

تحریک انصاف کا 5اگست کو مینار پاکستان پر جلسے کا اعلان، اجازت کیلئے درخواست دیدی

تحریک انصاف کا 5اگست کو مینار پاکستان پر جلسے کا اعلان، اجازت کیلئے درخواست دیدی WhatsAppFacebookTwitter 0 22 July, 2025 سب نیوز

لاہور(سب نیوز)پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)نے 5 اگست کو مینار پاکستان پر جلسے کا اعلان کر دیا۔صدر پی ٹی آئی لاہور شیخ امتیاز محمود نے ڈپٹی کمشنر کو جلسے کی اجازت کیلئے درخواست دے دی۔
درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ تحریک انصاف بانی پی ٹی آئی عمران خان کی رہائی کیلئے جلسہ کرنا چاہتی ہے، 4 سے لے کر 10 بجے تک 5 اگست کو پارٹی قیادت کے ساتھ صوبائی اسمبلی کے ممبران مینار پاکستان میں جلسہ کرنا چاہتے ہیں۔درخواست میں کہا گیا کہ مینار پاکستان یا کسی اور متبادل جگہ پر جلسہ کی اجازت دی جائے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرضرورت پڑی تو واشنگٹن دوبارہ حملہ کرے گا، ڈونلڈ ٹرمپ کی ایران کو پھر دھمکی ضرورت پڑی تو واشنگٹن دوبارہ حملہ کرے گا، ڈونلڈ ٹرمپ کی ایران کو پھر دھمکی سی ڈی اے ملازمین کو پلاٹوں کی الاٹمنٹ کا معاملہ، اسلام آباد ہائیکورٹ کا تفصیلی فیصلہ جاری ایف جی ای ایچ اے کے ملازمین کا ادارے میں کرپشن، اقربا پروری پر وزیراعظم آفس کو خط اسلام آباد کی عدالت نے علی امین گنڈا پور کو بیان قلمبند کرانے کیلئے ایک اور موقع دیدیا بھارت کا پے در پے حادثات کے بعد مِگ 21طیاروں کو ہمیشہ کیلئے غیرفعال کرنے کا فیصلہ چیئرمین سی ڈی اے کی زیر صدارت اجلاس،مجموعی کارکردگی، ترقیاتی منصوبوں پر اب تک ہونے والی پیش رفت کا جائزہ TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین

  • شاہ رُخ اور پریتی کیساتھ ڈانس پرفارمنس، ہمایوں سعید نے یادگار قصہ سُنا دیا
  • بھارت: غیرملکی کے نام پر ملک بدری، نشانہ بنگالی بولنے والے مسلمان
  • فلسطین میں 130 نہتے ،بھوکے مسلمان بنے یہودی فوج کا شکار
  • تحریک انصاف کا 5 اگست کو مینار پاکستان پر جلسے کا اعلان
  • 5 اگست کو مینار پاکستان جلسہ، اب مذاکرات نہیں تحریک چلے گی: بیرسٹر گوہر 
  • موقع نہیں ملے گا تو کھلاڑی صلاحیت کیسے منوائے گا، علی امین گنڈاپور
  • تحریک انصاف کا 5اگست کو مینار پاکستان پر جلسے کا اعلان، اجازت کیلئے درخواست دیدی
  • راہل گاندھی مسلمانوں کے "منظم استحصال" پر پارلیمنٹ میں بات کریں، محبوبہ مفتی
  • پی ٹی آئی کا مینار پاکستان پر جلسے کا اعلان
  • یہودی فوج کے ہاتھوں 331 مسلمان فلسطین میں قتل