13 سال کی محبت رشتے میں بدل گئی، بھارت کی مشہور ٹیلی ویژن اداکارہ حنا خان نے آخرکار اپنے دوست راکی جیسوال سے شادی کر لی۔

یہ خوشخبری اداکارہ نے خود اپنے آفیشل انسٹاگرام اکاؤنٹ پر دلکش تصویروں کے ساتھ شیئر کی، جسے دیکھ کر مداحوں نے نیک تمناؤں کا اظہار کیا اور آنے والی زندگی کے لیے دعائیں کیں۔

حنا خان پاکستان میں بھی بے حد مقبول ہیں، ان کے مشہور ڈرامے یہ رشتہ کیا کہلاتا ہے، کسوٹی زندگی کی اور بگ باس میں شرکت نے انہیں سرحد پار بھی لاکھوں دلوں کا محبوب بنا دیا، وہ خطرات سے بھرپور رئیلٹی شو خطروں کے کھلاڑی میں بھی جلوہ گر ہو چکی ہیں، انسٹاگرام پر ان کے 20 ملین سے زائد فالوورز ہیں۔

چند سال قبل حنا خان نے انکشاف کیا تھا کہ وہ اسٹیج تھری بریسٹ کینسر کا سامنا کر رہی ہیں، انہوں نے اپنی بیماری کے دوران بھی ہمت اور حوصلے کی اعلیٰ مثال قائم کی، ان کی صحت یابی کے سفر میں راکی جیسوال کا کردار بے حد اہم رہا، راکی نے ان کا بھرپور ساتھ دیا اور ہر لمحے ان کے ساتھ کھڑے رہے۔

حنا اور راکی گزشتہ 13 سالوں سے ایک دوسرے کے ساتھ تھے، مداح برسوں سے ان کی شادی کا انتظار کر رہے تھے، آخرکار اس خوبصورت جوڑی نے سول میرج (عدالتی شادی) کے ذریعے اپنی محبت کو باضابطہ رشتے میں بدل دیا، انسٹاگرام پر شیئر کی گئی تصویروں میں دونوں نہایت خوش اور مطمئن نظر آ رہے ہیں۔

View this post on Instagram

A post shared by ???????????????? ???????????????? (@realhinakhan)


اداکارہ نے تصاویر کے ساتھ ایک نہایت جذباتی پیغام بھی شیئر کیا، جس میں کہا کہ دو مختلف دنیاؤں سے نکل کر ہم نے محبت کی ایک کائنات تعمیر کی، ہمارے تمام فرق مٹ گئے، ہمارے دل یکجا ہو گئے اور ایک ایسا بندھن وجود میں آیا جو عمروں تک قائم رہے گا، ہم ایک دوسرے کا گھر، روشنی، اور امید ہیں، بطور شوہر اور بیوی ہم آپ کی دعاؤں اور نیک تمناؤں کے طلبگار ہیں۔

حنا خان نے معروف فیشن ڈیزائنر منیش ملہوترا کا تیار کردہ خصوصی لباس زیب تن کیا، ساڑھی کا رنگ اوپل گرین تھا، جس پر ہلکی سنہری اور چاندی کی زری اور دھاگے کے نفیس کام سے سجایا گیا تھا۔

ساڑھی کی خاص بات یہ تھی کہ اس پر حنا اور راکی کے نام خاص طور پر کڑھائی سے لکھوائے گئے تھے، دوسری جانب ان کے شوہر راکی جیسوال نے آف وائٹ رنگ کا کلاسک کرتا پہنا جو سادگی، روایت اور وقار کا امتزاج تھا۔

حنا خان کے فالوورز اور شوبز شخصیات کی جانب سے مبارکبادوں کا سلسلہ جاری ہے، ان کے انسٹاگرام پوسٹ پر مداحوں نے نیک تمناؤں کے ساتھ ساتھ دعائیں بھی دی ہیں، خاص طور پر ان کے کینسر سے مقابلے کے حوصلے اور زندگی کی نئی شروعات پر۔

Post Views: 2.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: کے ساتھ

پڑھیں:

کوئی ہے جو توجہ کرے!!

اس وقت ہمارا ملک دنیا بھر میں جس چیز کے لیے بدنام ہو رہا ہے، وہ ہے گداگری۔ ملک سے باہر تو ہم نے جھنڈے گاڑ ہی دیے ہیں مگر ملک کے اندر حالت ابتر ترین ہے۔ چند دن قبل مری جانے کا اتفاق ہوا، یہ تو ہمارے لیے سیاحتی مقامات ہیں مگر ان کے لیے کمائی کا بہترین مقام ۔ ان مقامات پر غیر ملکی سیاح بھی جاتے ہیں اور وہ بھی چپے چپے پر اپنے اردگرد شہد کی مکھیوں کی طرح بھنبھنانے والے ان گداگروں سے تنگ پڑتے ہیں۔

ان میں مرد و زن، بچے اور بوڑھے سب شامل ہیں۔ آپ انھیں نظر انداز کریں تو وہ جیسے آپ کے ساتھ چپک ہی جاتے ہیں، آپ کو اندیشہ ہونے لگتا ہے کہ آپ کے بیگ پر ہی ہاتھ نہ مار دیں۔ اگر جواب میں یہ بھی کہہ دیں کہ معاف کریں تو انھیں یقین ہو جاتا ہے کہ آپ نے انھیں دیکھ لیا ہے اور وہ اگر ڈھٹائی سے اپنے موقف پر قائم رہے توآپ انھیں ضرور کچھ نہ کچھ دے کر ہی جائیںگے۔ غلطی سے آپ نے کسی ایک پر ترس کھا کر اپنی جیب سے جونہی کچھ رقم نکال کر اس کے ہاتھ پر رکھی، آپ نے گویا اپنی شامت کو دعوت دے دی۔

یوں ہر طرف سے بھڑوںکی طرح باقی لوگ بھی نکل کر آپ کا گھیراؤ کر لیں گے اورآپ خود کو اس سچویشن میں پھنسا ہوا پائیں گے۔پٹریاٹہ سے چئیر لفٹ پر جاتے ہوئے بھی جہاں جہاں چئیر لفٹ زمین کے نزدیک ہوتی ہے وہاں وہاں پر بھی آپ کو گداگر زمین پر کھڑے ، اونچی اونچی آوازیں لگاتے نظر آتے ہیں۔ کیا شرم کا مقام ہے، کیا یہ ہمارا چہرہ ہے جو ہم دنیا کو دکھاتے ہیں؟ ملک کے باقی شہروں میں تو ان مانگنے والوں نے ایسے حلیے بنا رکھے ہیں کہ کوئی ان پر ترس کھائے مگرتفریحی مقامات پرتو ہٹے کٹے لوگ، نک سک سے ٹھیک ٹھاک نظر آتے ہوئے بھی یک لخت بھکاری کا روپ دھار لیتے ہیں۔ ایسا ہی کئی بار حرمین میں ہوا، جب بھی کبھی عمرے کے لیے گئے، ساتھ بیٹھی کسی عورت نے سلام کیا، اپنے برقعے کی نقاب اٹھا کر اپنا تعارف کروایا اور ساتھ ہی اپنا رٹا رٹایا مسئلہ بیان کرنا شروع کر دیا کہ عمرے پر آئی تھی کسی گروپ کے ساتھ، ان سے بچھڑ گئی ہوں۔

 آپ مدد کر دیں تا کہ میں کسی طرح واپس جا سکوں ۔ ظاہر ہے کہ اس کہانی پر کسے یقین آتا ہے، آپ شش و پنج میں پڑ جاتے ہیں کہ اللہ تعالی کے گھر میں بیٹھ کر کوئی آپ سے جھوٹ بول سکتا ہے نہیں۔کسی بھی انسان کے لیے کسی دوسرے کے آگے ہاتھ پھیلانا اتنا مشکل ہے کہ برے سے برے حالات میں بھی انسان بڑی مشکل سے کسی کے سامنے زبان کھول پاتا ہے۔ ان گداگروں کو دیکھ کر یہی خیال آتا ہے کہ ان میں عزت نفس اور احساس توہین ناپید ہو جاتا ہے، جب آپ گداگری کو پیشہ بنا لیں تو پھر کیسی شرم اور کیسی حیا۔ دنیا میں کہیں بھی چلے جائیں۔

 آپ کا اپنا ہم وطن کسی نہ کسی طرح مانگتا ہوا نظر آئے گا، اگر وہ ڈنمارک میں کسی ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر اخبار بیچ رہا ہو گا اور آپ اخبار لینے کو رک جائیں گے تو اس کی کوشش ہوگی کہ وہ اس وقت میں آپ سے اخبار کی قیمت تو لے گا ہی، ساتھ ہی کچھ انسانی ہمدردی کا واسطہ دے کر کچھ اضافی بٹورنے کو ضرور ڈرامہ کرے گا۔

ایسا کسی نے ہمیں بتایا کہ اگر کسی بھی یورپین ملک میں آپ کسی پاکستانی، بنگالی یا انڈین کھوکھے والے سے کچھ خریدیں، اخبار، پان ، سگریٹ، چپس، ٹافیاں یا کوئی ایسی ہی چھوٹی موٹی چیز تو اس بات کا خیال رکھیں کہ ان کے ہاتھ میں اتنی ہی رقم دیں جتنی کہ آپ کی خریداری کی بنتی ہے ورنہ بقایا واپس دینے میں وہ متامل ہوتے ہیں اور اپنی غربت اور بے بسی کی ایسی تصویر کھینچتے ہیں کہ کچھ لوگوں سے وہ فالتو رقم اور بھی نکلوا لیتے ہیں۔

  ہمارے ہاں پٹرول پمپوں پر گاڑیوں کو صاف کرنیوالے کپڑے بیچنے والے بھی آپ کو ایک کپڑا سو روپے کے عوض بیچ کر اپنا اگلا سبق شروع کر دیتے ہیں کہ ان کے گھر میں آٹا ختم ہو گیا ہے اور انھوں نے دو دن سے کوئی کپڑا نہیں بیچا ہے اس لیے اگر انھیں راشن خریدنے کے لیے کچھ اضافی رقم مل جائے تو!!نوجوان لڑکیاں، باریک اور چست لباس پہنے جب گاڑیوں کے ساتھ لپٹ لپٹ کر، شیشوں کے ساتھ منہ چپکا چپکا کر ہمدردی سے زیادہ توجہ حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں تو وہ منظر بہت برا لگتا ہے۔

انھیں کوئی نصیحت کریں تو وہ بھی بے کار ہے، انھیں کچھ سمجھانا آپ کے اپنے وقت کا زیاں ہے۔جانے حکومتیں اس طرف توجہ کیوں نہیں مبذول کرتیں؟ ملک سے گداگری کا خاتمہ اس طرح نہیں ہو سکتا ہے کہ آپ گداگروں کو مفت کھانے پر لگا دیں ، اس وقت بھی وہ کھانے پینے کی فکر سے آزاد ہوجاتے ہیں اور کھانا انھیں بھیک کے ساتھ ساتھ بونس محسوس ہوتا ہے ۔ گداگری کو قابل سزا جرم قرار دیا جانا چاہیے اور اس پر سخت سزائیں مقرر ہوں۔

متعلقہ مضامین

  • ’’چھ ماہ میں مرجاؤ گے‘‘؛ ڈاکٹر کی وارننگ نے عدنان سمیع کی زندگی بدل دی
  • روحانی تربیت یا عملی زندگی سے فرار؟
  • متحدہ عرب امارات نے 222 شہریوں کے کل 139 ملین درہم کے قرضے معاف کردیے
  • قدرتی ماحول کے بغیر زندگی کا وجود ناممکن ہے؛ عرفان علی کاٹھیا
  • اسرائیل جان بوجھ کر غزہ کے شہریوں کو زندگی کے وسائل سے محروم کر رہا، اقوام متحدہ
  • ’ہم نے محبت کا جہاں بسا لیا‘، حنا خان راکی جیسوال کیساتھ شادی کے بندھن میں بندھ گئیں
  • آج کا دن کیسا رہے گا؟
  • کوئی ہے جو توجہ کرے!!
  • فیلڈ مارشل کی قیادت میں بھارت کو جو سبق سکھایا وہ زندگی بھر نہیں بھولے گا وزیراعظم