data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اسلام آباد میں وفاقی حکومت نے مالی سال 2025-26 کا 17 ہزار 600 ارب روپے کا بجٹ پیش کر دیا ہے جس میں بینک ٹرانزیکشنز پر ٹیکس میں اضافے سمیت نان فائلرز پر نئی پابندیوں کا اعلان کیا گیا ہے۔ وزیر خزانہ کی جانب سے پیش کردہ بجٹ کے مطابق اب بینک سے 50 ہزار روپے یا اس سے زیادہ کی رقم نکالنے پر ٹیکس کی شرح 0.

6 فیصد سے بڑھا کر 1.2 فیصد کر دی گئی ہے۔

نان فائلرز کے لیے سخت ترین اقدامات متعارف کروائے گئے ہیں جن میں بیرون ملک سفر، جائیداد کی خریداری اور گاڑیوں کی رجسٹریشن پر مکمل پابندی شامل ہے۔ ان اقدامات کے ساتھ ساتھ شیئرز، میوچل فنڈز اور دیگر بڑی مالی لین دین پر بھی نان فائلرز کے لیے پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔

بجٹ دستاویزات کے مطابق آئندہ مالی سال میں وفاقی حکومت کی کل آمدن 19 ہزار 300 ارب روپے تک پہنچنے کا تخمینہ لگایا گیا ہے جبکہ ایف بی آر کا ٹیکس ہدف 14 ہزار 130 ارب روپے مقرر کیا گیا ہے۔ ان اعداد و شمار کے مطابق 57 فیصد یعنی تقریباً 8300 ارب روپے صوبوں کو این ایف سی ایوارڈ کی مد میں منتقل کیے جائیں گے۔

حکومت نے معاشی ترقی کے لیے متعدد منصوبوں کا اعلان کیا ہے جن میں 1000 انڈسٹریل اسٹیچنگ یونٹس کے لیے 25 کروڑ روپے، لیپ ٹاپ اسکیم، 15352 دیہات میں بجلی کے نظام کی بہتری، 2800 میگاواٹ بجلی کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ اور ایم ایل ون و کراچی سرکلر ریلوے منصوبوں پر تیز رفتار پیشرفت شامل ہیں۔

ٹیکس نظام میں اصلاحات کے تحت سپر ٹیکس میں بتدریج کمی کی گئی ہے جہاں 20 کروڑ روپے منافع پر ٹیکس 1 فیصد سے کم کر کے 0.5 فیصد کر دیا گیا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات پر لیوی 78 روپے سے بڑھا کر 100 روپے فی لیٹر کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے جبکہ 3500 سے زائد امپورٹڈ اشیا پر اضافی ڈیوٹیز میں کمی کی گئی ہے۔

حکومت کا کہنا ہے کہ یہ تمام اقدامات غیر رسمی معیشت کو رسمی دھارے میں لانے اور ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے کے لیے کیے گئے ہیں۔ ماہرین معاشیات کے مطابق یہ اصلاحات اگرچہ حکومتی آمدن بڑھانے میں معاون ثابت ہوں گی تاہم عام شہریوں پر معاشی دباؤ میں اضافے کا خدشہ بھی موجود ہے۔

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: نان فائلرز ارب روپے کے مطابق پر ٹیکس گیا ہے

پڑھیں:

ایک سال کے دوران حکومتی قرضوں میں 10 ہزار ارب کا اضافہ، مجموعی قرض 84 ہزار ارب ہوگیا

اسلام آباد:

ایک سال کے دوران حکومتی قرضوں میں 10 ہزار ارب کا اضافہ ہوا ہے جس کے سبب مجموعی قرض 84 ہزار ارب سے زائد ہوگیا۔

حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف کے فریم ورک کے تحت پاکستان کے ذمہ قرضوں سے متعلق وزارت خزانہ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تین سال میں پاکستان کے ذمہ قرضوں کا تناسب 70.8 فیصد سے کم ہو کر  60.8  فیصد پر آنے کا تخمینہ ہے، مالی سال 2026ء سے 2028ء کی درمیانی مدت میں قرض پائیدار رہنے کی توقع ہے۔

وزارت خزانہ کے مطابق جون 2025ء تک پاکستان کے ذمہ مجموعی قرضہ 84 ہزار ارب روپے سے زیادہ ہوگیا، گزشتہ ایک سال کے دوران قرضے میں  10 ہزار ارب روپے سے زیادہ اضافہ ہوا، سال 2028ء تک فنانسنگ کی ضروریات 18.1 فیصد کی بلند سطح پر رہیں گی، گزشتہ سال مارک اپ ادائیگیوں میں 888 ارب روپے کی بچت ہوئی۔

وزارت خزانہ نے قرضوں سے متعلق  خطرات اور چیلنجز کی بھی نشاندہی کردی ہے۔ وزارت خزانہ حکام کے مطابق رپورٹ میں معاشی سست روی کو قرضوں کی پائیداری کیلئے بڑا خطرہ قرار دیا گیا ہے، ایکسچینج ریٹ اور سود کی شرح میں تبدیلی قرض کا بوجھ بڑھا سکتی ہے، بیرونی جھٹکے اور موسمیاتی تبدیلی قرض کے خطرات میں اضافہ کر سکتے ہیں، فلوٹنگ ریٹ قرض کی بڑی مقدار سے شرح سود کا خطرہ بلند رہے گا، پاکستان کے ذمہ مجموعی قرضوں کا 67.7 فیصد ملکی قرض ہے۔

وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ 80 فیصد قرض فلوٹنگ ریٹ پر حاصل کیا گیا، شرح سود کا خطرہ برقرار ہے، مختصر مدت کے قرضوں کی شرح 24 فیصد، ری فنانسنگ کا خطرہ برقرار ہے، بیرونی قرضے مجموعی قرض کا 32.3 فیصد ہیں، زیادہ تررعایتی قرضہ دوطرفہ و کثیرالجہتی ذرائع سے حاصل ہوا،  فلوٹنگ بیرونی قرض 41 فیصد ہےاس سے درمیانی سطح کا خطرہ برقرار ہے،کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھنے اور زرمبادلہ ذخائر کم ہونے کا امکان خطرناک ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مالیاتی نظم و ضبط اور معاشی استحکام سے قرض کا دباؤ کم ہوگا، برآمدات اور آئی ٹی سیکٹر کے فروغ سے زرمبادلہ استحکام کا ہدف ہے، قرض اجرا میں شفافیت اور سرمایہ کاروں کے اعتماد میں اضافہ ہوا، پائیدار ترقی، ٹیکنالوجی اورمسابقت سے قرض کے مؤثرانتظام کی سمت پیشرفت ہوئی، آمدن میں کمی یا اخراجات بڑھنے سے پرائمری بیلنس متاثر ہونے کا خدشہ ہے، ہنگامی مالی ذمہ داریوں کے اثرات بھی سامنے آسکتے ہیں، گزشتہ سال معاشی شرح نمو 2.6 فیصد سے بڑھ کر  3.0 فیصد ہوگئی،  اگلے تین سال میں شرح نمو بڑھ کر 5.7 فیصد تک جانے کا تخمینہ ہے۔

وزارت خزانہ کے مطابق مہنگائی 23.4 فیصد سے گھٹ کر 4.5 فیصد پر آگئی، سال 2028ء تک مہنگائی کی شرح 6.5 فیصد رہنے کا تخمینہ ہے، پالیسی ریٹ میں جون 2024ء سے 1100 بیسس پوائنٹس کی کمی آئی، زرمبادلہ مارکیٹ میں استحکام اور بیرونی ادائیگیوں کا دباؤ کم ہوا، وفاقی مالی خسارہ 6.8 فیصد ہدف کے مقابلے میں 6.2 فیصد تک محدود رہا، وفاقی پرائمری بیلنس 1.6 فیصد سرپلس میں رہا، درمیانی مدت میں کم از کم 1.0 فیصد سرپلس برقرار رہنے کی توقع ہے آمدن میں اضافہ، اخراجات میں کفایت، سود ادائیگیوں میں کمی سے بہتری آئی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • اے ٹی ایم اور بینک سے رقم نکلوانے پر چارجز میں نمایاں اضافہ
  • نان فائلرز سے اے ٹی ایم یا بینک سے رقم نکلوانے پر ڈبل ٹیکس کی تیاری
  • نان فائلرز کو اے ٹی ایم یا بینک سے رقم نکلوانے پر ڈبل ٹیکس دینا ہوگا
  • ایک سال کے دوران حکومتی قرضوں میں 10 ہزار ارب کا اضافہ
  • ایک سال کے دوران حکومتی قرضوں میں 10 ہزار ارب کا اضافہ، مجموعی قرض 84 ہزار ارب ہوگیا
  • وفاقی حکومت کا بڑا فیصلہ: سرکاری ملازمین کے ہاؤس رینٹ سیلنگ میں 85 فیصد اضافہ منظور
  • ایک سال میں حکومتی قرضوں میں 10 ہزار ارب روپے کا اضافہ، مجموعی قرض 84 ہزار ارب سے تجاوز کر گیا
  • ٹیکس ریٹرنز جمع کرانے والوں میں نمایاں اضافہ
  • وفاقی ملازمین کے ہائوس رینٹ سیلنگ میں 85 فیصد اضافہ منظور
  • سرکاری ملازمین کیلیے رہائشی مکانات کے کرایوں کی حد میں نمایاں اضافہ