تنخواہ داروں کو بڑی ریلیف: انکم ٹیکس میں تاریخی کمی کی تجاویز
اشاعت کی تاریخ: 10th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد میں وفاقی حکومت نے مالی سال 2025-26 کے بجٹ میں ملازمین اور تنخواہ دار طبقے کے لیے تاریخی ریلیف دیتے ہوئے انکم ٹیکس کی شرحیں کم کرنے کی تجاویز پیش کر دی ہیں۔
وزیر خزانہ کی جانب سے پیش کردہ بجٹ دستاویزات کے مطابق، 6 لاکھ روپے سے 12 لاکھ روپے سالانہ تنخواہ پر ٹیکس کی شرح موجودہ 5 فیصد سے کم کر کے 2.
حکومت نے زیادہ آمدنی والے شہریوں کو بھی ریلیف دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ 22 لاکھ روپے سالانہ تنخواہ پر کم سے کم ٹیکس کی شرح 15 فیصد سے گھٹا کر 11 فیصد کر دی گئی ہے، جبکہ 22 لاکھ سے 32 لاکھ روپے سالانہ تنخواہ والے افراد کے لیے ٹیکس کی شرح 25 فیصد سے کم کر کے 23 فیصد تجویز کی گئی ہے۔
وزارت خزانہ کے ترجمان کے مطابق یہ اقدام مڈل کلاس کے مالی بوجھ میں کمی اور معاشی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لیے اٹھایا گیا ہے۔ ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ موجودہ مہنگائی کے دور میں یہ قدم عام شہریوں کے لیے خوش آئند ہے، تاہم اس سے حکومتی خزانے پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ بعد میں لیا جائے گا۔
یہ تجاویز اب قومی اسمبلی میں منظوری کے لیے پیش کی جائیں گی، جہاں سے پاس ہونے کے بعد نئی ٹیکس اسکیم یکم جولائی 2024 سے نافذ العمل ہو جائے گی۔ حکومتی ذرائع کے مطابق اس اقدام سے ملازمین کی قوت خرید میں بہتری آنے کی توقع ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: لاکھ روپے ٹیکس کی کے لیے
پڑھیں:
پشاور، سابقہ دور حکومت میں 39 کروڑ سے زائد رقم کی عدم وصولی کی نشاندہی
آڈیٹر جنرل پاکستان نے سابقہ دور حکومت میں صوبائی محکموں میں اندرونی آڈٹ نہ ہونے کے باعث 39کروڑ 83 لاکھ سے زائد رقم وصول نہ ہونے کی نشان دہی کردی ہے۔
آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی 2021-2020 کی آڈٹ رپورٹ میں حکومتی خزانے کو ہونے والے نقصان کی نشان دہی گئی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ پراپرٹی ٹیکس اور دیگر مد میں بڑے بقایا جات کی ریکوری نہیں ہوسکی۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ حکومتی آمدن کا بھی درست طریقے سے تخمینہ نہیں لگایا جاسکا، محکمانہ اکاؤنٹس کمیٹیوں کے اجلاس باقاعدگی سے نہ ہونے پر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے فیصلوں کا نفاذ نہیں ہوسکا۔
آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ صوبے میں ریونیو اہداف بھی حاصل نہیں کیے جارہے ہیں، رپورٹ میں مختلف ٹیکسز واضح نہ ہونے کے باعث حکومت کو 32 کروڑ 44لاکھ 20 ہزار روپے کے نقصان کی نشاندہی ہوئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق پراپرٹی ٹیکس، ہوٹل ٹیکس، پروفیشنل ٹیکس، موثر وہیکلز ٹیکس کے 9کیسز کی مد میں نقصان ہوا، صرف ایک کیس ابیانے کی مد میں حکومتی خزانے کو 45لاکھ 80ہزار روپے کا نقصان ہوا۔
اسی طرح اسٹامپ ڈیوٹی اور پروفیشنل ٹیکس کی مد میں ایک کیس میں 15لاکھ روپے کے نقصان کی نشاندہی ہوئی ہے۔
آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کم یا تخمینہ صحیح نہ لگانے سے انتقال فیس، اسٹمپ ڈیوٹی، رجسٹریشن فیس،کیپٹل ویلتھ ٹیکس، لینڈ ٹیکس، ایگریکلچر انکم ٹیکس اور لوکل ریٹ کے 5کیسوں میں 4کروڑ 40لاکھ روپے کا نقصان ہوا۔
رپورٹ کے مطابق ایڈوانس ٹیکس کا تخمینہ نہ لگانے سے وفاقی حکومت کو دو کیسز میں ایک کروڑ 9لاکھ روپے کا نقصان ہوا جبکہ 69 لاکھ 50 ہزار روپے کی مشتبہ رقم جمع کرائی گئی۔
مزید بتایا گیا ہے کہ روٹ پرمٹ فیس اور تجدید لائنسس فیس کے 2کیسز میں حکومت کو 45لاکھ روپے کا نقصان اور 14لاکھ کی مشتبہ رقم بھی دوسرے کیس میں ڈپازٹ کرائی گئی۔
رپورٹ میں ریکوری کے لیے مؤثر طریقہ کار وضع کرنے اور کم لاگت ٹیکس وصول کرنے کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی سفارش کی گئی ہے۔