مخلوط حکومت کا دوسرا بجٹ، ملازمین کو نمایاں ریلیف
اشاعت کی تاریخ: 11th, June 2025 GMT
اسلام آباد(طارق محمودسمیر)وزیراعظم شہباز شریف کی مخلوط حکومت کا دوسرا بجٹ پیش کردیا گیا، جسے حکومت متوازن اور موجودہ حالات کے مطابق بہترین بجٹ قراردے
رہی ہے جب کہ اپوزیشن نے اسے آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن والااور عوامی مفادات کے منافی بجٹ قراردیا،بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں جہاں 10فیصداضافہ کیاگیاوہیں انکم ٹیکس میں نمایاں کمی کی گئی،6لاکھ سالانہ آمدن والوں کو ٹیکس سے استثنیٰ دے دیاگیاہے جب کہ 12سالانہ آمدن پر ٹیکس کی شرح پانچ فیصدسے کم کرکے دواعشاریہ پانچ فیصد،بائیس سے بتیس لاکھ سالانہ آمدن پر ٹیکس پچیس سے کم کرکے تیئس فیصد،سیکرٹریٹ ملازمین کے ساتھ طے پانیوالے معاہدے کے مطابق 30فیصد ڈسپیئرٹی الاونس کااعلان کردیاگیا،پراپرٹی کے شعبے میں بھی ٹیکس میں کمی کرتے ہوئے ودہولڈنگ ٹیکس کی شرح کم کردیاگیا،دفاعی بجٹ میں بیس فیصداضافہ ایک خوش آئنداور حالات کے مطابق درست فیصلہ ہے، بجٹ میں تنخواہ دارطبقے کونمایاں ریلیف فراہم کیاگیا،تنخواہوں میں 10فیصداضافہ کرنے کے علاوہ ان کے لئے ٹیکس سلیبز میں بھی نمایاں کمی کی گئی ، سالانہ 6 سے 12 لاکھ روپے تنخواہ والوں کے لئے ٹیکس کی شرح کو 1 فیصد مقرر کر دیاگیا، 12 لاکھ روپے سالانہ آمدن پر ٹیکس کی رقم کو 30 ہزار روپے سے کم کر کے صرف 6 ہزار روپے کرنے کی تجویز دی گئی،اسی طرح 22 لاکھ روپے تک کی سالانہ تنخواہ پر ٹیکس کی شرح کو 15 فیصد سے کم کر کے 11 فیصد کر دیا گیا، مزید برآں 22 سے 32 لاکھ روپے کی تنخواہ والوں کے لئے ٹیکس کی شرح کو بھی کم کر کے 23 فیصد مقرر کیا گیا ،اس اقدام کا مقصد ان پر مالی بوجھ کم کیا جا سکے،گریڈ ایک تا سولہ کے ملازمین کو تیس فیصد ڈسپیرٹی الاؤنس دینے کی تجویز ہے ، تنخواہ دار اور چھوٹے کاروباری افراد کے لئے آسان اور صارف دوست ریٹرن فارم متعارف کرانے کابھی اعلان کیاگیا، صرف7 بنیادی معلومات درکار ہوں گی اور صارف دوست ریٹرن فارم بھرنے کیلئے وکیل یا ماہر کی ضرورت نہیں ہوگی ، نئے مالی سال میں دفاعی بجٹ میں 20 فیصد اضافے کے ساتھ 2550 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز دی گئی ہے ،اسی طرح فوجی افسران اور جوانوں کے لئے سپیشل ریلیف الاؤنس کااعلان بھی کیاگیا،ملکی سلامتی کے حوالے سے بڑھتے ہوئے چیلنجز کے پیش نظردفاعی بجٹ میں اضافہ ناگزیرتھا، اس معاملے کو سیاسی رنگ نہیں دیاجاناچاہئے کیونکہ ملکی دفاع اور سلامتی سب سے مقدم ہے ،بجٹ میں آبی وسائل کے لئے 133 ارب روپے کی مختص کی گئی ،دیا مر اور بھاشا ڈیم کے لئے بتیس اعشاریہ سات ارب روپے، مہمند کے لئے پینتیس اعشاریہ سات ارب، آوران پنجگور سمیت بلوچستان کے دیگر 3 ڈیمز کے لئے 5 ارب مختص کیے گئے ،آبی وسائل کے لئے خطیررقوم مختص کیاجانا خوش آئنداقدام ہے ، وزیر خزانہ بجٹ تقریرمیں کہا کہ بھارت پانی روکنے کی دھمکی دے رہا ہے ، آبی ذخائر میں جنگی بنیادوں پر اضافہ کرنا ہوگا، واٹراسٹوریج میں 10 ملین ایکڑفٹ کا اضافہ کیا جائے گا، پانی کے ضیاع میں 33 فیصد کمی کی جائے گی، پاکستان کی معیشت کازیادہ تر انحصارچونکہ زراعت پر ہے ،اس تناظرمیں بھارت کی طرف سے آبی جارحیت سیممکنہ غذائی بحران کے ساتھ ساتھ قومی معیشت کو بھی سنگین خطرہ لاحق ہے،حکومت پاکستان بھارتی آبی جارحیت کے خلاف سفارتی محاذ پر کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ پاکستان کے لئے اپنی داخلی سطح پر بھی آبی تحفظ کی حکمت عملی ترتیب دینے کی ضرورت ہے، بجٹ میں سولر پینلز کی درآمد پر 18 فیصد ٹیکس کی تجویز ہے،اس سے سولرپینلزکی قیمتوں میں نمایاں اضافہ ہوگا،شمسی توانائی سستی توانائی کے مؤثرذریعہ ہے ،بھاری ٹیکس کے نفاذ سے شمسی توانائی کے فروغ کی کوششیں متاثرہوں گی ، حکومت کو چاہئے کہ سولرپینلزپربھاری ٹیکس کے نفاذ پر نظرثانی کرے تاکہ شمسی توانائی کو فروغ دیاجاسکے جوماحول دوست بھی ہے، مجموعی طور پردیکھاجائے تو آئی ایف کی کڑی شرائط اورمعاہدوں پر عملدرآمدکویقینی بناتے ہوئے ایک متوازن بجٹ پیش کرنے کی سعی کی گئی کیونکہ آئی ایم ایف کے بغیرمعیشت میں استحکام ناممکن تھا بلکہ ایک زمانے میں تو ڈیفالٹ کا شدیدخطرہ موجودتھااور اس وقت وزیراعظم شہبازشریف کی کوششوں سے نہ صرف یہ خطرات ٹلے بلکہ ایک مضبوط اور مستحکم معیشت کی بنیادبھی رکھی گئی،سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں دس فیصد اضافہ موجود ہ حالات کے مطابق کم ہے یہ اضافہ پندرہ سے بیس فیصدہوناچاہئے تھاکیونکہ وزیراعظم خود بارہایہ کہتے رہے ہیں کہ تنخواہ دارطبقے نے چارسوارب روپے کاٹیکس اداکیاجو ایک ریکارڈ ہے مجھ سمیت اشرافیہ کو اس کاجواب دیناہے،وزیراعظم ایسے سوالات اٹھانے کی بجائے ٹیکس چوروں سے ٹیکس وصول کریں ،ایف بی آرکو کرپشن سے پاک کریں ،ریٹیلرزاورپرچون سے ٹیکس وصولی کی حکمت عملی کااعلان نہیں کیاگیااس بارے میں توقع ہے کہ بجٹ پاس ہونے سے پہلے مزیداقدامات سامنے آئیں گے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
بجٹ 26-2025 میں تنخواہ داروں کیلئے ریلیف کا اعلان
فائل توٹو۔وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے اپنی بجٹ تقریر میں تنخواہ داروں کےلیے ریلیف کا اعلان کیا ہے، پچاس ہزار روپے تک ماہانہ تنخواہ پر کوئی ٹیکس نہیں ہوگا۔
51 ہزار سے ایک لاکھ ماہانہ تنخواہ پر ایک فیصد ٹیکس ہوگا، ایک لاکھ روپے سے ایک لاکھ 83 ہزار تک ماہانہ تنخواہ پر ٹیکس کی شرح 15 فیصد سے کم کر کے 11 فیصد کر دی گئی۔
ایک لاکھ تراسی ہزار روپے سے دو لاکھ 66 ہزار ماہانہ تنخواہ پر انکم ٹیکس کی شرح پچیس فیصد سے کم کر کے تئیس فیصد کر دی گئی۔
وزیرخزانہ نے اس موقع پر کہا کہ 6 لاکھ روپے سے 12 لاکھ روپے سالانہ تنخواہ پر ٹیکس کی شرح 5 فیصد سے کم کر کے 2.5 فیصد کر دی گئی۔
انھوں نے کہا کہ 22 لاکھ روپے سالانہ تنخواہ پر کم سے کم ٹیکس کی شرح 15 فیصد کے بجائے11فیصد کرنے کی تجویز ہے، جبکہ 22لاکھ روپے سے 32 لاکھ روپے سالانہ تنخواہ پر ٹیکس 25 سے کم کر کے 23 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔
فنانس بل کے مطابق 22 لاکھ سے زیادہ اور 32 لاکھ روپے سے کم آمدن پر 22 لاکھ سے اوپر رقم پر1 لاکھ 16ہزار فکس ٹیکس ہوگا۔