واشنگٹن(انٹرنیشنل ڈیسک) سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے لاس اینجلس میں ہونے والی حالیہ فسادات کے تناظر میں انسرکشن ایکٹ کے استعمال کا عندیہ دیا ہے۔ ایک ویڈیو میں، ٹرمپ نے کہا کہ اگر بغاوت کی صورتحال پیدا ہوتی ہے تو وہ اس قانون کو نافذ کریں گے۔
ویڈیو میں ٹرمپ نے لاس اینجلس میں ہونے والے فسادات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ دو راتوں میں صورتحال انتہائی تشویشناک رہی ہے، جہاں لوگ بڑے بھاری ہتھوڑوں اور کنکریٹ کے ٹکڑوں کا استعمال کرتے ہوئے پولیس اور فوجیوں پر حملے کر رہے ہیں۔ انہوں نے الزام لگایا کہ یہ فسادات ادا کیے گئے شرارت کرنے والوں کی کارستانی ہیں، جو شہر کو جلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ٹرمپ نے زور دیا کہ اگر وفاقی حکومت مداخلت نہ کرتی تو لاس اینجلس مکمل طور پر تباہ ہو جاتا۔ انہوں نے کہا کہ فسادات میں شریک افراد کو حراست میں لے لیا گیا ہے اور ان کے خلاف قانونی کارروائی جاری ہے۔
اس بیان کے بعد، پاکستانی سوشل میڈیا پر بحث شروع ہو گئی ہے، جہاں کچھ صارفین نے 9 مئی 2023 کے فسادات کا حوالہ دیتے ہوئے پاکستانی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بھی اسی طرح کے سخت اقدامات اٹھائے۔ ایک صارف نے لکھا، “حافظ صاحب اور شہبازشریف اس ویڈیو سے سبق سیکھیں اور 9 مئی کے مجرموں کو سزا دیں۔”
یہ بیان امریکی حکومت کی اندرونی سلامتی کے حوالے سے پالیسیوں پر ایک اور تنقیدی جائزہ کا باعث بن رہا ہے، جبکہ پاکستان میں بھی اس کا سیاسی اور سماجی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

Post Views: 2.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: لاس اینجلس

پڑھیں:

ٹرمپ نے عراق، شام کے مقابلے میں لاس اینجلس میں زیادہ امریکی فوجی بھیجے

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 12 جون 2025ء) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تقریباً 4,000 نیشنل گارڈ اہلکار اور 700 فعال میرینز کو ریاست کیلیفورنیا کے لاس اینجلس میں تعینات کیا ہے، تاکہ غیر قانونی طور پر ملک میں آنے والے تارکین وطن کو پکڑنے کی کوششوں کے خلاف اچانک بڑھتے ہوئے مظاہروں کا مقابلہ کیا جا سکے۔ یہ غیر معمولی مظاہرے ٹرمپ کی سخت امیگریشن پالیسیوں کے خلاف ہو رہے ہیں۔

لاس اینجلس میں مظاہرین پر قابو پانے کے لیے میرینز تعینات

اے بی سی نیوز کی رپورٹ کے مطابق، ’’لاس اینجلس میں 4,800 فعال نیشنل گارڈ اور میرینز اہلکار ہیں، جبکہ عراق میں 2,500 اور شام میں 1,500 امریکی فوجی ہیں۔‘‘

پینٹاگون کے مطابق لاس اینجلس میں فوج کی تعیناتی پر ٹیکس دہندگان پر 60 دنوں میں 134 ملین ڈالر کا بوجھ پڑے گا۔

(جاری ہے)

صدارتی اختیارات کے ’غلط استعمال‘ پر تشویش میں اضافہ

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے لاس اینجلس میں مظاہرین کے خلاف فوج کو تعینات کر دیا جب کہ وفاقی عدالت کے احکامات کو نظر انداز کر دیا ہے- یہ ایسے اقدامات ہیں جن سے امریکہ میں جمہوری اداروں کی حالت کے بارے میں تشویش پیدا ہوئی ہے۔

امریکی شہر لاس اینجلس میں مظاہرے اور بدامنی جاری

عام طور پر، صدر امریکی ریاست میں نیشنل گارڈ کو اپنی مرضی سے یکطرفہ طور پر تعینات نہیں کر سکتے۔

گورنروں کو ایسی تعیناتیوں کا اختیار دیا جاتا ہے۔ جب کہ کیلیفورنیا کے گورنر گیون نیوزوم نے نیشنل گارڈ کی ضرورت کو واضح طور پر مسترد کر دیا ہے اور ٹرمپ انتظامیہ پر مقدمہ دائر کر دیا ہے۔

تاہم، 1807 کے بغاوت ایکٹ کے تحت، صدر کو بغاوت یا شہری بدامنی کے معاملات میں گورنر کی اجازت کے بغیر فوجی دستے تعینات کرنے کا اختیار ہے۔ امریکی وفاقی نظام میں ریاستوں کے حقوق کو دی جانے والی اہمیت کے پیش نظر ٹرمپ کے اس اختیار کو استعمال کرنے کے فیصلے کو انتہائی غیر معمولی سمجھا جارہا ہے۔

گورنر نیوزوم نے ٹرمپ پر ایگزیکٹو پاور کا غلط استعمال کرنے کا الزام لگایا اور خبردار کیا ہے کہ ان کے اقدامات سے جمہوری اصولوں کو خطرہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ’’کیلیفورنیا میں یہ پہلا قدم ہوسکتا ہے، لیکن یہ واضح طور پر یہیں ختم نہیں ہو گا۔‘‘ نیوزوم نے کہا،’’اس کے بعد دوسری ریاستوں کا نمبر آئے گا اور پھر جمہوریت کا۔

‘‘ امیگریشن مخالف چھاپوں کو روکنے کے مطالبات

لاس اینجلس ایریا کے میئرز اور سٹی کونسل کے اراکین نے امیگریشن کے خلاف جاری مسلسل چھاپوں کو روکنے کا مطالبہ کیا اور ٹرمپ پر زور دیا کہ وہ امیگریشن ایجنٹوں کے ساتھ مسلح فوجی دستے کا استعمال بند کر دیں۔

پیراماؤنٹ کی نائب میئر برینڈا اولموس نے کہا، ’’میں آپ سے درخواست کرتی ہوں، براہ کرم میری بات سنیں، ہمارے رہائشیوں کو دہشت زدہ کرنا بند کریں۔

‘‘ اولموس اواخرہفتہ کو مظاہروں کے دوران ربڑ کی گولیوں سے زخمی ہو گئی تھیں۔ انہوں نے مزید کہا، "آپ کو ان اقدامات کو روکنے کی ضرورت ہے۔‘‘

ایک نیوز کانفرنس میں لاس اینجلس میں دیگر میئرز کے ساتھ بات کرتے ہوئے میئر کیرن باس نے کہا کہ وائٹ ہاؤس کی ایما پر چھاپوں کے ذریعہ خوف پھیلایا گیا۔ شہر میں ضرورت کے مطابق رات کا کرفیو نافذ رہے گا۔

کیرن باس نے کہا ’’اگر چھاپے جاری رہے، اور اگر فوجی ہماری سڑکوں پر مارچ کرتے رہے تو میں تصور کرسکتی ہوں کہ کرفیو جاری رہے گا۔‘‘

ملک گیر چھاپوں میں پکڑے جانے والوں میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو پناہ کے متلاشی ہیں، اپنے ویزے کی مدت سے زائد قیام کرنے والے اور وہ تارکین وطن بھی شامل ہے جو اپنے مقدمات کی عدالتی سماعت کے منتظر ہیں۔

انتظامیہ نے نیشنل گارڈ اور میرینز کی تعیناتی کے اپنے فیصلے کے دفاع میں بڑے پیمانے پر ہونے والے احتجاجی مظاہروں کا حوالہ دیا ہے۔

کیلیفورنیا کے گورنر کی عدالت سے مداخلت کی اپیل

کیلیفورنیا کے ڈیموکریٹک گورنر، گیون نیوزوم نے ایک وفاقی عدالت سے اپیل کی ہے کہ ملک کے دوسرے سب سے بڑے شہر میں امیگریشن کے خلاف کارروائیوں میں مدد کرنے والی فوج کو ہنگامی طور پر روک دے۔

ایک جج نے اس درخواست پر جمعرات کو سماعت مقرر کی۔

ٹرمپ انتظامیہ نے بدھ کو اپنے سرکاری ردعمل میں اس مقدمے کو ’’غلط سیاسی اسٹنٹ‘‘ قرار دیا۔ جس سے اس کے بقول امریکی زندگیاں خطرے میں پڑسکتی ہیں۔

صدر ٹرمپ نے فوج تعینات کرنے کے اپنے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا، ’’اگر میں فوج نہ بھیجتا تو شہر جل چکا ہوتا۔‘‘

ادارت: صلاح الدین زین

متعلقہ مضامین

  • ٹرمپ نے عراق، شام کے مقابلے میں لاس اینجلس میں زیادہ امریکی فوجی بھیجے
  • مودی حکومت اختلاف رائے کو دبانے کیلئے "یو اے پی اے" قانون کا استعمال کررہی ہے، کانگریس
  • لاس اینجلس میں مظاہروں میں تیزی‘ میئر نے ایمرجنسی اور کرفیو کے نفاذ کا اعلان کردیا
  • گورنر کیلیفورنیا نے فوجی تعیناتی پر ٹرمپ کیخلاف مقدمہ دائر کر دیا
  • لاس اینجلس مظاہرے: ٹرمپ کا مزید 2 ہزار نیشنل گارڈز تعینات کرنے کا اعلان
  • امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا لاس اینجلس میں مظاہروں پر قابو پانے کے لیے فوجی اہلکار تعینات کرنے کا اعلان
  • لاس اینجلس ہنگامے: ’لگتا ہے کیلی فورنیا کے گورنر کو گرفتار کرنا پڑے گا‘، ڈونلڈ ٹرمپ
  • لاس اینجلس میں گارڈز کی تعیناتی، ریاست کیلیفورنیا کا ٹرمپ انتظامیہ کیخلاف مقدمہ دائر کرنیکا اعلان
  • بغاوت کا خطرہ ہے، مزید نیشنل گارڈز تعینات ہو سکتے ہیں، صدر ٹرمپ