امریکا نے فلسطینیوں کو امداد دینے والی 6 تنظیموں اور 5 افراد پر پابندیاں عائد کردیں
اشاعت کی تاریخ: 11th, June 2025 GMT
امریکا نے فلسطینیوں کو انسانی بنیادوں پر امداد فراہم کرنے والے 6 خیراتی اداروں اور 5 افراد پر دہشتگردی کے الزامات کے تحت پابندیاں عائد کر دی ہیں۔
امریکی محکمہ خزانہ کے مطابق ان تنظیموں پر الزام ہے کہ وہ فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کی مالی معاونت میں ملوث ہیں، جس کے تحت انہیں دہشتگرد تنظیمیں قرار دے کر بلیک لسٹ کر دیا گیا ہے۔
پابندی کا شکار تنظیموں میں غزہ کی الویام چیریٹیبل سوسائٹی، الجزائر کی البرکہ چیریٹی ایسوسی ایشن، ترکیہ کی فلسطین وقف فاؤنڈیشن، نیدرلینڈز کی اسرا فاؤنڈیشن، مقبوضہ مغربی کنارے کی تنظیم ادمیر اور اٹلی کی لا کپولا دی اورو شامل ہیں۔
امریکی بیان کے مطابق ان اداروں کے تمام امریکی اثاثے منجمد کر دیے گئے ہیں۔ ساتھ ہی واضح کیا گیا کہ انسانی ہمدردی کی آڑ میں فنڈنگ کا غلط استعمال دہشتگرد عناصر کو مضبوط کر رہا ہے، جو فلسطینی عوام کے لیے نقصان دہ ہے۔
پابندی کا شکار افراد میں محمد براہیمی (الجزائر)، ذکی عبداللہ ابراہیم عراروی (ترکیہ)، امین غازی ابوراشد اور اسرا ابوراشد (نیدرلینڈز) اور محمد حنون (اٹلی) شامل ہیں۔
محکمہ خزانہ کا کہنا ہے کہ ان پابندیوں کا مقصد سزا دینا نہیں بلکہ رویے کی اصلاح ہے، اور اگر کسی نے ان پابندیوں کی خلاف ورزی کی تو سخت کارروائی کی جائے گی۔
.
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور ناروے نے اسرائیلی وزرا پر پابندی لگا دی
مغربی کنارے میں معصوم فلسطینیوں کے خلاف انتہا پسندانہ تشدد کو ہوا دینے پر دو اسرائیلی وزرا کو مختلف ممالک کی جانب سے پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق دو انتہاپسند اسرائیلی وزرا ایتمار بین گویر اور بیزالیل سموٹریچ کے اثاثے منجمد اور سفری پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔
اسرائیلی وزیر خزانہ اور قومی سلامتی کے وزیر پر یہ پابندیاں برطانیہ، آسٹریلیا، کینیڈا، نیوزی لینڈ اور ناروے نے مغربی کنارے میں فلسطینیوں کیخلاف انتہا پسندی کو ہوا دینے پر عائد کی ہیں۔
ان پانچوں ممالک کے وزرائے خارجہ نے ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ بین گویر اور سموٹریچ نے فلسطینیوں کے خلاف انتہا پسندانہ تشدد پر اکسایا اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے مرتکب ہوئے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ان وزرا کی مغربی کنارے میں فلسطینیوں کی ان کے گھروں سے جبری بیدخلی اور نئی یہودی بستیوں کی آبادکاری کی حمایت کرنے والی انتہا پسندانہ بیان بازی خوفناک اور خطرناک ہے۔
خیال رہے کہ پابندی عائد کرنے والے یہ ممالک اسرائیل کے حلیف ممالک رہے ہیں اور نیتن یاہو کی حکومت کے لیے ہمدردیاں رکھنے کے باوجود اسرائیلی وزرا کی انتہاپسندی کو ناقابل قبول قرار دیا ہے۔
ان ممالک نے مغربی کنارے میں اسرائیل کی آبادکاری کی پالیسیوں اور یہودی آباد کاروں کے فلسطینیوں پر تشدد کی شدید سرزنش بھی کی تھی۔
پابندی کے شکار اسرائیلی وزرا نے پابندی کے خلاف سوشل میڈیا پر لکھا کہ انھیں پتہ چلا کہ برطانیہ نے فلسطینی ریاست کے قیام میں رکاوٹ ڈالنے پر ان پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہم نے فرعون پر قابو پایا تھا، ہم اسٹارمر کی دیوار بھی پار کرلیں گے۔
اسرائیل کے وزیر خارجہ نے اس اقدام کو "اشتعال انگیز" قرار دیتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم نیتن یاہو سے بات ہوئی ہے وہ اس پر اگلے ہفتے ملاقات کریں گے۔
یاد رہے کہ اس سے قبل جوبائیڈن انتظامیہ نے بھی مغربی کنارے میں تشدد میں ملوث بنیاد پرست اسرائیلی آباد کاروں پر پابندیاں عائد کی تھیں۔
واضح رہے کہ اسرائیل نے 1967 کی مشرق وسطی کی جنگ میں مشرقی یروشلم اور غزہ کی پٹی کے ساتھ مغربی کنارے پر بھی قبضہ کر لیا تھا۔