Daily Ausaf:
2025-07-27@19:10:51 GMT

جب تین پیسے کا اضافہ بھی اہم تھا

اشاعت کی تاریخ: 11th, June 2025 GMT

جب سے ہوش سنبھالا، ہر جون میں پاکستان کا وفاقی بجٹ ایک تہوار کی طرح پیش ہوتے دیکھا—جس کا انتظار اُتنی ہی بے چینی اور اُمید سے کیا جاتا تھا جتنی کسی بڑے قومی موقع کا۔ کاروباری طبقہ اسے تیز نگاہوں سے دیکھتا؛ کون سی اشیاء پر نیا ٹیکس لگے گا؟ کون سے محصولات منڈی کی سمت بدل دیں گے؟ جبکہ سرکاری ملازمین اور پنشنرز اس اُمید میں ہوتے کہ شاید اس بار تنخواہوں اور پنشنز میں کچھ اضافہ ہو جائے۔
بجٹ سے پہلے کے دن قیاس آرائیوں سے بھرے ہوتے۔ کچھ کاروباری حضرات تو محض اپنے گوداموں میں موجود اسٹاک کی بدولت یکدم امیر ہو جاتے کیونکہ حکومت کی نشستوں سے اعلان ہونے والے نئے محصولات ان اشیاء کی قیمتیں بڑھا دیتے۔
اُس وقت وزیرِ خزانہ کی بعد از بجٹ پریس کانفرنس بڑی سنجیدگی سے دیکھی جاتی۔ ہر لفظ کو صنعتکاروں اور ماہرینِ معیشت کے ہاں بڑی اہمیت دی جاتی۔ قومی اسمبلی میں بھاری بھرکم بجٹ کتب تقسیم ہوتیں—اعداد و شمار اور تمناؤں سے لبریز۔ اگرچہ اراکینِ اسمبلی میں کم ہی لوگ ہوتے جو انہیں بغور پڑھتے، مگر صحافیوں اور پارلیمانی محققین کے لیے یہ خزانے کی مانند ہوتیں جن سے وہ کئی ہفتے مواد کشید کرتے۔
مگر وقت تیز رفتاری سے گزر گیا۔ بجٹ—جو کبھی ایک نازک ریاستی حکمتِ عملی اور عوامی جذبات کا توازن ہوتا—اب ایک ایسا دیو بن چکا ہے جس کی جسامت کو لوگ محض بیزاری سے دیکھتے ہیں۔ وہ دور بیت گیا جب محض چند پیسوں کے اضافے پر مباحثے اور میڈیا میں ہنگامہ کھڑا ہو جاتا۔ معمولی قیمتوں میں ردوبدل بھی کبھی عوامی احتجاج یا پُرجوش دفاع کا باعث بنتا تھا۔ وہ معصومیت—یا شاید وہ چوکسی—اب معدوم ہے۔
حال ہی میں قومی اسمبلی کے سابق لائبریرین اور پارلیمانی تاریخ کے چلتے پھرتے انسائیکلوپیڈیا، محترم نعیم صدیقی صاحب کے ساتھ نشست ہوئی، جس میں ماضی کے بجٹوں کی یادیں تازہ ہوئیں—جب بجٹ صرف مالیاتی دستاویز نہیں بلکہ انسانی کہانیاں ہوتی تھیں۔ انہوں نے ایوب خان کے دور کا ایک واقعہ سنایا، جب محمد شعیب وزیر خزانہ تھے۔ ایک بنگالی رکن، جن کا نام افسرالدین احمد خان تھا، نے ایوان میں شکایت کی کہ کوکا کولا جو پہلے 50 پیسے میں ملتی تھی، اب 53 پیسے کی ہو گئی ہے۔ انہوں نے کہا: ’’شاید آپ کو معلوم نہ ہو، کیونکہ آپ تو یہ سرکاری ضیافتوں میں پیتے ہیں۔ ہم تو اپنی جیب سے پیتے ہیں۔‘‘ یہ جملہ سادہ مگر سچائی سے بھرپور تھا۔ اُس وقت منڈی کی قیمتیں روزانہ نہیں بلکہ ریاستی فیصلوں کے تحت تبدیل ہوتیں۔
وزیر خزانہ شعیب صاحب شاید اس خاص تنقید سے کچھ پریشان ہوئے، تو جواب دیا کہ ”صرف ایک شے، یعنی پوسٹ کارڈ، جس کی قیمت تین پیسے تھی، اب پانچ پیسے کر دی گئی ہے۔” مگر یہ معمولی اضافہ بھی شدید ردعمل کا باعث بنا۔ جب مٹی کے تیل کی بوتل کی قیمت 25 پیسے سے بڑھ کر 28 پیسے ہوئی، تو مشرقی پاکستان کے ایک مزدور رہنما اور ٹریڈ یونینسٹ محبوب الحق نے بڑی فصاحت سے اعتراض کیا۔ انہوں نے ایوان کو یاد دلایا کہ پوسٹ کارڈ محض تجارتی وسیلہ نہیں، بلکہ سماجی اور جذباتی ربط کا ذریعہ ہے۔’’جو لفافے میں خط بھیج سکتے ہیں، وہ افورڈ کر سکتے ہیں۔ مگر غریب پوسٹ کارڈ پر ہی انحصار کرتے ہیں۔‘‘
ایک اور موقع پر، جب مٹی کے تیل کی قیمت میں صرف تین پیسے کا اضافہ کیا گیا، تو محبوب الحق پھر بولے۔ ان کا استدلال آج کے دور میں کم ہی سننے کو ملتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مشرقی پاکستان کی جھونپڑیوں میں جہاں مٹی کے تیل کے چراغ ہی واحد روشنی کا ذریعہ ہیں، وہاں یہ اضافہ نہ صرف چراغ بجھائے گا، بلکہ اُمید کو بھی۔ ’’جب چراغ نہ جلیں، تو خاندانی منصوبہ بندی پر خرچ ہونے والے کروڑوں روپے ضائع ہو جائیں گے۔‘’ ان کی دلیل سے وزیر خزانہ قائل ہوئے اور تین پیسے کا اضافہ واپس لے لیا گیا۔
ماضی کے ان بجٹوں اور آج کے مالیاتی دیو ہیکل بجٹوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ایوب خان کے دور میں بجٹ 2 سے 3 ارب روپے کے درمیان ہوتا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں یہ 20 ارب سے تجاوز کر گیا، کیونکہ قومیانے کے عمل نے ریاستی کردار بڑھایا۔ جنرل ضیائالحق کے عہد میں بجٹ تقریباً 100 ارب تک پہنچ گیا، جو بڑھتی ہوئی ریاستی مشینری اور عالمی امداد کا عکس تھا۔
1990 کی دہائی میں، جمہوری دور میں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کے بجٹ 300 ارب سے اوپر چلے گئے۔ جنرل مشرف کے دور میں معیشت کی لبرلائزیشن ہوئی، اور بجٹ ایک کھرب سے بھی تجاوز کر گیا۔ 2013 میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے اختتام پر بجٹ 3 کھرب روپے سے بڑھ چکا تھا۔ عمران خان کے دور میں یہ 7 کھرب سے بھی اوپر پہنچ گیا، جس کی بڑی وجوہات قرضوں کی واپسی، دفاعی اخراجات، اور کورونا سے پیدا ہونے والے مالی دباؤ تھے۔
اب موجودہ سال میں وفاقی بجٹ 18 کھرب روپے سے بھی تجاوز کر چکا ہے—یہ وہ عدد ہے جو کبھی ناقابلِ تصور تھا۔ اس میں سے صرف قرضوں کی ادائیگی پر 9.

5 کھرب روپے خرچ ہو رہے ہیں—جو ماضی کے قرضوں کا بوجھ ہے۔ دفاعی اخراجات 2.1 کھرب کے قریب ہیں، سبسڈیز 1.4 کھرب کے لگ بھگ، اور ترقیاتی بجٹ کو اس کے تقاضوں سے کہیں کم حصہ دیا جا رہا ہے۔ تنخواہیں، پنشنز اور صوبوں کو گرانٹس باقی مالیاتی منظرنامہ مکمل کرتے ہیں۔ اس سب کے باوجود، عام آدمی کو اطمینان حاصل نہیں ہوتا۔ گلیوں میں بے چینی ہے، دکان دار فکرمند ہے، تنخواہ دار طبقہ مایوس ہے۔
یہ یادداشتیں اور موازنات صرف ماضی پر نوحہ نہیں بلکہ حال کا آئینہ ہیں۔ آج کا بجٹ، اپنے بے شمار اعداد و شمار اور پیچیدہ اصطلاحات کے باوجود، کیا واقعی زیادہ انسان دوست ہے؟ کیا اس کے معمار آج بھی کسی دیہی گھرانے، کسی چراغ یا کسی پوسٹ کارڈ کے جذبات سے آشنا ہیں؟
ہمیں خود سے یہ سوال کرنا ہو گا کہ کیا آج کا وفاقی بجٹ اب بھی ان لوگوں کی خدمت کرتا ہے جن کے لیے یہ بنایا جاتا ہے؟ یا یہ صرف ایک عددی مشق رہ گیا ہے، جو ان حقائق سے کٹ چکی ہے جو کبھی ہر پیسے کی قیمت بناتے تھے؟ بجٹ صرف ریاضی کا نہیں، ضمیر کا معاملہ ہے۔ جب حکومت ٹیکس بڑھائے، تو عوام کا اعتماد بھی بڑھائے۔ جب وہ ریلیف کا اعلان کرے، تو وہ کاغذ سے نکل کر عام آدمی کی زندگی میں محسوس بھی ہو۔
ماضی کے وہ خالص مباحث یاد کرنے کا مقصد محض سادگی کے دور کو یاد کرنا نہیں، بلکہ آج کے نظامِ حکومت کو وقار کی یاد دلانا ہے۔ بجٹ کو محض عددی رسم نہ بننے دیں بلکہ ایک قومی عہد نامہ بنائیں—ایسا جو اُن لوگوں کے دلوں سے مخاطب ہو، جو اندھیروں میں چراغ جلاتے ہیں۔

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: کے دور میں پوسٹ کارڈ انہوں نے تین پیسے ماضی کے کی قیمت بلکہ ا

پڑھیں:

آبادی میں خوفناک اضافہ پاکستان کے سیاسی ایجنڈے سے غائب کیوں؟

جنوبی ایشیا میں بلند ترین شرح نمو

پاکستانی وزارتِ صحت کے دستیاب اعداد و شمار کے مطابق ملک میں آبادی کی شرح نمو دو اعشاریہ چار فیصد تک پہنچ چکی ہے، جو جنوبی ایشیا کے تمام ممالک میں سب سے زیادہ ہے۔ یہاں ہر ایک خاتون اوسطاً تین سے زائد بچوں کو جنم دے رہی ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ صرف ایک چوتھائی خواتین ہی مانع حمل طریقوں سے فائدہ اٹھا پا رہی ہیں، جبکہ 17 فیصد خواتین ایسی بھی ہیں جو خاندانی منصوبہ بندی کی خواہش کے باوجود اس سہولت سے محروم ہیں۔

آبادی کو کنٹرول کرنے کا نظام مکمل ناکام

یہ تشویش ماضی کی طرح اب صرف ماہرین تک محدود نہیں رہی بلکہ اس کا اعتراف سرکاری طور پر بھی سامنے آ رہا ہے۔ وفاقی وزیر صحت سید مصطفیٰ کمال نے حال ہی میں کہا تھا کہ ملک میں بے قابو حد تک آبادی کا بڑھنا قومی ترقی اور استحکام کے لیے سنگین خطرہ بنتا جا رہا ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے موجودہ فرسودہ نظام اور کمزور منصوبہ بندی کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات پوری کرنے میں ’’مکمل طور پر ناکام‘‘ ہو چکے ہیں۔

پاکستان کے لیے بہت زیادہ آبادی کا بوجھ کس حد تک قابل برداشت؟

عالمی یوم آبادی: پاکستان میں شرح آبادی’بڑا خطرہ‘

پبلک پالیسی کے ماہر عامر جہانگیر کہتے ہیں کہ آبادی میں تیزی سے اضافہ محض اعداد و شمار کا مسئلہ نہیں بلکہ اس کے ریاست کے تمام نظاموں پر گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں: ''اس کے منفی اثرات براہِ راست صحت، تعلیم، روزگار کی فراہمی اور خاص طور پر خواتین اور بچیوں کی زندگیوں پر بھی پڑ رہے ہیں۔

‘‘ آبادی بے قابو، اہداف بے اثر

ڈاکٹر صوفیہ یونس، ڈائریکٹر جنرل پاپولیشن وِنگ، کے مطابق وزارتِ صحت کی جانب سے خاندانی منصوبہ بندی کے 2025ء کے اہداف پر پیش رفت کا جائزہ لینے کے لیے ابھی تک قومی سطح کا کوئی سروے نہیں کیا گیا۔ انہوں نے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا کہ سال 2030ء تک آبادی میں اضافے کی شرح کو 1.1 فیصد تک محدود کرنا ایک مشکل ہدف ہو سکتا ہے۔

اسی طرح عامر جہانگیر کا کہنا تھا کہ جب صحت کا نظام پہلے ہی دباؤ کا شکار ہو اور صنفی پالیسی سازی کے لیے ٹھوس اور تازہ اعداد و شمار موجود نہ ہوں، تو ان اہداف تک پہنچنا ایک چیلنج سے کم نہیں۔

سیاسی ایجنڈے سے غائب

سابق چیئرپرسن این سی ایس ڈبلیو نیلوفر بختیار کا کہنا ہے کہ پاکستان میں آبادی میں تیزی سے اضافے کا مسئلہ کبھی بھی حکومتی ترجیحات کا حصہ نہیں رہا۔

انہوں نے کہا کہ حکومتیں اور سیاسی جماعتیں اس اہم مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیتیں اور نہ ہی اپنے منشور میں شامل کرتی ہیں۔ ان کے مطابق، وسائل منتشر ہیں اور کوئی حکومت عملی اقدامات نہیں کر رہی۔ نیلوفر بختیار نے احتساب کے فقدان پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ برسوں سے خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں، مگر کوئی سنجیدہ پیش رفت نہیں ہوئی: ''خواتین اور بچوں کو روزانہ مشکلات اور اموات کا سامنا ہوتا ہے، لیکن نہ کوئی ادارہ اور نہ ہی کوئی فرد ذمہ داری قبول کرتا ہے، سب کچھ صرف نوٹس لینے تک محدود ہے جبکہ عملی اقدامات کا شدید فقدان ہے۔

‘‘ صورتحال انتہائی تشویشناک

پاکستان میں خاندانی منصوبہ بندی کی صورتحال تشویشناک ہے، جہاں ہر سال لاکھوں خواتین مجبوری میں اسقاط حمل کراتی ہیں، جبکہ مانع حمل سہولیات کی بھی صرف 65 فیصد طلب ہی پوری ہو رہی ہے۔ ماہر امراض نسواں، ڈاکٹر امِ حبیبہ کے مطابق، خاندانی منصوبہ بندی کے ناقص انتظامات اور خواتین کا محدود سماجی کردار پاکستان میں زچگی کے دوران اموات کی بلند شرح کے اہم اسباب ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سہولیات کی کمی، مذہبی پابندیاں، اور اسقاط حمل سے متعلق منفی معاشرتی رویے خواتین کو غیر محفوظ طریقے اپنانے پر مجبور کرتے ہیں، جو ان کی صحت اور زندگی دونوں کے لیے خطرناک ثابت ہوتے ہیں۔ مسئلہ صرف فنڈز تک محدود

ڈاکٹر رابعہ اسلم، اسسٹنٹ پروفیسر، شعبہ جینڈر اسٹڈیز، قائداعظم یونیورسٹی کے مطابق، پاکستان میں پالیسی سازوں کے لیے آبادی کے مسئلے کی نشاندہی پہلے ہی کی جا چکی ہے، لیکن یہ معاملہ تاحال صرف علامتی بیانات تک محدود ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اصل مسئلہ آگاہی کا نہیں بلکہ سیاسی عزم کی کمی ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ زبانی دعووں سے ہٹ کر خواتین کی صحت، تعلیم اور انہیں بااختیار بنانے کو خاندانی منصوبہ بندی کا محور بنا کر مؤثر اصلاحات کی جائیں۔

نیلوفر بختیار نے آبادی کے مسئلے پر ملکی اداروں کے کردار پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ بعض تنظیمیں اسے صرف عالمی فنڈز کے حصول کا ذریعہ بنائے ہوئے ہیں۔ انہوں نے پاپولیشن کونسل کی مثال دی، جس کی برسوں سے موجودگی کے باوجود کوئی مؤثر کارکردگی سامنے نہیں آئی۔

متعلقہ مضامین

  • کرپٹو میں 100ملین ڈالر ڈوبنے کا معاملہ،کس کے پیسے تھے ، کس نے ڈبوئے؟ بالآخر اصل کہانی سامنے آگئی
  • پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں عالمی سطح پر کمی، پاکستان میں اضافہ کیسے؟
  • آبادی میں خوفناک اضافہ پاکستان کے سیاسی ایجنڈے سے غائب کیوں؟
  • ہفتہ وار مہنگائی کی شرح میں 4 فیصد سے زائد کا بڑا اضافہ
  • پیسے واپس نہ دینے کا الزام، بھارتی اداکارہ روچی گجر نے پروڈیوسر کی چپل سے دھلائی کردی
  • پاکستانی روپے کی قدر میں بہتری، ڈالر کے مقابلے میں 76 پیسے کا اضافہ
  • ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں مسلسل تیسرے روز اضافہ
  • کراچی: فراڈ اور غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ’کال سینٹرز‘ کی تعداد میں اضافہ
  • "ایک اہم صوبائی عہدےدار ڈیرہ اسماعیل خان میں طالبان کو کتنے پیسے ہر ماہ دیتا ہے ؟"وزیرداخلہ محسن نقوی کا ٹوئیٹ، سوال اٹھا دیا
  • مچھلی اور اس کی مصنوعات کی برآمد میں جون کے دوران سالانہ بنیاد پر 25.58 فیصد اضافہ ،حجم 10.8 ارب روپے رہا