برازیل: جیتی جاگتی گڑیا رکھنے پر تنازع کھڑا ہوگیا
اشاعت کی تاریخ: 11th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
برازیل: حقیقی انسان سے مشابہ ’ری بورن گڑیاؤں‘ کا شوق اب محض ایک ذاتی شوق یا فن کا اظہار نہیں رہا بلکہ یہ معاملہ ملک میں سیاسی اور سماجی تنازع کی شکل اختیار کر گیا ہے۔
یہ گڑیائیں دیکھنے میں بالکل جیتے جاگتے بچوں کی طرح لگتی ہیں۔ سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز میں خواتین کو ان گڑیاؤں کو پارک میں ٹہلاتے، اسپتال لے جاتے اور یہاں تک کہ ان کے لیے سرکاری سہولیات کا مطالبہ کرتے بھی دکھایا گیا ہے۔
ان مناظر کے بعد برازیل کی مختلف ریاستوں میں قانون سازوں نے عوامی مقامات پر ان گڑیاؤں کو لے جانے پر پابندی کے لیے 30 سے زائد بلز پیش کیے ہیں۔ ریاست ایمازوناس کے ایک رکن اسمبلی نے الزام لگایا کہ چند خواتین ان گڑیاؤں کے لیے سرکاری مالی امداد یا فوائد کی درخواست کر رہی ہیں، جس پر شدید عوامی ردعمل سامنے آیا۔
دوسری طرف گڑیاؤں کو جمع کرنے والی خواتین اور فنکار ان ری بورن ڈولز کو محض آرٹ یا ذہنی سکون (تھراپی) کا ذریعہ قرار دیتی ہیں۔ ریو ڈی جنیرو کی کونسل نے 4 ستمبر کو ان گڑیا ساز فنکاروں کے اعزاز میں دن منانے کی تجویز منظور کی، لیکن میئر نے اس پر ویٹو لگا دیا۔
یہ تنازع اب محض ذاتی دلچسپی کا نہیں بلکہ سماجی، ثقافتی اور قانونی حدود کے درمیان کشمکش کا عکس بن چکا ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
قازقستان میں جبری شادیوں اور دلہنوں کے اغوا پر پابندی عائد، 10 سال قید کی سزا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
آستانہ: قازقستان میں نیا قانون نافذ ہوگیا ہے جس کے تحت ملک میں جبری شادیوں اور دلہنوں کے اغوا پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
عالمی میڈیا رپورٹس کے مطابق پولیس نے اعلان کیا ہے کہ اب اگر کوئی بھی شخص کسی خاتون یا لڑکی کو زبردستی شادی پر مجبور کرے گا تو اسے 10 سال تک قید کی سزا دی جا سکتی ہے، اس قانون کا مقصد جبری شادیوں کی حوصلہ شکنی کرنا اور کمزور طبقات خصوصاً خواتین اور نوجوانوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ دلہنوں کے اغوا پر بھی سختی سے پابندی لگا دی گئی ہے، اس سے قبل اگر کوئی اغوا کار متاثرہ خاتون کو اپنی مرضی سے چھوڑ دیتا تو قانونی کارروائی سے بچنے کے امکانات موجود ہوتے تھے، نئے قانون کے بعد یہ سہولت مکمل طور پر ختم کر دی گئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق قازقستان میں جبری شادیوں کے قابلِ اعتماد اعداد و شمار موجود نہیں تھے کیونکہ ملک کے کرمنل کوڈ میں اس حوالے سے کوئی علیحدہ شق شامل نہیں تھی، رواں برس کے اوائل میں ایک رکنِ پارلیمان نے انکشاف کیا تھا کہ گزشتہ تین سالوں کے دوران پولیس کو جبری شادیوں اور دلہنوں کے اغوا کے 214 کیسز رپورٹ ہوئے۔
یاد رہے کہ قازقستان میں خواتین کے حقوق کے مسائل 2023 میں اس وقت عالمی میڈیا کی توجہ کا مرکز بنے تھے جب ایک سابق وزیر نے اپنی اہلیہ کو قتل کر دیا تھا۔ اس واقعے کے بعد ملک میں خواتین کے تحفظ سے متعلق قوانین بنانے کا دباؤ بڑھ گیا تھا، اور نیا قانون اسی سلسلے کی کڑی ہے۔