’پاکستان میں شاہانہ پروٹوکول، لندن میں بیگ خود اٹھانا پڑ رہا ہے‘، بلاول بھٹو کی ویڈیو پر صارفین کے تبصرے
اشاعت کی تاریخ: 12th, June 2025 GMT
لندن(نیوز ڈیسک)پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین اور پارلیمانی سفارتی وفد کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری کی لندن سے ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہے جس میں انہیں بیگ اٹھائے ٹرین سے نیچے اترتے دیکھا جا سکتا ہے۔
ویڈیو وائرل ہوئی تو صارفین اس پر مختلف تبصرے کرتے نظر آئے۔ ایک صارف نے لکھا کہ یہ پاکستان میں شاہانہ پروٹوکول لیتے ہیں اور لندن میں بیگ خود اٹھانا پڑ رہا ہے۔
پاکستان میں شاہانہ پروٹوکول اور لندن میں بیگ حود اٹھانا بلاؤل بھٹو زرداری pic.
— Naveed???????? (@Navmohmand) June 12, 2025
صحافی اعزاز سید نے لکھا کہ ہمارے رہنما بیرون ممالک میں اپنا سامان بھی خود اٹھاتے ہیں اور بظاہر پروٹوکول بھی نہیں ہوتا، یہ بہت اچھی بات ہے۔ پاکستان کے اندر بھی اپنا سامان اٹھانے کی روایت اور پروٹوکول یا ہٹو بچو سے چھٹکارا ہونا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سیکیورٹی یعنی تحفظ ضروری ہے مگر اس کی نمائش و خود نمائی آپ کو چھوٹا کردیتی ہے۔ اعزاز سید کا مزید کہنا تھا کہ بلاول اس منظر میں اچھے نظر آ رہے ہیں۔
عمر چیمہ نے طنزاً لکھا کہ باہر تو اٹھانے کے لیے صرف سامان ہوتا ہے پاکستان میں ایسا نہیں ہوتا۔
خرم اقبال نے لکھا کہ اپنا سامان خود اُٹھانا اچھی روش ہے لیکن اصل بات یہ کہ وزن کے ساتھ بلاول بھٹو کے بال بھی گِر رہے ہیں، ایسا کیوں ہے؟
ایک صارف نے لکھا ک بلاول بھٹو زرداری وفد کے ہمراہ بغیر کسیروٹوکول کے بلجیئم پہنچ گئے نا گاڑیوں کی لمبی قطاریں اور ناہی سینکڑوں افراد ان کا استقبال کرنے کے لیے کھڑے ہیں۔
مزیدپڑھیں:’چہرے پر تھوک لگانے سے دانے ختم ہوگئے‘، فضا علی کے بیان پر صارفین کی تنقید
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: پاکستان میں بلاول بھٹو نے لکھا لکھا کہ
پڑھیں:
بلاول کی دانشمندانہ تجویز
نوجوان سیاست دان، پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور امریکا میں پاکستان کے لیے رائے عامہ ہموار کرنے والے وفد کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری نے واشنگٹن میں پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعات کے حل کے لیے ایک معقول تجویز پیش کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ "ISI-RAW cooperation could reduce terrorism"۔ انھوں نے اپنے اس نئے بیانیے کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ انھیں اس بات کا کامل یقین ہے کہ پاکستان اور بھارت کی خفیہ ایجنسیز کے حکام ایک دوسرے سے رابطہ کریں تو دونوں ممالک میں دہشت گردی کا قلع قمع ہوسکتا ہے۔ عالمی برادری کو اس حقیقت کو مدنظر رکھنا چاہیے کہ دو ایٹمی قوتوں کے درمیان تصادم خطرناک صورتحال اختیارکرسکتا ہے۔
بلاول بھٹو نے اس موقعے پر یہ بھی کہا کہ عالمی برادری، خاصوصاً صدر ٹرمپ اور ان کی ٹیم کی مداخلت سے پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی ہوگئی تھی مگر یہ پہلا خوش آیند اقدام تھا۔ بلاول نے اس بات پر خصوصی زور دیا کہ یہ محض پہلا قدم ہے۔ بلاول بھٹو نے امریکا کے دورہ کے دوران مستقل اس بیانیہ پر زور دیا کہ بات چیت اور ڈپلومیسی ہی امن کی طرف جانے والا واحد راستہ ہے اور پاکستان بھارت سے تمام مسائل پر جن میں دہشت گردی شامل ہے، جامع مذاکرات کرنے کا خواہاں ہے۔
اس کے ساتھ ہی وزارت خارجہ نے وزیر دفاع خواجہ آصف کے اس بیان کو حقیقت سے دور قرار دیا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان شملہ معاہدہ سمیت تمام معاہدے ختم ہوچکے ہیں۔ پاکستان اور بھارت 1948کے وقت کشمیر میں ہونے والی جنگ بندی کی صورت حال کے قریب ہیں۔ وزارت خارجہ کے ذرایع نے ایک غیر رسمی اعلامیہ میں واضح کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ماضی میں ہونے والے معاہدے موجود ہیں۔
2008میں پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں صدر آصف زرداری نے اپنی پہلی تقریر میں بھارت اور پاکستان کے درمیان تعلقات کو مستحکم کرنے کے لیے تجویز پیش کی تھی کہ بھارت اور پاکستان کے درمیانی سرحدی علاقوں میں صنعتی زون قائم کیے جائیں گے۔
کچھ عرصہ کے بعد ممبئی میں دہشت گردی کی سنگین واردات ہوئی جس میں 72 کے قریب افراد ہلاک ہوئے، پاکستان کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے عالمی واقعات کے تناظر میں فیصلہ کیا تھا کہ پاکستان کی خفیہ عسکری ایجنسی کے ڈی جی کو نئی دہلی بھیجا جائے تاکہ ممبئی دہشت گردی کی تحقیقات کا رخ شفاف طریقے سے ہو اور اس سانحہ کے ذمے داروں کو قرار واقعی سزا ہوسکے مگر وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی یہ دانش مندانہ تجویز طالع آزما قوتوں کو گراں گزری، مخصوص مائنڈ سیٹ کے حامل صحافیوں نے بھی اس تجویزکے خلاف واویلا کرنا شروع کردیا۔
یوں ایک جذباتی ماحول پیدا ہوگیا۔ مسلم لیگ ن اور جماعت اسلامی کے رہنماؤں نے بھی اس تجویز کی مخالفت کردی۔ یوں حکومت کو یہ تجویز واپس لینا پڑی مگر اس کا سب سے زیادہ نقصان پاکستان کو اٹھانا پڑا۔ بھارت نے امریکا کی مدد سے پاکستان کو ایشیا اور مشرق بعید کی Financial Action Task Force کی گرے فہرست میں شامل کر ادیا ۔ پاکستان کو FATFکی سفارشات پر عملدرآمد کرنا پڑا ۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان 1947 سے کشمیر کے مسئلے پر پیدا ہونے والے تنازع کی بناء پر دو بڑی جنگیں اور پانچ سے زیادہ چھوٹی جنگیں ہوچکی ہیں۔ 1971 کی جنگ کے بعد اس وقت کے صدر ذوالفقار علی بھٹو اور بھارت کی وزیراعظم مسز اندرا گاندھی کی بصیرت کی بنا پر شملہ معاہدہ ہوا۔ دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات دوبارہ قائم ہوئے۔ شملہ معاہدہ میں یہ طے ہوا کہ دونوں ممالک تمام تنازعات پرامن بات چیت کے ذریعے حل کریں گے۔
اس مقصد کے لیے سیکریٹریوں کی سطح پر بات چیت کے علاوہ وزراء خارجہ کی سطح پر بات چیت اور دونوں ممالک کے سربراہوں کی بات چیت پر اتفاق کیا گیا۔ شملہ معاہدہ کے تحت صرف اسلام آباد اور نئی دہلی میں ہی دونوں ممالک کے ہائی کمیشن نے کام شروع کیا بلکہ یہ فیصلہ بھی ہوا کہ کراچی اور ممبئی میں قونصل خانے کھولے جائیں گے۔ اس فیصلے کے تحت کراچی میں بھارت کا قونصل خانہ کھل گیا مگر بعض تکنیکی مسائل کی بناء پر ممبئی میں پاکستان کا قونصل خانہ قائم نہ ہوسکا۔ یوں دونوں ممالک کے شہریوں کو ویزے کے حصول میں آسانی ہوئی اور پھر دونوں ممالک کے درمیان تجارت شروع ہوگئی۔ بھارت نے پاکستان کو تجارتی شعبہ میں انتہائی پسندیدہ ملک Most Favourite Nationکا درجہ دیا۔
اس معاہدے کی روح کے مطابق وزیر اعظم واجپائی دوستی بس کے ذریعے لاہور آئے اور مینارِ پاکستان پر حاضری دی مگر کارگل جنگ نے معاملات الٹ دیے، وزیر اعظم نواز شریف کی دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کی کوششوں کو نقصان ہوا۔ وزیر اعظم بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کی کوششوں میں مصروف رہے۔
صدر پرویز مشرف اقتدار میں آئے تو وہ آگرہ گئے مگر آگرہ سربراہ کانفرنس ناکام ہوگئی۔ اس وقت کے بھارت کے وزیر اعظم واجپائی نے کہا تھا کہ صدر مشرف کو تاریخ کا ادراک نہیں ہے مگر جب صدر مشرف نے پاکستان کی روایتی خارجہ پالیسی سے انحراف کرتے ہوئے کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے 6نکات پیش کیے تو بھارت کی حکومت فوری طور پر فیصلہ نہ کرسکی۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف نے دوبارہ اقتدار میں آتے ہی بھارت سے تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے اقدامات کیے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی لاہور آئے ۔ لیکن اندرونی خلفشار کے نتیجے میں میاں نواز شریف کو سپریم کورٹ نے نا اہل قرار دیا۔
بلاول بھٹو نے واشنگٹن میں پریس کانفرنس میں یہ درست مؤقف اختیارکیا ہے کہ بھارت نے پاکستان کے پانی کو روکنے کے لیے سندھ طاس معاہدے کو معطل کیا ہے جو آبی جارحیت ہے ، یہ تنازع ایک بڑی جنگ میں تبدیل ہوسکتا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کی یہ تجویز درست ہے کہ مذاکرات اور ڈپلومیسی ہی مسائل کے حل کا طریقہ کار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کی دو سب سے بڑی قوتیں امریکا اور چین مستقل مذاکرات کے عمل میں مصروف رہتی ہیں۔ صدر ٹرمپ مستقل چین پر اقتصادی پابندیاں لگانے کے لیے تیار رہتے ہیں مگر پھر بھی صدر ٹرمپ اور چین کے مرد آہن Liqiang نے دیر تک ٹیلی فون پر بات چیت کی۔ بلاول بھٹو کی دانش مندانہ تجویز پر بھارت کو مثبت ردعمل کا اظہار کرنا چاہیے۔