WE News:
2025-07-29@11:29:54 GMT

بھینس کا یار لیڈر

اشاعت کی تاریخ: 29th, July 2025 GMT

صدیوں پرانا ویتنام تھا۔ جہاں بھینسوں کے ریوڑ تھے۔ قدرتی چاول اگتا تھا۔ سیلاب آتے تھے یا قحط پڑتے تھے۔ محل میں سناٹا تھا۔ ریاستی اداروں کے سارے بڑے سانس روک کر بیٹھے تھے۔ یہ سب ایک ہال میں جمع تھے۔ سب کی نظریں گرو پر تھیں کہ وہ کب حرکت کرتا ہے۔ گرو نے حاضرین کو دیکھا، اپنا رخ ایک دیوار کی طرف کر کے دونوں ہاتھ اٹھا دیے۔

دیوار پر ایک فلم چلنی شروع ہو گئی۔ بھینسوں کا ایک بہت بڑا ریوڑ دریا کنارے چر رہا تھا۔ راہبوں کا ایک گروپ لکڑی کا پل پار کر رہا تھا۔ راہب پل کے درمیان پہنچے تو رک گئے۔

دراصل آگے چلنے والا ایک نوجوان راہب ٹھہرا تھا۔ اس کی نظریں نہ چاہتے ہوئے بھی ایک منظر پر رک گئی تھیں۔ اسے سینکڑوں چرتی ہوئی بھینسوں میں ایک سنڈا دکھائی دے گیا تھا ۔ جو سکون سے ایک بھینس پر سوار تھا۔ بھینس اپنے سوار سے بے نیاز گھاس چر رہی تھی۔

بہت سے نوجوان راہب یہ سین دیکھ کر اپنے نفس کو قابو کرنے کی ساری مشق بھول کر مسکرانے لگ گئے تھے۔ اس نظارے میں کھوئے انہیں اندازہ تک نہیں ہو سکا تھا کہ کب پل ٹوٹا کب وہ سارے دریا کی لہروں کی نذر ہو گئے۔ یہ پل خود بخود نہیں ٹوٹا تھا۔ اس پل کو ایک درمیانی عمر کے راہب نے توڑا تھا۔

دیوار پر چلنے والے اگلے منظر میں یہی پل توڑنے والا راہب ایک بہت بوڑھے راہب کو ایک پہاڑی سے دھکا دیتا دکھائی دیتا ہے۔ تیسرے اور آخری منظر میں یہ قاتل راہب ایک مذہبی رسم میں سینکڑوں راہبوں کا سربراہ منتخب ہوتا دکھائی دیتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: معیشت کی دنیا بدل چکی، پاکستانی سیاست ابھی پرانی ہے

گرو اعلان کرتا ہے کہ تمھارے پاس ایک آپشن یہ راہب ہے۔ اس نے تمام مخالفوں کو راستے سے ہٹا کر راہبوں کی قیادت سنبھال لی ہے۔ اس دوران دیوار پر مختلف مناظر دکھائی دیتے رہتے ہیں۔ جن میں وہ راہب اپنے مخالفوں کو راستے سے ہٹاتا دکھائی دیتا ہے۔ ان سارے مناظر میں اکثر بھینسوں کے ریوڑ ہوتے ہیں۔ جن میں ایک سنڈا ضرور دکھائی دیتا ہے جو کسی بھینس پر سوار ہے۔

گرو ایک وقفہ کرتا ہے بس اتنا جس میں وہ حاضرین پر ایک نظر ڈالتا ہے۔ دوبارہ دیوار کی جانب رخ کر کے ہاتھ اٹھا دیتا ہے۔ دیوار پر ایک نیا منظر چلنے لگتا ہے۔ ایک جنگ کا منظر ہے۔ بھینسوں کا ایک بہت بڑا ریوڑ ہے۔ ایک بے ترتیب سی فوج حملہ آور ہے۔ شروع میں سمجھ نہیں آتی کہ کیا ہو رہا۔
منظر آگے چلتا ہے تو واضح ہو جاتا ہے۔ ایک چھوٹے سے قبیلے پر ایک فوج حملہ آور ہے۔ قبیلہ چھوٹا ہے ان کے پاس بھینسوں کا گلہ بہت بڑا ہے۔ اب وہ نہ اپنی حفاظت کر پا رہے نہ اپنے گلے کی۔ ایک ہاری ہوئی جنگ لڑ رہے ہیں۔ خون بہہ رہا ہے جانور اور انسان مارے جا رہے ہیں۔ اس جاری جنگ میں جب ریوڑ بے چینی سے بھاگا پھر رہا ہے۔ ایسے میں ایک سنڈا پھر اک بھینس پر سوار دکھائی دیتا ہے۔

منظر بدلتا ہے فاتح لشکر کا سردار 2 لڑکیوں کو گھسیٹتا ہوا سائے کی طرف لے جا رہا ہوتا ہے۔ گرو حاضرین کی طرف مڑے بغیر بولتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ تمھارے پاس ایک آپشن اس لشکر کا سردار ہے۔ لوگ جان لیتے ہیں کہ وہی سردار ہے جو 2 لڑکیوں کو گھسیٹتے ہوئے لے جاتا دکھائی دیا تھا۔ اس سردار نے اپنے سارے مخالفین مار مکائے ہیں یا انہیں ساتھ ملا لیا ہے۔ اب اسی کا سکہ چلتا ہے ایک بڑے علاقے پر۔

حاضرین میں اک ہلکی سی بھنبھناہٹ ہوتی ہے۔ وہ شروع ہوتے ہی دم توڑ دیتی ہے کہ دیوار پر سین بدل گیا ہے۔ ایک باپ اپنے بیٹے کو رخصت کر رہا ہے۔ 4 بھینسوں کے ساتھ۔ اس کی بیوی بھی رو رہی ہے۔ وہ اپنے شوہر سے کہتی ہے کہ یہ چھوٹا ہے اس لمبے سفر پر یہ کیسے اکیلا جائے گا۔

باپ کہتا ہے یہ اس سفر پر نہیں نکلے گا تو کیسے سیکھے گا۔ ہم جس ملک میں رہتے ہیں اس میں دو ہی موسم ہیں۔ ایک قحط کا، ایک سیلاب کا۔ ہم اپنے گھر بانسوں پر زمین سے اونچے بناتے ہیں۔ اس لیے کہ سیلاب آئیں تو ان سے محفوظ رہیں۔ ہم تو بچ جائیں گے۔ زندہ رہیں گے سیلاب مچھلیاں بھی لایا ہے۔ وہ کھا لیں گے۔

ان 4 بھینسوں کے کھانے کو کچھ نہیں بچا۔ پانی آ گیا ہے یہ جانور اب بھوکے مر جائیں گے۔ ہمارے بیٹے کو جانا ہو گا اپنی بھینسوں کو لے کر گھاس کے میدانوں میں۔ یہ تب ہی بچ سکیں گی۔

تم اسے جانے دو۔ یہ سفر پر نکلے گا تو جانے گا کہ دنیا کیسی ہے۔ اس کا وطن کیسا ہے یہاں لوگ کیسے ہیں۔ یہاں جانور کون سے ہیں۔ یہ جانے گا کہ راتوں کو اس سے جانور چھیننے ڈاکو آئیں گے۔ یہ دیکھے گا شیر اکیلے اور بھیڑیے اکٹھے اس پر حملہ کریں گے۔

یہ اس سفر میں جانے گا کہ حالات سے مقابلہ کیسے کرتے ہیں۔ اسے نئے لوگ ملیں گے جو اس کی طرح اپنے ڈنگر چرانے گھاس کے میدانوں کی تلاش میں جا رہے ہوں گے۔ نئے لوگ اس کے دوست بنیں گے۔ یہ مل کر حملہ آوروں کا مقابلہ کریں گے۔

مزید پڑھیے: خیبر پختونخوا حکومت بدلنی ہے یا گھسیٹنی ہے؟

یہ وقت کے ساتھ جان جائے گا کہ ہر گھاس کھانے کی نہیں ہوتی، کچھ زہریلی بھی ہوتی ہیں۔ اسے پتا لگے گا کہ کون سی گھاس کھا کر اس کی بھینس زیادہ دودھ دے گی۔ یہ اک دن لوٹ آئے گا شاید اکیلا شاید بہت سے جانوروں کے ساتھ۔

آخری منظر میں یہ لڑکا واپس لوٹ کر آتا دکھائی دیتا ہے۔ ایک بہت بڑے قافلے کے ساتھ ہزاروں ڈنگروں کے ساتھ۔ اپنے چہرے پر کامیابی کی چمک لیے۔ یہ ایسے آتا ہے کہ ایک حکمران لگتا ہے۔اس کے پیچھے لوگ تو ہیں ہی۔ ہزاروں بھینسوں کا ایک بڑا ریوڑ بھی ہے۔ اس ریوڑ میں ایک بھینسا سب کچھ سے بے پروا مزے سے ایک بھینس پر سوار آ رہا ہے۔

گرو ہاتھ چھوڑ کر حاضرین کی طرف پلٹ آتا ہے۔ دیوار پر منظر رک جاتے ہیں۔ میرے بچو ان تینوں میں سے کسی کو بھی اپنی ریاست کا نیا حکمران منتخب کر سکتے ہو یہ سارے ٹھیک ہیں۔ تم جس پر ہاتھ رکھو گے میں اسے گیان بخش دوں گا۔ وہ کار سرکار جان لے گا۔

ریاستی اداروں کے سارے سربراہ سر جوڑ لیتے ہیں۔ فیصلہ انہی کو کرنا ہے۔ ملک حسب معمول نازک دور سے گزر رہا ہے۔ انہی کے فیصلے سے آئندہ کا پتہ لگنا ہے کہ اگلا دور کون نازک کرے گا اور کدھر لے جائے گا ۔

یہ ابھی مشورہ کرتے ہیں کہ گرو کی آواز سنائی دیتی ہے۔ میرے بچو فیصلہ سوچ سمجھ کر کرنا۔ تمھارا لایا ہوا حکمران تم میں سے کچھ کو ضرور اپنے عہدوں سے برطرف کر دے گا۔ تمھاری اپنی قسمت تمھارے اپنے فیصلے کے ساتھ بندھی ہے۔

مزید پڑھیں: ڈونگا گلی سے کابل، پشاور اور سینیٹ الیکشن تک

اک ذرا دیر کو خاموشی ہوتی ہے۔ پھر سب کی طرف سے قاضی اعلان کرتا ہے کہ گرو اس سنڈے کو کار سرکار کا گیان بخش دیں۔ قحط تھا یا سیلاب، لڑائی تھی یا امن، یہ ہر حال میں مگن تھا۔ اسے بس سواری ہی کرنی ہے۔ کرتا رہے گا ملکی معاملات ہم چلاتے رہیں گے۔

کہانی ویتنام کی ایک فلم سے ماخوذ ہے۔  ایک کہاوت پشتو کی بھی ایسی سی  ہے کہ ’دہ میخے یار سنڈا ای‘ یعنی بھینس کا یار پھر سنڈا ہی ہوتا ہے۔ اپن نے بس بھینس کے یار اس سنڈے کو بادشاہ بنانے والی آئٹم کو داد دینے کے لیے یہ تحریر بہت پہلے لکھی تھی ۔ آپ کو بری لگے تو اچھا لگے گا۔ غصہ ہو کر ہی حالات بدل لیں سرکار۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وسی بابا

وسی بابا نام رکھا وہ سب کہنے کے لیے جن کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔ سیاست، شدت پسندی اور حالات حاضرہ بارے پڑھتے رہنا اور اس پر کبھی کبھی لکھنا ہی کام ہے۔ ملٹی کلچر ہونے کی وجہ سے سوچ کا سرکٹ مختلف ہے۔ کبھی بات ادھوری رہ جاتی ہے اور کبھی لگتا کہ چپ رہنا بہتر تھا۔

بھینسوں کا ریوڑ ریاستی ادارے ویتنام ویتنامی فلم.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: ریاستی ادارے ویتنام ویتنامی فلم بھینس پر سوار بھینسوں کے بھینسوں کا دیوار پر کے ساتھ کرتا ہے ایک بہت میں ایک پر ایک رہا ہے کی طرف کا ایک

پڑھیں:

بین الاقوامی بائیولوجی مقابلے میں پاکستان کا پہلا طلائی تمغہ، طالبعلم عبدالرافع نے تاریخ رقم کردی

پاکستان نے بین الاقوامی تعلیمی میدان میں اہم سنگِ میل عبور کرتے ہوئے انٹرنیشنل بائیولوجی اولمپیاڈ میں پہلی مرتبہ طلائی تمغہ (گولڈ میڈل) اپنے نام کر لیا۔

اٹامک انرجی کمیشن کے ترجمان کے مطابق یہ بین الاقوامی مقابلہ 20 جولائی سے فلپائن میں منعقد ہوا، جس میں دنیا بھر سے باصلاحیت طلبہ نے شرکت کی۔

پاکستان کی نمائندگی کرنے والے عبدالرافع پراچہ نے 35 ویں انٹرنیشنل بائیولوجی اولمپیاڈ میں گولڈ میڈل جیت کر قوم کا سر فخر سے بلند کردیا۔

ترجمان کے مطابق پاکستانی ٹیم کی قیادت ڈاکٹر اسما عمران اور ڈاکٹر اسما رحمان نے کی، جن کی رہنمائی میں دیگر طلبہ نے بھی شاندار کارکردگی دکھائی۔

ترجمان نے بتایا کہ مس عیان اسلم کو مقابلے میں آنریبل مینشن سے نوازا گیا، جب کہ سعدیہ ذوالفقار اور عروج فاطمہ نے بھی پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے سراہنے کے قابل کارکردگی دکھائی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews اٹامک انرجی کمیشن بائیولوجی مقابلہ تعلیمی میدان میں کامیابی طلائی تمغہ عبدالرافع پراچہ وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • مریم نفیس کا جنات دیکھنے کا انکشاف
  • اداکارہ مریم نفیس نے جنات دکھائی دینے کا انکشاف کردیا
  • شاولن معبد کے سربراہ شی یونگ شن پر سنگین الزامات، راہب کا درجہ واپس لے لیا گیا
  • پی سی ایس آئی آر کمپلیکس لاہور کیخلاف الزامات: تحقیقاتی رپورٹ منظرِ عام پر لانے کا اعلان
  • پی سی ایس آئی آر کمپلیکس لاہور کیخلاف الزامات: تحقیقاتی رپورٹ منظرِ عام پر لانے کا اعلان
  • غیرت کے نام پر مبینہ قتل کی کہانی نیا موڑ اختیار گئی، دوسری شادی کا نکاح نامہ اور سسر کا بیان منظرِ عام پر آگیا
  • رنگ روڈ پر افسوسناک ٹریفک حادثہ، پٹرولنگ آفیسر معطل
  • یہ عامل اور جادوگر
  • بین الاقوامی بائیولوجی مقابلے میں پاکستان کا پہلا طلائی تمغہ، طالبعلم عبدالرافع نے تاریخ رقم کردی