صدیوں پرانا ویتنام تھا۔ جہاں بھینسوں کے ریوڑ تھے۔ قدرتی چاول اگتا تھا۔ سیلاب آتے تھے یا قحط پڑتے تھے۔ محل میں سناٹا تھا۔ ریاستی اداروں کے سارے بڑے سانس روک کر بیٹھے تھے۔ یہ سب ایک ہال میں جمع تھے۔ سب کی نظریں گرو پر تھیں کہ وہ کب حرکت کرتا ہے۔ گرو نے حاضرین کو دیکھا، اپنا رخ ایک دیوار کی طرف کر کے دونوں ہاتھ اٹھا دیے۔
دیوار پر ایک فلم چلنی شروع ہو گئی۔ بھینسوں کا ایک بہت بڑا ریوڑ دریا کنارے چر رہا تھا۔ راہبوں کا ایک گروپ لکڑی کا پل پار کر رہا تھا۔ راہب پل کے درمیان پہنچے تو رک گئے۔
دراصل آگے چلنے والا ایک نوجوان راہب ٹھہرا تھا۔ اس کی نظریں نہ چاہتے ہوئے بھی ایک منظر پر رک گئی تھیں۔ اسے سینکڑوں چرتی ہوئی بھینسوں میں ایک سنڈا دکھائی دے گیا تھا ۔ جو سکون سے ایک بھینس پر سوار تھا۔ بھینس اپنے سوار سے بے نیاز گھاس چر رہی تھی۔
بہت سے نوجوان راہب یہ سین دیکھ کر اپنے نفس کو قابو کرنے کی ساری مشق بھول کر مسکرانے لگ گئے تھے۔ اس نظارے میں کھوئے انہیں اندازہ تک نہیں ہو سکا تھا کہ کب پل ٹوٹا کب وہ سارے دریا کی لہروں کی نذر ہو گئے۔ یہ پل خود بخود نہیں ٹوٹا تھا۔ اس پل کو ایک درمیانی عمر کے راہب نے توڑا تھا۔
دیوار پر چلنے والے اگلے منظر میں یہی پل توڑنے والا راہب ایک بہت بوڑھے راہب کو ایک پہاڑی سے دھکا دیتا دکھائی دیتا ہے۔ تیسرے اور آخری منظر میں یہ قاتل راہب ایک مذہبی رسم میں سینکڑوں راہبوں کا سربراہ منتخب ہوتا دکھائی دیتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: معیشت کی دنیا بدل چکی، پاکستانی سیاست ابھی پرانی ہے
گرو اعلان کرتا ہے کہ تمھارے پاس ایک آپشن یہ راہب ہے۔ اس نے تمام مخالفوں کو راستے سے ہٹا کر راہبوں کی قیادت سنبھال لی ہے۔ اس دوران دیوار پر مختلف مناظر دکھائی دیتے رہتے ہیں۔ جن میں وہ راہب اپنے مخالفوں کو راستے سے ہٹاتا دکھائی دیتا ہے۔ ان سارے مناظر میں اکثر بھینسوں کے ریوڑ ہوتے ہیں۔ جن میں ایک سنڈا ضرور دکھائی دیتا ہے جو کسی بھینس پر سوار ہے۔
گرو ایک وقفہ کرتا ہے بس اتنا جس میں وہ حاضرین پر ایک نظر ڈالتا ہے۔ دوبارہ دیوار کی جانب رخ کر کے ہاتھ اٹھا دیتا ہے۔ دیوار پر ایک نیا منظر چلنے لگتا ہے۔ ایک جنگ کا منظر ہے۔ بھینسوں کا ایک بہت بڑا ریوڑ ہے۔ ایک بے ترتیب سی فوج حملہ آور ہے۔ شروع میں سمجھ نہیں آتی کہ کیا ہو رہا۔
منظر آگے چلتا ہے تو واضح ہو جاتا ہے۔ ایک چھوٹے سے قبیلے پر ایک فوج حملہ آور ہے۔ قبیلہ چھوٹا ہے ان کے پاس بھینسوں کا گلہ بہت بڑا ہے۔ اب وہ نہ اپنی حفاظت کر پا رہے نہ اپنے گلے کی۔ ایک ہاری ہوئی جنگ لڑ رہے ہیں۔ خون بہہ رہا ہے جانور اور انسان مارے جا رہے ہیں۔ اس جاری جنگ میں جب ریوڑ بے چینی سے بھاگا پھر رہا ہے۔ ایسے میں ایک سنڈا پھر اک بھینس پر سوار دکھائی دیتا ہے۔
منظر بدلتا ہے فاتح لشکر کا سردار 2 لڑکیوں کو گھسیٹتا ہوا سائے کی طرف لے جا رہا ہوتا ہے۔ گرو حاضرین کی طرف مڑے بغیر بولتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ تمھارے پاس ایک آپشن اس لشکر کا سردار ہے۔ لوگ جان لیتے ہیں کہ وہی سردار ہے جو 2 لڑکیوں کو گھسیٹتے ہوئے لے جاتا دکھائی دیا تھا۔ اس سردار نے اپنے سارے مخالفین مار مکائے ہیں یا انہیں ساتھ ملا لیا ہے۔ اب اسی کا سکہ چلتا ہے ایک بڑے علاقے پر۔
حاضرین میں اک ہلکی سی بھنبھناہٹ ہوتی ہے۔ وہ شروع ہوتے ہی دم توڑ دیتی ہے کہ دیوار پر سین بدل گیا ہے۔ ایک باپ اپنے بیٹے کو رخصت کر رہا ہے۔ 4 بھینسوں کے ساتھ۔ اس کی بیوی بھی رو رہی ہے۔ وہ اپنے شوہر سے کہتی ہے کہ یہ چھوٹا ہے اس لمبے سفر پر یہ کیسے اکیلا جائے گا۔
باپ کہتا ہے یہ اس سفر پر نہیں نکلے گا تو کیسے سیکھے گا۔ ہم جس ملک میں رہتے ہیں اس میں دو ہی موسم ہیں۔ ایک قحط کا، ایک سیلاب کا۔ ہم اپنے گھر بانسوں پر زمین سے اونچے بناتے ہیں۔ اس لیے کہ سیلاب آئیں تو ان سے محفوظ رہیں۔ ہم تو بچ جائیں گے۔ زندہ رہیں گے سیلاب مچھلیاں بھی لایا ہے۔ وہ کھا لیں گے۔
ان 4 بھینسوں کے کھانے کو کچھ نہیں بچا۔ پانی آ گیا ہے یہ جانور اب بھوکے مر جائیں گے۔ ہمارے بیٹے کو جانا ہو گا اپنی بھینسوں کو لے کر گھاس کے میدانوں میں۔ یہ تب ہی بچ سکیں گی۔
تم اسے جانے دو۔ یہ سفر پر نکلے گا تو جانے گا کہ دنیا کیسی ہے۔ اس کا وطن کیسا ہے یہاں لوگ کیسے ہیں۔ یہاں جانور کون سے ہیں۔ یہ جانے گا کہ راتوں کو اس سے جانور چھیننے ڈاکو آئیں گے۔ یہ دیکھے گا شیر اکیلے اور بھیڑیے اکٹھے اس پر حملہ کریں گے۔
یہ اس سفر میں جانے گا کہ حالات سے مقابلہ کیسے کرتے ہیں۔ اسے نئے لوگ ملیں گے جو اس کی طرح اپنے ڈنگر چرانے گھاس کے میدانوں کی تلاش میں جا رہے ہوں گے۔ نئے لوگ اس کے دوست بنیں گے۔ یہ مل کر حملہ آوروں کا مقابلہ کریں گے۔
مزید پڑھیے: خیبر پختونخوا حکومت بدلنی ہے یا گھسیٹنی ہے؟
یہ وقت کے ساتھ جان جائے گا کہ ہر گھاس کھانے کی نہیں ہوتی، کچھ زہریلی بھی ہوتی ہیں۔ اسے پتا لگے گا کہ کون سی گھاس کھا کر اس کی بھینس زیادہ دودھ دے گی۔ یہ اک دن لوٹ آئے گا شاید اکیلا شاید بہت سے جانوروں کے ساتھ۔
آخری منظر میں یہ لڑکا واپس لوٹ کر آتا دکھائی دیتا ہے۔ ایک بہت بڑے قافلے کے ساتھ ہزاروں ڈنگروں کے ساتھ۔ اپنے چہرے پر کامیابی کی چمک لیے۔ یہ ایسے آتا ہے کہ ایک حکمران لگتا ہے۔اس کے پیچھے لوگ تو ہیں ہی۔ ہزاروں بھینسوں کا ایک بڑا ریوڑ بھی ہے۔ اس ریوڑ میں ایک بھینسا سب کچھ سے بے پروا مزے سے ایک بھینس پر سوار آ رہا ہے۔
گرو ہاتھ چھوڑ کر حاضرین کی طرف پلٹ آتا ہے۔ دیوار پر منظر رک جاتے ہیں۔ میرے بچو ان تینوں میں سے کسی کو بھی اپنی ریاست کا نیا حکمران منتخب کر سکتے ہو یہ سارے ٹھیک ہیں۔ تم جس پر ہاتھ رکھو گے میں اسے گیان بخش دوں گا۔ وہ کار سرکار جان لے گا۔
ریاستی اداروں کے سارے سربراہ سر جوڑ لیتے ہیں۔ فیصلہ انہی کو کرنا ہے۔ ملک حسب معمول نازک دور سے گزر رہا ہے۔ انہی کے فیصلے سے آئندہ کا پتہ لگنا ہے کہ اگلا دور کون نازک کرے گا اور کدھر لے جائے گا ۔
یہ ابھی مشورہ کرتے ہیں کہ گرو کی آواز سنائی دیتی ہے۔ میرے بچو فیصلہ سوچ سمجھ کر کرنا۔ تمھارا لایا ہوا حکمران تم میں سے کچھ کو ضرور اپنے عہدوں سے برطرف کر دے گا۔ تمھاری اپنی قسمت تمھارے اپنے فیصلے کے ساتھ بندھی ہے۔
مزید پڑھیں: ڈونگا گلی سے کابل، پشاور اور سینیٹ الیکشن تک
اک ذرا دیر کو خاموشی ہوتی ہے۔ پھر سب کی طرف سے قاضی اعلان کرتا ہے کہ گرو اس سنڈے کو کار سرکار کا گیان بخش دیں۔ قحط تھا یا سیلاب، لڑائی تھی یا امن، یہ ہر حال میں مگن تھا۔ اسے بس سواری ہی کرنی ہے۔ کرتا رہے گا ملکی معاملات ہم چلاتے رہیں گے۔
کہانی ویتنام کی ایک فلم سے ماخوذ ہے۔ ایک کہاوت پشتو کی بھی ایسی سی ہے کہ ’دہ میخے یار سنڈا ای‘ یعنی بھینس کا یار پھر سنڈا ہی ہوتا ہے۔ اپن نے بس بھینس کے یار اس سنڈے کو بادشاہ بنانے والی آئٹم کو داد دینے کے لیے یہ تحریر بہت پہلے لکھی تھی ۔ آپ کو بری لگے تو اچھا لگے گا۔ غصہ ہو کر ہی حالات بدل لیں سرکار۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
وسی بابا نام رکھا وہ سب کہنے کے لیے جن کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔ سیاست، شدت پسندی اور حالات حاضرہ بارے پڑھتے رہنا اور اس پر کبھی کبھی لکھنا ہی کام ہے۔ ملٹی کلچر ہونے کی وجہ سے سوچ کا سرکٹ مختلف ہے۔ کبھی بات ادھوری رہ جاتی ہے اور کبھی لگتا کہ چپ رہنا بہتر تھا۔
بھینسوں کا ریوڑ ریاستی ادارے ویتنام ویتنامی فلم.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ریاستی ادارے ویتنام ویتنامی فلم بھینس پر سوار بھینسوں کے بھینسوں کا دیوار پر کے ساتھ کرتا ہے ایک بہت میں ایک پر ایک رہا ہے کی طرف کا ایک
پڑھیں:
غیر دانشمندانہ سیاست کب تک؟
2002 میں آئینی طور پر ہٹائے جانے والے پی ٹی آئی کے وزیر اعظم نے تین سال گزر جانے کے بعد اپنی برطرفی قبول نہیں کی حالانکہ تحریک عدم اعتماد پیش کیے جانے والے غیر قانونی منسوخ کیے جانے والے اجلاس کے دوبارہ انعقاد کا حکم عدالت کا تھا اور آئینی طور پر ہٹائے جانے والے وزیر اعظم اجلاس سے قبل ہی ایوان وزیر اعظم چھوڑ کر اپنے گھر بنی گالہ چلے گئے تھے اور تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کا فیصلہ انھوں نے قبول کر لیا تھا، اسی لیے انھوں نے اس وقت اپنی برطرفی اور نئے وزیر اعظم کے انتخاب کا قومی اسمبلی کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج بھی نہیں کیا تھا جو ظاہر ہے کہ ملک کے آئین کے مطابق ہی تھا اور چیلنج ہو بھی نہیں سکتا تھا۔
پی ڈی ایم، پیپلز پارٹی و دیگر نے مل کر شہباز شریف کی قیادت میں جو حکومت بنائی تھی وہ تقریباً 16 ماہ کے لیے تھی جس کے بعد عام انتخابات ہونے ہی تھے۔ نئی حکومت نے جن برے معاشی حالات میں حکومت سنبھالی تھی وہ اپنے 16 ماہ کے عرصے میں کوئی کامیابی حاصل کرسکتے تھے نہ اچھی کارکردگی دکھانے کی پوزیشن میں تھے اور مسلم لیگ (ن) میں میاں شہباز شریف کے وزیر اعظم بننے پر باہمی اختلافات بھی تھے کہ نئے الیکشن ہونے ضروری ہیں تاکہ نئی حکومت 5 سال کے لیے منتخب ہو سکتی۔
اس وقت پی ٹی آئی عدم مقبولیت کا شکار بھی تھی اور اس کی مخالف پارٹیاں مل کر کامیابی حاصل کر کے اپنی حکومت بنا سکتی تھیں مگر لگتا ہے کہ ملک کے برے معاشی حالات کے باوجود میاں شہباز شریف نے چیلنج سمجھ کر وزارت عظمیٰ کو قبول کیا، دوسری جانب پیپلز پارٹی بھی اپنی جان چھڑا کر 16 ماہ کا اقتدار (ن) لیگ کو دلانا چاہتی تھی تاکہ بعد میں اپنے اقتدار کی راہ ہموار کر سکے۔
اس طرح نئی حکومت بن گئی اور وہ سولہ ماہ تک ملک کی خراب معاشی صورتحال کا ذمے دار پی ٹی آئی حکومت کو قرار دیتی رہی۔ آئینی برطرفی پر بانی پی ٹی آئی نے نئی حکومت کے خلاف انتہائی جارحانہ سیاست کا آغازکیا اور اپنی برطرفی کا الزام مبینہ سائفر کو بنیاد بنا کر کبھی امریکا پر کبھی ریاستی اداروں پر عائد کرتے رہے۔ حقائق کے برعکس بانی نے منفی سیاست شروع کی اور غیر ضروری طور پر ملک میں لاتعداد جلسے کیے اور راولپنڈی کی طرف نئے آرمی چیف کی تقرری روکنے کے لیے جو لانگ مارچ کیا۔
اس سے انھیں کوئی سیاسی فائدہ نہیں ہوا بلکہ نقصان ہی ہوا۔ جلد بازی میں وقت سے قبل کے پی اور پنجاب اسمبلیاں تڑوانے جیسے بانی کے تمام فیصلے غیر دانشمندانہ ثابت ہوئے اور انھوں نے دونوں جگہ اپنے وزرائے اعلیٰ مستعفی کرا کر دونوں صوبوں کا اقتدار اپنے مخالفین کے حوالے کرا دیا اور چاہا کہ دونوں صوبوں میں دوبارہ اقتدار حاصل کرکے وفاق میں پی ٹی آئی کو اکثریت دلا کر اقتدار میں آ سکیں مگر سپریم کورٹ نے دونوں صوبوں میں نئے انتخابات کی تاریخ بھی مقرر کر دی مگر الیکشن نہ ہوئے کیونکہ حکومت بانی کے عزائم جان چکی تھی اور کے پی و پنجاب میں وفاقی حکومت کی اپنی نگراں حکومتیں آنے سے وفاق مضبوط ہو گیا اور قومی اسمبلی میں حاصل معمولی اکثریت کو اپنے حق اور مفاد میں استعمال کرکے پی ڈی ایم حکومت نے بانی پی ٹی آئی کے تمام غیر دانشمندانہ سیاسی فیصلوں کو نہ صرف ناکام بنایا بلکہ انھیں گرفتار کرا کر عوام سے بھی دور کر دیا تھا۔
نگراں حکومتوں میں جو انتخابات 8 فروری کو ہوئے ایسے ہی الیکشن جولائی 2018 میں ہوئے تھے جن میں پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت پونے چار سال چلی تھی اور اب 8 فروری کی حکومت اپنا ڈیڑھ سال گزار چکی۔ قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی واحد بڑی پارٹی ہے مگر اپنی پارٹی کے بجائے ایک نشست والے محمود خان اچکزئی کو اپوزیشن لیڈر بنانے کا بانی کا فیصلہ تو خود پی ٹی آئی میں بھی قبول نہیں کیا گیا جو انتہائی غیر دانشمندانہ، غیر حقیقی اور اصولی سیاست کے خلاف تھا ۔ بانی پی ٹی آئی نے اپنی غلط پالیسی سے اپنے لیے ہی مشکلات بڑھائی ہیں اور ان کے ساتھ سزا پارٹی بھی بھگت رہی ہے جو بانی کے غیر دانشمندانہ فیصلوں کا نتیجہ ہے۔