Jasarat News:
2025-11-03@10:02:48 GMT

مسلم دنیا کے حکمران اور مغرب کا خوف

اشاعت کی تاریخ: 13th, June 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

مسجد الحرام کے امام اور خطیب شیخ صالح بن حمید نے خطبہ حج دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ اے اللہ فلسطین کے بھائیوں کی مدد فرما، عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے والوں کو برباد کردے۔ ان کے قدم اکھیڑ دے۔ شیطان مسلمانوں کا دشمن ہے اور مسلمانوں کو اس سے دور رہنا چاہیے۔ مسلمانوں کو آپس میں اتحاد و اتفاق رکھنا چاہیے۔ انہوں نے مسلمانوں سے کہا کہ تقویٰ اختیار کرو، اللہ کی پکڑ بہت سخت ہے، تقویٰ اختیار کرنا ایمان والوں کی شان ہے۔ ہم تقویٰ اختیار کریں گے تو اللہ جنت عطا فرمائے گا۔ انہوں نے کہا کہ رسول اللہؐ نے فرمایا ہے کہ اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائو۔ (روزنامہ جسارت، 6 جون 2025ء)
مسلم دنیا کے بادشاہوں، جرنیلوں اور سیاسی حکمرانوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اللہ سے نہیں ڈرتے البتہ امریکا اور یورپ کے خوف سے تھرتھر کانپتے ہیں۔ حج توحید کا ایک بڑا مظہر ہے اور حج کے خطبے کو قرآن و سنت کا ترجمان ہونا چاہیے تھا مگر مذکورہ بالا خطبہ سعودی عرب کے بادشاہوں کا ترجمان ہے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ خطبہ حج دینے والے شیخ صالح بن حمید نے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا تو مانگی کہ فلسطینیوں کی مدد فرما اور فلسطینیوں کو قتل کرنے والوں کو برباد کردے مگر وہ اپنے خطبے میں اسرائیل، امریکا اور یورپ کا نام نہیں لے سکے۔ وہ یہ نہیں کہہ سکے کہ اللہ فلسطینیوں کو قتل کرنے والے اسرائیل، امریکا اور یورپ کو برباد کردے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہیں سعودی حکومت نے بتادیا ہوگا کہ خطبے میں اسرائیل، امریکا اور یورپ کا نام نہیں لینا ہے۔ ایسا ہوتا تو اسرائیل، امریکا اور یورپ سعودی بادشاہوں سے ناراض ہوجاتے اور مسلم دنیا کے بادشاہ، جرنیل اور سیاسی حکمران خدا کو ناراض کرسکتے ہیں۔ رسولؐ کو ناراض کرسکتے ہیں مگر اسرائیل، امریکا اور یورپ کو ناراض نہیں کرسکتے۔ فلسطین کا المیہ بہت بڑا ہے۔ دو سال میں اسرائیل، امریکا اور یورپ کی تائید و حمایت سے اب تک 55223 فلسطینیوں کو شہید کرچکا ہے۔ ان میں 25 ہزار مرد ہیں۔ 17492 بچے ہیں اور 15 ہزار خواتین ہیں۔ مگر اس کے باوجود مسلم دنیا کے کسی ملک کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ سعودی عرب مکے اور مدینہ کا منتظم ہے۔ امریکا پر اس کا گہرا اثر ہے۔ حال ہی میں امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی عرب کا دورہ کیا ہے۔ اس دورے میں سعودی عرب نے امریکا میں تقریباً ایک ہزار ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ یہ رقم امریکا کے لیے بھی بہت بڑی ہے۔ چنانچہ اگر سعودی عرب کے حکمران ڈونلڈ ٹرمپ سے کہتے کہ جناب صدر ہم امریکا میں ایک ہزار ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کریں گے مگر آپ اس سے پہلے ازراہِ عنایت غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی بند کرادیجیے تو ڈونلڈ ٹرمپ سعودی حکمرانوں کے مطالبے کو نظر انداز نہیں کرسکتا تھا۔ مگر سعودی عرب نے ایسی کوئی فرمائش کی ہی نہیں۔ جیسے غزہ میں مسلمان نہیں کتے بلیاں مر رہے ہوں۔ چوہے قتل ہورہے ہوں، ترکی کے صدر رجب طیب اردوان خود کو ’’اسلامسٹ‘‘ کہتے ہیں مگر غزہ کی صورت حال نے ثابت کردیا کہ ایردوان کا اسلام بھی جعلی ہے۔ انہوں نے کچھ اور کیا اسرائیل سے اپنے سفیر کو واپس انقرہ بلا لینے اور ترکی سے اسرائیل کے سفیر کو نکال باہر کرنے کی بھی زحمت نہیں کی۔ حد تو یہ ہے کہ گزشتہ دو سال سے ترکی نے اسرائیل کے ساتھ اپنی تجارت تک بند نہیں کی۔ ایردوان دو سال سے صرف اسرائیل کی لفظی مذمت فرما رہے ہیں۔ اس کی وجہ بھی یہ ہے کہ وہ غزہ کے سلسلے میں کوئی مجاہدانہ کردار ادا کرکے امریکا اسرائیل اور یورپ کو ناراض نہیں کرنا چاہتے۔ خدا ایردوان سے ناراض ہوتا ہے تو ہوجائے، امریکا، اسرائیل اور یورپ کو ایردوان سے ناراض نہیں ہونا چاہیے۔ ایران میں خمینی کے انقلاب کے بعد سے اب تک ایران کی ’’انقلابیت‘‘ کا بھی بڑا شہرہ ہے۔ لیکن غزہ کے سلسلے میں ایران کی عدم دلچسپی سے ثابت ہوگیا کہ جس طرح ایردوان کی ’’اسلامیت‘‘ جعلی ہے اسی طرح ایران کی ’’انقلابیت‘‘ بھی جعلی ہے۔ ایران بھی غزہ کے مظلوموں کے لیے کچھ کرکے امریکا، اسرائیل اور یورپ کو ناراض نہیں کرنا چاہتا۔ اسرائیل نے ایران میں موجود اسماعیل ہنیہ کو شہید کیا۔ ایران نے اعلان کیا کہ وہ ہنیہ کی شہادت کا بدلہ لے گا مگر دنیا ایک سال سے ایران کے بدلے کے انتظار میں ہے۔ اسماعیل ہنیہ تو خیر سنی العقیدہ تھے ایران نے تو حسن نصر اللہ تک کے قتل کا بدلہ نہیں لیا۔ ہمیں یہاں ایردوان اور ایران کے حوالے سے اپنا یونیورسٹی کے زمانے کا ایک شعر یاد آگیا۔
اپنی آنکھوں کو ہی بدل ڈالا
جب میں دنیا نہ کرسکا تبدیل
پاکستان کی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ پاکستان کے جرنیل اور سیاسی حکمران پہلے دن سے امریکا کے خوف میں مبتلا ہو کر اس کے اشاروں پر ناچ رہے ہیں۔ جنرل ایوب نے مارشل لا تو 1958ء میں لگایا مگر وہ 1954ء سے امریکیوں کے ساتھ خفیہ رابطہ استوار کیے ہوئے تھے۔ وہ امریکیوں کو ورغلا رہے تھے کہ پاکستان کے سیاست دان بڑے نااہل ہیں اور وہ پاکستان تباہ کردیں گے، چنانچہ جرنیل انہیں ہرگز ایسا نہیں کرنے دیں گے۔ جنرل ایوب کی یہ گفتگو خفیہ امریکی دستاویزات کے سامنے آنے کے بعد طشت از بام ہوئی ہے۔ جنرل ایوب نے 1958ء میں مارشل لا لگایا تو انہوں نے امریکا کے معاہدوں سیٹو اور سینٹو کو اپنے گلے میں ڈال کر ’’آزاد پاکستان‘‘ کو امریکا کی ’’کالونی‘‘ بنادیا۔ انہوں نے بڈھ بیر میں امریکا کو ایک ایسا فوجی اڈہ فراہم کردیا جہاں سے امریکا سوویت یونین پر نظر رکھتا تھا۔ سوویت حکمرانوں کو اس بات کا علم ہوا تو وہ پاکستان سے سخت ناراض ہوئے اور انہوں نے پشاور پر حملے کے لیے اس کے گرد سرخ دائرہ لگادیا۔ 1962ء میں چین بھارت جنگ شروع ہوئی تو چین نے جنرل ایوب سے کہا کہ اس جنگ کی وجہ سے بھارت اپنی ساری فوجی طاقت چین کی سرحد پر لے آیا ہے۔ آپ اس موقعے سے فائدہ اٹھا کر آگے بڑھیں اور بھارت سے اپنا کشمیر چھین لیں مگر جنرل ایوب امریکا کے دبائو میں آگئے۔ امریکا نے وعدہ کیا کہ چین بھارت جنگ کے بعد وہ مسئلہ کشمیر حل کرادے گا مگر امریکا نے ایسا نہ کیا اور جنرل ایوب کی حماقت اور خوف سے پاکستان بھارت سے کشمیر لینے میں ناکام رہا۔ 1971ء کی جنگ میں امریکا نے اعلان کیا کہ وہ اپنا چھٹا بیڑہ پاکستان کو بچانے کے لیے بھیج رہا ہے مگر یہ بیڑہ کبھی پاکستان نہ پہنچ سکا اور نہ ہی جنرل یحییٰ میں یہ جرأت تھی کہ وہ امریکا سے پوچھتا کہ تم نے وعدے کے باوجود اپنا چھٹا بحریہ بیڑہ پاکستان کیوں نہیں بھیجا۔ نائن الیون میں پاکستان کا کوئی کردار نہ تھا مگر نائن الیون کے بعد امریکا نے دھمکی دی کہ اگر پاکستان امریکا کی ’’باج گزار‘‘ ریاست نہیں بنے گا تو امریکا اسے پتھروں کے دور میں واپس بھیج دے گا۔ جنرل پرویز مشرف ڈر گئے اور انہوں نے پورا پاکستان امریکا کے حوالے کردیا۔ بھٹو امریکا کو ’’سفید ہاتھی‘‘ کہا کرتے تھے اور ان کے زوال میں امریکا کا خفیہ کردار تھا۔ بے نظیر بھٹو یہ بات سمجھتی تھیں۔ وہ امریکا سے واپس پاکستان پہنچیں تو لاہور میں ان کا تاریخی استقبال ہوا۔ پیپلز پارٹی کے بعض ’’انقلابی‘‘ کارکنوں نے اس موقع پر امریکا کے خلاف نعرے لگائے تو بے نظیر نے امریکا کی ناراضگی کے خوف سے انہیں ایسا کرنے سے روک دیا۔ امریکا کی قومی سلامتی کی مشیر کونڈا لیزا رائس نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ جنرل پرویز مشرف اور بے نظیر کے درمیان جو معاہدہ ہوا امریکا اس کا نگراں تھا۔ جنرل پرویز مشرف نے مارشل لگا کر میاں نواز شریف کو جیل میں ڈالا تو میاں صاحب کی زندگی دائو پر لگ گئی۔ یہ اندیشہ پیدا ہوگیا کہ ان کا انجام بھی بھٹو جیسا ہوگا۔ مگر میاں نواز شریف ’’امریکی پٹھو‘‘ تھے، چنانچہ سعودی عرب کے توسط سے امریکا درمیان میں کود پڑا اور جنرل حمید گل جیسے باخبر آدمی کو یہ بیان دینے کا موقع مل گیا کہ امریکا ’’اپنے آدمی‘‘ کو نکال کر لے گیا۔ جنرل پرویز بھی قوم کے لیے ’’مردِ آہن‘‘ تھے مگر امریکا کے آگے وہ بھی بھیگی بلی بن گئے۔
امریکا اور یورپ کہتے ہیں کہ اسلام ’’جمہوریت دشمن‘‘ ہے مگر 1990ء کی دہائی کے اوائل میں الجزائر میں انتخابات ہوئے تو ان کے پہلے مرحلے میں اسلامی فرنٹ نے دو تہائی اکثریت حاصل کرلی۔ یہ اسلامی پارٹی کی ایک خالص جمہوری کامیابی تھی۔ مگر فرانس کے آلۂ کار الجزائر کے جرنیلوں نے اسلامی فرنٹ کی اس کامیابی کو قبول نہ کیا۔ الجزائر کے جرنیلوں نے اقتدار پر قبضہ کرلیا اور انتخابات کے اگلے مرحلے کی نوبت ہی نہ آسکی۔
حماس کو لوگ ایک مسلح جدوجہد کرنے والی تنظیم کے طور پر جانتے ہیں۔ مگر حماس نے تاریخ کے ایک مرحلے پر غزہ کے انتخابات میں حصہ لے کر بھرپور کامیابی حاصل کی تھی مگر اسرائیل کیا امریکا اور یورپ نے بھی حماس کی ’’جمہوری فتح‘‘ کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ چنانچہ حماس جمہوریت سے مایوس ہو کر پھر مسلح جدوجہد کی طرف چلی گئی۔ سعودی عرب کے بعد مصر عرب دنیا کا دوسرا اہم ملک ہے اور مصر میں اخوان المسلمون نے تاریخ کے ایک مرحلے پر بھرپور جمہوری کامیابی حاصل کی تھی۔ اس کامیابی کو ابتدا میں امریکا، یورپ اور خود مصر کی فوج نے قبول کرلیا مگر انہوں نے اخوان کے صدر مرسی کے خلاف سازشیں جاری رکھیں اور بالآخر ایک موقعے پر فوج نے صدر مرسی کو ہٹا کر اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ سعودی عرب اور خود امریکا نے صدر مرسی کو ہٹانے والے جنرل سیسی کے لیے اربوں ڈالر کا پیکیج منظور کیا۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو اس امر میں کوئی شبہ ہی نہیں رہ جاتا کہ مسلم دنیا کے بادشاہ، جرنیل اور سیاسی رہنما امریکا اور یورپ کو ہی زمین کا خدا تسلیم کرتے ہیں۔ یہ تو امریکا اور یورپ کی مہربانی ہے کہ اس نے مسلم دنیا کے بادشاہوں، جرنیلوں اور سیاسی رہنمائوں کے لیے اپنی عبادت کا کوئی نظام وضع نہیں کیا۔ وہ ایسا کردیں تو مسلم دنیا کے حکمران امریکا اور یورپ کی عبادت کرتے ہوئے پائے جائیں گے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: امریکا اور یورپ مسلم دنیا کے سعودی عرب کے اور یورپ کو میں امریکا جنرل پرویز ناراض نہیں اور سیاسی امریکا نے امریکا کی جنرل ایوب امریکا کے انہوں نے کو ناراض یہ ہے کہ غزہ کے کے لیے کے بعد اور ان

پڑھیں:

بہار کے انتخابی دنگل میں مسلمان

معصوم مرادآبادی

بہار میں چناؤ کا اسٹیج پوری طرح تیار ہے ۔یہاں اصل مقابلہ’این ڈی اے ‘ اور’انڈیا اتحاد’ کے درمیان ہے ۔انڈیا اتحاد’مہا گٹھ بندھن’ کے نام سے چناؤ لڑرہا ہے ، جس میں سات پارٹیاں شامل ہیں۔ اس اتحاد کی ساری امیدیں مسلم رائے دہندگان کے ساتھ ہیں جو ریاست کے 13 کروڑ ووٹروں میں اٹھارہ فیصد کے قریب ہیں۔ عام خیال یہ ہے کہ بہار کا ووٹر دیگر صوبوں کے مقابلہ میں زیادہ باشعور اور بالغ ہے اور وہ اپنا ووٹ ضائع نہیں کرتا۔ انڈیا اتحاد کی طرف سے اس الیکشن میں لالو پرشاد یادو کے بیٹے تیجسوی یادو وزیراعلیٰ کا چہرہ ہیں اور ان کے ساتھ ہی ملاح سماج کے مکیش سہنی کو نائب وزیراعلیٰ کے طورپر پیش کیا گیا ہے ۔ یہیں سے دراصل مسلم حلقوں میں یہ چہ میگوئیاں شروع ہوئی ہیں کہ جب دوتین فیصد ووٹوں والے ملاح برادری کے لیڈر کو نائب وزیراعلیٰ کا چہرہ بنایا جاسکتا ہے تو پھر اٹھارہ فیصد مسلم رائے دہندگان کی نمائندگی کرنے والے کسی مسلمان کو یہ عہدہ کیوں نہیں مل سکتا۔بات یہیں پر ختم نہیں ہوئی بلکہ نائب وزیراعلیٰ سے ہوتی ہوئی مسلم وزیراعلیٰ تک پہنچ گئی ہے ۔
مجلس اتحاد المسلمین کے صدر بیرسٹر اسد الدین اویسی نے بہار میں اپنی پارٹی کی انتخابی مہم کا آغاز کرتے ہوئے سوال کیا کہریاست میں مسلم وزیراعلیٰ کیوں نہیں ہوسکتا؟ حالانکہ ریاست کی آبادی میں مسلمانوں کا تناسب 17/فیصد ہے ۔’ بیرسٹر اویسی نے مسلمانوں کے ساتھ برے سلوک کے لیے حکمراں این ڈی اے اور اپوزیشن انڈیا اتحاد دونوں کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ واضح رہے کہ مجلس اتحاد المسلمین اس بار بہار کی32/اسمبلی نشستوں پر چناؤ لڑرہی ہے ۔ بہار کیگزشتہ چناؤ میں مجلس کوپانچ نشستوں پر کامیابی ملی تھی اور یہ تلنگانہ کے باہر کسی ریاست میں اس کی سب سے بڑی کامیابی تھی، لیکن درمیان میں مجلس کے چار ممبران اسمبلی نے بغاوت کرکے آرجے ڈی میں شمولیت اختیار کرلی تھی اور اس واقعہ کے بعد ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اب شاید ہی بیرسٹر اویسی بہار کا رخ کریں گے ، لیکن اب وہ پہلے سے زیادہ قوت کے ساتھ بہار اسمبلی الیکشن لڑرہے ہیں۔
گزشتہ ہفتہ بیرسٹر اویسی نے گوپال گنج سے اپنی انتخابی مہم کا آغاز کرتے ہوئے سوال کیا کہ”بہار میں مسلمان وزیراعلیٰ کیوں نہیں بن سکتا؟ جہاں 17فیصد مسلمان رہتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ ان جماعتوں کو ایک ایسے شخص کو نائب وزیراعلیٰ بنانے میں کوئی دقت نہیں ہے ، جو آبادی کے صرف تین فیصد حصے کی نمائندگی کرتا ہو۔ بیرسٹر اویسی نے اس سلسلہ میں انڈیا اتحاد کی جانب سے نشاد لیڈر مکیش سہنی کو نائب وزیراعلیٰ کے عہدے کی پیشکش کا حوالہ دیا جو وکاس شیل انسان پارٹی کے سربراہ ہیں۔ بیرسٹر اویسی نے یہ بھی کہا کہ کانگریس، آرجے ڈی اور سماجوادی پارٹی جیسی جماعتوں کو مسلمانوں کے ووٹ چاہئیں، وہ بی جے پی سے ڈراکر مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرتی ہیں لیکن یہ بی جے پی کو روکنے میں ناکام رہی ہیں۔ وہ کسی نہ کسی بہانے مسلمانوں سے ووٹ مانگتی ہیں، لیکن اب وقت آگیا ہے کہ ان پارٹیوں کے جھوٹ کو بے نقاب کیا جائے ۔ یہ پارٹیاں ٹکٹوں کی تقسیم میں مسلمانوں کو ان کی آبادی کے تناسب سے حصہ نہیں دے سکتیں۔ مسلمانوں کو اپنی قیادت بنانے پر توجہ دینی چاہئے ۔بہار میں کسی مسلمان کو نائب وزیراعلیٰ کا چہرہ بنانا اس وقت انڈیا اتحاد کی مجبوری ہے کیونکہ یہ مسئلہ اب سنگین رخ اختیار کرتا جارہا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ بہار کانگریس کے انچارج کرشنا الاورو نے یہ اشارہ دیا ہے کہ”مہاگٹھ بندھن کی سرکار میں کانگریس سے دوسرا نائب وزیراعلیٰ مسلمان ہوسکتا ہے ۔ ان کے اس بیان سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بہار میں مہا گٹھ بندھن کی طرف سے مسلمانوں کو نظرانداز کئے جانے کی بات گھر گئی ہے اور انڈیا اتحاد اس معاملے میں فکر مند نظر آتا ہے ۔ فکر مندی کی اصل وجہ یہ ہے کہ بہار میں پولنگ کے دن سرپر ہیں اور اگر ایسے میں مسلمان تذبذب کا شکار ہوگئے تو اس کا بڑا نقصان مہا گٹھ بندھن کو پہنچ سکتا ہے ۔حالانکہ عام خیال یہی ہے کہ بہار میں مسلم ووٹوں کی اکثریت آرجے ڈی کے حق میں جائے گی۔
ایسا نہیں ہے کہ بہار میں کبھی کوئی مسلمان وزیراعلیٰ نہ رہا ہو۔ جن لوگوں کی یادداشت اچھی ہے وہ اس بات کی گواہی دیں گے کہ چچا عبدالغفور بہار میں 1973 سے 1975تک کانگریس کے وزیراعلیٰ رہے ۔بہار ہی نہیں آسام میں بھی انورہ تیمور کانگریس کی وزیراعلیٰ ر ہیں۔ اتنا ہی نہیں مہاراشٹر جیسی ریاست جہاں مسلم آبادی دس فیصد سے بھی کم ہے عبدالرحمن انتولے کو وزیراعلیٰ بنایا گیا تھا،جو آنجہانی وزیراعظم اندرا گاندھی کے معتمد خاص تھے ، لیکن ملک کے موجودہ حالات میں جبکہ مسلمان حاشئے پر پہنچادئیے گئے ہیں کشمیر کے علاوہ کسی مسلمان کو کسی اورریاست کا وزیراعلیٰ پروجیکٹ کرنا خطرے سے خالی نہیں ہے ۔ ماضی میں ہندوستانی سیاست میں مسلمانوں کی اہمیت اس درجہ رہی ہے کہ سیکولر اسٹیج پر کسی مسلمان لیڈر کو بٹھانا سیاسی ضرورت سمجھی جاتی تھی، لیکن جب سے بی جے پی اقتدار میں آئی ہے تب سے سیکولر پارٹیوں کے لیے بھی مسلمان’اچھوت’ بن گئے ہیں۔یہ پارٹیاں مسلمانوں کے ووٹ تو چاہتی ہیں، لیکن انھیں حصہ داری نہیں دینا چاہتیں۔ ان کا خیال ہے کہ مسلمان بی جے پی سے خوفزدہ ہوکر انھیں ووٹ دے گا۔
بہار میں کسی مسلمان کو وزیراعلیٰ بنانے کا مطالبہ نیا نہیں ہے ۔ آپ کو یاد ہوگا کہ لوک جن شکتی پارٹی کے صدر رام ولاس پاسوان نے سب سے پہلے یہ موضوع اچھالا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے بیٹے اور لوک جن شکتی پارٹی کے موجودہ صدر چراغ پاسوان نے کہا ہے کہ”میرے والد رام ولاس پاسوان نے کسی مسلمان کو وزیراعلیٰ بنانے کے لیے اپنی پارٹی تک قربان کردی تھی، لیکن مسلمانوں نے ان کا ساتھ نہیں دیا۔ انھوں نے راشٹریہ جنتا دل پر الزام عائد کیا کہ وہ2005میں بھی مسلم وزیراعلیٰ کے لیے تیار نہیں تھی۔ اسی لیے 2025کے چناؤ میں بھی ڈپٹی سی ایم کے عہدے کے لیے کسی مسلمان کی حصہ داری یقینی نہیں ہے ۔ انھوں نے کہا کہ مسلمان اگر صرف ووٹ بینک بن کررہیں گے تو انھیں عزت اور اقتدار میں حصہ داری نہیں ملے گی۔
راشٹریہ جنتا دل بہار میں مسلم ووٹوں کی سب سے بڑی دعویدار پارٹی ہے اور وہ اس مرحلے میں جبکہ چناؤبالکل سرپر ہیں یہ ہرگز نہیں چاہے گی کہ انتخابی ماحول میں کوئی بدمزگی پیدا ہو۔آرجے ڈی کے لیے کسی مسلمان کانام نائب وزیراعلیٰ کے عہدے کے لیے پیش کرنے کے خطرات اور بھی ہیں۔ آرجے ڈی میں نئے اور پرانے مسلم لیڈروں کی بھرمار ہے اور یہ سب ذات پات کے حصار میں قید ہیں۔ بہار میں اونچے اور نیچے طبقوں کی تفریق اتنی زیادہ ہے کہ اگر کسی ایک طبقہ کے مسلم لیڈر کانام نائب وزیراعلیٰ کے عہدے کے لیے پیش کیا گیا تو دوسرا طبقہ لازمی طورپر ناراض ہوجائے گا۔اس لیے راشٹریہ جنتا دل یہ خطرہ مول نہیں لینا چاہتا۔بہرحال بہار کے انتخابی میدان میں بی جے پی کو چھوڑ کر تمام ہی سیکولر اور نام نہاد سیکولر پارٹیوں نے مسلم امیدواروں کو میدان میں اتارا ہے ۔سبھی کو یہ امید ہے کہ مسلمان اسے ووٹ دیں گے اور سبھی مسلمانوں کی خیرخواہی کے دعویدار بھی ہیں۔6/اور11/ نومبر کو دومرحلوں میں ہونے والے بہار اسمبلی انتخابات میں آرجے ڈی نے اپنے 143/ امیدواروں میں 18/ مسلم امیدوار میدان میں اتارے ہیں جبکہ کانگریس کے مسلم امیدواروں کی تعداد دس ہے ۔جنتا دل (یو) کے 101/امیدواروں میں مسلمانوں کی تعداد محض چار ہے ۔ جبکہ چراغ پاسوان کی پارٹی نے اپنے 29 امیدواروں میں صرف ایک مسلمان محمد کلیم الدین کو بہادر گنج سے ٹکٹ دیا ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ان میں سے کتنے مسلمان کامیاب ہوکر اسمبلی میں پہنچتے ہیں۔2020کے اسمبلی چناؤ میں 24/ مسلم امیدوار کامیاب ہوئے تھے ۔ بہار میں کم وبیش پچاس سیٹیں ایسی ہیں جہاں مسلمان ہارجیت کا فیصلہ کرتے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ مسلم اکثریتی حلقے سیمانچل میں واقع ہیں اور سبھی پارٹیاں یہاں مسلم ووٹ حاصل کرنے کے لیے ہاتھ پیر ماررہی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

متعلقہ مضامین

  • وزارت صحت کا سیفٹی میڈیسن تقریب کا انعقاد، ادویات کا نظام بہتر کرنے کا عزم
  • سونے سے بنا فن یا سرمایہ داری پر طنز؟ دنیا کا مہنگا ترین ٹوائلٹ نیلامی کے لیے تیار
  • بہار کے انتخابی دنگل میں مسلمان
  • دنیا میں صحافی قتل کے 10 میں سے 9 واقعات غیر حل شدہ ہیں: انتونیو گوتریس
  • غزہ کی جنگ بندی اور انسانی بحران پر استنبول میں اعلیٰ سطح اجلاس، مسلم وزرائے خارجہ کی شرکت متوقع
  • پاکستان کا ترقی کیلئے اسرائیل کو تسلیم کرنا لازمی ہے؟ پروفیسر شاہدہ وزارت کا انٹرویو
  • پاکستان کسی وڈیرے، جاگیردار، جرنیل، حکمران کا نہیں، حافظ نعیم
  • ای چالان یورپ جیسا اور سڑکیں کھنڈر، کراچی کے شہریوں کی تنقید
  • امریکا کے دوبارہ ایٹمی تجربات دنیا کے امن کے لیے خطرہ، ایران
  • بھارتی پراپیگنڈہ بے بنیاد، اسرائیل کو تسلیم کیا نہ فوجی تعاون زیر غور ہے: پاکستان