مسلم دنیا کے حکمران اور مغرب کا خوف
اشاعت کی تاریخ: 13th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
مسجد الحرام کے امام اور خطیب شیخ صالح بن حمید نے خطبہ حج دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ اے اللہ فلسطین کے بھائیوں کی مدد فرما، عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے والوں کو برباد کردے۔ ان کے قدم اکھیڑ دے۔ شیطان مسلمانوں کا دشمن ہے اور مسلمانوں کو اس سے دور رہنا چاہیے۔ مسلمانوں کو آپس میں اتحاد و اتفاق رکھنا چاہیے۔ انہوں نے مسلمانوں سے کہا کہ تقویٰ اختیار کرو، اللہ کی پکڑ بہت سخت ہے، تقویٰ اختیار کرنا ایمان والوں کی شان ہے۔ ہم تقویٰ اختیار کریں گے تو اللہ جنت عطا فرمائے گا۔ انہوں نے کہا کہ رسول اللہؐ نے فرمایا ہے کہ اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائو۔ (روزنامہ جسارت، 6 جون 2025ء)
مسلم دنیا کے بادشاہوں، جرنیلوں اور سیاسی حکمرانوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اللہ سے نہیں ڈرتے البتہ امریکا اور یورپ کے خوف سے تھرتھر کانپتے ہیں۔ حج توحید کا ایک بڑا مظہر ہے اور حج کے خطبے کو قرآن و سنت کا ترجمان ہونا چاہیے تھا مگر مذکورہ بالا خطبہ سعودی عرب کے بادشاہوں کا ترجمان ہے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ خطبہ حج دینے والے شیخ صالح بن حمید نے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا تو مانگی کہ فلسطینیوں کی مدد فرما اور فلسطینیوں کو قتل کرنے والوں کو برباد کردے مگر وہ اپنے خطبے میں اسرائیل، امریکا اور یورپ کا نام نہیں لے سکے۔ وہ یہ نہیں کہہ سکے کہ اللہ فلسطینیوں کو قتل کرنے والے اسرائیل، امریکا اور یورپ کو برباد کردے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہیں سعودی حکومت نے بتادیا ہوگا کہ خطبے میں اسرائیل، امریکا اور یورپ کا نام نہیں لینا ہے۔ ایسا ہوتا تو اسرائیل، امریکا اور یورپ سعودی بادشاہوں سے ناراض ہوجاتے اور مسلم دنیا کے بادشاہ، جرنیل اور سیاسی حکمران خدا کو ناراض کرسکتے ہیں۔ رسولؐ کو ناراض کرسکتے ہیں مگر اسرائیل، امریکا اور یورپ کو ناراض نہیں کرسکتے۔ فلسطین کا المیہ بہت بڑا ہے۔ دو سال میں اسرائیل، امریکا اور یورپ کی تائید و حمایت سے اب تک 55223 فلسطینیوں کو شہید کرچکا ہے۔ ان میں 25 ہزار مرد ہیں۔ 17492 بچے ہیں اور 15 ہزار خواتین ہیں۔ مگر اس کے باوجود مسلم دنیا کے کسی ملک کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ سعودی عرب مکے اور مدینہ کا منتظم ہے۔ امریکا پر اس کا گہرا اثر ہے۔ حال ہی میں امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی عرب کا دورہ کیا ہے۔ اس دورے میں سعودی عرب نے امریکا میں تقریباً ایک ہزار ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ یہ رقم امریکا کے لیے بھی بہت بڑی ہے۔ چنانچہ اگر سعودی عرب کے حکمران ڈونلڈ ٹرمپ سے کہتے کہ جناب صدر ہم امریکا میں ایک ہزار ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کریں گے مگر آپ اس سے پہلے ازراہِ عنایت غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی بند کرادیجیے تو ڈونلڈ ٹرمپ سعودی حکمرانوں کے مطالبے کو نظر انداز نہیں کرسکتا تھا۔ مگر سعودی عرب نے ایسی کوئی فرمائش کی ہی نہیں۔ جیسے غزہ میں مسلمان نہیں کتے بلیاں مر رہے ہوں۔ چوہے قتل ہورہے ہوں، ترکی کے صدر رجب طیب اردوان خود کو ’’اسلامسٹ‘‘ کہتے ہیں مگر غزہ کی صورت حال نے ثابت کردیا کہ ایردوان کا اسلام بھی جعلی ہے۔ انہوں نے کچھ اور کیا اسرائیل سے اپنے سفیر کو واپس انقرہ بلا لینے اور ترکی سے اسرائیل کے سفیر کو نکال باہر کرنے کی بھی زحمت نہیں کی۔ حد تو یہ ہے کہ گزشتہ دو سال سے ترکی نے اسرائیل کے ساتھ اپنی تجارت تک بند نہیں کی۔ ایردوان دو سال سے صرف اسرائیل کی لفظی مذمت فرما رہے ہیں۔ اس کی وجہ بھی یہ ہے کہ وہ غزہ کے سلسلے میں کوئی مجاہدانہ کردار ادا کرکے امریکا اسرائیل اور یورپ کو ناراض نہیں کرنا چاہتے۔ خدا ایردوان سے ناراض ہوتا ہے تو ہوجائے، امریکا، اسرائیل اور یورپ کو ایردوان سے ناراض نہیں ہونا چاہیے۔ ایران میں خمینی کے انقلاب کے بعد سے اب تک ایران کی ’’انقلابیت‘‘ کا بھی بڑا شہرہ ہے۔ لیکن غزہ کے سلسلے میں ایران کی عدم دلچسپی سے ثابت ہوگیا کہ جس طرح ایردوان کی ’’اسلامیت‘‘ جعلی ہے اسی طرح ایران کی ’’انقلابیت‘‘ بھی جعلی ہے۔ ایران بھی غزہ کے مظلوموں کے لیے کچھ کرکے امریکا، اسرائیل اور یورپ کو ناراض نہیں کرنا چاہتا۔ اسرائیل نے ایران میں موجود اسماعیل ہنیہ کو شہید کیا۔ ایران نے اعلان کیا کہ وہ ہنیہ کی شہادت کا بدلہ لے گا مگر دنیا ایک سال سے ایران کے بدلے کے انتظار میں ہے۔ اسماعیل ہنیہ تو خیر سنی العقیدہ تھے ایران نے تو حسن نصر اللہ تک کے قتل کا بدلہ نہیں لیا۔ ہمیں یہاں ایردوان اور ایران کے حوالے سے اپنا یونیورسٹی کے زمانے کا ایک شعر یاد آگیا۔
اپنی آنکھوں کو ہی بدل ڈالا
جب میں دنیا نہ کرسکا تبدیل
پاکستان کی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ پاکستان کے جرنیل اور سیاسی حکمران پہلے دن سے امریکا کے خوف میں مبتلا ہو کر اس کے اشاروں پر ناچ رہے ہیں۔ جنرل ایوب نے مارشل لا تو 1958ء میں لگایا مگر وہ 1954ء سے امریکیوں کے ساتھ خفیہ رابطہ استوار کیے ہوئے تھے۔ وہ امریکیوں کو ورغلا رہے تھے کہ پاکستان کے سیاست دان بڑے نااہل ہیں اور وہ پاکستان تباہ کردیں گے، چنانچہ جرنیل انہیں ہرگز ایسا نہیں کرنے دیں گے۔ جنرل ایوب کی یہ گفتگو خفیہ امریکی دستاویزات کے سامنے آنے کے بعد طشت از بام ہوئی ہے۔ جنرل ایوب نے 1958ء میں مارشل لا لگایا تو انہوں نے امریکا کے معاہدوں سیٹو اور سینٹو کو اپنے گلے میں ڈال کر ’’آزاد پاکستان‘‘ کو امریکا کی ’’کالونی‘‘ بنادیا۔ انہوں نے بڈھ بیر میں امریکا کو ایک ایسا فوجی اڈہ فراہم کردیا جہاں سے امریکا سوویت یونین پر نظر رکھتا تھا۔ سوویت حکمرانوں کو اس بات کا علم ہوا تو وہ پاکستان سے سخت ناراض ہوئے اور انہوں نے پشاور پر حملے کے لیے اس کے گرد سرخ دائرہ لگادیا۔ 1962ء میں چین بھارت جنگ شروع ہوئی تو چین نے جنرل ایوب سے کہا کہ اس جنگ کی وجہ سے بھارت اپنی ساری فوجی طاقت چین کی سرحد پر لے آیا ہے۔ آپ اس موقعے سے فائدہ اٹھا کر آگے بڑھیں اور بھارت سے اپنا کشمیر چھین لیں مگر جنرل ایوب امریکا کے دبائو میں آگئے۔ امریکا نے وعدہ کیا کہ چین بھارت جنگ کے بعد وہ مسئلہ کشمیر حل کرادے گا مگر امریکا نے ایسا نہ کیا اور جنرل ایوب کی حماقت اور خوف سے پاکستان بھارت سے کشمیر لینے میں ناکام رہا۔ 1971ء کی جنگ میں امریکا نے اعلان کیا کہ وہ اپنا چھٹا بیڑہ پاکستان کو بچانے کے لیے بھیج رہا ہے مگر یہ بیڑہ کبھی پاکستان نہ پہنچ سکا اور نہ ہی جنرل یحییٰ میں یہ جرأت تھی کہ وہ امریکا سے پوچھتا کہ تم نے وعدے کے باوجود اپنا چھٹا بحریہ بیڑہ پاکستان کیوں نہیں بھیجا۔ نائن الیون میں پاکستان کا کوئی کردار نہ تھا مگر نائن الیون کے بعد امریکا نے دھمکی دی کہ اگر پاکستان امریکا کی ’’باج گزار‘‘ ریاست نہیں بنے گا تو امریکا اسے پتھروں کے دور میں واپس بھیج دے گا۔ جنرل پرویز مشرف ڈر گئے اور انہوں نے پورا پاکستان امریکا کے حوالے کردیا۔ بھٹو امریکا کو ’’سفید ہاتھی‘‘ کہا کرتے تھے اور ان کے زوال میں امریکا کا خفیہ کردار تھا۔ بے نظیر بھٹو یہ بات سمجھتی تھیں۔ وہ امریکا سے واپس پاکستان پہنچیں تو لاہور میں ان کا تاریخی استقبال ہوا۔ پیپلز پارٹی کے بعض ’’انقلابی‘‘ کارکنوں نے اس موقع پر امریکا کے خلاف نعرے لگائے تو بے نظیر نے امریکا کی ناراضگی کے خوف سے انہیں ایسا کرنے سے روک دیا۔ امریکا کی قومی سلامتی کی مشیر کونڈا لیزا رائس نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ جنرل پرویز مشرف اور بے نظیر کے درمیان جو معاہدہ ہوا امریکا اس کا نگراں تھا۔ جنرل پرویز مشرف نے مارشل لگا کر میاں نواز شریف کو جیل میں ڈالا تو میاں صاحب کی زندگی دائو پر لگ گئی۔ یہ اندیشہ پیدا ہوگیا کہ ان کا انجام بھی بھٹو جیسا ہوگا۔ مگر میاں نواز شریف ’’امریکی پٹھو‘‘ تھے، چنانچہ سعودی عرب کے توسط سے امریکا درمیان میں کود پڑا اور جنرل حمید گل جیسے باخبر آدمی کو یہ بیان دینے کا موقع مل گیا کہ امریکا ’’اپنے آدمی‘‘ کو نکال کر لے گیا۔ جنرل پرویز بھی قوم کے لیے ’’مردِ آہن‘‘ تھے مگر امریکا کے آگے وہ بھی بھیگی بلی بن گئے۔
امریکا اور یورپ کہتے ہیں کہ اسلام ’’جمہوریت دشمن‘‘ ہے مگر 1990ء کی دہائی کے اوائل میں الجزائر میں انتخابات ہوئے تو ان کے پہلے مرحلے میں اسلامی فرنٹ نے دو تہائی اکثریت حاصل کرلی۔ یہ اسلامی پارٹی کی ایک خالص جمہوری کامیابی تھی۔ مگر فرانس کے آلۂ کار الجزائر کے جرنیلوں نے اسلامی فرنٹ کی اس کامیابی کو قبول نہ کیا۔ الجزائر کے جرنیلوں نے اقتدار پر قبضہ کرلیا اور انتخابات کے اگلے مرحلے کی نوبت ہی نہ آسکی۔
حماس کو لوگ ایک مسلح جدوجہد کرنے والی تنظیم کے طور پر جانتے ہیں۔ مگر حماس نے تاریخ کے ایک مرحلے پر غزہ کے انتخابات میں حصہ لے کر بھرپور کامیابی حاصل کی تھی مگر اسرائیل کیا امریکا اور یورپ نے بھی حماس کی ’’جمہوری فتح‘‘ کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ چنانچہ حماس جمہوریت سے مایوس ہو کر پھر مسلح جدوجہد کی طرف چلی گئی۔ سعودی عرب کے بعد مصر عرب دنیا کا دوسرا اہم ملک ہے اور مصر میں اخوان المسلمون نے تاریخ کے ایک مرحلے پر بھرپور جمہوری کامیابی حاصل کی تھی۔ اس کامیابی کو ابتدا میں امریکا، یورپ اور خود مصر کی فوج نے قبول کرلیا مگر انہوں نے اخوان کے صدر مرسی کے خلاف سازشیں جاری رکھیں اور بالآخر ایک موقعے پر فوج نے صدر مرسی کو ہٹا کر اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ سعودی عرب اور خود امریکا نے صدر مرسی کو ہٹانے والے جنرل سیسی کے لیے اربوں ڈالر کا پیکیج منظور کیا۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو اس امر میں کوئی شبہ ہی نہیں رہ جاتا کہ مسلم دنیا کے بادشاہ، جرنیل اور سیاسی رہنما امریکا اور یورپ کو ہی زمین کا خدا تسلیم کرتے ہیں۔ یہ تو امریکا اور یورپ کی مہربانی ہے کہ اس نے مسلم دنیا کے بادشاہوں، جرنیلوں اور سیاسی رہنمائوں کے لیے اپنی عبادت کا کوئی نظام وضع نہیں کیا۔ وہ ایسا کردیں تو مسلم دنیا کے حکمران امریکا اور یورپ کی عبادت کرتے ہوئے پائے جائیں گے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: امریکا اور یورپ مسلم دنیا کے سعودی عرب کے اور یورپ کو میں امریکا جنرل پرویز ناراض نہیں اور سیاسی امریکا نے امریکا کی جنرل ایوب امریکا کے انہوں نے کو ناراض یہ ہے کہ غزہ کے کے لیے کے بعد اور ان
پڑھیں:
امریکا نے دہشتگردی کیخلاف جنگ میں پاکستان کو اہم شراکت دار قرار دیدیا
امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل مائیکل ایرک کوریلا نے دہشتگردی کیخلاف جنگ میں پاکستان کو اہم شراکت دار قرار دے دیا۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان کے دہشتگردی کیخلاف مثبت اور فعال کردار کی پوری دنیا معترف ہے، امریکی سنٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل مائیکل کوریلا نے دہشتگردی کیخلاف پاکستان کے کردار کو سراہا ہے۔
امریکی سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی میں اظہار خیال کرتے ہوئے جنرل کوریلا کا کہنا تھا کہ ’داعش خراسان اس وقت عالمی سطح پر سب سے سرگرم دہشت گرد تنظیموں میں شمار ہوتی ہے، پاکستان ایک غیر معمولی انسدادِ دہشت گردی شراکت دار کے طور پر ابھر کر سامنے آیا ہے۔
جنرل کوریلا نے اعتراف کیا کہ ’پاکستان کے ساتھ قریبی انٹیلی جنس تعاون کے نتیجے میں داعش خراسان کے درجنوں دہشت گردوں کو ہلاک اورگرفتار کیا گیا‘ ان گرفتاریوں میں تنظیم کے کم از کم پانچ انتہائی مطلوب رہنما بھی شامل ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی حکام نے انٹیلی جنس شیئرنگ کے ذریعے امریکا کو کئی اہم کامیابیاں دلائیں، ان کامیابیوں میں ایبے گیٹ بم دھماکے کے ماسٹر مائنڈ جعفر کی گرفتاری اور اس کی حوالگی شامل ہے۔
سربراہ سینٹ کام نے کہا کہ اس گرفتاری کے فوراً بعد، چیف آف آرمی سٹاف فیلڈ مارشل عاصم منیر نے ذاتی طور پر رابطہ کر کے اطلاع دی۔
جنرل کوریلا نے کہا کہ پاکستان محدود مگر مؤثر انٹیلی جنس معلومات کے تبادلے کے ذریعے داعش خراسان کے خلاف کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس وقت یہ دہشت گرد گروہ پاکستان اور افغانستان کی سرحدی پٹی میں سرگرم ہے، پاکستان کی شراکت داری انسداد دہشت گردی کے عالمی تناظر میں انتہائی اہم اور مؤثر ثابت ہو رہی ہے۔
امریکی جنرل نے کہا کہ 2024ء کے آغاز سے اب تک پاکستان کے مغربی علاقوں میں ایک ہزار سے زائد دہشتگرد حملے ہوئے۔
سربراہ سینٹرل کمانڈ کا کہنا تھا کہ ان حملوں میں تقریباً 700 سیکورٹی اہلکار اور شہری جاں بحق اور 2500 زخمی ہوئے ہیں، پاکستان فعال انسداد دہشتگردی کی جنگ لڑ رہا ہے۔
جنرل کوریلا نے کہا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ داعش خراسان کمزور ہو چکی اور اس کی سرگرمیوں میں کمی آئی ہے، اس کی بنیادی وجہ حالیہ مہینوں میں انہیں پہنچنے والا بھاری نقصان ہے، ہمیں پاکستان اور بھارت دنوں کے ساتھ تعلقات رکھنا ہوں گے۔
سربراہ سینٹرل کمانڈ نے کہا کہ میں نہیں سمجھتا کہ یہ کوئی ایسا دو ٹوک فیصلہ ہے کہ اگر بھارت سے تعلق ہو تو پاکستان سے نہیں ہو سکتا۔