اسرائیل نے اعلان کیا ہے کہ اُس نے ایران کی جوہری تنصیبات اور عسکری مراکز پر فضائی حملے کیے ہیں تاکہ تہران کو مبینہ جوہری ہتھیار بنانے سے روکا جا سکے۔ حملوں میں ایرانی کمانڈروں اور میزائل فیکٹریوں کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔

اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے ایک ریکارڈ شدہ پیغام میں اس کارروائی کو ملکی تاریخ کا فیصلہ کن لمحہ قرار دیا ہے۔ اسرائیلی فوج نے اس آپریشن کو ’رائزنگ لائن‘ (اُبھرتا ہوا شیر) کا نام دیا ہے۔

ایرانی سرکاری میڈیا اور عینی شاہدین کے مطابق دارالحکومت تہران سمیت مختلف شہروں میں زوردار دھماکے سنے گئے ہیں۔ رپورٹس کے مطابق متعدد ہلاکتیں ہوئی ہیں جن میں بچے بھی شامل ہیں۔ ایران کی پریس ٹی وی نے تصدیق کی ہے کہ نطنز (Natanz) میں واقع مرکزی جوہری افزودگی کا مرکز اسرائیلی حملے کا ہدف بنا ہے۔

مزید پڑھیں: تہران پر حملے کے بعد ایران کا سخت ردعمل: ’قیمت چکانا پڑے گی’

ایرانی خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق امام خمینی بین الاقوامی ہوائی اڈے پر پروازیں معطل کر دی گئی ہیں، تاہم تاحال ائیرپورٹ کو براہ راست کوئی نقصان نہیں پہنچا۔

ایرانی سرکاری میڈیا کے مطابق گزشتہ چند گھنٹوں کے دوران کم از کم 2 مرتبہ فضائی حملوں کی لہریں دیکھی گئی ہیں، جبکہ غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق تیسری لہر بھی جاری ہے۔

حملوں کے مقامات

ابتدائی اطلاعات کے مطابق اسرائیلی فضائیہ نے ایران کے 6 مختلف علاقوں میں حملے کیے ہیں:

تہران اور مضافات – جہاں عسکری مراکز کو نشانہ بنایا گیا۔

نطنز – ایران کا مرکزی یورینیم افزودگی پلانٹ۔

تبریز – جوہری تحقیقاتی مرکز اور 2 فوجی اڈے نشانے پر۔

مزید پڑھیں: اسرائیلی میں شہید ہونے والے ایرانی ملٹری چیف جنرل باقری کون تھے؟

اصفہان – تہران کے جنوب میں واقع اہم صنعتی و دفاعی شہر۔

اراک – جوہری سرگرمیوں کے لیے معروف شہر، جو تہران کے جنوب مغرب میں واقع ہے۔

کرمانشاہ – مغربی ایران کا اہم فوجی مرکز۔

امریکی ردعمل

امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے اسرائیلی حملے کو یکطرفہ کارروائی قرار دیا ہے اور واضح کیا ہے کہ واشنگٹن اس حملے میں شریک نہیں تھا۔ تاہم انہوں نے ایران کو خبردار کیا کہ وہ امریکی مفادات یا خطے میں امریکی اہلکاروں کو نشانہ نہ بنائے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: کے مطابق

پڑھیں:

غزہ کی آڑ میں مغربی کنارہ نگلنے کی اسرائیلی پیش قدمی

اسلام ٹائمز: اگر آج غزہ جل رہا ہے، تو ریاض، ابوظہبی، قاہرہ، عمان اور رباط قطر کیریو دمشق میں قہقہے کیوں گونج رہے ہیں؟ غزہ کے بچے روٹی مانگتے ہیں، دوائی مانگتے ہیں، پناہ مانگتے ہیں، اور عرب بادشاہ اسرائیل سے دفاعی ڈرون اور نائٹ ویژن کیمرے خرید رہے ہیں اور اس ظالمانہ منظرنامے میں اگر کوئی ایک ملک ہے جو اسرائیلی دہشت گردی کے خلاف اپنی پالیسی، زبان، ہتھیار اور نظریہ واضح رکھے ہوئے ہے تو وہ ایران ہے۔ ایران کی قیادت وہ واحد آواز ہے جو بغیر کسی خوف کے کھلے عام کہتی ہے کہ اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے، اور فلسطین فلسطینیوں کا ہے۔ تحریر: عرض محمد سنجرانی

غزہ پر جاری ظلم و بربریت نے عالمی ضمیر کو اس قدر مفلوج کر دیا ہے کہ اسرائیل نے مغربی کنارے کو بھی خاموشی سے نگلنے کا عمل تیز کر دیا ہے۔ غزہ کا سانحہ جہاں پوری انسانی آبادی کو خوراک، پانی اور دوا سے محروم نسل کشی کی نہج پر لے آیا، وہیں مغربی کنارہ اسرائیلی نقشے میں تقریباً مکمل طور پر ضم ہو چکا ہے۔ اب صرف باضابطہ اعلان کی دیر ہے۔ اس مظلوم قوم کی آہوں، لاشوں، زخمی بچوں، ماؤں کی سسکیوں، اور بے گھر خاندانوں کے سامنے پوری انسانیت کا سر شرم سے جھک جانا چاہیئے تھا، مگر اسرائیل نے اس انسانی المیے کو ایک موقع میں بدل دیا۔ اُس نے غزہ کی تباہی کو پردہ بنا کر مغربی کنارے پر قبضے کا حتمی منصوبہ بھی آگے بڑھا دیا، اور دنیا نے ایک بار پھر صرف خاموشی کی زبان بولی۔

اسرائیلی پارلیمنٹ (کنیسٹ) نے ایک علامتی قرارداد کے ذریعے مغربی کنارے کو اسرائیلی ریاست میں ضم کرنے کا عندیہ دے دیا ہے۔ اکہتر کے مقابلے میں تیرہ ووٹوں سے منظور شدہ اس قرارداد کے پیچھے وہی پرانی صیہونی ذہنیت، ریاستی طاقت، مذہبی شدت پسندی اور نیتن یاہو کا فسطائی ایجنڈا کارفرما ہے، وہی ایجنڈا جو اسرائیل کو نیل سے فرات تک پھیلانے کا خواب دیکھتا ہے۔ اس قرارداد میں فلسطینیوں کو کسی ریاست، شناخت یا حقِ خود ارادیت کی کوئی گنجائش نہیں دی گئی۔ بلکہ یہ ایک اعلان ہے کہ اب فلسطینیوں کی زمین، تاریخ، تشخص، اور وجود، سب کچھ باقاعدہ طور پر صیہونی ریاست کے پیروں تلے روند دیا جائے گا۔

مگر اصل المیہ صرف اسرائیلی جارحیت نہیں، اصل المیہ وہ زخم ہے جو امت مسلمہ کے خنجر سے فلسطین کے جسم پر لگ رہا ہے۔ عرب حکمران، جن کے پاس تیل کی دولت ہے، افواج ہیں، اور دنیا کے بڑے دارالحکومتوں میں سفارت خانے ہیں۔ وہ سب خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ کچھ تو اس خاموشی سے بھی آگے بڑھ چکے ہیں۔ انہوں نے اسرائیل کے ساتھ دوستانہ معاہدے، تجارتی روابط، دفاعی تعاون، اور مشترکہ منصوبوں پر دستخط کر کے گویا فلسطینیوں کے قتل پر اپنی مہرِ تصدیق ثبت کر دی ہے۔ کیا یہی وہ امت ہے جسے رسولِ اکرم (ص) نے ایک جسم قرار دیا تھا؟ کیا ایک حصے کے زخم پر دوسرا حصہ بے حس ہو سکتا ہے؟

اگر آج غزہ جل رہا ہے، تو ریاض، ابوظہبی، قاہرہ، عمان اور رباط قطر کیریو دمشق میں قہقہے کیوں گونج رہے ہیں؟ غزہ کے بچے روٹی مانگتے ہیں، دوائی مانگتے ہیں، پناہ مانگتے ہیں، اور عرب بادشاہ اسرائیل سے دفاعی ڈرون اور نائٹ ویژن کیمرے خرید رہے ہیں اور اس ظالمانہ منظرنامے میں اگر کوئی ایک ملک ہے جو اسرائیلی دہشت گردی کے خلاف اپنی پالیسی، زبان، ہتھیار اور نظریہ واضح رکھے ہوئے ہے تو وہ ایران ہے۔ ایران کی قیادت وہ واحد آواز ہے جو بغیر کسی خوف کے کھلے عام کہتی ہے کہ ’’اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے، اور فلسطین فلسطینیوں کا ہے۔‘‘

ایران نے صرف بیانات ہی نہیں دیے، بلکہ مسلسل عسکری، مالی، اور نظریاتی مدد فراہم کی ہے۔ چاہے وہ حماس ہو، انصاراللہ ہو اسلامی جہاد، یا حزب اللہ۔ ایران نے اسرائیلی بمباری کے جواب میں کبھی ’’تشویش‘‘ پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ مزاحمتی اتحاد کی عملی حکمت عملی تشکیل دی۔ ایران پر عالمی پابندیاں لگیں، اقتصادی جنگ مسلط ہوئی، سفارتی تنہائی پیدا کی گئی، مگر اس کے مؤقف میں ذرہ برابر بھی لرزش نہ آئی۔ ایران کی اسی مزاحمت نے مغرب کے خیمے میں تھرتھلی مچا رکھی ہے۔ اسرائیل کی ہر سازش کے پیچھے یہ خطرہ موجود ہے کہ کہیں ایران سے نیا جواب نہ آ جائے۔

یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کی حالیہ قرارداد میں "ایرانی شیطانی تکون" کو مرکزی خطرہ قرار دیا گیا کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر عرب حکمران صرف "تشویش" کے سفیر ہیں، تو ایران اس وقت واحد ریاست ہے جو میدانِ عمل میں اسرائیل کے سامراجی منصوبے کے خلاف کھڑی ہے۔ کیا یہ شرم کی بات نہیں کہ جن کے سینوں میں رسول (ص) کا عشق ہے، وہ آج اسرائیل کے ساتھ افطار کی میز پر بیٹھتے ہیں، اور جن پر صدیوں سے کفر کا فتویٰ چسپاں ہے، وہ قبلۂ اول کی حرمت کے لیے فرنٹ لائن پر ہیں؟ تاریخ نے اُمت کو ایک آئینہ دکھا دیا ہے — اب یہ ہمارے ضمیر کا امتحان ہے کہ ہم کس طرف کھڑے ہوتے ہیں۔

کیا کوئی ایک عرب ملک ایسا ہے جو اسرائیل کو سفارتی، تجارتی یا عسکری زبان میں روک سکے؟ قطر اور ترکی کی چند علامتی کوششوں کے سوا پورے عرب ورلڈ پر موت طاری ہے۔ وہ اقوامِ متحدہ کی بے اثر قراردادوں، او آئی سی کے بے جان اجلاسوں، اور میڈیا کے خالی بیانات سے زیادہ کچھ نہیں کر رہے۔ جبکہ اسرائیل زمین ہڑپ کر رہا ہے، بستیاں بسا رہا ہے، مسجد اقصیٰ کی حرمت پامال کر رہا ہے اور دنیا کی سب سے منظم نسل کشی کر رہا ہے۔ یہی وہ لمحہ ہے جہاں تاریخ فیصلہ کرے گی کہ فلسطین کو اسرائیل نے قتل نہیں کیا بلکہ مسلم حکمرانوں کی خاموشی، بے حسی، اور منافقت نے فلسطین کو دفن کر دیا۔ آج جو یروشلم کے منبر خاموش ہیں، کل ان پر صیہونی جھنڈا لہرائے گا، آج جو غزہ کی بستیوں پر بم برس رہے ہیں، کل وہ مکہ و مدینہ کے افق پر بھی چھا سکتے ہیں، اگر یہی خاموشی برقرار رہی۔

یہ سب کچھ ہوتے ہوئے اسرائیلی نصاب میں بچوں کو پڑھایا جا رہا ہے ’’خدا نے نیل سے فرات تک کی زمین بنی اسرائیل کو ہمیشہ کے لیے عطا کی ہے۔‘‘ یہ تعلیم ایک نسل کو صرف صیہونی نہیں، سامراجی، قاتل اور استعماری سوچ کا وارث بنا رہی ہے۔ اب سوال یہ نہیں کہ اسرائیل کیا کرے گا، سوال یہ ہے کہ ہم کیا کریں گے؟ کیا ہم ماتم کرتے رہیں گے؟ کیا ہم صرف سوشل میڈیا پر احتجاج کرتے رہیں گے؟ کیا ہم حکمرانوں سے رحم کی بھیک مانگتے رہیں گے؟ نہیں۔ اب وقت آ چکا ہے کہ امت مسلمہ کا ہر فرد اپنے حصے کی مشعل جلائے۔ بائیکاٹ سے، قلم سے، احتجاج سے، دعا سے، اور اگر ممکن ہو تو میدانِ عمل سے۔ کیونکہ اگر آج ہم نے آواز نہ اٹھائی تو کل تاریخ ہمیں بھی ظالموں کے ساتھ لکھے گی۔ خدا کے حضور، تاریخ کے صفحات پر، اور مظلوم فلسطینیوں کی آنکھوں میں اب صرف ایک ہی سوال ہے۔
"جب مسجد اقصیٰ جل رہی تھی، تم کہاں تھے؟"

متعلقہ مضامین

  • ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے سمیت حالیہ واقعات کے بارے میں خاموش نہیں رہ سکتے، پاکستان
  • اسرائیلی وزیر دفاع نے ایران کے سپریم لیڈر کو براہ راست نشانہ بنانے کی دھمکی دے دی
  • اسرائیل نے ایک بار پھر ایرانی سپریم لیڈر کو نشانہ بنانے کی دھمکی دے دی
  • عالمی دباو، اسرائیل کا غزہ کے 3علاقوں میں روز 10گھنٹے کیلئے حملے روکنے کا اعلان
  • غزہ کی آڑ میں مغربی کنارہ نگلنے کی اسرائیلی پیش قدمی
  • یورپی طاقتوں کے ساتھ جوہری مذاکرات ’تعمیری‘ رہے، ایران
  • ایران کے شہر زاہدان میں عدالت پر دہشتگردوں کا حملہ، 6 شہری شہید، 3 دہشتگرد ہلاک
  • بارہ روزہ جنگ نے ایران کو دوبارہ متحد کر دیا، فرانسیسی ماہر
  • اسرائیل ایران جنگ کے 40 دن بعد، ایرانی سپریم لیڈر خامنہ ای نے قوم کے لیے نئے اہداف کا اعلان کردیا
  • ایران کے شہر زاہدان میں عدالت پر دہشت گردوں کا حملہ