پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے فاسٹ بولر علی رضا کی آنکھوں کی بیماری میں مبتلا ہونے سے متعلق رپورٹس کو "بے بنیاد" قرار دیدیا۔

پی سی بی کے اعلیٰ عہدیدار کا کہنا ہے کہ 17 سالہ نوجوان فاسٹ بولر علی رضا کو آنکھوں کی کوئی بیماری نہیں ہے اور وہ تمام فارمیٹس میں قومی ٹیم کے انتخاب کیلئے دستیاب ہیں۔

قبل ازیں، میڈیا رپورٹس نے یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ دورہ بنگلادیش اور ویسٹ انڈیز کے دوران فاسٹ بولر علی رضا کو اسکواڈ کا حصہ نہیں بنایا جائے گا کیونکہ انہیں فلڈ لائٹس میں بال دیکھنے میں مسئلہ ہورہا ہے۔

مزید پڑھیں: نسیم، عامر اور علی رضا دورہ بنگلادیش اور ویسٹ انڈیز سے نظر انداز، مگر کیوں؟

علی رضا نے حال ہی میں ختم ہونے والی پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) 10ویں ایڈیشن میں پشاور زلمی کی نمائندگی کی تھی، جس میں انہوں نے 9 میچز میں 25.

25 کی اوسط اور 9.18 کے اکانومی ریٹ سے 12 وکٹیں حاصل کیں۔

مزید پڑھیں: ابتدائی مشاورت میں 25 رکنی اسکواڈ منتخب! بابر، رضوان باہر

رپورٹس میں مزید کہا گیا تھا کہ نسیم شاہ، عامر جمال اَن فٹ ہونے کے سبب دورہ بنگلادیش اور ویسٹ انڈیز کیلئے قومی اسکواڈز کا حصہ نہیں ہوں گے۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: فاسٹ بولر علی رضا

پڑھیں:

’’آپ کیسی ہیں۔۔۔؟‘‘

ماضی کے جھروکوں سے جھانکوں تو خوش گوار یادوں کی ٹھنڈی ہوائیں میرے ذہن و دل کو معطر کر دیتی ہیں۔ گھروں کے درمیان  دیواریں بھی مشترکہ ہوا کرتی تھیں،دلوںمیں محبتوں کا اٹوٹ بندھن تھا۔

نہ فون، نہ موبائل، نہ ہی جدید ذرائع آمدورفت، مگر پھر بھی سب کی خبر گیری ہوا کرتی تھی۔ گھر میں جو پکتا پڑوس میں بھیجا جاتا۔ شام کے وقت خواتین بچوں کے ہمراہ پاس پڑوس، محلے میں یا رشتے داروں سے ملنے جاتیں۔ شام کی چائے ساتھ پی جاتی۔ عمر رسیدہ یا بیمار خواتین تو خاص انتظار کرتیں کہ ابھی فلاں آئے گی۔

سادگی کا دور تھا۔ بنا بتائے کسی کے گھر چلے جائیں تو وہ خوشی سے استقبال کرتے۔ گھر میں جو طعام میسر ہوتا اس سے مہمان کی خاطر کی جاتی۔ انواع و اقسام کے پکوان نہیں ہوتے تھے، سادہ سا کھانا ہوتا، لیکن بہت محبت و خلوص سے دسترخوان بچھادیا جاتا تھا اور مہمان بھی خوش ہوتے۔ کتنی ہی دیر ایک دوسرے سے دل کا حال بیان کیا جاتا۔ کسی کو کوئی مسئلہ ہوتا تو سبھی اس کے حل کے لیے کوشاں رہتے۔ کوئی بیوہ یا تنہا خاتون بزرگ ہوتی تو رشتے دار اپنے گھر لے آتے۔ ان کی خدمت کرتے۔ گھر کے بچوں کو خاص تاکید کی جاتی کہ یہ گھر کی بڑی بزرگ ہیں.

 ان سے باتیں کرو۔ ان کا خیال رکھو، ان کی خدمت کرو۔ اس طرح وہ تنہائی یا ڈپریشن کا شکار نہیں ہوتیں۔ جو خواتین تنہا رہتیں، محلے دار بھی ان کی خبر گیری رکھتے۔ آتے جاتے محلے کی خواتین حال پوچھتی رہتیں۔ ’’خالہ جی طبیعت کیسی ہے ؟ کچھ منگوانا ہے، تو بتا دیجیے، میں سودا لینے جارہی ہوں، آپ کی دوا بھی لے آؤں گی۔ آج میں نے آپ کے لیے یخنی بنائی ہے اور آپ کی پسند کا کسٹرڈ بھی بنایا ہے۔ ابھی لاتی ہوں‘ یہ احساس اور بے لوث خلوص کے انداز دل کو محبت سے سرشار کر دیا کرتے۔ وقت گزرنے کے ساتھ زندگی مصروف ہوتی چلی گئی۔ رابطے کم ہونے لگے اور فاصلے بڑھنے لگے۔  نئے دور کے جدید اندازِ روابط آگئے۔

دن بہ دن زندگی مصروف ہوتی چلی گئی اور فاصلے بڑھتے چلے گئے۔ ان فاصلوں نے تنہائی کو جنم دیا۔ جہاں تنہائی کا شکار منتظر نگاہیں دروازے کی سمت دیکھتی ہیں کہ کب دستک ہو۔ کبھی میرے اپنے میرے پیارے، میرے عزیز کوئی حال چال پوچھنے آجائے۔ بہنوں جیسی پڑوسن کوئی تو آئے کہ کچھ دیر بیٹھ کر دل کی بات کروں۔ تنہائی کاٹنے کو دوڑتی ہوگی، لیکن بیماری نے کہیں آنے جانے کی سکت ختم کر دی ہوگی۔ فون کرو، تو ہر ایک مصروف۔۔۔۔ ’’میں مصروف ہوں کچھ دیر میں آپ کو کال کرتی ہوں‘‘  اور پھر سماعتیں فون کی منتظر ہی رہ جاتی ہیں۔ اپنے گردوپیش کے سکوت اور سناٹے سے تنگ آکر جانے کیا کیا جتن کرتی ہوں گی۔ یہی کیفیت کچھ وقت میں ڈپریشن کو جنم دیتی ہے۔

اگر ہم اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں، تو کئی ایسی خواتین نظر آئیں گی۔ جو ہماری توجہ اور ہمارے وقت کی منتظر ہیں۔ کئی مائیں بھی تنہائی کا شکار ہو جاتی ہیں۔ بیٹی کو بیاہ دیا ہو، اولاد بیرون ملک مقیم ہوں وغیرہ۔ گو کہ ماؤں کو جدید موبائل فون، لیپ ٹاپ وغیرہ کے تحفے دے دیے کہ ’’امی فکر کیوں کرتی ہیں۔ میں آپ کو روز ’میسیج‘ کر دیا کروں گا‘‘ مائیں یہ سوچتی رہ جاتی ہیں۔ کہ ان جدید روابط کے آلات نے بظاہر رابطوں کو آسان بنادیا ہے، لیکن ان برقی پیغامات سے احساس و خلوص کے جذبات اور محبت کی مہک نہیں آتی۔

 یہ تنہائی اور یہ صورت حال دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے۔ تنہا بزرگوں/ خواتین کا خیال رکھنا من حیث القوم، ہم سب کی ذمے داری ہے۔   اپنے روزمرہ کے مصروف معمولات میں سے سماجی روابط کی ویب سائٹس کو دیے جانے والا کچھ وقت آج سے اپنوں کے نام کر دیں۔ پڑوسی، والدین، بہن بھائی، عزیز اقربا، سہیلیاں۔ سب کی خبرگیری کرتی رہیں۔ سب سے رابطے میں رہیں۔ ہم اکثر ایک بات سنتے رہتے ہیں کہ فلاں نے مجھے کال نہیں کی تو میں کیوں کروں؟ وہ مجھ سے ملنے نہیں آئی، تو میں کیوں ملنے جاؤں؟

ان گِلے شکوؤں کو چھوڑ دیجیے۔ زندگی بہت مختصر ہے، اِسے محبتوں کے ساتھ بسر کیجیے۔ کیا خبر کسی کے خبر گیری کے لمحات اس کی زندگی کے آخری لمحات ہوں۔ شاید کوئی آپ کے کچھ دیر بات کرنے سے اپنے درد کو غم کو بھلا کر خوش باش ہوجائے اور اس کے دل سے آپ کے لیے دعا نکلے، جو اللہ کی بارگاہ میں مقبول ہو جائے۔

اکثر اوقات تنہائی یا بڑھاپے کا شکار افراد چڑچڑے بھی ہو جاتے ہیں۔ لہٰذا کبھی کسی کی کوئی بات بری لگے، تو اِسے دل میں لے کر نہ بیٹھا کیجیے، بلکہ درگزر کیا کیجیے۔  یہ سوچیے کہ ہوسکتا ہے وہ پریشان یا بیمار ہوں ، اپنی ذات میں کوئی جنگ لڑرہی ہوں۔ اس لیے ایسا کیا ہوگا۔ یہ اچھا گُمان اور مثبت سوچ آپ کی شخصیت میں بھی نکھار پیدا کردے گی۔

اسی طرح اکثر بزرگوں سے ملنے یا بات کرنے سے لوگ گھبراتے ہیں کہ بھئی یہ بڑی عمر کے افراد بہت باتیں کرتے ہیں۔ کئی بار سنائے ہوئے ماضی کے قصے بھی دوبارہ سنانے لگتے ہیں۔ ان کا حال چال پوچھنا ہی مشکل ہو جاتا ہے۔ ان کی خبر گیری کا آسان طریقہ یہ ہوتا ہے کہ آپ ان کو پہلے سے مطلع کردیں۔ آنٹی مجھے سات بجے روٹیاں پکانی ہیں۔ لہٰذا تب تک میں اور آپ گپ شپ کرتے ہیں۔

گپ شپ کے دوران ان کے کھانے پینے دوا وغیرہ کا ضرور معلوم کرلیں۔ ان کے لیے کچھ کھانے کے لیے لے جائیں۔ کوئی خاص پکوان پکائیں تو تھوڑا ان کو بھی دینے چلی جائیں ۔ اس طرح بھی ان کی خیریت پتا چلتی رہے گی۔ اسی طرح کبھی اپنے گھر مدعو کرلیں۔ آتے جاتے گھر کی گھنٹی بجا کر پوچھتی رہیں۔ ’’آپ کیسی ہیں کسی چیز کی ضرورت تو نہیں!‘‘

ایسے تمام رشتے جن سے روزانہ ملاقات ممکن نہیں، مگر ان کی سماعتیں و بصارتیں آپ کی منتظر رہتی ہیں۔ ان سے روزانہ کم از کم ویڈیو کال پر ضرور بات کریں۔ فاصلے کیسے بھی ہوں۔ ویڈیو کال لمحوں میں فاصلوں کو مٹا دیتی ہے۔ احساسات و جذبات، محبت و خلوص نگاہوں کے ذریعے دل میں اترتا ہوا محسوس ہوگا۔ زندگی کی مصروف معمولات کبھی ختم نہیں ہوں گے، لیکن ’مہلتِ حیات‘ مُٹھی میں بند ریت کی مانند پھسلتی جا رہی ہے۔ لہٰذا اس وقت میں سے ان چھوٹی چھوٹی نیکیوں کے لیے وقت کشید کرنا پڑے گا۔ کسی کی دل جوئی، خدمت، خبر گیری کے بدلے دعاؤں کا سرمایہ جمع کرنا ہوگا کہ روز محشر سرخرو ہوسکیں۔

متعلقہ مضامین

  • آپریشن سندور میں مودی سرکار کی ناکامی اور خاموشی پر کانگریس رہنماؤں کی کڑی تنقید
  • ’’آپ کیسی ہیں۔۔۔؟‘‘
  • صدر زرداری نے پاکستان کھپپے کا نعرہ لگایا،جیالے تیار ہوجائیں اب خاموشی سے بیٹھنے کا وقت نہیں‘ سردار سلیم حیدر
  • بین اسٹوکس نے جڈیجا سے ہاتھ نہ ملانے کے تنازع پر خاموشی توڑ دی
  • گدھوں کے گوشت کی اسلام آباد سے باہر سپلائی کے حوالے سے بھی رپورٹس موجود ہیں: ڈائریکٹر اسلام آباد فوڈ اتھارٹی
  • عمران خان کی رہائی کا دور دور تک کوئی امکان نہیں اور نہ ہی اس کے بیٹے پاکستان آئیں گئے: ڈاکٹر انیس کنول
  • مالی بحران: پی ٹی آئی نے مرکزی سیکریٹریٹ ملازمین کی تنخواہوں پر 50 فیصد کٹ لگا دیا
  • پنجاب میں مزید 136 ویسٹ ڈسپوزل پوائنٹس بنانے پر اتفاق
  • پی سی ایس آئی آر لیبارٹری کی رپورٹس میں ٹیمپرنگ کا انکشاف
  • باقاعدگی سے میک اپ کرنیوالی خواتین کس خطرناک بیماری میں مبتلا ہوسکتی ہیں؟