گورنر خیبرپختونخوا نے اپنی آئینی ذمہ داری پوری نہیں کی، علی امین گنڈاپور
اشاعت کی تاریخ: 13th, June 2025 GMT
وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا نے بجٹ اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ایران اور فلسطین پر اسرائیلی حملوں کی مذمت کرتے ہیں۔ اور ہم اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا کہ گورنر خیبرپختونخوا نے اپنی آئینی ذمہ داری پوری نہیں کی۔ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے بجٹ اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ایران اور فلسطین پر اسرائیلی حملوں کی مذمت کرتے ہیں۔ اور ہم اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بجٹ پیش کیا جا رہا ہے۔ اور امید کرتے ہیں صوبے کی بہتری کے لیے اچھا ہو گا۔ جبکہ اپوزیشن کے دوستوں کو کہتا ہوں اپنی تجاویز دیں۔ جنہیں ہم بجٹ میں شامل کریں گے۔
علی امین گنڈاپور نے کہا کہ گورنر خیبرپختونخوا نے اپنی آئینی ذمہ داری پوری نہیں کی۔ اور گورنر خیبرپختونخوا نے اسمبلی اجلاس بلانے کی سمری پر دستخط نہیں کیے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے جائز حقوق نہیں دیئے جا رہے ہیں۔ تاہم ہم اپنے تمام فیصلوں میں آزاد ہیں۔ اور آپ لوگوں کو کہتا ہوں کہ سازش نہیں بلکہ کارکردگی دکھائیں۔ ضم اضلاع پر عائد ٹیکس کی راہ میں رکاوٹ بنیں گے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: گورنر خیبرپختونخوا نے علی امین گنڈاپور نے کہا کہ نہیں کی
پڑھیں:
ملک کی خوشحالی کے پیمانے
اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلم لیگ نون کی حکومتوں کے دور میں ہمارے یہاں بہت سے ترقیاتی کام ہوتے رہے ہیں جن میں سب سے قابل ذکر موٹروے، بڑی بڑی شاہراہیں، نیو کلیئر ٹیسٹ اور سی پیک جیسے عظیم منصوبے پر عمل درآمد مگر دیکھا جائے تو معیشت کو بہتر بنانے اور وطن عزیز کو ایک خود مختار اور خود انحصار ملک بنانے میں ابھی تک کوئی بڑا کا م دیکھنے میں نہیں آیا ہے۔
حکومت اسٹاک مارکیٹ کے اعداد و شمار کو ملک کی ترقی کا پیمانہ سمجھتی رہی ہے، جب کہ اسٹاک مارکیٹ کے بڑے بڑے ریکارڈوں سے عام آدمی کو نہ روزگار ملا کرتا ہے اور نہ غریب کا پیٹ بھرتا ہے، یہ چند بڑے مالداروں کا مشغلہ ہے جو جب چاہتے ہیں اسے بلندی پر لے جاتے ہیں اور جب چاہتے ہیں، مندی دکھانا شروع کردیتے ہیں۔ غریب آدمی تو بیوقوف بن کر اپنا بچا کچا سرمایہ بھی اس میں لگا کر کنگال ہو جاتا ہے۔
موجودہ حکومت کو تقریباً ڈیڑھ برس ہونے کو آیا ہے مگر عام آدمی کو باعزت روزگار فراہم کرنے کی سمت میں ابھی تک کوئی قابل قدر کام دکھائی نہیں دے رہا، جس زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کو حکومت اپنی کارکردگی سمجھ رہی ہے وہ بھی مستعار لیے گئے کچھ دوست ممالک کے ڈالروں کی وجہ سے ہے، وہ اگر واپس کرنے پڑجائیں تو اس کامیابی کا سارا بھرم کھل جائے گا، خزانے میں صرف گیارہ ارب ڈالرز ہی رہ جائیں گے۔ اس کے برعکس ہم اگر اپنے پڑوسی ممالک پر نظر دوڑائیں تو ہمارا ازلی دشمن اس وقت 600 ار ب ڈالرز کے فارن ایکس چینج کا مالک بنا ہوا ہے، بنگلا دیش کو ہی لے لیجیے جس نے 1972 میں ہم اسے الگ ہوکر ایک علیحدہ مملکت بنالی تھی اورآج ہم سے بہت بہتر پوزیشن میں کھڑا ہے۔
اس کے بھی زرمبادلہ کے ذخائر چالیس ارب ڈالرز سے زیادہ ہی ہیں۔ افغانستان ہی کو لے لیجیے جس کے بہت قیمتی پچاس سال خانہ جنگی اور غیر ملکی مداخلت کی نذر ہوگئے مگر وہ اب خاموشی سے بڑی تیزی کے ساتھ ترقی و خوشحالی کے مراحل طے کررہا ہے، وہ ایک خود دار مملکت کے طور پر زندگی گزار رہا ہے اور چند ارب ڈالروں کے لیے کسی کے آگے منت و سماجت بھی نہیں کر رہا ہے۔ اُس پر کسی غیر ملک کا قرضہ بھی واجب الادا نہیں ہے، لہٰذا اسے ڈیفالٹ ہوجانے کا کسی خطرے کا سامنا بھی نہیں ہے۔
اس کے یہاں، بجلی اور توانائی کا کوئی بحران بھی نہیں ہے اور نہ اس کے عوام بھوک و افلاس کی زندگی گزار رہے ہیں۔ وہاں بجلی اور گیس کی کوئی لوڈ شیڈنگ بھی نہیں ہے ، وہ اپنے شہروں کو آج اگر روشن کیے ہوئے ہیں تو اپنے وسائل اور کوششوں سے۔ آس پاس کے قریبی ممالک سے وہ اگر بجلی خرید رہے ہیں تو اس کی قیمت بھی ڈالروں میں ادا کر رہے ہیں، لیکن پھر بھی وہاں بجلی ہمارے یہاں کے مقابلے میں بہت سستی ہے۔ اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ وہاں حکومتی وزراء کے حالات عام آدمیوں جیسے ہیں۔ وہاں اشرافیہ جیسے کسی طبقے کا کوئی وجود ہی نہیں ہے، جس طرز زندگی کو ہم قدامت پسند سمجھتے رہے، اسی قدامت پسند ملک کی کرکٹ ٹیم چند سالوں میں بڑے بڑے ملکوں کی ٹیموں کو شکست دے رہی ہے۔
صحت کے شعبے میں بھی اسے کسی غیرملکی امداد کی حاجت نہیں ہے ۔ عام آدمیوں کو صحت کی تمام سہولتیں اپنے ملک میں ہی دستیاب ہیں۔ وہاں کے ڈاکٹر ز بھی اب پوسٹ گریجویٹ کی اعلیٰ ڈگریاں حاصل کررہے ہیں۔ اس کا روپیہ ہمارے روپے کی نسبت بہت مستحکم ہے۔ وہاں پٹرول نہیں نکلتا لیکن درآمد کیا جانے والا پٹرول بھی اپنے لوگوں کو سستے داموں دستیاب ہے۔ انھوں نے پٹرول پر لیوی لگاکر اسے حکومتی آمدنی کا ذریعہ نہیں بنایا ہے۔
اس کے باوجود وہ ایک اچھی زندگی گزار رہے ہیں اور حکومتی اخراجات بھی پورے کر رہے ہیں، وہ بڑی خاموشی سے ترقی کے منازل طے کررہے ہیں اور وہ دن دور نہیں جب وہ ترقی کرکے ہمارے مقابل کھڑے ہو جائیں گے ۔ انھوں نے اسٹاک مارکیٹ کو اپنی ترقی کا پیمانہ نہیں بنایا ہے بلکہ یہ کہا جائے کہ وہاں اسٹاک مارکیٹ جیسے کسی کاروبار کا نام و نشان ہی نہیں ہے تو شاید غلط اور بے جا نہ ہوگا۔اس کے برعکس ہم ہر سال بارشوں اور سیلابوں کی تباہی سے دوچار ہوتے ہیں لیکن اس کے تدارک اور بچاؤ کے لیے کوئی کام نہیں کرتے۔ بلکہ اسے موقعہ غنیمت جان کر ساری دنیا میں امداد کے لیے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ CLIMATE CHANGE کے اثرات کا رونا روتے ہوئے کاسہ گدائی لے کر چالیس ارب ڈالرز کی ڈیمانڈ کرنے لگتے ہیں جیسے یہ سب انھی کا کیا دھرا ہے۔
دنیا ہمیں کب تک امداد دیتی رہے گی۔ ہم کب اپنے وسائل سے اِن قدرتی آفات سے مقابلہ کرنے کے قابل ہو پائیں گے۔ دوسال قبل بھی سیلابی پانی نے ہمارے یہاں تباہی پھیلادی تھی مگر ہم نے اس سے نمٹنے کے لیے اِن دوسالوں میں کیا تدابیر اختیارکیں، اس کا جواب ہمارے حکمرانوں کے پاس ابھی بھی نہیں ہے۔
بس پرانے مکانوں کے بدلے نئے مکانات بنا تو دیے ہیں لیکن اِنہیں سیلابوں سے بچانے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ ہمارے یہاں قدرتی آفات سے نمٹنے کی کوئی مؤثر پلاننگ ہی نہیں ہے۔ اس بار پھر پنجاب اور گلگت بلتستان میں بارشوں نے تباہی مچا دی ہے جس نے ہماری نام نہاد ترقی کا پول کھول کررکھ دیا ہے۔ ہم سارا سال اپنی فصلوں کے لیے پانی کی کمی کا رونا رو رہے ہوتے ہیں لیکن جب قدرت ہمیں یہ پانی بارشوں کی ذریعے فراہم کرتی ہے تو ہم اسے ذخیرہ بھی نہیں کرپاتے اور اسے ضایع کردیتے ہیں۔ ذرا سوچا جائے کہ اس دوران اگر بھارت بھی اپنا پانی ہماری جانب کھول دے تو پھرکیا حال ہوگا۔
ڈیموں کی مخالفت کرنے والوں کو اپنے اس طرز عمل پر نظر ثانی کرنا ہوگی ۔ ہم نے اگر دیر کردی اور اللہ تعالیٰ نے اپنی مہربانیاں روک دیں تو پھر قحط اور خشک سالی سے ہمیں کوئی بچا نہیں پائے گا۔ہم نے اپنی ترقی اورخوشحالی کے پرفریب پیمانے بنا رکھے ہیں۔ دوسال سے حکومت اپنی اس ترقی کامیابی کے لیے اسٹاک مارکیٹ کا حوالہ دیتی ہے جب کہ اسے بھی معلوم ہے کہ یہ خود فریبی کے سوا کچھ بھی نہیںہے۔ اِن کی اپنی پائیداری ہر وقت متزلزل اور غیر مستحکم رہتی ہے۔ اس پر بھروسہ کرکے ہم بڑے بڑے پروجیکٹ شروع نہیں کرسکتے ۔ اِن اعداد و شمار کی مدد سے توہم اپنے عوام کو روزگار بھی فراہم نہیں کرسکتے ۔
وزیراعظم صاحب نے اپنے اس دور اقتدار میں بے شمار غیرملکی دورے کیے اورہر دورے میں کئی کئی ارب ڈالرزکی سرمایہ کاری کے MOUسائن بھی کیے مگر ہمیں ابھی تک اِن MOU کی عملی شکل دکھائی نہیں دی۔ یہ سب کاغذوں پر ہی ہیں اور نجانے کب تک رہیں گے۔ ہمارے یہاں نئے کارخانے تو کیا بنتے پہلے سے موجود فیکٹریاں اورکارخانے بھی بند ہو رہے ہیں۔ ہم نے اپنی ایکسپورٹ بڑھانے کے لیے کوئی قدم بھی نہیں اُٹھایا ہے۔
فارن ایکس چینج بڑھانے کے لیے صرف تارکین وطن کی ترسیلات زر پر قناعت اور اکتفا کیے بیٹھے ہیں۔ ترقی کی نشاندہی کے لیے ہم صرف اسٹاک مارکیٹ اور ترسیلات زر دکھا کرخوش ہوجاتے ہیں، جب کہ دنیا بہت آگے جاچکی ہے ۔ بھارت کی ایکسپورٹ ساری دنیا میں جگہ بنا چکی ہے جب کہ ہم اپنے برادر اسلامی ممالک میں بھی کوئی جگہ بنا نہیں پائے ہیں۔ وہاں کی منڈیوں میں بھی بھارت ہی چھایا ہوا ہے۔ خدارا، اپنی ترجیحات بدل کرحقیقی خوشحالی کے پیمانے سیٹ کریں، وگرنہ دیرکردی تو۔
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں