ایرانی فوج کے نئے چیف آف سٹاف جنرل عبد الرحیم موسوی کون ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 13th, June 2025 GMT
انہیں ایران کے حالیہ عشروں کے ممتاز عسکری رہنماؤں میں شمار کیا جاتا ہے۔ دفاعی اور عملیاتی معاملات میں ان کی مہارت اور تجربے کے باعث ایرانی عسکری حلقے انہیں "مشکل مشنوں کے آدمی" کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی سید علی خامنہ ای نے ایک فرمان جاری کرتے ہوئے میجر جنرل عبد الرحیم موسوی کو ایرانی مسلح افواج کے چیف آف جنرل اسٹاف کے طور پر مقرر کر دیا ہے۔ یہ تقرری شہید میجر جنرل محمد باقری کی جگہ کی گئی ہے۔ یہ منصب ملک کا اعلیٰ ترین عسکری عہدہ شمار ہوتا ہے، جو سب سے بڑی ذمہ داری اور رتبے کا حامل ہے۔ جنرل موسوی اور دیگر کئی کمانڈروں کی تقرری کا فیصلہ اُس وقت سامنے آیا جب پاسداران انقلاب کے سربراہ، میجر جنرل حسین سلامی، مسلح افواج کے چیف آف اسٹاف محمد باقری، ایرانی فوج میں خاتم الانبیاء آپریشنل ہیڈکوارٹر کے سربراہ میجر جنرل غلام علی رشید، اور دیگر کئی فوجی کمانڈروں اور جوہری سائنسدانوں کی اسرائیلی حملے میں شہادت کا اعلان کیا گیا۔
نمایاں عسکری خدمات
میجر جنرل موسوی 1959ء میں قم شہر میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی سے دفاعی علوم میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد 1979ء میں ایرانی فوج میں شمولیت اختیار کی۔ ان کا عسکری کیریئر چار دہائیوں سے زائد پر محیط ہے، جس میں انہوں نے ایرانی فوج کے اندر کئی اعلیٰ قیادت کے عہدے سنبھالے۔
1999ء سے 2005ء کے درمیان وہ ایرانی فوج کے جوائنٹ چیف آف اسٹاف کے منصب پر فائز رہے۔ بعد ازاں 2008ء سے 2015ء تک وہ ایرانی فوج کے ڈپٹی کمانڈر انچیف کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے، جو کہ ایران کی تاریخ کے ایک نہایت حساس دور میں تھا۔
اہم ذمہ داریاں
2016ء میں انہیں مسلح افواج کے ڈپٹی چیف آف اسٹاف کے طور پر مقرر کیا گیا، اور اگلے سال قائد انقلاب کی جانب سے انہیں ایرانی فوج کا سربراہ تعینات کیا گیا۔ اس عہدے پر وہ حالیہ تقرری یعنی چیف آف جنرل اسٹاف بننے تک فائز رہے۔ اپنے کیریئر کے دوران جنرل موسوی نے کئی دیگر ذمہ داریاں بھی سنبھالیں، جن میں امام علیؑ ملٹری یونیورسٹی کی صدارت، شمال مشرقی ایران میں فوجی کمانڈ، اور ایرانی فوج میں آپریشنز ڈپارٹمنٹ کی نگرانی شامل ہیں۔ انہیں ایران کے حالیہ عشروں کے ممتاز عسکری رہنماؤں میں شمار کیا جاتا ہے۔ دفاعی اور عملیاتی معاملات میں ان کی مہارت اور تجربے کے باعث ایرانی عسکری حلقے انہیں "مشکل مشنوں کے آدمی" کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ایرانی فوج کے چیف آف
پڑھیں:
ایرانی حملے میں ہلاک ہونے والے پاسداران انقلاب کے سربراہ جنرل سلامی کون تھے؟
اسرائیلی حملے میں شہید ہونے والے میجر جنرل حسین سلامی، ایران کی اسلامی انقلابی گارڈ کور (IRGC) کے چیف کمانڈرتھے۔ وہ ایران کے طاقتور ترین فوجی اور سیاسی شخصیات میں شمار ہوتے تھے اور انہیں ایران کے دفاع، خارجہ پالیسی، اور خطے میں عسکری حکمت عملی کی تشکیل میں مرکزی حیثیت حاصل تھی۔
پیدائش و ابتدائی تعلیم:
جنرل حسین سلامی 1960ء میں ایران کے صوبہ ہمدان میں پیدا ہوئے۔ ایران-عراق جنگ (1980–1988) کے دوران انہوں نے ایرانی افواج میں شمولیت اختیار کی اور میدانِ جنگ میں نمایاں کارکردگی دکھائی۔
تعلیم:
انہوں نے ایران کی ایرو اسپیس یونیورسٹی سے انجینیئرنگ کی تعلیم حاصل کی اور بعد ازاں IRGC کی ایرو اسپیس فورس کے کمانڈر بنے۔ ان کے پاس فوجی اسٹریٹیجی، ایوی ایشن، اور میزائل ٹیکنالوجی میں خاص تجربہ تھا۔
عسکری ترقی اور عہدے:
حسین سلامی 1990 کی دہائی میں IRGC کے اعلیٰ کمانڈ میں شامل ہوئے۔ انہوں نے IRGC کی ایرو اسپیس فورس کی کمان سنبھالی، جو ایران کے بیلسٹک میزائل پروگرام کی نگرانی کرتی ہے۔
2009 میں انہیں پاسداران انقلاب کا نائب سربراہ مقرر کیا گیا، اور اپریل 2019 میں انہیں سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے پاسداران انقلاب کا سربراہ مقرر کیا۔
نظریاتی وابستگی:
سلامی ایک سخت گیر نظریاتی شخصیت کے طور پر جانے جاتے تھے۔ وہ امریکا، اسرائیل اور مغربی طاقتوں کے خلاف ایران کی مزاحمتی حکمت عملی کے حامی تھے۔
ان کا ماننا تھا کہ ایران کو ایک ’خود کفیل مزاحمتی طاقت‘ کے طور پر ابھرنا چاہیے، جس کے لیے انہوں نے عسکری طاقت کو مرکزیت دی۔
بین الاقوامی کردار:
جنرل سلامی نے شام، لبنان، عراق اور یمن میں ایران کے عسکری اثر و رسوخ کو بڑھانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ان کا شمار ان رہنماؤں میں ہوتا تھا جو ’محورِ مزاحمت‘ (Axis of Resistance) کو ایک عملی حقیقت میں تبدیل کرنے کے لیے سرگرم تھے۔
امریکی پابندیاں:
2020 میں امریکہ نے انہیں باقاعدہ طور پر سینکشنز (پابندیوں) کی فہرست میں شامل کیا، جس کی وجہ خطے میں ایران کی بڑھتی عسکری سرگرمیاں اور داخلی مظاہروں کے خلاف سخت اقدامات تھے۔
شہادت کا پس منظر:جنرل حسین سلامی جمعہ، 13 جون 2025 کو اسرائیل کے تہران پر کیے گئے ایک بڑے فضائی حملے میں شہید ہو گئے۔ ان کی شہادت کو ایران میں نہ صرف عسکری نقصان بلکہ ایک ’علامتی قومی سانحہ‘ قرار دیا جا رہا ہے۔
ان کی جگہ ممکنہ طور پر ایک نئی عسکری قیادت ابھرے گی، مگر ان کا خلا پُر کرنا بلاشبہ ایران کے لیے ایک چیلنج ہو گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں