Juraat:
2025-11-03@08:19:49 GMT

ایران کے اسرائیل پر جوابی حملے، تل ابیب دھماکوں سے گونج اُٹھا

اشاعت کی تاریخ: 14th, June 2025 GMT

ایران کے اسرائیل پر جوابی حملے، تل ابیب دھماکوں سے گونج اُٹھا

‍‍‍‍‍‍

اسرائیل کا  میزائلوں کی نشاندہی کے بعد  تمام شہریوں کو پناہ گاہوں کی طرف جانے کا حکم 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

http://juraat.com/wp-content/uploads/2025/06/ایران-کے-اسرائیل-پر-حملے.mp4

ایران نے جوابی کارروائی ’وعده صادق 3‘ کا آغاز کرتے ہوئے اسرائیل کے مختلف مقامات پر میزائل حملے کر دیے،

جس کے بعد تل ابیب میں دھماکوں کے بعد دھوئیں کے بادل اٹھنے لگے جبکہ 7 افراد معمولی زخمی ہوئے ہیں۔

اسرائیلی فوج نے کہا کہ ایران سے اسرائیل کی طرف داغے گئے میزائلوں کی نشاندہی کی ہے اور تمام شہریوں کو پناہ گاہوں کی طرف جانے کا حکم دیا ہے۔

یروشلم میں سائرن بج رہے ہیں کیونکہ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ میزائل ایران سے داغے گئے ہیں۔

ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ارنا کے مطابق اسرائیل کے ایران پر اب تک کے سب سے بڑے حملوں کے بدلے میں سیکڑوں بیلسٹک میزائل داغے گئے ہیں۔

امریکی نشریاتی ادارے سی این این کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی دفاعی افواج کے ترجمان نے بتایا کہ ایران کی جانب سے اسرائیل کی طرف میزائلوں کی دوسری لہر داغی گئی ہے۔

بیان میں مزید کہا کہ تھوڑی دیر پہلے صہیونی فوج نے ایران سے اسرائیل کی سرزمین کی طرف داغے گئے میزائلوں کی نشاندہی کی ہے،

مزید کہا کہ عوام کو محفوظ پناہ گاہوں میں داخل ہونا چاہیے اور اگلی اطلاع تک وہاں رہنا چاہیے۔

اسرائیلی پولیس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اسرائیل پر ایرانی میزائل حملوں میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا البتہ املاک کو نقصان پہنچا ہے۔

امریکی نشریاتی ادارے سی این این کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی پولیس ترجمان نے کہا ہے کہ ایرانی میزائل تل ابیب کے اندر ایک کمیونٹی پر گرا ہے، لیکن تاحال کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی۔

ترجمان نے بتایا کہ اس مرحلے پر، کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی ہے، تاہم املاک کو نقصان پہنچا ہے۔

امریکی نشریاتی ادارے سی این این کے مطابق اسرائیل کی ہنگامی خدمات کے سربراہ ایلی بن نے بتایا کہ ایران کی طرف سے کیے گئے حملے کے نتیجے میں 7 افراد معمولی زخمی ہوئے۔

ادھر، مہر نیوز نے رپورٹ کیا کہ ایران نے ملک کے رہائشی اور فوجی علاقوں پر اسرائیلی حملوں کے جواب میں میزائلوں سے حملہ کیا ہے۔

ارنا نیوز ایجنسی کے مطابق اسرائیل کے خلاف ایران نے فیصلہ کن جوابی کارروائی’وعده صادق 3’ کے نام سے شروع کر دی۔

ایران کا 2 اسرائیلی جنگی طیارے مار گرانے، خاتون پائلٹ گرفتار کرنے کا دعویٰ

دریں اثنا، ایرانی میڈیا نے مزید رپورٹ کیا کہ ایک کامیاب آپریشن میں ایرانی فوج نے ملک کی سرزمین پر اسرائیلی لڑاکا طیاروں کو مار گرایا۔

اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج کے سرکاری میڈیا آؤٹ لیٹ نے اعلان کیا ہے کہ دشمن اسرائیلی اہداف کے ساتھ فوج کے دفاعی یونٹوں کی جھڑپ کے دوران متعدد پروجیکٹائل، مائیکرو ایئر گاڑیاں اور ڈرون تباہ ہو گئے۔

ایرانی تسنیم نیوز ایجنسی نے رپورٹ کیا کہ ایران کے فضائی دفاع نے 2 اسرائیلی جنگی طیاروں کو مار گرایا جبکہ ایک خاتون پائلٹ کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: کے مطابق اسرائیل میزائلوں کی اسرائیل کی کہ ایران ایران کی کی طرف

پڑھیں:

کس پہ اعتبار کیا؟

اسلام ٹائمز: ایران کا اسلامی انقلاب جس نوع کی فکر کا علمبردار بن کر آیا تھا وہ فلسطینیوں کی اس وقت کی قیادت کو کسی طور بھی قبول نہیں تھا۔ اسرائیل نے جب یاسر عرفات کی تنظیم ”پی ایل او“ کو لبنان سے نکالنے کے لیے لبنان پر چڑھائی کی تو اس وقت یاسر عرفات نے تمام مسلم ممالک کی افواج سے مدد کی اپیل تھی لیکن اس اپیل پر صرف ایران نے اپنی فوج لبنان بھیجی لیکن یاسر عرفات نے ایرانی فوج کو نہ صرف اسرائیل سے لڑنے کی اجازت نہیں دی بلکہ خود اسرائیل کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے اور اپنی تنظیم کے ساتھ لبنان سے رخصت ہوگئے۔ تحریر: پروفیسر سید تنویر حیدر نقوی

اسلامی انقلاب سے قبل ایران اور اسرائیل کے مابین  تعلقات استوار تھے۔ ایران میں اسرائیل کا سفارت خانہ قائم تھا۔ امام خمینی کی قیادت میں انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد ایران کی خارجہ پالیسی کے افق میں مشرق مغرب کا فرق آگیا۔ اڑھائی ہزار سالہ شہنشاہیت کے خاتمے کے ساتھ ساتھ ایران اور اسرائیل کے مابین تعلقات کی بساط  بھی لپٹ گئی۔ جو ایران کبھی اسرائیل سے یگانگت رکھتا تھا اب اس کی اسرائیل سے مخاصمت اس کی پہچان اور اسرائیل سے دشمنی اس کے ایمان کا تقاضا ٹھہری۔

ایران اب آزادیء فلسطین کے لیے لڑی جانے والی لڑائی کو کسی مقبوضہ علاقے کی آزادی کے لیے لڑی جانے والی جنگ کی بجائے الہی فریضہ کے طور پر دیکھنے لگا۔ امام خمینی فلسطینیوں کی کامیابی کو محض ان کے اسلامی تشخص اور ان کی دین سے وابستگی میں دیکھتے تھے۔ جب کہ اس وقت فلسطینیوں کی سب سے بڑی تنظیم ”پی ایل او“ بنیادی طور پر سیکولر تشخص کی حامل تحریک تھی جس کا مقصد محض فلسطین کے مقبوضہ علاقوں کو آزاد کرانا تھا۔

ایران کا اسلامی انقلاب جس نوع کی فکر کا علمبردار بن کر آیا تھا وہ فلسطینیوں کی اس وقت کی قیادت کو کسی طور بھی قبول نہیں تھا۔ اسرائیل نے جب یاسر عرفات کی تنظیم ”پی ایل او“ کو لبنان سے نکالنے کے لیے لبنان پر چڑھائی کی تو اس وقت یاسر عرفات نے تمام مسلم ممالک کی افواج سے مدد کی اپیل تھی لیکن اس اپیل پر صرف ایران نے اپنی فوج لبنان بھیجی لیکن یاسر عرفات نے ایرانی فوج کو نہ صرف اسرائیل سے لڑنے کی اجازت نہیں دی بلکہ خود اسرائیل کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے اور اپنی تنظیم کے ساتھ لبنان سے رخصت ہوگئے۔

ایران کی مدد کو مسترد کرنے کی وجہ ایک ہی تھی اور وہ یہ کہ یاسر عرفات کو خطرہ تھا کہ کہیں فلسطینی ایران کے انقلابی نظریات سے متاثر نہ ہو جائیں۔ ایران کی اسلامی حکومت شروع دن سے ہی مظلوم فلسطینیوں کی حمایت اور غاصب صیہونی حکومت کی مخالفت میں حالت جنگ میں ہے اور قربانیاں دے رہی ہے لیکن اس کے باوجود فلسطینیوں کی نمائندہ جماعتیں کبھی بھی اسے اس کا اصل مقام دینے کے لیے آمادہ نہیں رہیں۔ فلسطین کی جماعتوں نے اب تک اسرائیل سے جو معاہدے کیے ہیں وہ ایران کو بائی پاس کرکے کیے ہیں۔ مثلاً فلسطینیوں کی سب سے بڑی جماعت ”پی ایل او“ اور اسرائیل  کے مابین جو ”اوسلو امن معاہدہ“ ہوا، ایران کو اس سے الگ رکھا گیا۔

ایران نے اس وقت ہی یہ کہ دیا تھا کہ ایران کو الگ تھلگ کر کے جو بھی معاہدہ کیا جائے گا اس کی کامیابی کا امکان نہیں ہے۔ گزشتہ نصف صدی سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ فلسطین کی آزادی کے حوالے سے مخلصانہ کردار ادا کرنے والے ایران کے مقابلے میں وقتاً وقتاً نام نہاد کرداروں کو ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا رہا ہے۔ لیکن یہ جعلی کردار ایران کے حقیقی کردار کے مقابلے میں آخرکار  فلاپ ہوگئے۔ ایران کے مقابلے میں جو بھی کردار منظر عام پر آیا، چاہے وہ اسامہ بن لادن کی شکل میں ہو، صدام حسین کے روپ میں ہو یا اردگان کی صورت میں، اس نے فلسطینیوں کو ورغلانے کی کوشش کی ہے۔

حتیٰ کہ ایک وقت وہ بھی آیا کہ جب حماس بھی داعش جیسے گروہ کے دام میں آگئی اور شام میں اس کے اراکین بشار الاسد کے خلاف لڑے۔ ایران اور حزب اللہ نے اس پر حماس سے اپنے راستے جدا کر لیے تھے لیکن بعد میں حماس کو احساس ہوا کہ اس سے غلطی سرزد ہوئی ہے اور پھر دوبارہ ایران سے اس کے تعلقات بحال ہوگئے۔ اب لمحہء موجود میں ایک بار پھر فلسطینی اپنے بعض نام نہاد ہمدردوں کے ٹریپ میں آگئے۔

ایسے میں جبکہ کچھ عرصہ قبل ہی امریکہ ایران کے ایٹمی اثاثوں پر حملہ کر چکا تھا، فلسطینی تنظیموں نے ایران کو ایک طرف رکھتے ہوئے، ٹرمپ کے دھوکے میں آ کر اور قطر، ترکی اور مصر جیسی دوہرے معیار رکھنے والی حکومتوں کو درمیان میں لاکر ایک امن معاہدہ کیا اور اسرائیل کے وہ تمام قیدی چھوڑ دیے جو حماس کے پاس ” ٹرمپ کارڈ “ کے طور پر تھے۔ لیکن اسرائیل نے آخر وہی کچھ کیا جو وہ ہمیشہ سے کرتا آیا ہے اور اپنے وعدے اور معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غزہ کے مظلوم فلسطینیوں پر ایک بار پھر آتش و آہن کی بارش شروع کردی ہے اور غزہ کے لوگوں نے جو جشن منایا تھا وہ ایک بار پھر ان کے سوگ میں بدل گیا ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ اگر آج آزادیء فلسطین کے لیے لڑنے والی کوئی بھی فلسطینی تحریک یا قیادت، مظلومین جہان کی سب سے بڑی حامی قوت، اسلامی جمہوری ایران سے مکمل ہم آھنگی نہیں رکھتی اور اس کی قیادت، جو تمام عالم اسلام کی حقیقی قیادت ہے، اس کے فرمائے ہوئے کو اپنے لیے حکم کا درجہ نہیں دیتی، عالمی فریب کاروں کے دام فریب میں آتی رہے گی۔

خود آپ اپنی ہی گردن پہ گویا وار کیا
جو معتبر ہی نہ تھا اس پہ اعتبار کیا

متعلقہ مضامین

  • حماس نے 3 یرغمالیوں کی لاشیں واپس کردیں، اسرائیلی حملے میں مزید ایک فلسطینی شہید
  • اعلیٰ عہدیدار اسرائیلی فوجی کی لاش تل ابیب کے سپرد کر دی گئی
  • جنگ بندی کی کھلی خلاف ورزی، اسرائیلی فضائی حملے میں جنوبی لبنان میں 4 افراد ہلاک، 3 زخمی
  • جوہری تنصیبات دوبارہ پہلے سے زیادہ مضبوطی کے ساتھ تعمیر کریں گے، ایرانی صدر کا اعلان
  • اسرائیل کی جنوبی لبنان میں حزب اللہ کے خلاف حملے تیز کرنے کی دھمکی
  • کس پہ اعتبار کیا؟
  • غزہ سے موصول لاشیں قیدیوں کی نہیں ہیں، اسرائیل کا دعویٰ اور غزہ پر تازہ حملے
  • ایران نیوکلیئر مذاکرات کے لیے تیار، میزائل پروگرام پر ’کوئی بات نہیں کرے گا‘
  • وزیر تجارت سے ایرانی سفیر کی ملاقات: اقتصادی تعاون بڑھانے پر اتفاق
  • تل ابیب میں ایک اور صہیونی فوجی کی خود سوزی