اسلام آباد (نیوز ڈیسک) نان فائلرز کیلئے بینک سے ٹیکس فری رقم نکلوانے کی حد بڑھا دی گئی، اب ایک دن میں کتنے ہزار نکلوائے تو ٹیکس نہیں کٹے گا؟

تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی خزانہ اجلاس میں فنانس بل پر ایف بی آر حکام نے بریفنگ دیتے ہوئے کہا نان فائلرز کیلئے بینک سے روزانہ 75 ہزار تک کیش نکلوانے پر ایڈوانس ٹیکس چھوٹ ہوگی، اس سے قبل 50 ہزار روپے نکلوانے پر ایڈوانس ٹیکس چھوٹ حاصل تھی۔

حکام نے کہا نان فائلرز کیلئے 75 ہزار سے زائد کیش نکلوانے پر 0.

6 فیصد سے ٹیکس بڑھا دیا گیا، اب بینک سے کیش نکلوانے پر اب ایڈوانس ٹیکس 0.8 فیصد تک عائد ہوگا۔

ایف بی آر حکام کا کہنا تھا کہ ای کامرس کاروبار پر 2 فیصد تک انکم ٹیکس عائدکردیاگیا، کپڑوں کے آن لائن کاروبار پر 2 فیصد اور الیکٹرونکس پر 0.5 فیصد ٹیکس عائدہوگا جبکہ کپڑوں، الیکٹرونکس اور الیکٹریکل کے علاوہ کوئی اور کاروبارکرنے پر 1 فیصد ٹیکس ہوگا۔

ایف بی آر نے بتایا کہ رجسٹرڈ آن لائن کاروبار کرنے والے آمدن سے انکم ٹیکس عائد کرنے کے پابند ہونگے، کسٹمرز کے آرڈر بُک کرانے پر بِلنگ ڈیٹیل کو آن لائن ریٹرن تصور کیا جائے گاْ

حکام کے مطابق بینک یا کورئیر سروس ایف بی آر کے اتھرائزڈایجنٹ کے طورپر ٹیکس رقم جمع کرائیں گے، آن لائن کاروبارکرنے والے انکم ٹیکس کیلئے کسٹمرز سےاضافی پیسے نہیں لیں گے۔

ایف بی آر نے مزید بتایا کہ پاکستان میں ڈیجیٹل سروسز فراہم کرنے والوں پر ایڈوانس ٹیکس مدمیں 5فیصداضافہ کیاجائےگا،گوگل، یوٹیوب، فیس بک سمیت ڈیجیٹل سروسزپر ایڈوانس ٹیکس 10 سے بڑھا کر 15 فیصد کرنے کی تجویز ہے ۔ اقدام کا مقصد ڈیجیٹل کمپنیوں کے پاکستان میں دفاترقائم کرانا ہے، جن ڈیجیٹل کمپنیوں کے پاکستان میں دفاترقائم ہونگے ان پر 5 فیصد ٹیکس عائد کیا جائے گا۔
مزیدپڑھیں:پاکستان کیخلاف بھارت اور اسرائیل کی گھناؤنی سازش بے نقاب؛ بڑے انکشافات

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: پر ایڈوانس ٹیکس کیش نکلوانے پر نان فائلرز ایف بی آر آن لائن

پڑھیں:

ایک سال میں حکومتی قرضوں میں 10 ہزار ارب روپے کا اضافہ، مجموعی قرض 84 ہزار ارب سے تجاوز کر گیا

وزارتِ خزانہ کی تازہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ ایک سال کے دوران پاکستان کے مجموعی حکومتی قرضوں میں 10 ہزار ارب روپے کا اضافہ ہوا، جس کے بعد ملک کا مجموعی قرضہ 84 ہزار ارب روپے سے تجاوز کر گیا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مالی سال 2026ء سے 2028ء کے دوران قرضوں کا تناسب 70.8 فیصد سے کم ہو کر 60.8 فیصد تک آنے کا تخمینہ ہے، اور درمیانی مدت میں قرضوں کی پائیداری برقرار رہنے کی توقع ظاہر کی گئی ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق جون 2025ء تک پاکستان پر واجب الادا قرض 84 ہزار ارب روپے سے زیادہ ہو چکا ہے۔ وزارتِ خزانہ کا کہنا ہے کہ 2028ء تک فنانسنگ کی ضروریات 18.1 فیصد کی بلند سطح پر رہیں گی، تاہم گزشتہ مالی سال میں مارک اپ ادائیگیوں میں 888 ارب روپے کی بچت ریکارڈ کی گئی۔
رپورٹ میں قرضوں کے حوالے سے درپیش اہم خطرات اور چیلنجز کی نشاندہی بھی کی گئی ہے۔ وزارت کے مطابق معاشی سست روی قرضوں کی پائیداری کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے، جبکہ ایکسچینج ریٹ، سود کی شرح میں اتار چڑھاؤ، بیرونی جھٹکے اور موسمیاتی تبدیلیاں قرضوں کے بوجھ میں اضافہ کر سکتی ہیں۔
پاکستان کے مجموعی قرضوں میں 67.7 فیصد حصہ ملکی قرضوں کا ہے، جبکہ 32.3 فیصد بیرونی قرضے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق 80 فیصد قرضے فلوٹنگ ریٹ پر حاصل کیے گئے، جس سے شرحِ سود میں اضافے کا خطرہ برقرار ہے۔ مختصر مدت کے قرضوں کا حصہ 24 فیصد ہے، جس سے ری فنانسنگ کے دباؤ میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ زیادہ تر بیرونی قرضے رعایتی نوعیت کے ہیں جو دوطرفہ یا کثیرالطرفہ اداروں سے حاصل کیے گئے، تاہم فلوٹنگ بیرونی قرضوں کا حصہ 41 فیصد ہونے کی وجہ سے درمیانی سطح کا خطرہ برقرار ہے۔ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ اگر کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھا یا زرمبادلہ ذخائر کم ہوئے تو مالی دباؤ بڑھ سکتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، مالیاتی نظم و ضبط، معاشی استحکام، برآمدات کے فروغ اور آئی ٹی سیکٹر کی ترقی سے قرضوں کے دباؤ میں کمی لانے کی حکمتِ عملی اپنائی گئی ہے۔ وزارتِ خزانہ کے مطابق گزشتہ مالی سال میں وفاقی مالی خسارہ 6.8 فیصد ہدف کے مقابلے میں کم ہو کر 6.2 فیصد رہا، جبکہ وفاقی پرائمری بیلنس 1.6 فیصد سرپلس میں رہا — جو کہ مالی نظم میں بہتری کی علامت ہے۔
اقتصادی اعشاریوں میں بہتری کے آثار بھی ظاہر ہوئے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ سال معاشی شرحِ نمو 2.6 فیصد سے بڑھ کر 3.0 فیصد تک پہنچ گئی، اور اگلے تین سال میں یہ شرح 5.7 فیصد تک پہنچنے کی توقع ہے۔ مہنگائی کی شرح بھی نمایاں طور پر گھٹ کر 23.4 فیصد سے 4.5 فیصد تک آ گئی ہے، اور 2028ء تک 6.5 فیصد پر مستحکم رہنے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔
پالیسی ریٹ میں جون 2024ء سے اب تک 1100 بیسس پوائنٹس کی کمی، زرمبادلہ مارکیٹ میں استحکام، اور بیرونی ادائیگیوں کے دباؤ میں کمی جیسے عوامل نے مالیاتی فریم ورک کو سہارا دیا ہے۔ وزارتِ خزانہ کے مطابق، اگر یہی رجحان برقرار رہا تو درمیانی مدت میں کم از کم 1.0 فیصد پرائمری سرپلس برقرار رکھنے کی توقع ہے۔
مجموعی طور پر، رپورٹ اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ اگرچہ قرضوں کا بوجھ خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے، تاہم مالی نظم، شرحِ سود میں نرمی، اور برآمدات کے فروغ سے پاکستان درمیانی مدت میں معاشی استحکام کی طرف بڑھ سکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • اے ٹی ایم اور بینک سے رقم نکلوانے پر چارجز میں نمایاں اضافہ
  • نان فائلرز سے اے ٹی ایم یا بینک سے رقم نکلوانے پر ڈبل ٹیکس کی تیاری
  • نان فائلرز کو اے ٹی ایم یا بینک سے رقم نکلوانے پر ڈبل ٹیکس دینا ہوگا
  • صرف ایک سال میں 10 ہزار ارب روپے کا نیا بوجھ، حکومتی قرضے 84 ہزار ارب سے متجاوز
  • میزان بینک اور ویزا کے درمیان شراکت داری میں توسیع کا معاہدہ
  • ایک سال کے دوران حکومتی قرضوں میں 10 ہزار ارب کا اضافہ
  • ایک سال کے دوران حکومتی قرضوں میں 10 ہزار ارب کا اضافہ، مجموعی قرض 84 ہزار ارب ہوگیا
  • ایک سال میں حکومتی قرضوں میں 10 ہزار ارب روپے کا اضافہ، مجموعی قرض 84 ہزار ارب سے تجاوز کر گیا
  • سیلاب سے متاثرہ 1 لاکھ 89 ہزار افراد کے بینک اکاؤنٹس کھل چکے ہیں: عرفان علی کاٹھیا
  • عوام ہو جائیں تیار!کیش نکلوانے اور فون کالز پر مزید ٹیکس لگانے کا فیصلہ؟