سپریم کورٹ آف پاکستان نے عوامی مفاد پر مبنی خدمات کی فراہمی کیلئے جامع آئی ٹی اصلاحات کا آغاز کر دیا
اشاعت کی تاریخ: 14th, June 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 14 جون2025ء)سپریم کورٹ آف پاکستان نے عوامی مفاد پر مبنی خدمات کی فراہمی کے لیے جامع آئی ٹی اصلاحات کا آغاز کر دیا۔ہفتہ کو رجسٹرار سپریم کورٹ آف پاکستان، محمد سلیم خان نے سپریم کورٹ بلڈنگ اسلام آباد میں اصلاحاتی ایکشن پلان کی مانیٹرنگ اور کوآرڈی نیشن میٹرکس پر پیش رفت کا جائزہ لینے کے لیے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت کی۔
اجلاس کا مقصد انفارمیشن ٹیکنالوجی کے انضمام اور انسانی وسائل کے انتظام (HRM) کو مضبوط بنا کر عوامی مرکزیت پر مبنی خدمات کی فراہمی کو بہتر بنانا تھا۔سپریم۔کورٹ سے جاری اعلامیے کیمطابق رجسٹرار کو ڈیجیٹلائزیشن، کیس مینجمنٹ سسٹم میں بہتری اور ای فائلنگ کے حوالے سے اب تک کی پیش رفت سے آگاہ کیا گیا۔(جاری ہے)
یہ اقدامات عدالتی عمل کو شفاف، موثر اور قابلِ رسائی بنانے کے لیے کیے جا رہے ہیں۔
انہوں نے اب تک کی پیش رفت کو سراہا تاہم برانچ رجسٹریوں میں آئی ٹی انفراسٹرکچر اور تکنیکی سہولیات کی کمی پر تشویش کا اظہار کیا۔انہوں نے آئی ٹی ڈائریکٹوریٹ کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے اور ای آفس سسٹم کے پائلٹ پراجیکٹ کے آغاز کی فوری ضرورت پر زور دیا۔ بتایا گیا کہ اس مقصد کے لیے متعلقہ سرکاری محکموں اور تکنیکی اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ کوآرڈی نیشن میٹنگز جاری ہیں تاکہ اہداف کی بروقت تکمیل ممکن ہو سکے۔آئی ٹی اصلاحات کے ساتھ ساتھ، رجسٹرار نے انسانی وسائل کے نظام کو مضبوط بنانے کو ادارہ جاتی اصلاحات کا ایک اہم ستون قرار دیا۔ انہوں نے استعداد کار میں اضافے، کارکردگی کی بنیاد پر جائزہ اور مہارت یافتہ آئی ٹی و انتظامی عملے کی تعیناتی پر زور دیا تاکہ خدمات کی فراہمی پائیدار اور موثر بنائی جا سکے۔ انہوں نے افرادی قوت کی منصوبہ بندی میں موجود خلا کو دور کرنے اور ایچ آر پالیسیوں کو جدید ڈیجیٹل تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی بھی ہدایت کی۔رجسٹرار نے اس اصلاحاتی ایجنڈے کو معزز چیف جسٹس آف پاکستان کا بصیرت افروز وژن قرار دیا جو عدالتی نظام کو عوام کی توقعات کے مطابق ایک فعال اور جوابدہ ادارہ بنانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ ایجنڈا ان کے لیے بھی ذاتی اہمیت رکھتا ہے اور وہ مؤثر، شفاف اور عوام دوست عدالتی خدمات کے لیے پُرعزم ہیں۔اجلاس میں ترقیاتی ماہر جناب شیر شاہ اور سپریم کورٹ کے مختلف سیکشنز کے سربراہان نے شرکت کی۔ شرکاء نے اصلاحاتی اہداف کے لیے بھرپور حمایت کا اظہار کیا اور تیز رفتار نفاذ کے لیے مفید تجاویز بھی پیش کیں۔یہ اصلاحات، جن میں آئی ٹی اور ایچ آر ایم دونوں شامل ہیں، سپریم کورٹ کے ادارہ جاتی ڈھانچے کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی بنیاد رکھتی ہیں اور پاکستان میں انصاف کی فراہمی کو تیز تر، دیانت دارانہ اور عوامی اعتماد سے ہم آہنگ بنانے کی جانب ایک اہم قدم ہیں۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے خدمات کی فراہمی ا ف پاکستان سپریم کورٹ انہوں نے ا ا ئی ٹی کے لیے
پڑھیں:
فوجی عدالتوں کا دائرہ کار متنازع، لاہور ہائیکورٹ بار نے نظرثانی کی اپیل دائر کر دی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے فوجی عدالتوں سے متعلق سپریم کورٹ کے 7 مئی 2024 کے فیصلے پر نظرثانی کے لیے سپریم کورٹ میں باضابطہ درخواست دائر کر دی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ مذکورہ فیصلہ نہ صرف آئین پاکستان بلکہ بین الاقوامی انسانی حقوق کے اصولوں سے بھی متصادم ہے۔
میڈیا رپورٹس کےمطابق درخواست میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ آرٹیکل 10-اے جو ہر شہری کو منصفانہ ٹرائل کا حق دیتا ہے اور آرٹیکل 175(3) جو عدلیہ کی آزادی کی ضمانت دیتا ہے، کی صریح خلاف ورزی ہے۔
لاہور ہائی کورٹ بار کا کہنا ہے کہ فوجی عدالتیں شہریوں کو بنیادی قانونی تحفظات فراہم کرنے سے قاصر ہیں، جہاں شفاف ٹرائل اور اپیل کا حق دستیاب نہیں ہوتا۔
درخواست گزاروں نے اس امر پر زور دیا ہے کہ تاریخ میں کبھی بھی عام شہریوں پر فوجی عدالتوں کا اطلاق نہیں کیا گیا، اور ایسے اقدامات آئین کے بنیادی ڈھانچے کو مجروح کرتے ہیں، سپریم کورٹ کا فیصلہ شہریوں کے قانونی حقوق، عدالتی انصاف، اور قانون کی بالادستی کے اصولوں کی نفی کرتا ہے۔
لاہور ہائی کورٹ بار نے مزید کہا کہ فوجی عدالتوں میں مقدمات کی کارروائی خفیہ ہوتی ہے، جس سے متاثرہ افراد کے لیے شفافیت، آزادانہ دفاع اور منصفانہ اپیل کے دروازے بند ہو جاتے ہیں، یہ تمام عوامل نہ صرف آئینی تقاضوں بلکہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے عالمی منشور کی بھی خلاف ورزی کرتے ہیں۔
درخواست میں بین الاقوامی قوانین کا حوالہ دیتے ہوئے مؤقف اپنایا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت دیے گئے انسانی حقوق کے اصولوں سے متصادم ہے، جس میں ہر شخص کو آزاد، غیرجانبدار اور عوامی عدالت میں ٹرائل کا حق دیا گیا ہے۔
لاہور ہائی کورٹ بار نے عدالتِ عظمیٰ سے استدعا کی ہے کہ فوجی عدالتوں کے ذریعے عام شہریوں کے ٹرائل کو غیرآئینی، غیرقانونی اور بنیادی انسانی حقوق کے منافی قرار دیتے ہوئے مذکورہ فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے، اور سویلین افراد کو صرف آئینی و قانونی عدالتوں میں ہی ٹرائل کا سامنا کرنا پڑے۔
یاد رہے کہ 7 مئی کو سپریم کورٹ نے ایک اہم فیصلے میں فوجی عدالتوں میں سویلین افراد کے خلاف مقدمات کی اجازت دی تھی، جس پر ملک کی مختلف بار ایسوسی ایشنز، انسانی حقوق تنظیموں اور سیاسی حلقوں کی جانب سے شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا، لاہور ہائی کورٹ بار کی درخواست اسی فیصلے کے خلاف قانونی کارروائی کا تسلسل ہے۔