Express News:
2025-11-03@07:28:39 GMT

ساحر

اشاعت کی تاریخ: 16th, June 2025 GMT

ساحر لدھیانوی کی شاعری کے متعلق کچھ بھی لکھنا قدرے مشکل ہے۔ اتنی جہتوں والا قادرالکلام انسان جس کے لکھے ہوئے الفاظ آج بھی آپ پر کیفیت طاری کر دیتے ہیں۔ پڑھنے والے کو واقعی ایک سحر سا معلوم پڑتا ہے۔ مشرقی پنجاب کے شہر لدھیانہ کے علاقے کریم پورہ کے ایک گجر خاندان میں پیدا ہونے والا ’’بچہ‘‘ اوائل عمری میں کافی مصائب کا شکار رہا۔ والدہ‘ سردار بیگم اور والد کے درمیان شدید ان بن تھی۔ علیحدگی اور پھر طلاق سے‘ اولاد ہمیشہ متاثر ہوتی ہے۔

ساحر کے ساتھ بچپن میں یہی کچھ ہوا۔ تلخیوں اور محرومیوں سے آراستہ بچپن‘ زندگی کا تکلیف دہ حصہ تھا۔ یہ 1921 سے لے کر 1940 کا دورانیہ تھا۔ کریم پورہ‘ لدھیانہ کا حصہ تھا۔ وہیں ‘ ساحر‘ خالصہ ہائی اسکول اور پھر گورنمنٹ کالج میں زیر تعلیم رہا۔ دونوں درسگاہوں میں آج بھی اس کا نام‘ ایک سنہری پلیٹ پر کنداں ہے۔ شروع ہی سے شاعری‘ اس کی نس نس میں دوڑ رہی تھی۔ وقت گزرتا گیا۔ 1943میں وہ لاہور آ گیا۔

1945 میں اس نے ’’تلخیاں‘‘ مکمل کی ۔ یہ اردو شاعری میں اس کی پہلی سیڑھی تھی۔ شعروں پر مبنی یہ تصنیف ‘ پورے برصغیر میں مشہور ہو گئی ۔تمام لوگ‘ ساحر کی شاعری کے گرویدہ ہو گئے۔ ساحر کے خیالات‘ انسان دوستی ‘ محنت کشوں کے حقوق‘ مساوات اور انسانیت کے احترام پر مبنی تھے۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ وہ اشتراکی خیالات کا مالک ہے۔ ساحر ‘ ایک جدید ذہن کا مالک تھا۔ اس طرح کے لوگ‘ کسی بھی حکومت کو پسند نہیں آتے ہیں۔ پاکستان بنا ‘ تو جلد ہی ساحر ‘ ہمارے ملک کے بادشاہوں کو کھٹکنے لگا۔ 1949 میں اس کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے۔

اس کو اتنا زچ کیا گیا کہ ملک چھوڑنے پر مجبور ہو گیا۔ ویسے ہمارے ملک میں حکمرانوں کو ایک منفی کام میں یدطولی حاصل ہے۔ اور وہ یہ کہ‘ ہر سوچنے اور سچ بولنے والے انسان کو خطرہ بلکہ دشمن سمجھا جاتا ہے۔ ساحر‘ پاکستان سے فرار ہو کر‘ دہلی اور پھر بمبئی چلا گیا۔ یہ ہجرت‘ اس کے لیے بہت مفید ثابت ہوئی۔ دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ دقیانوسی مملکتوں سے جو بھی ‘ مجبوری میں نکلتا ہے۔ اگر صحیح سماج میں پہنچ جائے تو اس کے جوہر ‘حد درجہ تراشے جاتے ہیں۔ اس عظیم شاعر کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا۔ بمبئی میں اس کی دوستی‘ مشہور زمانہ شاعر ‘گلزار اور افسانوں کے بادشاہ کرشن چندر سے مثالی رخ اختیار کر گئی۔ ساحر نے فلمی شاعری شروع کر دی۔’’آزادی کی راہ پر‘‘ وہ پہلی فلم تھی۔

جس کے لیے اس نے چار نغمے تحریر کیے۔ عجیب بات ہے کہ یہ فلم مکمل طور پر ناکام ہو گئی۔ 1951 میں ’’نوجوان‘‘ نام کی پکچر نے اسے کامیابی بخشی۔ ایس ڈی برمن نے ابتدائی طور پر اس سے کافی گانے نغمے تحریر کروائے۔ اسی برس میں ’’بازی‘‘ فلم بنی۔ اور یہ باکس آفس پر سپرہٹ ثابت ہوئی۔ اس میں ایس ڈی برمن نے ساحر کے لکھے ہوئے گیت استعمال کیے تھے۔ قسمت کی دیوی اس پر مہربان ہو گئی۔ مگر برمن اور ساحر‘ 1957 تک ہی ایک دوسرے کے ساتھ چل سکے۔ معاہدہ کی کئی شقوں پر ساحر کے اختلاف نے یہ سنگت مکمل طور پر ختم کر ڈالی۔

مگر ساحر اس بے مثال تخلیقی قوتوں کا حامل تھا۔ کہ اسے کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔ اس نے روی‘ خیام‘ روشن‘ دتا نائک‘ شنکر جے کشن کے ساتھ بہت کام کیا۔ فلم پروڈیوسر‘بلدیوراج چوپڑا تو خیر ساحر کے کلام کا عاشق تھا۔ وہ ساحر کے انتقال تک‘ صرف اس سے نغمے لکھواتا تھا۔ ساحر کو اپنی اہمیت کا بخوبی پتہ تھا۔ وہ لتا منگیشکر سے ایک روپیہ معاوضہ زیادہ لیتا تھا۔ فلم سازوں پر اتنا اثر تھا کہ ‘ فلمیں اپنے گانوں کے حساب سے لکھواتا تھا۔ ویسے لتا‘ ساحر کے رویہ سے کافی شاکی تھی۔ اور دونوں کے درمیان ہم عصرانہ چشمک برملا موجود تھی۔ ساحر‘ 1980 میں جہان فانی سے کوچ کر گیا۔

اس وقت عمر محض اکاون (51) برس تھی۔ زندگی میں ساحر کی امریتا پریتم سے محبت‘ یکسر ناکامی کا شکار رہی۔ ان کا عشق لازوال تھا۔ مگر دونوں ایک دوسرے کے لیے تخلیق نہیں کیے گئے تھے۔ ان کی اس محبت پر ’’پیاسا‘‘ فلم بھی بنائی گئی۔ صابر دت‘ چندر ورما اور ڈاکٹر سلمان عابد نے ساحر کی زندگی کے اہم واقعات کو ترتیب سے محفوظ کیا اور اس تخلیق کا نام تھا‘ ’’میں ساحر ہوں‘‘۔ بالکل اس طرح ‘’’اکشے مندانی‘‘ نے ساحر کے تمام قریبی دوستوں کا انٹرویو کیا۔ جن میں ‘ یش چوپڑا‘ دیو آنند‘ جاوید اختر‘ خیام‘ روی شرما‘ سودھا ملہوترا اور روی چوپڑا نمایاں ہیں۔

اب کچھ ساحر کی شاعری کے چند اقتباسات ۔

شہکار۔مصور میں ترا شہکار واپس کرنے آیا ہوں

اب ان رنگین رخساروں میں تھوڑی زردیاں بھر دے

حجاب آلود نظروں میں ذرا بے باکیاں بھر دے

لبوں کی بھیگی بھیگی سلوٹوں کو مضمحل کر دے

نمایاں رنگ پیشانی پہ عکسِ سوزِ دل کر دے

تبسم آفریں چہرے میں کچھ سنجیدہ پن بھر دے

جواں سینے کی مخروطی اٹھانیں سرنگوں کر دے

…………

ہر چند میری قوت گفتار ہے محبوس

خاموش مگر طبعِ خود آرا نہیں ہوتی

معمورہِ احساس میں ہے حشر سا برپا

انسان کی تذلیل گوارا نہیں ہوتی

نالاں ہوں میں بیداری احساس کے ہاتھوں

دنیا مرے افکار کی دنیا نہیں ہوتی

…………

لہو نذر دے رہی ہے حیات

میرے جہاں میں سمن زار ڈھونڈنے والے

یہاں بہار نہیں آتشیں بگولے ہیں

دھنک کے رنگ نہیں سر مئی فضاؤں میں

افق سے تابہ افق پھانسیوں کے جھولے ہیں

پھر ایک منزل خونبار کی طرف ہیں رواں

وہ رہنما جو کئی بار راہ بھولے ہیں

…………

وجہ بے رنگی گلزار کہوں تو کیا ہو

کون ہے کتنا گنہگار کہوں تو کیا ہو

تم نے جو بات سربزم نہ سننا چاہی

میں وہی بات سردار کہوں تو کیا ہو

…………

گلشن گلشن پھول

گلشن گلشن پھول

دامن دامن دھول

مرنے پر تعزیر

جینے پر محصول

ہر جذبہ مصلوب

ہر خواہش مقتول

عشق پریشاں حال

ناز حسن ملول

…………

لوگ عورت کو فقط جسم سمجھ لیتے ہیں

روح بھی ہوتی ہے اس میں یہ کہاں سوچتے ہیں

روح کیا ہوتی ہے اس سے انھیں مطلب ہی نہیں

وہ تو بس تن کے تقاضوں کا کہا مانتے ہیں

روح مر جائے تو یہ جسم ہے چلتی ہوئی لاش!

اس حقیقت کو سمجھتے ہیں نہ پہچانتے ہیں

…………

وہ زندگی جو تھی اب تک تری پناہوں میں

چلی ہے آج بھٹکنے اداس راہوں میں

تمام عمر کے رشتے گھڑی میں خاک ہوئے

نہ ہم ہیں دل میں کسی کے نہ ہیں نگاہوں میں

وہ زندگی جو تھی اب تک تیری پناہوں میں

کسی کو اپنی ضرورت نہ ہو تو کیا کیجیے

…………

کہ صرف عمر کٹی زندگی نہیں گزری

غزل کا حسن ہو تم نظم کا شباب ہو تم

صدائے ساز ہو تم نغمۂ رباب ہو تم

جو دل میں صبح جگائے وہ آفتاب ہو تم

اگر مجھے نہ ملیں تم تو میں یہ سمجھوں گا

…………

یہ ایک راز کہ دنیا نہ جس کو جان سکی

یہی وہ رات ہے جو زندگی کا حاصل ہے

تمہی کہو! تمہیں یہ بات کیسے سمجھاؤں

کہ زندگی کی گھٹن زندگی کی قاتل ہے

ہر اک نگاہ کو قدرت کا یہ اشارہ ہے

…………

جسم کا بوجھ اٹھائے نہیں اٹھتا تم سے

زندگانی کا کڑا بوجھ سہو گی کیسے

تم جو ہلکی سی ہواؤں میں لچک جاتی ہو

تیز جھونکوں کے تھپڑوں میں رہو گی کیسے

اتنی نازک نہ بنو‘ اتنی بھی نازک نہ بنو

…………

کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے

عجب نہ تھا کہ میں بے گانہ‘ الم ہو کر

تیرے جمال کی رعنائیوں میں کھو رہتا

تیرا گداز بدن‘ تیری نیم باز آنکھیں

انھی حسین فسانوں میں محو ہو رہتا

کہ زندگی تیری زلفوں کی نرم چھاؤں میں

گزرنے پاتی تو شاداب ہو بھی سکتی تھی

یہ تیرگی جو مری زیست کا مقدر ہے

تری نظر کی شعاعوں میں کھوبھی سکتی تھی

پکارتیں مجھے جب تلخیاں زمانے کی

تیرے لبوں سے حلاوت کے گھونٹ پی لیتا

حیات چیختی پھرتی برہنہ سر اور میں

  گھنیری زلفوں کے سائے میں چھپ کے جی لیتا

عرض ہے کہ ساحر‘ واقعی ساحر تھا اردو زبان کا واحد ساحر۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کے ساتھ ساحر کے ساحر کی تو کیا کیا ہو میں یہ

پڑھیں:

تجدید وتجدّْد

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

 

 

3

مْجدِّد یقینا اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ظہور میں آتا ہے‘ وہ ماضی کے علمی ذخیرہ سے انحراف کرتا ہے اور نہ پہلے سے تسلسل کے ساتھ روبہ عمل مسلّمہ فقہی اصولوں سے تجاوز کرتا ہے‘ بلکہ وہ جدید پیش آمدہ مسائل کو بھی دین کے مسلَّمات سے انحراف کیے بغیر حل کرنے کی سعی کرتا ہے اور ماضی کی علمی وفقہی روایت سے رشتہ توڑنے کے بجائے اسی تسلسل کو قائم رکھنا ہی اس کی تگ ودو کا سب سے بڑا ہدف ہوتا ہے۔ اب تک امت میں جن بزرگوں کو مْجدِّددین کی فہرست میں مسلَّمہ طور پر شامل سمجھا گیا ہے‘ ان میں سے ہر ایک کی محنت کا فرداً فرداً جائزہ لیا جائے تو بھی سب کی محنت کا ایک ہی محور دکھائی دے گا کہ حال کو ماضی سے جوڑ کر رکھا جائے۔

متحدہ ہندوستان میں اکبر بادشاہ کو جب مْجدِّد اعظم اور مْجتہد اعظم کا لقب دے کر اس سے دین کے پورے ڈھانچے کی تشکیلِ جدیدکی درخواست کی گئی تو اس کے ساتھ یہ تصور بھی شامل تھا کہ دین اسلام کی پرانی تعبیر وتشریح کو ایک ہزار سال کا عرصہ گزر چکا ہے‘ اس لیے اگلے ہزار سال کے لیے نئی تعبیر وتشریح کے ساتھ دین کے نئے ڈھانچے کی تشکیل ضروری ہو گئی ہے‘ جو اکبر بادشاہ نے ’’دینِ الٰہی‘‘ کے نام سے پیش کی۔ جبکہ اس مکر وفریب کے تار وپود کو بکھیرنے میں شیخ احمد سرہندی نے مسلسل محنت کر کے فقہ وشریعت کی اصل روایت کو باقی رکھنے کی کامیاب جدوجہد کی۔ اس پس منظر میں انہیں ’’مجدّدِ الفِ ثانی‘‘ کا خطاب دیا گیا کہ اگلے ہزار سال میں بھی اکبر بادشاہ کی پیش کردہ تعبیر وتشریح کے بجائے وہی پرانی اِجماعی تعبیر وتشریح ہی چلے گی جس کی نمائندگی شیخ احمد سرہندی کر رہے تھے اور الحمدللہ! اب تک عملاً ایسا ہی ہو رہا ہے۔ ان کی بابت علامہ اقبال نے کہا: ’’گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے؍ جس کے نفَسِ گرم سے ہے گرمیِ احرار ٭ وہ ہِند میں سرمایہ؍ ملّت کا نِگہباں؍ اللہ نے بروقت کیا جس کو خبردار‘‘۔

مغل بادشاہ جلال الدین اکبر کو اس کے نو رتنوں (چاپلوس درباریوں) نے یہ باور کرایا کہ وہ اسلام‘ ہندومت‘ بدھ مت وغیرہ تمام ادیان کے من پسند اجزا کو جمع کر کے ایک نیا دین وضع کریں جو اْن کے نام سے منسوب ہو اور ’’اکبر شاہی دینِ الٰہی‘‘ کا لیبل لگا کر اسے رائج کیا جائے۔ یہ ’’وحدتِ ادیان‘‘ کا ایک فتنہ تھا اور ہر دور میں رنگ بدل بدل کر اس کی مارکیٹنگ کی جاتی ہے‘ گویا ’’کہیں کی اینٹ‘ کہیں کا روڑا‘ بھان متی نے کنبہ جوڑا‘‘۔ اس کے نو رتنوں میں راجا بیربل‘ ابوالفیض فیضی‘ ابوالفضل‘ تان سین‘ عبدالرحیم المعروف خانِ خاناں‘ راجا مان سنگھ‘ ابوالحسن المعروف ملا دو پیازہ‘ راجا ٹوڈرمل اور مرزا عزیز کوکلتاش تھے۔ رتن کے معنی ہیں: ’’ہیرا‘‘۔ اس کے برعکس مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر نے علماء کی ایک مجلس تشکیل دی اور فقہِ حنفی پر مشتمل ایک جامع کتاب ’’فتاویٰ عالمگیری‘‘ مرتب کرائی‘ جس میں انفرادی اور اجتماعی زندگی کے تمام شعبوں کے بارے میں شرعی احکام یکجا ہو گئے۔

تجدّْد پسندوں کا گروہ ایک طرف تو اپنی تجدد پسندی کو تجدید کا نام دے کر سندِ جواز فراہم کرنے کی کوشش کرتا ہے تو دوسری طرف دین اسلام کے بیان کردہ حقائق کے وزن کو گھٹانے کے لیے تسلسل اور توارث کے ساتھ منتقل ہونے والے اصل دین اور اس کے حقیقی مفہوم وتفسیر کو جو سلفِ صالحین سے تعامل وتوارث کے ساتھ چلی آ رہی ہوتی ہے‘ اْسے روایتی فکر کا نام دیتا ہے۔ روایتی فکر کی اس تعبیر میں دراصل ایک قسم کا طنز پوشیدہ ہے اور یہ تعبیر بالکل مغربی مصنّفین کی اس تعبیر سے قریب ہے جو اسلام کو رَجعت پسندی اور دقیانوسیت قرار دیتے ہیں۔ یہ تجدّد پسند حضرات شاید یہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح تہذیب ترقی کے مدارج طے کرتی ہے‘ اسی طرح مذہب کو بھی ترقی کرنی چاہیے۔ حالانکہ دینِ اسلام سراپا تسلیم ورضا کا نام ہے‘ اس میں جدت کے نام پر بدعت کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور نہ کسی نئی تعبیر یا تفسیر کی ضرورت ہے۔ البتہ جدید نادر مسائل کا حل بھی پرانے مسائل ہی میں تلاش کیا جائے گا‘ اْنہیں قیاس کے ذریعے یا نصوص کے عموم سے یا اْصول فقہ کے قواعد کی روشنی میں حل کیا جائے گا۔ سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا: ’’تم طے شدہ طریقے پر چلو اور نئی نئی باتوں کے چکر میں نہ پڑو‘ کیونکہ تمہیں ایسی کسی بھی جدت سے بے نیاز کر دیا گیا ہے‘‘۔ (سننِ دارمی)

آپ تجدّْد پسندوں کا گہری نظر سے جائزہ لیں تو ان کے اندر یہ بات قدرِ مشترک ہے کہ ان میں سے اکثر کا حدیث وسنت کا علم سطحی درجے کا ہوگا۔ بعض تو اس سطحی علم سے بھی کورے ہوں گے‘ الٹا وہ یہ باور کرائیں گے کہ ان کو حدیث کی روایت سے آگے کی چیز‘ یعنی عقلیت وتجدّْد پسندی حاصل ہے‘ اس لیے ان سے روایتِ حدیث کی بابت سوال کرنا دراصل سائل کی کم فہی یا کج فہمی کی دلیل ہے۔ ساتھ ہی وہ یہ بھی باور کرائیں گے کہ جس شعور وآگہی کے ہم حامل ہیں‘ علماء کا طبقہ اس سے محروم ہے‘ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ علما ان وادیوں سے بخوبی واقف ہیں‘ جن وادیوں کے شناسا یہ تجدّد پسند ہیں اور اس سفر کے انجام سے بھی باخبر ہیں‘ اس لیے وہ اس راہ پر نہیں چلتے جو تجدّد پسندوں کی نظر میں شاہراہ ہے‘ وہ اسے بدعت یا آزاد خیالی سمجھتے ہیں‘ جیسا کہ آوارہ منش شعرا کے بارے میں قرآنِ کریم میں ہے: ’’اور (آوارہ) شاعروں کی پیروی گمراہ لوگ کرتے ہیں‘ کیا آپ نے انہیں دیکھا نہیں کہ وہ ہر وادی میں بھٹکتے پھرتے ہیں اور بیشک وہ جو کچھ کہتے ہیں‘ اس پر عمل نہیں کرتے‘‘۔ (الشعراء: 224 تا 226)۔ پاکستان کے حکمرانوں میں لبرل ازم اور آزاد روی کے پْرجوش علمبردار جنرل پرویز مشرف نے اسی کو ’’اعتدال پر مبنی روشن خیالی‘‘ کا نام دیا تھا۔

الغرض انہی خطرات کا ادراک کرتے ہوئے عمر بن عبدالعزیزؒ نے فرمایا تھا: ’’تم دین کے معاملہ میں خود کو وہاں پر روک لو‘ جہاں وہ (سلَف صالحین) رک گئے تھے‘ کیونکہ وہ علم رکھتے ہوئے رکے ہیں اور گہری نظر کی وجہ سے باز آ گئے ہیں۔ حالانکہ وہ ان باتوں پر سے پردہ اٹھانے کی پوری علمی صلاحیت رکھتے تھے اور اگر ایسا کرنا کوئی فضیلت کی بات ہوتی تو وہ اس کے زیادہ اہل تھے۔ اگر تم کہتے ہو کہ یہ (تجدّد پسندی) ان کے دور کے بعد وجود میں آئی ہے تو پھر جان لو کہ یہ ایسے ہی شخص کی ایجاد ہے جو ان کے راستے سے ہٹ کر چل رہا ہے اور ان کے طریقے سے منہ موڑ رہا ہے۔ سلَفِ صالحین نے اس دین کے وہ مَبادیات‘ اصولی عقائد اور مسلّمات بتا دیے ہیں جو کافی وشافی ہیں اور دین کے جتنے مسائل کی انہوں نے وضاحت کر دی ہے وہ کافی ہے۔ ان سے آگے بڑھ کر کوئی معرکہ سر ہونے والا نہیں ہے اور ان سے پیچھے رہ جانے سے بڑی کوئی تقصیر نہیں ہے۔ بعض لوگوں نے ان سے پیچھے رہ جانا پسند کیا تو وہ جفاکار ہوئے اور بعض لوگوں نے ان سے آگے بڑھ جانا چاہا تو غْلوّ کا شکار ہوئے اور سلَفِ صالحین اِفراط وتفریط اور غْلْو وجفا کے مابین ہمیشہ توسط واعتدال کی راہ پر گامزن رہے ہیں‘‘۔ (ابودائود) علامہ اقبال نے بھی اسی فکر کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا: اجتہاد اندر زمانِ اِنحطاط ؍ قوم را برہم ہمی پیچد بساط…زِاجتہادِ عالمانِ کم نظر ؍ اِقتدا بر رفتگاں محفوظ تر

مفہومی ترجمہ: ’’زوال کے زمانے میں (کم نظروں اور کم ہمتوں کا) اجتہاد امت کے نظم وضبط کی بساط کو لپیٹ دیتا ہے اور کم نظر عالموں کے اجتہاد کے مقابلے میں گزشتہ بزرگوں کی اقتدا (دین کے لیے) زیادہ محفوظ حکمتِ عملی ہے‘‘۔

غامدی صاحب کے استاذ امام مولانا امین احسن اصلاحی نے بھی تدبرِ قرآن کی نویں جلد کے دیباچے میں سیدنا علیؓ کا یہ قول کسی حوالے کے بغیر نقل کیا ہے: ترجمہ: ’’اس امت کے پچھلے دور کے لوگ بھی اسی چیز سے اصلاح پائیں گے‘ جس سے دورِ اول کے لوگ اصلاح پذیر ہوئے‘‘۔ (الریاض النضرۃ فی مناقب العشرۃ)۔

(جاری)

مفتی منیب الرحمن

متعلقہ مضامین

  • سکھر میں صفائی کا فقدان، جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر لگ گئے، انتظامیہ غائب
  • حفیظ جمال نے زندگی محنت کشوں کے نام کر دی،حیدر خوجہ
  • تلاش
  • ڈپریشن یا کچھ اور
  • امریکا کی 5 فیصد آبادی میں کینسر جینز کی موجودگی، تحقیق نے خطرے کی گھنٹی بجا دی
  • ارشد وارثی کو زندگی کے کونسے فیصلے پر بےحد پچھتاوا ہے؟
  • میرا لاہور ایسا تو نہ تھا
  • مجھے کبھی نہیں لگا کہ میں شاہ رُخ خان جیسا دکھائی دیتا ہوں، ساحر لودھی
  • تجدید وتجدّْد
  • دنیا کی زندگی عارضی، آخرت دائمی ہے، علامہ رانا محمد ادریس قادری