بھارت اسرائیل کا گمراہ کن پراپیگنڈا بے نقاب: پاکستان، چین اور روس پر بے بنیاد الزامات
اشاعت کی تاریخ: 16th, June 2025 GMT
تہران / اسلام آباد (نیو زڈیسک) ایران اور اسرائیل کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے دوران بھارت اور اسرائیل کی جانب سے ایک نیا اطلاعاتی محاذ کھولا گیا ہے، جس کا مقصد خطے میں اپنی ناکامیوں سے توجہ ہٹانا اور مخصوص ممالک کو بلاجواز نشانہ بنانا ہے۔ ہند-اسرائیلی پراپیگنڈا نیٹ ورک اس وقت منظم طریقے سے پاکستان، چین اور روس پر یہ الزام تراشی کر رہا ہے کہ وہ ایران کی جنگی حمایت کر رہے ہیں، حالانکہ اس دعوے کے حق میں کوئی قابلِ اعتبار شواہد موجود نہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق یہ پروپیگنڈا دراصل بھارت اور اسرائیل کی اشتعال انگیز خارجہ پالیسیوں سے توجہ ہٹانے کی ایک حکمتِ عملی ہے۔ ایک طرف ایران پر جارحیت، اور دوسری جانب ایران کو عالمی سطح پر تنہا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ الزام کہ پاکستان، چین یا روس ایران کو عسکری یا انٹیلی جنس امداد فراہم کر رہے ہیں، ایک غیر مصدقہ اور من گھڑت دعویٰ ہے جس کی بنیاد کسی مستند انٹیلی جنس رپورٹ پر نہیں بلکہ اطلاعاتی بیانیے کی تشکیل پر ہے۔
یہ بیانیہ نہ صرف زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا بلکہ یہ ایک فرضی اتحاد کا تصور پیش کرتا ہے، جسے ایرانی مؤقف کو کمزور کرنے اور عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنے کے لیے گھڑا گیا ہے۔ بھارت اور اسرائیل کی جانب سے پھیلایا جانے والا یہ تاثر کہ کچھ ریاستیں ایران کے ساتھ مل کر ایک مبینہ “اینٹی ویسٹ بلاک” کی تشکیل کر رہی ہیں، بین الاقوامی سفارتی ماحول کو مسخ کرنے کی کوشش ہے۔
پاکستان کا مؤقف اس حوالے سے واضح اور مستقل ہے۔ پاکستان خطے میں امن و استحکام کا خواہاں ہے اور کسی ایسی جنگ کا حصہ نہیں بنے گا جو اس پر مسلط کی گئی ہو۔ حالیہ الزامات ایک سوچے سمجھے سیاسی مفاد اور دباؤ پر مبنی گمراہ کن مہم کا حصہ ہیں، جن کا مقصد پاکستان جیسے ممالک کی غیرجانبدار اور اصولی پالیسیوں کو متنازع بنانا ہے۔
ماضی کی طرح، ایک بار پھر بھارت اور اسرائیل کی جانب سے بیانیہ سازی کے ذریعے یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ الزام تراشی کے دائرے کو وسیع کر کے اپنی خود ساختہ عسکری مہمات کو اخلاقی جواز دیا جائے۔ اس عمل میں عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنے اور کثیرالجہتی سفارت کاری کو نقصان پہنچانے کی دانستہ کوشش کی جا رہی ہے، جو کسی صورت قابلِ قبول نہیں۔
بین الاقوامی برادری کو چاہیے کہ وہ اس گمراہ کن پراپیگنڈے کو پہچانے اور علاقائی امن کے لیے سنجیدہ اقدامات کرے، بجائے اس کے کہ وہ ان ریاستوں کی جھوٹی معلومات پر مبنی مہمات کا شکار ہو جو صرف اپنے اسٹریٹیجک مفادات کے لیے امن کو داؤ پر لگا رہی ہیں۔
19مزیدپڑھیں:جون کوعام تعطیل کااعلان ،تمام دفاتر بند رہیں گے،نوٹیفکیشن جاری
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: بھارت اور اسرائیل کی
پڑھیں:
اسرائیل کا مقصد عرب ممالک سے دوستی نہیں بلکہ ان پر قبضہ کرنا ہے، سعودی اخبار
سعودی عرب کے کثیرالاشاعت اخبار نے دعوی کیا ہے کہ غزہ اور خطے میں اسرائیل کے اہداف اس سے کہیں زیادہ وسیع ہیں جن کا اعلان کیا گیا ہے اور اسرائیل ہر گز روایتی معنی میں عرب ممالک سے دوستانہ تعلقات کے درپے نہیں بلکہ ان پر مکمل قبضہ چاہتا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان تعلقات معمول پر لانے کا مسئلہ زور شور سے جاری ہے اور غاصب صیہونی رژیم دیگر عرب ممالک کو بھی ابراہیم معاہدے میں شامل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اسی اثنا میں سعودی عرب کے معروف اخبار "عکاظ" نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیل کا اصل مقصد عرب ممالک سے دوستانہ تعلقات استوار کرنا نہیں بلکہ ان پر اس طرح سے قبضہ جمانا ہے کہ حتی ان کے اندرونی معاملات میں بھی بھرپور مداخلت کر سکے۔ اس اخبار میں شائع ہونے والے مقالے میں آیا ہے: "غزہ کے خلاف جنگ میں اسرائیل کا ایک اہم ہدف اپنی کھوئی ہوئی ڈیٹرنس طاقت بحال کرنا ہے۔ اسی طرح اس کے دیگر اہداف میں اسرائیلی یرغمالیوں کی آزادی، فلسطین میں مزاحمت کا خاتمہ، غزہ پر دوبارہ قبضہ اور غزہ کے فلسطینیوں کو جلاوطن کرنا شامل ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل اسٹریٹجک ڈیٹرنس کی بحالی اور اپنی مرضی کے زمینی حقائق خطے کے تمام ممالک، خاص طور پر ہمسایہ عرب ممالک پر تھونپ دینا چاہتا ہے۔" اس مقالے میں مزید آیا ہے: "اسرائیل طاقتور ڈیٹرنس کے عناصر کی بنیاد پر ایک اسٹریٹجک حقیقت دوسروں پر تحمیل کرنا چاہتا ہے جس کا مقصد صرف یہ نہیں کہ مدمقابل کو سیاسی طور اپنے مقابلے میں آنے سے روکے بلکہ وہ خطے کے تمام ممالک کو اپنے سامنے پوری طرح جھک جانے پر مجبور کرنا چاہتا ہے۔"
سعودی اخبار عکاظ اس بات پر زور دیتا ہے کہ ان دنوں عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان تعلقات معمول پر لانے کا مسئلہ غزہ جنگ کے بعد اہم ترین ایشوز کے طور پر زیر بحث ہے۔ اسرائیل کی ڈیٹرنس کی ڈاکٹرائن خطے کے ممالک سے برابری اور پرامن بقائے باہمی پر استوار نہیں بلکہ مدمقابل پر جبری انحصار مسلط کر دینے پر استوار ہے۔ اسرائیل ایسی صورتحال چاہتا ہے جس میں وہ جب چاہے خطے کے ممالک کے اندرونی معاملات میں براہ راست مداخلت کر سکے۔ یوں خطے کے ممالک حتی اپنی داخلہ سیاست میں بھی اسرائیل کی مرضی سے چلنے پر مجبور ہوں گے اور انہیں آزادانہ فیصلے کرنے کا حق نہیں ہو گا۔ اخبار اس بارے میں لکھتا ہے: "اسرائیل اپنے اور خطے کے دیگر ممالک کے درمیان یکطرفہ اور غیر متوازن طاقت کا توازن قائم کرنا چاہتا ہے۔ یہ حکمت عملی عرب ممالک سے روایتی دوستانہ تعلق استوار کرنے سے ماوراء ہے اور مدمقابل کو مکمل طور پر اپنے سامنے تسلیم کرنے پر استوار ہے۔ اسرائیل اس مقصد کے حصول کے لیے سیاسی اور اخلاقی لحاظ سے بھاری قیمت چکانے پر بھی تیار ہے۔ اسرائیل نے اعلان کیا ہے کہ اس کا مقصد 7 اکتوبر جیسے واقعات دوبارہ انجام پانے سے روکنا ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے اور اس کا مقصد خطے کے تمام ممالک کی جانب سے اسرائیل پر وار کرنے کی صلاحیت ختم کر دینا ہے۔"
سعودی اخبار عکاظ لکھتا ہے: "درحقیقت اسرائیل کا مقصد یہ نہیں کہ خطے کے ممالک اس کا وجود تسلیم کر لیں یا اس کے ساتھ تعلقات معمول پر لے آئیں کیونکہ مختلف ممالک کے باہمی تعلقات سے متعلق یہ روایتی فارمولے اسرائیل کے لیے بے معنی ہیں چونکہ وہ خود بھی ایک روایتی ریاست نہیں ہے۔ دراصل جو چیز اسرائیل کے لیے سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے وہ خطے میں ایک برتر طاقت کے طور پر اپنے جبری وجود کو برقرار رکھنا اور ایک طاقتور ڈیٹرنس قائم کرنا ہے تاکہ طاقت کے بل بوتے پر ہمسایہ ممالک کو اپنا مطیع بنا سکے۔ یہ حکمت عملی صرف فلسطین کی حدود تک محدود نہیں ہے بلکہ اسرائیل تمام عرب سرزمینوں میں یہ حکمت عملی لاگو کرنے کے درپے ہے۔" اس مقالے کے آخر میں آیا ہے: "اسرائیل کی یہ حکمت عملی درحقیقت وہی ہے جو ہٹلر نے مرکزی، مغربی اور جنوبی یورپی ممالک کے خلاف بروئے کار لائی تھی اور اس کے ذریعے ان پر قابض ہو گیا تھا۔ لیکن اس کے بعد اس نے مشرق کی جانب پسپائی اختیار کی تاکہ سوویت یونین اور مشرق اور مغرب کے درمیان واقع یورل پہاڑوں پر اپنا تسلط قائم کرے۔ یہ ایک تسلط پسندانہ حکمت عملی ہے جس کی قیمت خطے میں عدم استحکام اور حتی عالمی امن کو خطرے کی صورت میں چکانی پڑ سکتی ہے۔"