لاکھوں سال میں پہلی بار زمین پر کاربن ڈائی آکسائیڈ کی ریکارڈ سطح، سائنسدان پریشان
اشاعت کی تاریخ: 16th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ماحولیاتی ماہرین اور سائنسی ادارے اس وقت سخت تشویش میں مبتلا ہیں کیونکہ زمین کے کرۂ ہوا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی سطح ایک نئی اور خطرناک حد کو عبور کر چکی ہے۔
حالیہ بین الاقوامی رپورٹس کے مطابق یہ سطح اس وقت 426.
یہ صرف ایک ماحولیاتی تبدیلی نہیں بلکہ پوری زمین کے ماحولیاتی نظام کے لیے ایک گھنٹی ہے جو خطرے کا شدید الارم بجا رہی ہے۔
یہ ریکارڈ شدہ سطح مئی 2024 میں امریکا کے 2معروف اداروںنیشنل اوشینک اینڈ ایٹموسفیرک ایڈمنسٹریشن (NOAA) اور اسکرپس انسٹی ٹیوٹ آف اوشیانوگرافی نے شائع کی ہے۔ اس سے یہ بات کھل کر سامنے آ گئی ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی اب کوئی دُور کا خطرہ نہیں، بلکہ اس کی شدت اب ہمارے سانس لینے کی فضا میں ریکارڈ سطح پر موجود ہے۔
اس سے قبل 1750ء کے قریب یعنی صنعتی دور سے پہلے ماحول میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار تقریباً 280 PPM تھی۔ 1958ء میں جب پہلی بار جدید طریقے سے اس کی پیمائش کا آغاز ہوا تو یہ سطح 315 PPM تک پہنچ چکی تھی،لیکن صرف پچھلے چند عشروں میں یہ گیس تیزی سے بڑھی ہے اور 2024ء میں 426.9 PPM کا ہولناک ہندسہ عبور کر چکی ہے۔
اس کا مطلب ہے کہ صنعتی انقلاب سے اب تک کاربن ڈائی آکسائیڈ کی سطح میں 50 فیصد سے زیادہ اضافہ ہو چکا ہے اور یہ اضافہ مسلسل جاری ہے۔
سوال یہ ہے کہ اتنی زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ آخر کس قدر خطرناک ہے؟ اس سوال کا جواب سادہ بھی ہے اور خوفناک بھی۔ جب زمین کے ماحول میں گرین ہاؤس گیسز، بالخصوص کاربن ڈائی آکسائیڈ ضرورت سے زیادہ ہو جاتی ہیں تو سورج کی حرارت زمین پر آ کر واپس خلا میں نہیں جا پاتی۔ یہ حرارت فضا میں پھنس جاتی ہے اور نتیجہ ہوتا ہے گلوبل وارمنگ یعنی عالمی درجہ حرارت میں مستقل اور غیر فطری اضافہ۔
اس کا اثر صرف حرارت تک محدود نہیں رہتا۔ جب عالمی درجہ حرارت بڑھتا ہے تو زمین کے موسمیاتی نظام میں توازن بگڑ جاتا ہے۔ بارشوں کا نظام خراب ہو جاتا ہے، کہیں شدید بارشیں اور سیلاب تو کہیں طویل خشک سالی اور قحط کی صورتحال پیدا ہوتی ہے۔ قطبی علاقوں میں برف تیزی سے پگھلنے لگتی ہے، جس سے سطحِ سمندر بلند ہو جاتی ہے اور ساحلی علاقوں بالخصوص ترقی پذیر ممالک کے شہر خطرے میں آ جاتے ہیں۔
مزید برآں یہ گیس صرف فضا میں ہی نہیں رہتی بلکہ سمندری پانی میں بھی جذب ہو کر اسے متاثر کرتی ہے۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ جب پانی میں گھلتی ہے تو وہ کاربونک ایسڈ بناتی ہے، جس سے سمندری پانی کی تیزابیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کا براہِ راست اثر مرجان کی چٹانوں (کورل ریفس)، مچھلیوں، اور دیگر سمندری حیات پر پڑتا ہے۔ کورل ریفس جو سمندری حیات کے لیے نہایت اہم مسکن ہیں، تیزی سے تباہ ہو رہے ہیں، جس سے پوری بحری دنیا متاثر ہو رہی ہے۔
یہی نہیں!اس بڑھتی ہوئی کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اثرات انسانوں کی زندگی کے ہر پہلو پر مرتب ہو رہے ہیں۔ فصلوں کی پیداوار متاثر ہو رہی ہے، خوراک کی کمی ایک عالمی بحران کی صورت اختیار کر سکتی ہے اور بیماریاں، خاص طور پر وہ جو درجہ حرارت سے متاثر ہوتی ہیں، بڑھ رہی ہیں۔ ہیٹ ویوز کے نتیجے میں ہر سال ہزاروں افراد کی ہلاکتیں اب ایک معمول بنتی جا رہی ہیں۔
ماحولیاتی ماہرین اس صورتحال کو روکنے کے لیے فوری اور مربوط اقدامات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دنیا کو نہ صرف صنعتی سرگرمیوں میں کاربن کے اخراج کو کم کرنا ہوگا بلکہ توانائی کے متبادل ذرائع کو ترجیح دینا ہوگی۔ شمسی توانائی، ہوا سے بجلی اور بجلی سے چلنے والی گاڑیاں اس وقت ناگزیر انتخاب بن چکے ہیں۔
ماحولیاتی تبدیلی اب صرف ماہرین کی گفتگو یا رپورٹوں تک محدود مسئلہ نہیں رہا، یہ ایک ایسی حقیقت بن چکا ہے جو ہر انسان کی روزمرہ زندگی کو براہِ راست متاثر کر رہا ہے۔ اس لیے عوامی شعور کی بیداری، حکومتی پالیسیوں میں سنجیدگی اور عالمی سطح پر تعاون وقت کی اہم ترین ضرورت بن چکی ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کاربن ڈائی آکسائیڈ کی زمین کے ہے اور چکی ہے
پڑھیں:
چین نے پاکستان کے لئے لاکھوں ڈالر کی رقم جاری کردی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: چین نے صوبہ پنجاب میں معاشی اور تکنیکی تعاون کے منصوبے کے لیے 20 لاکھ امریکی ڈالر کی رقم جاری کر دی ہے۔ یہ تازہ ادائیگی بیجنگ کے پاکستان میں صوبائی ترقی اور ادارہ جاتی صلاحیت بڑھانے کےپروگراموں میں مسلسل مالی عزم کی عکاسی کرتی ہے۔
میڈیا ذرائع کے مطابق وزارتِ اقتصادی امور کی جاری کردہ رپورٹ کے حوالے سے لکھا کہ یہ منصوبہ پاکستان کے تکنیکی ڈھانچے کو مضبوط بنانے، ادارہ جاتی روابط کو فروغ دینے اور دونوں ممالک کے درمیان جاری ترقیاتی تعاون کو مستحکم کرنے پر مرکوز ہے۔
ذرائع کے مطابق ستمبر 2025 کے دوران چین کی مجموعی ادائیگیاں تقریباً 20 لاکھ ڈالر رہیں، جبکہ مالی سال 2025-26 کی پہلی سہ ماہی (جولائی تا ستمبر) کے دوران چین کی مجموعی معاونت، جس میں گرانٹس اور قرضے دونوں شامل ہیں، 97.5 لاکھ ڈالر تک پہنچ گئی۔پنجاب کے منصوبے کے علاوہ، چین نے ملک کے مختلف علاقوں میں اہم تعمیرِ نو اور بحالی کے منصوبوں کے لیے مالی تعاون جاری رکھا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ان میں خیبر پختونخوا کے ضلع باڑہ میں مکمل طور پر تباہ شدہ اسکولوں کی تعمیر نو کے لیے 44.7 لاکھ ڈالر، بلوچستان میں مکانات کی تعمیر کے لیے 60 لاکھ ڈالر، اور پاکستان کے نئے جیوڈیٹک ڈیٹم کے قیام کے لیے 10.8 لاکھ ڈالر شامل ہیں۔چین قومی اہمیت کے حامل کئی بڑے منصوبوں میں بھی شراکت دار ہے، جن میں شاہراہِ قراقرم (ٹھاکوٹ تا رائیکوٹ سیکشن) کی منتقلی، پاکستان اسپیس سینٹر(سپارکو ) کا قیام اور قائداعظم یونیورسٹی میں چین-پاکستان جوائنٹ ریسرچ سینٹر برائے ارضی سائنسز کا قیام شامل ہے۔
یہ تمام منصوبے پاکستان کے بنیادی ڈھانچے اور سائنسی صلاحیتوں کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے وسیع تر ترقیاتی شراکت داری کا حصہ ہیں۔