data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

ماحولیاتی ماہرین اور سائنسی ادارے اس وقت سخت تشویش میں مبتلا ہیں کیونکہ زمین کے کرۂ ہوا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی سطح ایک نئی اور خطرناک حد کو عبور کر چکی ہے۔

حالیہ بین الاقوامی رپورٹس کے مطابق یہ سطح اس وقت 426.

9 پارٹس پر ملین (PPM) تک پہنچ چکی ہے، جو کہ انسانی تاریخ میں نہیں بلکہ پچھلے 40 لاکھ سالوں میں بھی کبھی ریکارڈ نہیں ہوئی۔

یہ صرف ایک ماحولیاتی تبدیلی نہیں بلکہ پوری زمین کے ماحولیاتی نظام کے لیے ایک گھنٹی ہے جو خطرے کا شدید الارم بجا رہی ہے۔

یہ ریکارڈ شدہ سطح مئی 2024 میں امریکا کے 2معروف اداروںنیشنل اوشینک اینڈ ایٹموسفیرک ایڈمنسٹریشن (NOAA) اور اسکرپس انسٹی ٹیوٹ آف اوشیانوگرافی نے شائع کی ہے۔ اس سے یہ بات کھل کر سامنے آ گئی ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی اب کوئی دُور کا خطرہ نہیں، بلکہ اس کی شدت اب ہمارے سانس لینے کی فضا میں ریکارڈ سطح پر موجود ہے۔

اس سے قبل 1750ء کے قریب یعنی صنعتی دور سے پہلے ماحول میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار تقریباً 280 PPM تھی۔ 1958ء میں جب پہلی بار جدید طریقے سے اس کی پیمائش کا آغاز ہوا تو یہ سطح 315 PPM تک پہنچ چکی تھی،لیکن صرف پچھلے چند عشروں میں یہ گیس تیزی سے بڑھی ہے اور 2024ء میں 426.9 PPM کا ہولناک ہندسہ عبور کر چکی ہے۔

اس کا مطلب ہے کہ صنعتی انقلاب سے اب تک کاربن ڈائی آکسائیڈ کی سطح میں 50 فیصد سے زیادہ اضافہ ہو چکا ہے اور یہ اضافہ مسلسل جاری ہے۔

سوال یہ ہے کہ اتنی زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ آخر کس قدر خطرناک ہے؟ اس سوال کا جواب سادہ بھی ہے اور خوفناک بھی۔ جب زمین کے ماحول میں گرین ہاؤس گیسز، بالخصوص کاربن ڈائی آکسائیڈ ضرورت سے زیادہ ہو جاتی ہیں تو سورج کی حرارت زمین پر آ کر واپس خلا میں نہیں جا پاتی۔ یہ حرارت فضا میں پھنس جاتی ہے اور نتیجہ ہوتا ہے گلوبل وارمنگ یعنی عالمی درجہ حرارت میں مستقل اور غیر فطری اضافہ۔

اس کا اثر صرف حرارت تک محدود نہیں رہتا۔ جب عالمی درجہ حرارت بڑھتا ہے تو زمین کے موسمیاتی نظام میں توازن بگڑ جاتا ہے۔ بارشوں کا نظام خراب ہو جاتا ہے، کہیں شدید بارشیں اور سیلاب تو کہیں طویل خشک سالی اور قحط کی صورتحال پیدا ہوتی ہے۔ قطبی علاقوں میں برف تیزی سے پگھلنے لگتی ہے، جس سے سطحِ سمندر بلند ہو جاتی ہے اور ساحلی علاقوں بالخصوص ترقی پذیر ممالک کے شہر خطرے میں آ جاتے ہیں۔

مزید برآں یہ گیس صرف فضا میں ہی نہیں رہتی بلکہ سمندری پانی میں بھی جذب ہو کر اسے متاثر کرتی ہے۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ جب پانی میں گھلتی ہے تو وہ کاربونک ایسڈ بناتی ہے، جس سے سمندری پانی کی تیزابیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کا براہِ راست اثر مرجان کی چٹانوں (کورل ریفس)، مچھلیوں، اور دیگر سمندری حیات پر پڑتا ہے۔ کورل ریفس جو سمندری حیات کے لیے نہایت اہم مسکن ہیں، تیزی سے تباہ ہو رہے ہیں، جس سے پوری بحری دنیا متاثر ہو رہی ہے۔

یہی نہیں!اس بڑھتی ہوئی کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اثرات انسانوں کی زندگی کے ہر پہلو پر مرتب ہو رہے ہیں۔ فصلوں کی پیداوار متاثر ہو رہی ہے، خوراک کی کمی ایک عالمی بحران کی صورت اختیار کر سکتی ہے اور بیماریاں، خاص طور پر وہ جو درجہ حرارت سے متاثر ہوتی ہیں، بڑھ رہی ہیں۔ ہیٹ ویوز کے نتیجے میں ہر سال ہزاروں افراد کی ہلاکتیں اب ایک معمول بنتی جا رہی ہیں۔

ماحولیاتی ماہرین اس صورتحال کو روکنے کے لیے فوری اور مربوط اقدامات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دنیا کو نہ صرف صنعتی سرگرمیوں میں کاربن کے اخراج کو کم کرنا ہوگا بلکہ توانائی کے متبادل ذرائع کو ترجیح دینا ہوگی۔ شمسی توانائی، ہوا سے بجلی اور بجلی سے چلنے والی گاڑیاں اس وقت ناگزیر انتخاب بن چکے ہیں۔

ماحولیاتی تبدیلی اب صرف ماہرین کی گفتگو یا رپورٹوں تک محدود مسئلہ نہیں رہا، یہ ایک ایسی حقیقت بن چکا ہے جو ہر انسان کی روزمرہ زندگی کو براہِ راست متاثر کر رہا ہے۔ اس لیے عوامی شعور کی بیداری، حکومتی پالیسیوں میں سنجیدگی اور عالمی سطح پر تعاون وقت کی اہم ترین ضرورت بن چکی ہے۔

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: کاربن ڈائی آکسائیڈ کی زمین کے ہے اور چکی ہے

پڑھیں:

ملک بھر میں انٹرنیٹ کی رفتار سست، صارفین شدید پریشان

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

لاہور(آن لائن) ملک بھر میں انٹرنیٹ کی رفتار تاحال سست ہے، صارفین کو اپ لوڈنگ اور ڈاؤن لوڈنگ میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ انٹرنیٹ کی کم رفتار کے باعث ویڈیوز اور پیغامات بھیجنے اور وصول کرنے میں تاخیر ہو رہی ہے جبکہ کاروباری سرگرمیاں اور
آن لائن کلاسز بھی متاثر ہو رہی ہیں۔ذرائع کے مطابق انٹرنیٹ کی رفتار سست ہونے کی بنیادی وجہ سعودی عرب کے قریب زیر سمندر انٹرنیٹ کیبلز میں خرابی ہے جو تاحال درست نہ ہو سکی۔ پی ٹی سی ایل نے تصدیق کی ہے کہ انٹرنیٹ سروس جزوی طور پر متاثر ہے اور شام کے اوقات میں یہ مسئلہ زیادہ بڑھ جاتا ہے۔پی ٹی سی ایل کے مطابق انٹرنیٹ کی رفتار بہتر کرنے کے لیے اقدامات جاری ہیں، تاہم فالٹ مکمل دور ہونے کا کوئی وقت نہیں بتایا جا سکتا۔ حکام کے مطابق زیر سمندر کیبلز کی مرمت کے لیے خصوصی جہازوں اور سازگار موسمی حالات کی ضرورت ہے، جس کے باعث مرمت میں کئی ہفتے لگ سکتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • راولپنڈی بورڈ؛ انٹرمیڈیٹ کے نتائج میں پہلی تینوں پوزیشنز طالبات کے نام، کامیابی کی ریکارڈ شرح
  • ملک بھر میں انٹرنیٹ کی رفتار سست، صارفین شدید پریشان
  • مئی 2025: وہ زخم جو اب بھی بھارت کو پریشان کرتے ہیں
  • زمین کے ستائے ہوئے لوگ
  • فشریز ڈیپارٹمنٹ کی پہلی خاتون چیئرپرسن فاطمہ مجید
  • بارشوں کے باوجود لاہور میں زیر زمین پانی کی سطح تیزی سے کمی ریکارڈ
  • یوسف پٹھان سرکاری زمین پر قابض قرار، مشہور شخصیات قانون سے بالاتر نہیں، گجرات ہائیکورٹ
  • اسرائیل نے غزہ میں قحط نہ ہونے کا پروپیگنڈا کرنے کیلئے لاکھوں یورو خرچ کیے، رپورٹ میں انکشاف
  • غزہ میں قحط اور نسل کشی چھپانے کیلئے اسرائیل کی جانب سے لاکھوں ڈالر خرچ کرنے کا انکشاف
  • ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لئے صوبائی حکومتوں کے اشتراک سے 300 یومیہ منصوبہ