Express News:
2025-06-17@02:27:17 GMT

ایران ڈٹ گیا ہے

اشاعت کی تاریخ: 17th, June 2025 GMT

اسرائیل اور ایران کے درمیان شدید فضائی حملوں اور میزائلوں کے داغنے کا سلسلہ جاری ہے، ایک دوسرے پر تابڑ توڑ حملے کیے گئے ہیں۔ ایران نے تل ابیب اور مقبوضہ بیت المقدس میں بھی میزائل حملے کیے، اسرائیلی جوہری تنصیبات ڈیمونا کو بھی نشانہ بنائے جانے کی اطلاعات سامنے آئی ہیں، جب کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عندیہ دیا ہے کہ امریکا، ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری جنگ میں شامل ہوسکتا ہے۔

 درحقیقت مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کی جارحانہ اور تحکمانہ پالیسی نے خطے کو مزید غیر مستحکم کردیا ہے۔ تہران پر ہوئے حملوں سے ایران چراغ پا ہے۔ اس نے اپنی ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے امریکا کے ساتھ چھٹے نیو کلیائی مذاکرات سے رسمی طور پر پیچھے ہٹنے کا اعلان بھی کر دیا ہے۔

ایرانی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس طرح کے ’’جارحانہ اور اکساوے والے عمل‘‘ کے بعد بات چیت کی کوئی بھی بنیاد نہیں بچتی۔ ایرانی حملوں کے بعد اسرائیل میں ہنگامی صورتحال نافذ ہے جب کہ شہریوں کو محتاط رہنے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں، حالانکہ ابتدائی اسرائیلی حملے میں ایران کی عسکری قیادت کی شہادت اور اسٹبلشمنٹ کے بنیادی ڈھانچے کو نقصان پہنچنے کے بعد بادی النظر میں ایسا لگتا تھا کہ ایران کے قدم اکھڑ جائیں گے، لیکن اعلیٰ سطح قیادت کی شہادتوں کے بعد متبادل قیادت نے فوری کمان سنبھال لی ہے، ایران نے اسرائیل پر جوابی حملے کرکے دنیا کو حیران کردیا ہے۔

اسرائیل کے عسکری بجٹ کا سالانہ 10 فی صد امریکا ادا کرتا ہے۔ جنگی حالات میں امریکا کی اسرائیل کو یہ امداد اربوں ڈالر کی فراہمی تک جا پہنچتی ہے۔ امریکا نے اسرائیل کو آٹھ ارب ڈالرکا امدادی پیکیج دیا ہے۔ یہودی وجود کے پاس اپنے ملکی وسائل اتنے موجود ہی نہیں ہیں کہ وہ اپنی طاقت سے جنگیں لڑ سکے۔ یہ امریکا ہے جو اسرائیل کی جنگیں لڑتا آیا ہے۔ کوئی بھی امریکی صدر ہو وہ امریکی ہتھیار، اسلحہ، پیسہ اور ہر طرح کی حفاظتی گارنٹی اسرائیل کو دیتا آیا ہے ۔

ایران کے اسرائیل پر تابڑ توڑ میزائل حملوں نے دنیا کو حیران و پریشان کر کے رکھ دیا ہے، تل ابیب اور اس کے ارد گرد کے علاقوں میں جگہ جگہ آگ لگی ہوئی ہے، عمارتیں کھنڈر بن گئی ہیں، شاید یہ ابھی شروعات ہے کیونکہ طاقتور عسکری تنظیم پاسدارانِ انقلاب نے سخت الفاظ میں خبردارکیا ہے کہ اسرائیل پر جلد ہی ’’ خیبر‘‘ میزائل داغے جائیں گے، جس کے اثرات دیکھ کر دنیا حیران رہ جائے گی فی الحال ایرانی افواج اسرائیل میں اْن مخصوص اہداف کو نشانہ بنا رہی ہیں جہاں سے ایران اور فلسطین کے خلاف جارحیت کی جا رہی ہے۔’’ آپریشن وعدہ صادق سوم‘‘ کے تحت اسرائیلی فوجی تنصیبات، اسلحہ ساز فیکٹریوں اور فوجی اڈوں پر میزائل حملے جاری ہیں۔

پاسداران انقلاب کے مطابق اسرائیلی حکام کے دعوؤں کے برعکس ایرانی میزائل اپنے اہداف کو کامیابی سے نشانہ بنا رہے ہیں اور یہ حملے اسرائیل کے ہاتھوں بے گناہوں کے خون بہائے جانے کا جواب ہیں ، جو اسرائیل کے لیے ایک حیران کن مرحلہ ثابت ہوگا۔ ایران نے صرف ایک گھنٹے میں 10 اسرائیلی ڈرونز مار گرانے کا دعویٰ کیا ہے۔ ایران کی خاتم الانبیاء ایئر ڈیفنس بیس کے کمانڈر بریگیڈیئر جنرل علی رضا صباحی فرد نے مقامی میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ایک گھنٹے کے دوران ایران کی فضائی دفاعی فورسز نے صیہونی حکومت کے 10 دشمن ڈرونز کو ملک کے مختلف حصوں میں کامیابی سے مار گرایا ہے۔ ممکنہ طور پر ایرانی ایئر ڈیفنس نیٹ ورک نے یہ کارروائی ہر مزگان، کرمانشاہ، مغربی آذربائیجان، لرستان، تہران اور خوزستان کے صوبوں میں کی۔خبروں کے مطابق ان علاقوں میں دفاعی فضائی نظام اسرائیلی حملوں کے انسداد کے لیے آپریشنز جاری رکھے ہوئے ہے۔

سینئر فوجی کمانڈروں کے بیانات کی روشنی میں ایران آیندہ دنوں میں خطے میں موجود امریکی اڈوں کو بھی نشانہ بنائے گا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری کشیدگی نے شدت اختیار کر لی ہے، ایران نے اتوار کی صبح اسرائیل پر چھٹا بڑا حملہ کیا جس میں درجنوں میزائل داغے گئے۔ ایران کی جانب سے اسرائیل کے دارالحکومت تل ابیب میں میزائلوں سے 5 مقامات پر تباہی ہوئی اور ایک 32 منزلہ عمارت میں آگ لگ گئی۔

 اس وقت دنیا ایک دوراہے پرکھڑی ہے یا تو ہم اقوامِ متحدہ کے چارٹر، عالمی قوانین اور انصاف کے اصولوں کے ساتھ کھڑے ہوں گے یا پھر ہم طاقت، جارحیت اور غلبے کے فلسفے کے سامنے ہتھیار ڈال دیں گے۔ ایران کی حمایت کا مطلب کسی خاص حکومت یا نظام کی تائید نہیں بلکہ اْس اصول کی حمایت ہے کہ کوئی ملک دوسرے ملک کی خود مختاری کو پامال نہیں کر سکتا، اگر آج دنیا خاموش رہی تو کل یہی روش دوسروں کے لیے بھی خطرہ بن جائے گی۔ ایران نے ہمیشہ کہا ہے کہ اْس کا نیوکلیئر پروگرام پْرامن مقاصد کے لیے ہے اور اس کی تصدیق بین الاقوامی ماہرین بھی کرچکے ہیں، اگر اسرائیل یا کوئی اور ملک ان یقین دہانیوں سے مطمئن نہیں تو عالمی سطح پر مذاکرات، سفارتکاری اور معاہدوں کا راستہ موجود ہے۔ حملہ اور بمباری بین الاقوامی برادری کی روح کے منافی ہے۔

یہ حملہ ایک اور اہم پہلو کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے۔ ایران اور امریکا کے درمیان عمان میں نئے سفارتی مذاکرات کا آغاز متوقع تھا، جن کا مقصد ایران کے نیوکلیئر پروگرام پر بات چیت کو دوبارہ زندہ کرنا تھا۔ اسرائیلی بمباری صرف عسکری کارروائی نہیں بلکہ ایک سوچا سمجھا سیاسی قدم ہے تاکہ ان مذاکرات کو سبوتاژ کیا جائے اور خطے میں عدم استحکام کو مزید گہرا کیا جائے۔ یہ حملہ امن کی کوششوں پر بم ہے اور اسرائیل کی یہ حکمت عملی نہ صرف ایران بلکہ پورے خطے کے لیے تباہی کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔ پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے فوری طور پر اسرائیلی حملے کی مذمت کی ہے اور اسے اقوامِ متحدہ کے چارٹر، عالمی قوانین اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔

اسرائیل کی اس کارروائی کے ممکنہ اثرات صرف ایران تک محدود نہیں رہیں گے۔ شام، لبنان، عراق اور یمن میں ایران کے اتحادی گروہ بھی میدان میں آسکتے ہیں۔ یہ لمحہ صرف ایران کے لیے نہیں بلکہ پوری مسلم اْمہ کے لیے ایک آزمائش ہے، آج اگر ایک مسلم ملک پر حملہ ہو رہا ہے اور ہم خاموش رہتے ہیں، تو کل کو کسی اور مسلم ریاست کی باری بھی آ سکتی ہے۔ فلسطین، شام، لبنان، افغانستان، عراق اور یمن کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔روس یوکرین تنازعہ، ایران اسرائیل کشیدگی اور ہندوستان پاکستان تعلقات کی گرما گرمی، یہ سب وہ دھاگے ہیں جو ایک دوسرے سے جڑ کر عالمی جنگ کا جال بن رہے ہیں۔ روس اور یوکرین کی جنگ نے مغرب اور مشرق کے درمیان ایک نئی سرد جنگ کو جنم دیا ہے۔

نیٹو کی توسیع، امریکی مفادات اور روس کی جارحانہ حکمت عملی نے یورپ کو ایک بارود کے ڈھیر پر بٹھا دیا ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ جب طاقتیں اپنے مفادات کے لیے سر جوڑتی ہیں، تو دنیا تباہی کے دہانے پر پہنچ جاتی ہے۔ آج کا عالمی منظر نامہ بھی کچھ اسی طرح کا ہے۔ مشرق وسطیٰ سے لے کر جنوبی ایشیا تک، تناؤ کی وہ لکیر کھنچی ہوئی ہے جو کسی بھی وقت پھٹ سکتی ہے۔ تیسری عالمی جنگ کے خدشات اسی لیے ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ عالمی طاقتیں اپنے مفادات کے لیے پراکسی جنگیں لڑ رہی ہیں۔ یہ پراکسی جنگیں، جیسے کہ شام، یمن اور اب ایران میں جاری تنازعات، ایک بڑے تصادم کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ جب طاقتیں اپنے ہتھیاروں کو چمکاتی ہیں اور اپنے اتحادیوں کو اکساتی ہیں، تو امن کے امکانات دم توڑ دیتے ہیں۔

اس کے علاوہ، معاشی بحران، وسائل کی کمی اور ماحولیاتی تبدیلیوں نے بھی عالمی تناؤ کو بڑھاوا دیا ہے، جب وسائل کی جنگ شروع ہوتی ہے، تو قومیں اپنے وجودکی جنگ لڑنے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔ اسرائیل کی جارحانہ پالیسیاں، ہندوستان کے ساتھ اس کی گہری یاری، ایران میں خفیہ اداروں را اور موساد کا نیٹ ورک یہ سب وہ عوامل ہیں جو دنیا کو ایک عظیم سانحے کی دہلیز پر لے آئے ہیں۔ روس یوکرین تنازعہ، ایران اسرائیل کشیدگی اور ہندوستان، پاکستان تعلقات کی گرما گرمی یہ سب وہ دھاگے ہیں جو ایک دوسرے سے جڑ کر عالمی جنگ کے خدشات میں اضافہ کر رہے ہیں۔

روس اور یوکرین کی جنگ نے مغرب اور مشرق کے درمیان ایک نئی سرد جنگ کو جنم دیا ہے۔ نیٹو کی توسیع، امریکی مفادات اور روس کی جارحانہ حکمت عملی نے یورپ کو ایک بارود کے ڈھیر پر بٹھا دیا ہے۔دوسری طرف، اس صورت حال میں، چین اور روس کی ایران کے ساتھ قربت، اور امریکا کی اسرائیل کے ساتھ مکمل حمایت، عالمی طاقتوں کو 2 خیموں میں تقسیم کر رہی ہے۔ جب یہ دونوں خیمے ٹکرائیں گے، تو نتیجہ ایک عالمی جنگ کی صورت میں نکل سکتا ہے۔

عالمی منظر نامہ اس وقت ایک ایسے چوراہے پر کھڑا ہے جہاں ہر موڑ پر جنگ کے سائے منڈلا رہے ہیں۔ یہ کوئی افسانہ نہیں، بلکہ وہ تلخ حقیقت ہے جو عالمی طاقتوں کی چالوں، جغرافیائی سیاسی دباؤ، اور بدنیتی پر مبنی ایجنڈوں سے جنم لے رہی ہے۔ تیسری عالمی جنگ کا خطرہ جتنا جلد ممکن ہو ٹالا جائے تو بہتر ہے ورنہ یہ ایک ایسی آگ ہے جو چنگاریوں سے شعلوں کی طرف بڑھ کر سب کچھ جلا کر راکھ کر دے گی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اسرائیل پر کی جارحانہ اسرائیل کی اسرائیل کے ایران اور کے درمیان عالمی جنگ ایران کی ایران نے ایران کے ایران ا رہے ہیں کے ساتھ ہے کہ ا کی جنگ کے لیے کے بعد دیا ہے ہے اور اور اس

پڑھیں:

ایران اسرائیل جنگـ : تیل کی عالمی قیمتوں میں بڑااضافہ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

نیویارک (آن لائن) ایران اور اسرائیل کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے اثرات عالمی معیشت پر بھی پڑنے لگے ہیں۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق، اسرائیلی فضائی حملوں کے بعد عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹس کے مطابق، برینٹ آئل کی قیمت میں 7.4 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے جس کے بعد نئی قیمت 74.46 ڈالر فی بیرل تک پہنچ گئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کروڈ آئل کی قیمت میں بھی 5.7 فیصد اضافہ ہوا ہے اور اب اس کی نئی قیمت 73.15 ڈالر فی بیرل ہو چکی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر مشرق وسطیٰ میں کشیدگی برقرار رہی تو عالمی توانائی کی قیمتوں میں مزید اضافہ دیکھنے کو مل سکتا ہے، جس کے اثرات ترقی پذیر اور ترقی یافتہ دونوں معیشتوں پر پڑسکتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • ایران پر اسرائیلی حملہ: عالمی امن کیلیے خطرہ!
  • ایران اسرائیل کشیدگی، تیل کی قیمتوں میں اضافہ
  • تیسری عالمی جنگ کےسائے
  • اسرائیلی جارحیت اور جنگل کا قانون
  • فلسطین میں نسل کشی پر خاموشی نے ایران پر حملوں کا راستہ ہموار کیا، ترک صدر
  • ایران کیخلاف اسرائیلی جارحیت پر مقبوضہ کشمیر میں غم و غصے کی لہر
  • اسرائیلی جارحیت عالمی امن کیلیے خطرہ!
  • اسرائیل کو لگام نہ ڈالی گئی تو عالمی امن خطرے میں پڑ جائے گا، مولانا فضل الرحمان
  • ایران اسرائیل جنگـ : تیل کی عالمی قیمتوں میں بڑااضافہ