Express News:
2025-09-18@21:27:38 GMT

ایران ڈٹ گیا ہے

اشاعت کی تاریخ: 17th, June 2025 GMT

اسرائیل اور ایران کے درمیان شدید فضائی حملوں اور میزائلوں کے داغنے کا سلسلہ جاری ہے، ایک دوسرے پر تابڑ توڑ حملے کیے گئے ہیں۔ ایران نے تل ابیب اور مقبوضہ بیت المقدس میں بھی میزائل حملے کیے، اسرائیلی جوہری تنصیبات ڈیمونا کو بھی نشانہ بنائے جانے کی اطلاعات سامنے آئی ہیں، جب کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عندیہ دیا ہے کہ امریکا، ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری جنگ میں شامل ہوسکتا ہے۔

 درحقیقت مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کی جارحانہ اور تحکمانہ پالیسی نے خطے کو مزید غیر مستحکم کردیا ہے۔ تہران پر ہوئے حملوں سے ایران چراغ پا ہے۔ اس نے اپنی ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے امریکا کے ساتھ چھٹے نیو کلیائی مذاکرات سے رسمی طور پر پیچھے ہٹنے کا اعلان بھی کر دیا ہے۔

ایرانی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس طرح کے ’’جارحانہ اور اکساوے والے عمل‘‘ کے بعد بات چیت کی کوئی بھی بنیاد نہیں بچتی۔ ایرانی حملوں کے بعد اسرائیل میں ہنگامی صورتحال نافذ ہے جب کہ شہریوں کو محتاط رہنے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں، حالانکہ ابتدائی اسرائیلی حملے میں ایران کی عسکری قیادت کی شہادت اور اسٹبلشمنٹ کے بنیادی ڈھانچے کو نقصان پہنچنے کے بعد بادی النظر میں ایسا لگتا تھا کہ ایران کے قدم اکھڑ جائیں گے، لیکن اعلیٰ سطح قیادت کی شہادتوں کے بعد متبادل قیادت نے فوری کمان سنبھال لی ہے، ایران نے اسرائیل پر جوابی حملے کرکے دنیا کو حیران کردیا ہے۔

اسرائیل کے عسکری بجٹ کا سالانہ 10 فی صد امریکا ادا کرتا ہے۔ جنگی حالات میں امریکا کی اسرائیل کو یہ امداد اربوں ڈالر کی فراہمی تک جا پہنچتی ہے۔ امریکا نے اسرائیل کو آٹھ ارب ڈالرکا امدادی پیکیج دیا ہے۔ یہودی وجود کے پاس اپنے ملکی وسائل اتنے موجود ہی نہیں ہیں کہ وہ اپنی طاقت سے جنگیں لڑ سکے۔ یہ امریکا ہے جو اسرائیل کی جنگیں لڑتا آیا ہے۔ کوئی بھی امریکی صدر ہو وہ امریکی ہتھیار، اسلحہ، پیسہ اور ہر طرح کی حفاظتی گارنٹی اسرائیل کو دیتا آیا ہے ۔

ایران کے اسرائیل پر تابڑ توڑ میزائل حملوں نے دنیا کو حیران و پریشان کر کے رکھ دیا ہے، تل ابیب اور اس کے ارد گرد کے علاقوں میں جگہ جگہ آگ لگی ہوئی ہے، عمارتیں کھنڈر بن گئی ہیں، شاید یہ ابھی شروعات ہے کیونکہ طاقتور عسکری تنظیم پاسدارانِ انقلاب نے سخت الفاظ میں خبردارکیا ہے کہ اسرائیل پر جلد ہی ’’ خیبر‘‘ میزائل داغے جائیں گے، جس کے اثرات دیکھ کر دنیا حیران رہ جائے گی فی الحال ایرانی افواج اسرائیل میں اْن مخصوص اہداف کو نشانہ بنا رہی ہیں جہاں سے ایران اور فلسطین کے خلاف جارحیت کی جا رہی ہے۔’’ آپریشن وعدہ صادق سوم‘‘ کے تحت اسرائیلی فوجی تنصیبات، اسلحہ ساز فیکٹریوں اور فوجی اڈوں پر میزائل حملے جاری ہیں۔

پاسداران انقلاب کے مطابق اسرائیلی حکام کے دعوؤں کے برعکس ایرانی میزائل اپنے اہداف کو کامیابی سے نشانہ بنا رہے ہیں اور یہ حملے اسرائیل کے ہاتھوں بے گناہوں کے خون بہائے جانے کا جواب ہیں ، جو اسرائیل کے لیے ایک حیران کن مرحلہ ثابت ہوگا۔ ایران نے صرف ایک گھنٹے میں 10 اسرائیلی ڈرونز مار گرانے کا دعویٰ کیا ہے۔ ایران کی خاتم الانبیاء ایئر ڈیفنس بیس کے کمانڈر بریگیڈیئر جنرل علی رضا صباحی فرد نے مقامی میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ایک گھنٹے کے دوران ایران کی فضائی دفاعی فورسز نے صیہونی حکومت کے 10 دشمن ڈرونز کو ملک کے مختلف حصوں میں کامیابی سے مار گرایا ہے۔ ممکنہ طور پر ایرانی ایئر ڈیفنس نیٹ ورک نے یہ کارروائی ہر مزگان، کرمانشاہ، مغربی آذربائیجان، لرستان، تہران اور خوزستان کے صوبوں میں کی۔خبروں کے مطابق ان علاقوں میں دفاعی فضائی نظام اسرائیلی حملوں کے انسداد کے لیے آپریشنز جاری رکھے ہوئے ہے۔

سینئر فوجی کمانڈروں کے بیانات کی روشنی میں ایران آیندہ دنوں میں خطے میں موجود امریکی اڈوں کو بھی نشانہ بنائے گا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری کشیدگی نے شدت اختیار کر لی ہے، ایران نے اتوار کی صبح اسرائیل پر چھٹا بڑا حملہ کیا جس میں درجنوں میزائل داغے گئے۔ ایران کی جانب سے اسرائیل کے دارالحکومت تل ابیب میں میزائلوں سے 5 مقامات پر تباہی ہوئی اور ایک 32 منزلہ عمارت میں آگ لگ گئی۔

 اس وقت دنیا ایک دوراہے پرکھڑی ہے یا تو ہم اقوامِ متحدہ کے چارٹر، عالمی قوانین اور انصاف کے اصولوں کے ساتھ کھڑے ہوں گے یا پھر ہم طاقت، جارحیت اور غلبے کے فلسفے کے سامنے ہتھیار ڈال دیں گے۔ ایران کی حمایت کا مطلب کسی خاص حکومت یا نظام کی تائید نہیں بلکہ اْس اصول کی حمایت ہے کہ کوئی ملک دوسرے ملک کی خود مختاری کو پامال نہیں کر سکتا، اگر آج دنیا خاموش رہی تو کل یہی روش دوسروں کے لیے بھی خطرہ بن جائے گی۔ ایران نے ہمیشہ کہا ہے کہ اْس کا نیوکلیئر پروگرام پْرامن مقاصد کے لیے ہے اور اس کی تصدیق بین الاقوامی ماہرین بھی کرچکے ہیں، اگر اسرائیل یا کوئی اور ملک ان یقین دہانیوں سے مطمئن نہیں تو عالمی سطح پر مذاکرات، سفارتکاری اور معاہدوں کا راستہ موجود ہے۔ حملہ اور بمباری بین الاقوامی برادری کی روح کے منافی ہے۔

یہ حملہ ایک اور اہم پہلو کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے۔ ایران اور امریکا کے درمیان عمان میں نئے سفارتی مذاکرات کا آغاز متوقع تھا، جن کا مقصد ایران کے نیوکلیئر پروگرام پر بات چیت کو دوبارہ زندہ کرنا تھا۔ اسرائیلی بمباری صرف عسکری کارروائی نہیں بلکہ ایک سوچا سمجھا سیاسی قدم ہے تاکہ ان مذاکرات کو سبوتاژ کیا جائے اور خطے میں عدم استحکام کو مزید گہرا کیا جائے۔ یہ حملہ امن کی کوششوں پر بم ہے اور اسرائیل کی یہ حکمت عملی نہ صرف ایران بلکہ پورے خطے کے لیے تباہی کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔ پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے فوری طور پر اسرائیلی حملے کی مذمت کی ہے اور اسے اقوامِ متحدہ کے چارٹر، عالمی قوانین اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔

اسرائیل کی اس کارروائی کے ممکنہ اثرات صرف ایران تک محدود نہیں رہیں گے۔ شام، لبنان، عراق اور یمن میں ایران کے اتحادی گروہ بھی میدان میں آسکتے ہیں۔ یہ لمحہ صرف ایران کے لیے نہیں بلکہ پوری مسلم اْمہ کے لیے ایک آزمائش ہے، آج اگر ایک مسلم ملک پر حملہ ہو رہا ہے اور ہم خاموش رہتے ہیں، تو کل کو کسی اور مسلم ریاست کی باری بھی آ سکتی ہے۔ فلسطین، شام، لبنان، افغانستان، عراق اور یمن کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔روس یوکرین تنازعہ، ایران اسرائیل کشیدگی اور ہندوستان پاکستان تعلقات کی گرما گرمی، یہ سب وہ دھاگے ہیں جو ایک دوسرے سے جڑ کر عالمی جنگ کا جال بن رہے ہیں۔ روس اور یوکرین کی جنگ نے مغرب اور مشرق کے درمیان ایک نئی سرد جنگ کو جنم دیا ہے۔

نیٹو کی توسیع، امریکی مفادات اور روس کی جارحانہ حکمت عملی نے یورپ کو ایک بارود کے ڈھیر پر بٹھا دیا ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ جب طاقتیں اپنے مفادات کے لیے سر جوڑتی ہیں، تو دنیا تباہی کے دہانے پر پہنچ جاتی ہے۔ آج کا عالمی منظر نامہ بھی کچھ اسی طرح کا ہے۔ مشرق وسطیٰ سے لے کر جنوبی ایشیا تک، تناؤ کی وہ لکیر کھنچی ہوئی ہے جو کسی بھی وقت پھٹ سکتی ہے۔ تیسری عالمی جنگ کے خدشات اسی لیے ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ عالمی طاقتیں اپنے مفادات کے لیے پراکسی جنگیں لڑ رہی ہیں۔ یہ پراکسی جنگیں، جیسے کہ شام، یمن اور اب ایران میں جاری تنازعات، ایک بڑے تصادم کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ جب طاقتیں اپنے ہتھیاروں کو چمکاتی ہیں اور اپنے اتحادیوں کو اکساتی ہیں، تو امن کے امکانات دم توڑ دیتے ہیں۔

اس کے علاوہ، معاشی بحران، وسائل کی کمی اور ماحولیاتی تبدیلیوں نے بھی عالمی تناؤ کو بڑھاوا دیا ہے، جب وسائل کی جنگ شروع ہوتی ہے، تو قومیں اپنے وجودکی جنگ لڑنے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔ اسرائیل کی جارحانہ پالیسیاں، ہندوستان کے ساتھ اس کی گہری یاری، ایران میں خفیہ اداروں را اور موساد کا نیٹ ورک یہ سب وہ عوامل ہیں جو دنیا کو ایک عظیم سانحے کی دہلیز پر لے آئے ہیں۔ روس یوکرین تنازعہ، ایران اسرائیل کشیدگی اور ہندوستان، پاکستان تعلقات کی گرما گرمی یہ سب وہ دھاگے ہیں جو ایک دوسرے سے جڑ کر عالمی جنگ کے خدشات میں اضافہ کر رہے ہیں۔

روس اور یوکرین کی جنگ نے مغرب اور مشرق کے درمیان ایک نئی سرد جنگ کو جنم دیا ہے۔ نیٹو کی توسیع، امریکی مفادات اور روس کی جارحانہ حکمت عملی نے یورپ کو ایک بارود کے ڈھیر پر بٹھا دیا ہے۔دوسری طرف، اس صورت حال میں، چین اور روس کی ایران کے ساتھ قربت، اور امریکا کی اسرائیل کے ساتھ مکمل حمایت، عالمی طاقتوں کو 2 خیموں میں تقسیم کر رہی ہے۔ جب یہ دونوں خیمے ٹکرائیں گے، تو نتیجہ ایک عالمی جنگ کی صورت میں نکل سکتا ہے۔

عالمی منظر نامہ اس وقت ایک ایسے چوراہے پر کھڑا ہے جہاں ہر موڑ پر جنگ کے سائے منڈلا رہے ہیں۔ یہ کوئی افسانہ نہیں، بلکہ وہ تلخ حقیقت ہے جو عالمی طاقتوں کی چالوں، جغرافیائی سیاسی دباؤ، اور بدنیتی پر مبنی ایجنڈوں سے جنم لے رہی ہے۔ تیسری عالمی جنگ کا خطرہ جتنا جلد ممکن ہو ٹالا جائے تو بہتر ہے ورنہ یہ ایک ایسی آگ ہے جو چنگاریوں سے شعلوں کی طرف بڑھ کر سب کچھ جلا کر راکھ کر دے گی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اسرائیل پر کی جارحانہ اسرائیل کی اسرائیل کے ایران اور کے درمیان عالمی جنگ ایران کی ایران نے ایران کے ایران ا رہے ہیں کے ساتھ ہے کہ ا کی جنگ کے لیے کے بعد دیا ہے ہے اور اور اس

پڑھیں:

اسرائیل کو عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی تنہائی کا سامنا ہے .نیتن یاہو کا اعتراف

بیت المقدس(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔16 ستمبر ۔2025 )اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو نے اعتراف کیا کہ اسرائیل کو عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی تنہائی کا سامنا ہے اور اسے آنے والے سالوں میں مزید خود انحصار بننا پڑے گا” ٹائمز آف اسرائیل“ کے مطابق بیت المقدس میں اسرائیلی وزارت خزانہ کے اکاﺅنٹنٹ جنرل کی ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے نتن یاہو نے تسلیم کیا کہ اسرائیل ایک طرح سے تنہائی کا شکار ہے.

(جاری ہے)

نیتن یاہو نے کہا کہ غزہ پر حملوں کے بعد سے اسرائیل کو دو نئے خطرات کا سامنا ہے جن میں مسلم اکثریتی ممالک سے ہجرت کے نتیجے میں یورپ میں آبادیاتی تبدیلیاں اور نئی ٹیکنالوجیز کی مدد سے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر اسرائیل کے مخالفین کا اثر و رسوخ میں اضافہ شامل ہیں ان کے خیال میں یہ چیلنجز طویل عرصے سے کار فرما تھے، لیکن سات اکتوبر 2023 کو جنوبی اسرائیل میں حماس کے حملوں سے شروع ہونے والی جاری جنگ کے دوران سامنے آئے.

نتن یاہو نے یورپ میں آبادیاتی تبدیلیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہاں لامحدود ہجرت کے نتیجے میں مسلمان ایک اہم اقلیت اورپر اثر آواز رکھنے والے بہت زیادہ جارحانہ رویہ اختیار کرنے والے بن گئے ہیں. انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان ممالک کے مسلمان شہری یورپی حکومتوں پر اسرائیل مخالف پالیسیاں اپنانے کے لیے دباﺅ ڈال رہے ہیں اسرائیلی وزیر اعظم نے کہا کہ مسلمانوں کا مرکز غزہ نہیں بلکہ یہ عام طور پر صہیونیت کی مخالفت کر رہے ہیں اور بعض اوقات ایک اسلام پسند ایجنڈا ہے جو ان ریاستوں کو چیلنج کرتا ہے .

ان کا کہنا تھا کہ یہ اسرائیل پر پابندیاں اور ہر طرح کی پابندیاں پیدا کر رہا ہے یہ ہو رہا ہے یہ ایک ایسا عمل ہے جو گذشتہ 30 سالوں سے کام کر رہا ہے اور خاص طور پر پچھلی دہائی میں اور اس سے اسرائیل کی بین الاقوامی صورتحال بدل رہی ہے. ‘نتن یاہو نے متنبہ کیا کہ صورت حال ہتھیاروں پر پابندیوں کا باعث بن سکتی ہے حالانکہ یہ ابھی کے لیے صرف خدشات ہیں، معاشی پابندیوں کا آغاز بھی ہو سکتا ہے نتن یاہو کے مطابق دوسرا چیلنج اسرائیل کے حریفوں، جن میں این جی اوز اور قطر اور چین جیسی ریاستوں کی سرمایہ کاری ہے انہوں نے کہا کہ بوٹس، مصنوعی ذہانت اور اشتہارات کا استعمال کرتے ہوئے مغربی میڈیا کو اسرائیل مخالف ایجنڈے سے متاثر کیا جا رہا ہے اس سلسلے میں انہوں نے ٹک ٹاک کی مثال دی.

یادرہے کہ سات ستمبر 2023 سے غزہ میں شروع ہونے والی اسرائیلی جارحیت کے دوران اسرائیل فلسطینی علاقے کے کئی حصوں پر فضائی اور زمینی حملے کر چکا ہے، جن میں 64 ہزار سے زیادہ اموات ہوئی ہیں جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے اقوام متحدہ کے مطابق غزہ کے محاصرے کی وجہ سے وہاں جلد ہی قحط جیسی صورت حال کا سامنا ہو سکتا ہے اسرائیلی جارحیت کی وجہ سے بعض یورپی ممالک نے نہ صرف تل ابیب کے حملوں کی مذمت کی ہے بلکہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا بھی اعلان کیا ہے. 

متعلقہ مضامین

  • فلسطین، مزاحمت اور دو ریاستی حل کی حقیقت
  • قطر کا اسرائیلی حملے پر آئی سی سی میں قانونی چارہ جوئی کا عندیہ
  • فلسطینیوں کی نسل کشی اور جبری بیدخلی
  • نیو یارک ڈیکلریشن: اسرائیل کی سفارتی تنہائی؟؟
  • اسرائیل کی عالمی تنہائی بڑھ رہی، محاصرے کی سی کیفیت ہے، نیتن یاہو کا اعتراف
  • عالمی سطح پر اسرائیل کو ذلت اور شرمندگی کا سامنا
  • اسرائیل کو عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی تنہائی کا سامنا ہے .نیتن یاہو کا اعتراف
  • قطر نے اسرائیل کو تنہا کر دیا، ایران نے تباہ کرنے کی کوشش کی: نیتن یاہو
  • دوحہ اجلاس میں وزیراعظم پاکستان کی گونج
  • قطر اور دیگر ممالک کی پالیسیوں نے اسرائیل کو عالمی طور پر تنہا کردیا، نیتن یاہو