سینئر صحافی سہیل وڑائچ کا ایک ویڈیو کلپ سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہا ہے جس میں انہوں نے اداکارہ و گلوکارہ فضا علی کے تبصرے کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’میں اس قابل ہوں کہ میری توہین ہو‘۔

وائرل ہونے والی ویڈیو میں  سہیل وڑائچ سے ان کے اور میزبان و اداکارہ فضا علی کے حالیہ تنازع پر سوال کیا گیا جس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ نہ مجھے غصہ ہے اور نہ کسی سے نفرت۔ انہوں نے کہا کہ میں نے جتنا جواب دینا تھا وہ میں سماجی رابطوں کی سائٹ ایکس پر دے چکا ہوں۔

یہ بھی پڑھیں: ’صحافی نہ ہوتے تو واش روم صاف کرتے‘، فضا علی کے تبصرے پر سہیل وڑائچ بھی بول اٹھے

سہیل وڑائچ نے مزید کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ یہ تنازعہ اب ختم ہو جائے کیونکہ میں خود غلطیوں کا پتلا ہوں۔ مجھے لگتا ہے میں ہی دنیا کا سب سے بڑا گناہگار ہوں گا اس لیے میں کسی کو اس کا ذمہ دار سمجھتا ہوں اور نہ چاہتا ہوں کسی کی توہین ہو۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں اس قابل ہوں کہ میری توہین ہو۔

میں غلطیوں کا پتلا ہوں، مجھے لگتا ہے میں ہی دنیا کا سب سے بڑا گناہ گار ہونگا۔ میں اس قابل ہوں کہ میری توہین ہو۔ سہیل وڑائچ pic.

twitter.com/IjKPpgsWFu

— Salman Durrani (@DurraniViews) June 16, 2025

ان کا یہ ویڈیو کلپ سوشل میڈیا پر وائرل ہوا تو صارفین کی جانب سے اس پر مختلف تبصرے کیے گئے۔ صحافی انصار عباسی نےکہا کہ آپ کے احترام اور عزت میں اضافہ ہو۔ یقیناً عزت اور ذلت صرف اور صرف اللہ تعالی ہی کے ہاتھ میں ہے۔

بہت خوب ورائچ صاحب! آپ کے احترام اور عزت میں اضافہ ہو۔ یقیناً عزت اور ذلت صرف اور صرف اللہ تعالی ہی کے ہاتھ میں ہے۔ https://t.co/LDaW9Hd5jK

— Ansar Abbasi (@AnsarAAbbasi) June 16, 2025

ایک صارف نے لکھا کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ آپ پاکستان کے پسندیدہ ترین صحافیوں میں سے ایک ہیں۔

No doubt he's one of Pakistan most favourite Journalists. Love u Warraich Sab????#sohailwarraich #GeoNews https://t.co/cIWb2tpvX5

— Asim Kamal Wahid (@asim_pak07) June 16, 2025

محمد عمر خالد نے سہیل وڑائچ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ عظیم انسان ہیں۔

@suhailswarraich sir you are great man https://t.co/oz8LZjjlIR

— M Umar Khalid محمدعمرخالد (@MUmarKhalid14) June 16, 2025

زمان مہر نے طنزاً لکھا کہ فضا علی نے آپ کو کافی دکھ دیا ہے۔

فضا علی نے کافی دکھ دیا???? https://t.co/ELi6mPCvw3

— Zaman ???????????????????? (@Mrinsafian) June 16, 2025

 واضح رہے کہ اداکارہ و گلوکارہ فضا علی کو گزشتہ دنوں سینئر صحافی سہیل وڑائچ سے متعلق متنازع بیان دینے پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا جب انہوں ںے ایک پروگرام میں کہا کہ اگر سہیل وڑائچ صحافی نہ ہوتے تو کسی مشہور ہوٹل یا ریسٹورنٹ میں واش روم صاف کر رہے ہوتے، کیونکہ وہ ہر عورت کے واش روم میں چلے جاتے ہیں۔

فضا علی کے اس بیان کے بعد سوشل میڈیا صارفین نے ان کو خوب تنقہد کا نشانہ بنایا اور کہا کہ صحافی کی تضحیک کسی صورت قابل قبول نہیں۔ اداکارہ کے اس بیان پر سینئر صحافی نے جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ میری حیثیت بیت الخلا صاف کرنے والوں سے بھی کمتر ہے۔ میں تو گلیوں کی وہ خاک ہوں جسے میاں محمد بخش نے ’گلیاں دا روڑا کُوڑا‘ کہا تھا۔ میرے نزدیک بیت الخلا کی صفائی کوئی ذلت کی بات نہیں ہے بلکہ دوسروں کی گندگی کو صاف کرنا ایک عظیم خدمت ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

پاکستانی صحافی سہیل وڑائچ فضا علی

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: پاکستانی صحافی سہیل وڑائچ فضا علی سہیل وڑائچ فضا علی کے کہا کہ کہ میں

پڑھیں:

سعودی عرب میں ٹوئٹس کرنے پر صحافی کو سزائے موت

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 16 جون 2025ء) سعودی عرب میں حکام کا کہنا ہے کہ سن 2018 میں گرفتار کیے جانے والے ایک صحافی کو دہشت گردی اور غداری کے جرم میں سزائے موت دے دی گئی۔

سرکاری سعودی پریس ایجنسی کے مطابق، ملک کی اعلیٰ عدالت کی طرف سے سزائے موت کو برقرار رکھنے کے بعد چالیس سالہ ترکی الجاسر کو ہفتے کے روز موت کی سزا دی گئی۔

سکیورٹی فورسز نے سن 2018 میں الجاسر کے گھر پر چھاپہ مار کر انہیں گرفتار کیا تھا اور ان کا کمپیوٹر اور فون ضبط کر لیے گئے تھے، البتہ یہ واضح نہیں ہے کہ اس کیس کی سماعت کہاں ہوئی اور یہ مقدمہ کب تک چلا۔

سعودی پریس ایجنسی کے مطابق ترکی الجاسر کو ملک کی اعلیٰ عدالت کی جانب سے ان کی سزائے موت کو برقرار رکھنے کے بعد موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔

(جاری ہے)

عالمی سطح پر سزائے موت پر عمل درآمد میں غیر معمولی اضافہ

الجاسر نے سن 2013 سے 2015 تک ایک ذاتی بلاگ چلایا تھا اور وہ 2011 میں مشرق وسطیٰ کو ہلا دینے والی عرب بہار کی تحریکوں، خواتین کے حقوق اور بدعنوانی پر اپنے مضامین کے لیے معروف تھے۔

انسانی حقوق کے گروپوں کا موقف

صحافیوں کے تحفظ سے متعلق نیویارک میں قائم ایک ادارے 'کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس' (سی پی جے) کے مطابق سعودی حکام نے تسلسل سے اس بات کو برقرار رکھا کہ الجاسر پر الزامات کا تعلق سوشل میڈیا ایکس، جو پہلے ٹویٹر کے نام سے معروف تھا، پر ان کی متنازعہ پوسٹ تھیں۔

سعودی عرب: منشیات کی اسمگلنگ کے الزام میں ایرانیوں کو موت کی سزا

اپنی بعض متنازعہ پوسٹس میں الجاسر نے مبینہ طور پر سعودی عرب کے شاہی خاندان کے خلاف بدعنوانی کے الزامات لگائے تھے۔ الجاسر کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انہوں نے عسکریت پسندوں اور دہشت گردی سے متعلق بعض گروپوں کے بارے میں بھی متعدد متنازعہ مواد پوسٹ کیا تھا۔

سی پی جے کے پروگرام ڈائریکٹر کارلوس مارٹنیز ڈی لا سرنا نے موت کی سزا کی مذمت کی اور کہا کہ 2018 میں استنبول میں سعودی قونصل خانے میں واشنگٹن پوسٹ کے کالم نگار جمال خاشقجی کے قتل کے تناظر میں احتساب کے فقدان کی وجہ سے سعودی مملکت میں صحافیوں پر ظلم و ستم کا سلسلہ جاری ہے۔

انہوں نے کہا کہ جمال خاشقجی کے لیے انصاف فراہم کرنے میں عالمی برادری کی ناکامی نے صرف ایک صحافی کو دھوکہ نہیں دیا، بلکہ اس نے "عملاﹰحکمران ولی عہد محمد بن سلمان کو پریس پر ظلم و ستم جاری رکھنے کے لیے حوصلہ دیا ہے۔

"

سعودی عرب: رواں برس ریکارڈ 300 سے زائد افراد کو سزائے موت

سزائے موت کی مخالفت کرنے والے بین الاقوامی ایڈوکیسی گروپ ریپریو میں مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے سیکشن کے سربراہ جید باسیونی نے کہا کہ الجاسر کی موت کی سزا ایک بار پھر یہ ظاہر کرتی ہے کہ سعودی عرب میں ولی عہد محمد بن سلمان پر تنقید کرنے یا ان پر سوال کرنے کی سزا موت ہے۔

"

باسیونی نے مزید کہا کہ الجاسر پر صحافت کے 'جرم' کے لیے مکمل رازداری کے ساتھ مقدمہ چلایا گیا اور انہیں سزا دے دی گئی۔

سعودی عرب: سو سے زائد غیر ملکیوں کو سزائے موت، سب سے زیادہ پاکستانی

سعودی عرب کی قاتل ٹیم نے خاشقجی کو استنبول کے قونصل خانے میں قتل کر دیا تھا۔ امریکی انٹیلیجنس کمیونٹی نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ سعودی ولی عہد نے ہی اس آپریشن کا حکم دیا تھا، تاہم مملکت کا اصرار ہے کہ محمد بن سلمان خاشقجی کے قتل میں ملوث نہیں تھے۔

سزائے موت کے لیے سعودی عرب تنقید کی زد میں

انسانی حقوق کے گروپ سعودی عرب میں سزائے موت کی تعداد اور اس کے طریقوں کے حوالے سے تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔ مملکت میں آج بھی موت کی سزا پر عمل سر قلم کر کے کی جاتی ہے اور کئی بار ایسا اجتماعی طور پر کیا جاتا ہے۔

گزشتہ برس سعودی عرب میں موت کی سزا کی تعداد بڑھ کر 330 ہو گئی تھی۔

انسانی حقوق کے کارکنوں اور گروپوں کے مطابق مملکت میں اختلاف رائے کو سختی سے دبانے کا عمل بدستور جاری ہے۔

پچھلے مہینے ہی سعودی عرب میں ایک برطانوی بینک آف امریکہ کے تجزیہ کار کو ایک دہائی کی قید کی سزا سنائی گئی تھی، جو ان کے وکیل کے مطابق بظاہر ان کی سوشل میڈیا پر ڈیلیٹ کی گئی پوسٹ کی وجہ سے تھی۔

سعودی عرب: رواں برس سو سے زائد افراد کے سر قلم کر دیے گئے

سن 2021 میں سعودی اور امریکی، دوہری شہریت رکھنے والے سعد المادی کو گرفتار کیا گیا اور بعد میں انہیں بھی دہشت گردی سے متعلق الزامات پر 19 سال سے زیادہ قید کی سزا سنائی گئی۔

انہیں یہ سزا امریکہ میں رہتے ہوئے سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی ٹویٹس کے لیے دی گئی تھی۔ بعد میں انہیں 2023 میں رہا کر دیا گیا، تاہم ان پر مملکت چھوڑنے پر پابندی عائد کر دی گئی۔

ادارت: جاوید اختر

متعلقہ مضامین

  • چین تاجکستان کا قابل اعتماد ہمسایہ اور شراکت دار ہے، چینی صدر
  • یہ بھی میری ہی جنگ ہے
  • میری رولیکس گھڑی چوری ہونے کے معاملے کی تحقیقات کی جائیں؛ بلال یامین
  • میری ٹائم شعبے میں بے پناہ مواقع موجود ہیں، ہمیں ان سے فائدہ اٹھانا چاہیے، وزیر اعظم
  • ایران نے میری خواب گاہ کی کھڑکی پر میزائل فائر کیا، اسرائیلی وزیراعظم
  • سعودی عرب میں ٹوئٹس کرنے پر صحافی کو سزائے موت
  • عمران خان سے ملاقات نہ کرانے پر توہین عدالت کی درخواست کل سماعت کیلئے مقرر
  • اسرائیلی حملے قابل مذمت، ایران کو جوابی کارروائی کا پورا حق ہے، عوامی ورکرز بلوچستان
  • عالمی برادری اسرائیلی جارحیت کا نوٹس لیں، سہیل اکبر شیرازی