ایران کےساتھ اختلاف و اتفاق کا معاملہ الگ، پالیسیوں سے اختلاف، پاکستان میں مداخلت پر اعتراض، پراکسیز پر تنقید یکسر مختلف، لیکن جب اسرائیل جیسا بدمعاش حملہ آور ہو تو پھر یہ بھی میری ہی جنگ ہے۔ جب نیتن یاہو للکارے یا ٹرمپ آنکھیں دکھائے تو میں ایران ہوں۔ کل بھارت اس غلط فہمی میں پاکستان پر حملہ آور ہوا تھا کہ یہاں کا فتنہ انتشار ان کا راستہ ہموار کرے گا، لیکن وہ فتنہ چاہ کر بھی کچھ نہ کر سکا، بھارت اور اس کے ایجنٹ دونوں ہی رسوا ہوئے۔ آج بھارت کا سرپرست، بلکہ’’ ماں جایا‘‘ بھی یہی سوچ کر ایران پر پل پڑا کہ امت منقسم ہے، لیکن شہباز شریف سے محمد بن سلمان تک اور احمد الشریع جولانی سے اردوان تک، سب نے ایران کے ساتھ اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے جس طرح سے بنیان مرصوص ہونے کا ثبوت دیا ہے، یہ منظر یہود و ہنود اور ان کی ’’باوا آدم‘‘ کی موت ہے۔
یہ جنگ یہاں رکے گی نہیں، پھیلے گی۔ وقتی طور پر اگر امن کا وقفہ آ بھی گیا تو بہت مختصر ہوگا۔ یہ اللہ کے ماننے والوں اور اللہ کے باغیوں کے درمیان وہ آخری معرکہ ہو سکتا ہے جس کی بشارتیں اللہ کے نبی، آقا محمد ﷺ نے دے رکھی ہیں، لیکن اطمینان یہ ہے کہ اسرائیل کی اوچھی حرکت نے امہ کے تن مردہ میں جان ڈال دی ہے۔ وہ جو کل تک سود و زیاں کا حساب جوڑتے، امریکہ کی خوشنودی کی خاطر یہودیوں کو قبول کرنے کے راستے تلاش کر رہے تھے، انہیں بھی سمجھ آتی دکھائی دے رہی ہے۔ یقینا دنیا بدل رہی ہے، واضح طور پر دو بلاکس میں تقسیم ہو چکی ہے، وقت کے ساتھ یہ تقسیم بڑھے گی، تصادم کے امکانات بھی بڑھیں گے۔
یہ جنگ اپنے فیصلہ کن موڑ کی جانب بڑھتی ہے یا امن کے کسی مختصر وقفے کی طرف رخ کرتی ہے، اس میں امت کے لیے صرف مواقع ہی نہیں، سبق بھی ہیں۔اول یہ کہ یہود و ہنوداوران کےاتحادی کسی قیمت پرکسی مسلمان ملک کےحامی و ہمدرد نہیں ہو سکتے ، بھارت نےچاہ بہارسمیت ایران کے ساتھ بےشمار معاہدوں اورقربتوں کےباوجود دو ٹوک الفاظ میں اسرائیل کا ساتھ دےکر ثبوت مہیا کر دیا کہ آستین کے ان سانپوں کو جتنا بھی دودھ پلا لیں، یہ ڈسنے سے باز نہیں آئیں گے۔ لازم ہے کہ مسلم ممالک اپنے فیصلوں اورمعاہدوں میں ایران اور بھارت کے تعلقات اور انجام کو نہ بھولیں، خصوصاً عرب دوست، جو دل و جان سےبھارت پر فریفتہ ہیں اورمال ودولت لٹاتےچلےجارہے ہیں۔ ان کے لیے سبق ہے کہ خدانخواستہ وقت پڑا جو کہ اب زیادہ دور نہیں رہا ، تو یہی بھارت ان کا سب سے بڑا دشمن ہوگا، ان کے معاشروں میں پھیلے یہ بھارتی شہری دشمن کے سب سے بڑے جاسوس ثابت ہوں گے۔دوسرا سبق یہ کہ اختلافات جتنے بھی ہوجائیں، نفرتیں جتنی بھی بڑھ جائیں، یقینا ایران اور احمد الشریع سے زیادہ نہیں ہو سکتیں، لیکن جب وقت پڑتا ہے تو اپنے ہی کام آتے ہیں، زخموں کو بھول کر، نفرتوں کو نظرانداز کر کے۔ لازم ہے کہ مستقبل کی خارجہ پالیسیوں میں دھیان رکھاجائے کہ باہمی اختلاف اس حد تک نہ چلا جائے کہ کل اکٹھے بیٹھتے ہوئے نظریں جھکانا پڑیں۔
سب سے بڑھ کر، سب سے اہم یہ کہ دولت کے انبار ضرور لگائیں، عیاشیاں بھی کریں، لیکن نہ بھولیں کہ ’’ہےجرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات‘‘۔ دنیا طاقت کی ہے، کمزور کو کچل دیا جاتا ہے، اور کمزور اگر مسلمان ملک ہو تو پھر غلامی اس کا مقدر ہے۔المیہ یہ ہے کہ پاکستان، ترکی اور کسی حد تک ایران اپنے دفاع کی صلاحیت رکھتے ہیں، باقی امت کہاں کھڑی ہے؟ یہ کوئی راز کی بات نہیں۔ قطر،بحرین،سعودی عرب اور عراق میں امریکی افواج کے اڈےحقیقت بتانےکو کافی ہیں۔ ایران کے خلاف اسرائیلی جارحیت اور امریکہ، برطانیہ اور فرانس کی اندھی حمایت کے بعد سوال یہ ہے کہ ان ممالک کا اگر اسرائیل سے کوئی تنازع ہوا جو کہ زیادہ دور نہیں ،تو کیا یہی امریکی اڈے ان کے دفاع کو نہیں روندیں گے؟
وقت کے قاضی کا یہ اٹل فیصلہ اب مان لینا چاہیے کہ آپس کی لڑائیوں میں یقینا امریکی آپ کے ساتھ ہوں گے، کیونکہ دونوں جانب گرنے والی لاشیں ان کے دشمن مسلمانوں کی ہوں گی، بصورت دیگر نہیں۔وقت آگیا ہےکہ دولت کے انبار رکھنے والے سوچیں، سمجھیں اور اس جنگ کا سب سے قیمتی سبق ازبر کر لیں کہ دفاع اولین ضرورت ہے، مانگے تانگے کا نہیں، اپنا بااختیار دفاع ،جیسا پاکستان کاہے یا کم ازکم ایران کا ۔ لازم ہےکہ سبق سیکھا جائے اور او آئی سی نام کے مردہ گھوڑے کو چابک رسید کر کے اٹھایا جائے۔ چڑیوں کے اس چنبےکو عقابوں کا جھنڈ بنایا جائے۔ عالمِ اسلام نیٹو کی طرز پر مشترکہ دفاع کا معاہدہ کرے، بنیان مرصوص کی بنارکھی جائے۔ پاکستان اور ترکی کی ٹیکنالوجی،عربوں کاپیسہ، ایرانیوں اور افغانیوں کا جذبہ،اورافریقی مسلمانوں کی افرادی قوت مل کر،متحد ہو کر اٹھیں گے، تو دنیامیں کوئی تمہاری ہوا کو بھی نہ دیکھ سکےگا۔ روس اور چین قدرتی اتحادی کے طور پر دستیاب ہوں گے، تو دنیا کی طاقت اور دنیا کے فیصلے امریکہ کے محتاج نہیں رہیں گے۔
اسرائیل اور ایران کی اس جنگ نے کتاب ہدائت کا وہ بھولا ہوا سبق بھی پھر سے یاد کروادیا ہےکہ وَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بَعْضُهُمْ اَوْلِيَآءُ بَعْضٍ (انفال ۔73)یعنی یہ کافر آپس میں خواہ جتنی بھی دشمنی رکھتےہوں تمھارے خلاف سب کےسب ایک دوسرے کےمدد گار اور حمایتی ہیں۔ یہاں سمجھنے کی بات یہ ہے کہ حملہ ایران پر ہوا ہے ، جنگ اسرائیل سے ہے ، لیکن یہود وہنود کا گٹھ جوڑ پاکستان کو بھی لپیٹنے کےچکرمیں ہے ، حکومت ہی نہیں ، میڈیا اور سوشل میڈیا کو بھی بیدار رہنے کی ضرورت ہے ، ہر اڑتی چڑیا کے پیچھے بھاگنا اور بظاہر خوشنما الفاظ کو بلا تصدیق آگے پھیلانا تباہ کن بھی ہو سکتا ہے ، سب سے بڑی مثال ایک روز قبل سوشل میڈیا پر آنے اور چھاجانے والی یہ خبر ہے ، جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ’’ایران نے کہا ہے کہ پاکستان نے اسرائیل پر ایٹمی حملہ کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے ۔‘‘ اے آئی سے تیارکردہ یہ جعلی ویڈیو ایک ایسے اکائونٹ سے جاری کی گئی جو بھارتی راء آپریٹ کر رہی ہے ۔ اس جعلسازی کا واحد مقصد پاکستان کو ایک ایسے تنازعہ میں گھسیٹنے کی کوشش ہے جہاں اس نے واضح تزویراتی احتیاط برت رکھی ہے۔یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ جنگ ٹھنڈے دماغ اور چوکس حواس کا کھیل ہے،جذباتیت اور نعرے بازی کا اس سے کوئی تعلق نہیں ۔ دوسرے یہ کہ قومی سطح پر کھلنڈرے،لاابالی اورنعرے بازی کے مزاج سےنکل کر ذمہ دار ریاست کے ذمہ دار شہری بننےکی ضرورت ہے، جو لوگ دفاع وطن پر مامور ہیں ، یا جو ارباب بست وکشاد خارجہ امور کی گتھیاں سلجھانے کی ذمہ داریوں پر فائز ہیں ، وہ کسی بھی دوسرے سے زیادہ ملکی مفاد کو سمجھتے بھی ہیں اور کسی بھی خطرے سے نمٹنے کا ہنر بھی جانتے ہیں بلکہ اپنی مہارتوں کا لوہا کئی بات منوا چکے ہیں ۔
دشمنوں کی سازش واضح ہے، وہ ہمیں تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔ مسلکوں، قوموں، رنگوں اور زبانوں کے نام پر اندرون ملک اور عالمی سطح پر بھی ، لیکن ہمیں متحد ہونا ہے جیسے بدر میں تھے، جیسے یرموک میں تھے، جیسے ایوبی کے لشکر میں تھے۔ اب کوئی حجازی، کوئی عراقی، کوئی پاکستانی یا کوئی افغانی نہیں، اب صرف ایک پہچان مسلمان۔ امت کے جھنڈے تلے متحد ہوں گے تو فتح یاب ہوں گے کامران ٹھہریں گے ، ورنہ دشمن کے قدموں تلے روندے جائیں گے اور خاک ہوجائیں گے ۔ کہتے ہیں جنگوں میں طعنے نہیں دئے جاتے ، لیکن ایک بات صرف ایک جملہ ایرانی بھائیوں سے بھی کہنا ضروری ہے کہ یہ جنگ ،ختم ہوجائے گی ، یہ مشکل گھڑی گزرجائے گی تو اک بار سوچنا ضرور ، آگے بڑھنے اور نئے دوست بنانے سے پہلے ، نئی پالیسیوں کے فیصلے کرنے سے پہلے کہ ساتھ کون کھڑا تھا اور دشمن کے لشکر میں کون تھا ،جو آج ساتھ ہیں ، وہی اپنے ہیں، مودی بھی اتنا ہی دشمن ہے جتنا کہ نیتن یاہو ۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: ایران کے یہ ہے کہ کے ساتھ ہوں گے
پڑھیں:
پاکستان پیپلزپارٹی شوق سے نہیں مجبوری میں حکومت کے ساتھ ہے، سردار سلیم حیدر
وہاڑی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے گورنر پنجاب کا کہنا تھا کہ 9 مئی پر کوئی دو رائے نہیں یہ ملک دشمنی تھی، پاکستان کے اداروں اور تنصیبات پر حملہ کرنے والا سیاسی کارکن ہو یا لیڈر سزا ملنی چاہیے۔ گورنر پنجاب کا کہنا تھا کہ 9 مئی کے واقعات میں بلاشبہ پی ٹی آئی کی قیادت کے کچھ لوگ ملوث تھے۔ اسلام ٹائمز۔ گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی شوق سے نہیں مجبوری میں حکومت کے ساتھ ہے۔ پنجاب کے ضلع وہاڑی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سردار سلیم حیدر کا کہنا تھا کہ آپریشن بنیان المرصوص میں جس طرح پاکستان نے فتح حاصل کی، پاکستانی پاسپورٹ کی اہمیت بڑھ گئی، حالیہ پاک بھارت جنگ اللہ تعالی کی طرف سے انعام تھی بھارت کو شکست دینے میں پاک فوج، تمام سیاسی پارٹیاں اور عوام ایک پیج پر تھے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کو عبرتناک شکست دینے پر مودی مسلسل تذلیل کا شکار ہے جب کہ امریکی صدر 27 بار پاکستان کی تعریف کرچکا۔
9 مئی پر کوئی دو رائے نہیں یہ ملک دشمنی تھی، پاکستان کے اداروں اور تنصیبات پر حملہ کرنے والا سیاسی کارکن ہو یا لیڈر سزا ملنی چاہیے۔ گورنر پنجاب کا کہنا تھا کہ 9 مئی کے واقعات میں بلاشبہ پی ٹی آئی کی قیادت کے کچھ لوگ ملوث تھے، پیپلز پارٹی کی سی ای سی نے ابھی کوئی وزراتیں لینے کا فیصلہ نہیں کیا، پیپلز پارٹی شوق سے نہیں مجبوری میں حکومت کے ساتھ ہے، اگر پنجاب حکومت نے کسانوں کے مسائل کا ادراک نہ کیا تو آئندہ کوئی کسان فصل کاشت نہیں کریں گے۔ انہوں نے شکوہ کیا کہ پیپلز پارٹی نے کسان مزدور اور سرکاری ملازمین کو ہمیشہ ریلیف دیا، پنجاب کے کسانوں مزدوروں نے ہمیشہ پیپلز پارٹی کو ریلیف لینے کے باوجود نظر انداز کیا۔
سردار سلیم حیدر کا مزید کہنا تھا کہ بہاؤ الدین ذکریا یونیورسٹی ملتان سپریم کورٹ کے حکم پر سینڈیکیٹ کا اجلاس بلانے کی پابند ہے، قانون کے سینکڑوں طلباء کا مستقبل تاریک نہیں ہونے دیں گے، سینڈیکیٹ کمیٹی میرٹ پر فیصلہ کرے گی، کارکنان پنجاب میں پیپلز پارٹی کو اقتدار میں لانے کے لیے تیاری کریں، تقریب کے بعد گورنر پنجاب نے وکلاء کارکنان سول سوسائٹی سے ملاقاتیں بھی کیں۔