Jasarat News:
2025-06-17@13:06:55 GMT

حکومت کوہم صرف جون میںہی یادآتے ہیں‘علی خورشیدی

اشاعت کی تاریخ: 17th, June 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کراچی (اسٹاف رپورٹر)سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف علی خورشیدی نے وزیراعلیٰ سندھ کی پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس میں اپوزیشن پر لگائے جانے والے الزامات پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس میں وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ انہیں کہا گیا کہ علی خورشیدی سے ملیں۔ اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ وزیراعلیٰ کو چاہیے تھا کہ وہ یہ بھی بتادیتے کہ ان سے کس نے کہا تھا۔ پیر کو سندھ اسمبلی کے اجلاس سے قبل ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں ایم کیو ایم کی لیڈر شپ کی ہدایت پر گزشتہ برس سی ایم ہاؤس گیا تھا وہ بھی ناصر شاہ کی کال آنے کے بعد گیا کیونکہ انہوں نے کہا تھا کہ ہم سے مل لیں اس وقت بجٹ آنے والا تھا۔ علی خورشیدی نے کہا کہ پورے سال میں رابطہ نہیں ہوا حال ہی میں بجٹ سے پہلے پھر ناصر شاہ نے کہا کہ سی ایم صاحب ملنا چاہتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ریکارڈ کی درستگی کے لئے یہ باتیں بتا رہا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت والے صرف جون کے مہینے میں ہی ملتے ہیں کیونکہ بجٹ آنے والا ہوتا ہے , ان کو جون میں ہی ہم یاد آتے ہیں .

انہوں نے کہا کہ بجٹ میں ہمارے اسکیمیں نہیں لی گئیں ۔ صوبائی اسمبلی میں جو قانون پاس ہوا تھا کہ وزیر اعلی نے اس پر عمل درآمد نہیں کیا۔ انہوں نے حکومت سندھ سے سوال کیا کہ آپ کو اپوزیشن صرف بجٹ کے وقت کیوں یاد آتی ہے۔

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ علی خورشیدی

پڑھیں:

سندھ کا بجٹ 2025-26

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

سندھ پاکستان کا انتظامی لحاظ سے بدترین صوبہ ہے، یہاں سڑکوں سے اسپتالوں اور اسکولوں تک صرف تباہی ہی تباہی ہے۔ حکومت سندھ کی جانب سے مالی سال 2025-26 کے لیے پیش کیا گیا 34 کھرب 51 ارب روپے کا بجٹ بظاہر اعداد و شمار کی چمک دمک سے مزین ہے، لیکن حقیقت میں یہ بجٹ عوامی امنگوں سے کوسوں دور، مخصوص طبقات کو خوش کرنے اور دکھاوے پر مبنی ایک روایتی مشق ہے جس کا نتیجہ ہمیشہ کی طرح صرف اخباری خبروں تک محدود رہے گا۔ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے بجٹ میں تعلیم، صحت، پنشن، ترقیاتی منصوبوں، اور فلاحی اسکیموں کا خوب چرچا کیا، لیکن زمینی حقائق کچھ اور ہی کہانی سناتے ہیں۔ تعلیم کے شعبے کے لیے 12.4 فی صد اضافے کا اعلان ضرور کیا گیا، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا سندھ کے سرکاری اسکولوں میں اساتذہ کی حاضری، بچوں کی شرح خواندگی اور انفرا اسٹرکچر کی حالت بہتر ہوئی؟ کیا یہ فنڈز بھی سابقہ ادوار کی طرح کرپشن اور اقربا پروری کی نذر نہیں ہو جائیں گے؟ اسی طرح صحت کے لیے 326 ارب روپے رکھنا بظاہر خوش آئند ہے، مگر جب اسپتالوں میں ایک بستر پر دو مریض لیٹے ہوں، اور دور دراز علاقوں میں بنیادی طبی سہولت تک میسر نہ ہو تو یہ اعلانات محض اعداد وشمار کا کھیل معلوم ہوتے ہیں۔ کراچی، جو ملک کا معاشی دارالحکومت ہے اور سندھ کے بجٹ میں سب سے زیادہ ٹیکس دیتا ہے، ایک بار پھر نظرانداز ہوا ہے۔ جماعت اسلامی کے رکن سندھ اسمبلی محمد فاروق کی یہ بات بالکل بجا ہے کہ ’’یہ بجٹ غربت نہیں بلکہ غریب کے خاتمے کا بجٹ ہے‘‘۔ کراچی کے لیے کوئی بڑا میگا پروجیکٹ شامل نہ کرنا، K-4 جیسے پانی کے منصوبے کو پھر سے نظر انداز کرنا، اور پبلک ٹرانسپورٹ کا صرف ذکر کرنا، سب حکومتی بے حسی کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ ناانصافی کراچی کے ساتھ برسوں سے جاری ہے، اور پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور ن لیگ تینوں اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ پیپلز پارٹی جو پچھلے کئی عشروں سے سندھ میں اقتدار پر قابض ہے، اس نے قبضہ کرکے اور یرغمال بنا کر عوام کو صرف غربت، پسماندگی، بیروزگاری، اور کرپشن کا تحفہ دیا ہے۔ دیہی سندھ میں زرعی معیشت کو تباہ کیا گیا، چھوٹے کسانوں کو کبھی وقت پر پانی ملا، نہ کھاد اور نہ ہی ان کی پیداوار کی قیمت۔ شہری سندھ، بالخصوص کراچی، جس سے حکومت کو سب سے زیادہ ٹیکس ملتا ہے، مسلسل نظر انداز کیا گیا۔ کراچی کے انفرا اسٹرکچر کی حالت زار، سیوریج کا نظام، سڑکوں کی تباہی، کچرے کا ڈھیر، اور پبلک ٹرانسپورٹ کا فقدان اس بات کا ثبوت ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے شہر کو جان بوجھ کر تنہا چھوڑا۔ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور سیاسی بنیادوں پر ترقیاتی فنڈز کے استعمال نے کراچی کے نوجوانوں کو مایوسی کے سوا کچھ نہ دیا۔ پیپلز پارٹی کی جانب سے بار بار اقتدار میں آ کر صرف اپنے قریبی حلقے کو نوازا گیا، یہ طرزِ حکمرانی سراسر استحصالی ہے جس کا خمیازہ سندھ کی نسلیں بھگت رہی ہیں۔ بجٹ میں 4400 اساتذہ اور عملے کی بھرتی کا دعویٰ کیا گیا، لیکن اس میں میرٹ اور شفافیت کی کوئی ضمانت نہیں ہے اور یہاں لوگ یہ بھی سوال کرتے ہیں اس سے قبل کے برسوں کے بجٹ کا کیا ہوا اور کون سی تبدیلی عوام کو دیکھنے کو ملی ہے۔ ترقیاتی منصوبے 520 ارب روپے تک محدود کیے گئے، جو کہ سندھ جیسے پسماندہ صوبے کے لیے نہایت ناکافی ہیں، خاص طور پر جب ہر سال اربوں روپے غیر ترقیاتی اخراجات اور وزراء کی مراعات پر خرچ ہو رہے ہوں۔ حکومت کی جانب سے 5 محصولات ختم کرنے اور کسانوں کو سبسڈی دینے جیسے اقدامات کی تعریف کی جا سکتی ہے، لیکن ان اقدامات کے عملی اطلاق پر شدید سوالات موجود ہیں۔ سابقہ کارکردگی اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ اقدامات بھی نعرے اور سیاسی پوائنٹ اسکورنگ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔ مزید حیرت کی بات یہ ہے کہ جو ایم کیو ایم سندھ حکومت پر تنقید کر رہی ہے، وہی وفاقی حکومت میں شامل ہوکر وفاقی بجٹ کا دفاع کرتی ہے جس میں کراچی کو بھی مکمل نظر انداز کیا گیا۔ اس دوغلی سیاست سے عوام بخوبی واقف ہو چکے ہیں۔ یہ بجٹ سندھ کے متوسط اور غریب طبقے کے لیے کسی ریلیف کا باعث نہیں، بلکہ مہنگائی، بیروزگاری اور بدانتظامی کا تسلسل ہے۔ تعلیم، صحت، روزگار اور انفرا اسٹرکچر جیسے بنیادی مسائل بدستور حل طلب ہیں، اور حکومت ان پر سنجیدہ اقدامات کرنے کے بجائے محض زبانی جمع خرچ سے کام چلا رہی ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ سندھ کے عوام اس بجٹ کے دھوکے کو پہچانیں، اور اپنے حق کے لیے مزاحمت کریں اور اپنی طاقت سے ایسی حکمرانی کو مسترد کریں جو صرف اپنے مفادات کی نگہبان ہو، نہ کہ عوام کی خیرخواہ ہو۔

 

متعلقہ مضامین

  • سندھ حکومت نے لیڈی ہیلتھ ورکرز کے مطالبات تسلیم کر لیے
  • بجٹ پاس کروانے کیلیے کسی مدد یاووٹ کی ضرورت نہیں‘ناصرشاہ
  • حکومت نے بجٹ میں کراچی کو مکمل طور پر نظر انداز کیا‘صلاح الدین
  • پنجاب کا 26-2025ء کیلئے5335 ارب روپے کا بجٹ پیش، اپوزیشن کا احتجاج
  • علی خورشیدی نے وزیراعلیٰ سندھ کو ملنے کیلئے پیغام بھجوانے سے متعلق بیان مسترد کردیا
  • وزیراعلیٰ سندھ صرف اپنے مفادات کیلئے اپوزیشن سے ملاقات کرتے ہیں: علی خورشیدی
  • ترقیاتی منصوبے واپس کریں ورنہ بجٹ کی حمایت نہیں کریں گے، مراد علی شاہ کا وفاق کو انتباہ
  • سندھ کا بجٹ 2025-26
  • اپوزیشن کو ساتھ لیکر بجٹ بنا رہے ہیں، ترجمان بلوچستان حکومت