اسرائیل ایران تصادم: پاکستان کے اندرونی مسائل پس منظر میں چلے گئے؟
اشاعت کی تاریخ: 17th, June 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 17 جون 2025ء) ایران اور اسرائیل کی بڑھتی ہوئی کشیدگی اس وقت پاکستان کے ذرائع ابلاغ کا سب سے بڑا موضوع بن چکی ہے اور اس صورتحال میں پاکستان کے کئی اہم داخلی مسائل نمایاں خبروں کی فہرست میں شامل نہیں ہیں۔
مشرق وسطی کے اس تنازعے نے پاکستانی میڈیا اور عوامی توجہ کو مکمل طور پر اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، جس کے نتیجے میں عمران خان کی گرفتاری، سیاسی بے چینی، وفاقی بجٹ پر عوامی ردعمل، مہنگائی، تعلیم و صحت کے بحران، سپریم کورٹ میں لگے اہم کیسز ، شدید گرمی کی لہر اور دہشت گردی جیسے موضوعات اب پسِ منظر میں جاتے دکھائی دے رہے ہیں۔
حالیہ بجٹ میں حکومت کی طرف سے کئی ایسے اعلانات بھی سامنے آئے ہیں جن پر عام لوگوں کی طرف سے عدم اطمینان کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
(جاری ہے)
بڑھتی ہوئی مہنگائی، بے روزگاری اور اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں اضافہ عام آدمی کی زندگی کو بری طرح متاثر کر رہا ہے۔ دوسری طرف گرمی کی شدید لہر، پانی کی قلت اور لوڈشیڈنگ کے اثرات شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔
لیکن ماضی کی طرح اس بار میڈیا میں ان سارے مسائل پر کھل کر بات نہیں ہو رہی ہے۔اس ضمن میں ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کے سینئر صحافی حامد میر نے بتایا کہ پاکستانی میڈیا کا اس وقت فوکس ایران اسرائیل تصادم کی طرف ہو جانا بالکل درست ہے۔
ان کے بقول یہ بین الاقوامی کشیدگی کا باعث بننے والا تنازعہ پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے میڈیا کی توجہ کا مرکز ہے اور لوگ اسی کے بارے میں دیکھنا، پڑھنا اور سننا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا، ''جب جنگ گھر کی دہلیز پر پہنچ جائے، امریکی صدر ٹرمپ تہران کو خالی کر دینے کی بات کریں اور پاکستان کا مخالف ہمسایہ اسرائیل کے ساتھ ملا ہوا ہو تو پھر کون ہے جو اسمبلی کی تقریروں یا عمران کی رہائی کی خبروں کا متلاشی ہوگا۔ اگر کوئی اور ملک ہوتا تو بھی خطرے کی بات تھی لیکن ایران تو ہمارا ہمسایہ اور برادر اسلامی ملک ہے اور مخالف لوگ اس کے بعد پاکستان کی باری کی بات کر رہے ہیں ایسے میں اسی تنازعے کے بارے میں جاننا اور اس کے بارے میں تبصرے تجزیے اور خبریں دینا درست عمل ہے۔‘‘حامد میر نے اس تاثر کی بھی نفی کی کہ پاکستانی میڈیا محض دوسروں سے حاصل کی گئی فیلڈ رپورٹنگ کی خبریں دے رہا ہے۔ ان کے خیال میں ایک ایسے وقت میں جب پاکستان کی حکومت کو ایران کے حوالے سے شدید دباؤ کا سامنا ہے پاکستانی میڈیا گریٹر اسرائیل کے مجوزہ منصوبے پر بات کر رہا ہے ۔ ''اب تو حکومت بھی یہ تسلیم کر چکی ہے کہ کچھ با اثر ممالک نے پاکستان کو ایران کے خلاف انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (آئی اے ای اے) کی قرارداد میں ووٹ دینے کو کہا لیکن پاکستان نے صاف انکار کردیا۔
ان حالات میں اگر حکومت ایران کی حمایت میں کھل کر نا آتی تو اس کے خلاف تحریک شروع ہو سکتی تھی۔ اب اس صورتحال میں میڈیا عوامی امنگوں سے اپنے آپ کو کیسے الگ کر سکتا ہے۔‘‘دوسری طرف بعض ماہرین کا خیال ہے کہ عامی منظر نامے پر میڈیا کی اس غیرموجودگی سے حکومت کی جوابدہی متاثر ہوتی ہے، جبکہ اپوزیشن، سول سوسائٹی اور عوام کی آواز کمزور ہو جاتی ہے۔
مقامی مسائل کو نظرانداز کرنے سے سازشی نظریات، افواہوں اور غلط معلومات کو پھیلنے کا موقع ملتا ہے، جو مزید بے چینی پیدا کرتے ہیں۔لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی کی استاد ڈاکٹر شبانہ اصغر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ جنگ کی کوریج بالکل درست ہے لیکن وہ سارے ایشوز جو شہریوں کی زندگیوں کو متاثر کرتے ہیں، جیسے کہ بے جا ٹیکسز، اشرافیہ کے لیے مراعات اور انسانی حقوق کو متاثر کرنے والی قانون سازی وغیرہ وغیرہ ان کو بھی دھیان میں رکھ کر میڈیا کو خبروں کا متوازن انتخاب کرنا چاہیے۔
پاکستان میں کئی سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ جنگی کوریج کی زیادتی سے حکومت تنقید سے بچ گئی ہے اور اسے اپنا بجٹ بغیر زیادہ تنقید کے منظور کرنے میں آسانی ہوگی۔ان کے بقول میڈیا مالکان کو بھی کسی الجھن کا شکار ہوئے بغیر ملک کے ایک خاص ماحول میں اپنا کام چلا نے کا موقعہ مل رہا ہے۔
لاہور پریس کلب کے سیکرٹری جنرل زاہد عابد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یہ درست ہے کہ بیشتر ہیڈلائنز اور ٹی وی اسکرینز پر اسرائیل ایران حملوں کی خبریں نمایاں ہیں لیکن ان کے بقول پاکستانی میڈیا بڑی حد تک آزادانہ رپورٹنگ کر رہا ہے اور ان حالات میں غیر معمولی حالات میں کسی مثالی توازن کی توقع رکھنا شاید درست نہیں۔
زاہد عابد کے بقول، ''پاکستانی میڈیا کی ساکھ اور پروفیشنل ازم دنیا حالیہ پاک بھارت تصادم کے دوران بھی دیکھ چکی ہے۔‘‘پنجاب یونیورسٹی میں اسکول آف کمیونیکیشن اسٹڈیز کے پروفیسر ڈاکٹر حنان احمد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستانی میڈیا احتیاط اور توازن کے ساتھ ایک غیر اعلانیہ ضابطہ اخلاق کے تحت کوریج جاری رکھے ہوئے ہے۔
ان کے بقول، ''پاکستانی میڈیا کی کوریج میں بہتری کی گنجائش موجود ہے۔ پاکستانی میڈیا ایران اسرائیل تنازعے کی کوریج درست انداز میں کر رہا ہے۔ لیکن میڈیا کو یہ بھی تو دیکھنا چاہیے کہ ملک میں سولر انرجی پر ٹیکس لگا کر عام آدمی کے لیے مشکلات پیدا کر دی گئی ہیں۔ ہائیر ایجوکیشن کا بجٹ کم ہو رہا ہے سیاسی فائدوں کے لیے خطیر وسائل لیپ ٹاپس پر خرچ ہو رہے ہیں لیکن اس کے خلاف کہیں کوئی موثر آواز اٹھتی دکھائی نہیں دے رہی۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ''ایسے وقت میں صحافت کا فرض بنتا ہے کہ جنگی کوریج کے ساتھ ساتھ قومی مسائل پر بھی نظر رکھے۔ میڈیا کو چاہیے کہ عالمی واقعات کے اثرات کا مقامی تناظر میں جائزہ لے اور اپنے مسائل کو نہ بھولے کیونکہ اصل فرنٹ لائن محض وہ ہی نہیں جہاں میزائل گرتے ہیں، بلکہ وہ بھی ہے جہاں ایک عام پاکستانی روٹی، علاج، تعلیم اور انصاف کے لیے لڑ رہا ہے۔‘‘ادارت: کشور مصطفیٰ
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے پاکستانی میڈیا پاکستان کے ان کے بقول کر رہا ہے ڈی ڈبلیو بتایا کہ میڈیا کی رہے ہیں اور اس ہے اور کے لیے
پڑھیں:
روس کا ایران کیخلاف اور امریکہ کا یوکرین کیخلاف جنگ ختم کرنے پر زور
کریملن کے ترجمان کا کہنا تھا کہ دونوں صدور نے اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا کہ ان کے ذاتی تعلقات اتنے مضبوط ہیں کہ وہ سنجیدہ مسائل پر بھی کاروباری انداز میں گفتگو کر سکتے ہیں، چاہے وہ مسائل دو طرفہ ہوں یا عالمی۔ اسلام ٹائمز۔ روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے امریکی ہم منصب ڈونلڈ ٹرمپ سے ٹیلی فونک رابطہ کیا ہے جس میں انہوں نے ایران پر اسرائیلی حملوں کی مذمت کی۔ غیر ملکی خبررساں ادارے روسی صدر نے ہفتے کے روز امریکی صدر 50 منٹ طویل ٹیلی فونک گفتگو کی، جس میں اسرائیل اور ایران کے درمیان جاری کشیدگی پر تفصیلی گفتگو کی گئی۔ اس دوران، ڈونلڈ ٹرمپ اور ولادی میر پیوٹن نے اسرائیل اور ایران کے درمیان کشیدگی کے خاتمے کے لیے کوششوں کی ضرورت پر زور دیا۔
کریملن کے ترجمان یوری اوشاکوف نے بتایا کہ پیوٹن نے ایران کے خلاف اسرائیلی فوجی کارروائی کی مذمت کی اور صورتحال کے مزید بگڑنے کے خطرات پر تشویش کا اظہار کیا۔ ٹرمپ نے اپنی سوشل میڈیا سائٹ ’ٹروتھ سوشل‘ پر بتایا کہ گفتگو کا زیادہ تر حصہ مشرق وسطیٰ کے مسائل پر مرکوز رہا، تاہم انہوں نے پیوٹن سے کہا کہ روس کو یوکرین میں جنگ ختم کرنی چاہیے۔
بعد ازاں، یوری اوشاکوف نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ولادی میر پیوٹن نے ایران کے خلاف اسرائیلی فوجی آپریشن کی مذمت کی اور تنازع کے ممکنہ پھیلاؤ پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تنازع کے مشرق وسطیٰ میں ناقابلِ پیشگوئی نتائج ہو سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹرمپ نے مشرق وسطیٰ کی صورتحال کو ’انتہائی تشویشناک‘ قرار دیا، تاہم دونوں رہنماؤں نے ایران کے جوہری پروگرام پر دوبارہ مذاکرات کی بحالی کے امکان کو مسترد نہیں کیا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ امریکی مذاکرات کار ایرانی نمائندوں کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہیں، اور بطور ثالث عمان کا کردار جاری رہے گا۔ تاہم، اتوار کے روز عمان میں طے شدہ تازہ ترین مذاکرات کا دور منسوخ کر دیا گیا ہے۔ ترجمان کریملن کا کہنا تھا کہ پیوٹن نے ٹرمپ کو یاد دلایا کہ کشیدگی سے پہلے، روس نے ایسے مخصوص اقدامات تجویز کیے تھے جو ایران کے جوہری پروگرام پر امریکا اور ایران کے درمیان قابلِ قبول معاہدے کے لیے مددگار ہو سکتے تھے۔
دوسری جانب ٹرمپ نے اپنی پوسٹ میں مزید کہا کہ اسرائیل-ایران جنگ ختم ہونی چاہیے، اور میں نے روسی صدر کو بتایا کہ ان کی جنگ (یوکرین میں) بھی ختم ہونی چاہیے۔ کریملن کے ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ دونوں صدور نے اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا کہ ان کے ذاتی تعلقات اتنے مضبوط ہیں کہ وہ سنجیدہ مسائل پر بھی کاروباری انداز میں گفتگو کر سکتے ہیں، چاہے وہ مسائل دو طرفہ ہوں یا عالمی۔ علاوہ ازیں، پیوٹن نے ٹرمپ کو ان کی 79ویں سالگرہ پر مبارکباد بھی دی۔