ایران کے خلاف اسرائیل کی فوجی کارروائی سے مشرق وسطیٰ میں کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے، چینی صدر

 

آستانہ: چینی صدر شی جن پھنگ سے آستانہ میں دوسرے چین۔وسطی ایشیا سربراہی اجلاس کے دوران ازبک صدر شوکت میرزی یوئیف نے ملاقات کی۔
اس موقع پر منگل کے روز شی جن پھنگ نے کہا کہ ایران کے خلاف اسرائیل کی فوجی کارروائی سے مشرق وسطیٰ میں یکدم کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے اور چین کو اس پر گہری تشویش ہے۔ ہم کسی بھی ایسے عمل کی مخالفت کرتے ہیں جو دوسرے ممالک کی خودمختاری، سلامتی اور علاقائی سالمیت کی خلاف ورزی کرتا ہو۔ فوجی کارروائی مسائل کے حل کا راستہ نہیں ہے اور علاقائی کشیدگی میں اضافہ عالمی برادری کے مشترکہ مفادات میں نہیں ہے۔ تمام فریقوں کو چاہیے کہ وہ جلد از جلد تنازع کے خاتمے کو فروغ دیں تاکہ کشیدگی میں مزید اضافہ نہ ہو۔ چین مشرق وسطیٰ میں امن و استحکام کی بحالی میں تعمیری کردار ادا کرنے کے لیے تمام فریقوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہے۔

اس موقع پر شی جن پھنگ نے نشاندہی کی کہ دونوں صدور نے گزشتہ سال بیجنگ اور آستانہ میں دو مرتبہ ملاقاتیں کیں اور دوطرفہ تعلقات کی ترقی کے لیے اسٹریٹجک منصوبہ بندی تشکیل دی۔ چین اور ازبکستان کے درمیان مختلف شعبوں میں تعاون کی جامع ترقی اور خوشحالی دیکھی گئی ہے۔چین ازبکستان کے ساتھ ترقیاتی حکمت عملیوں اور گورننس میں تجربات کے تبادلے کو مضبوط بنانے، باہمی طور پر زیادہ فائدہ مند اور جیت جیت تعاون کے منصوبوں کو نافذ کرنے، ایک دوسرے کی ترقی میں مدد کرنے اور ایک ہم نصیب چین۔ازبکستان کمیونٹی کی تعمیر کے لیے مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہے جو زیادہ بامعنیٰ اور متحرک ہو۔

شی جن پھنگ نے اس بات پر زور دیا کہ چین اور ازبکستان کو آزاد تجارت اور سہولیات کے لیے مزید اقدامات کرنے چاہئیں، دو طرفہ تجارت اور سرمایہ کاری کے پیمانے کو وسعت دینا چاہیے، اعلیٰ معیار کی حامل چین۔کرغزستان۔ازبکستان ریلوے کی تعمیر کرنی چاہیے اور اور ابھرتے ہوئے شعبوں جیسے کہ مصنوعی ذہانت، نئی توانائی، سمارٹ ایگریکلچر، اور صحت عامہ میں عملی تعاون کو بڑھانا چاہیے۔دونوں فریقوں کو کثیرالجہتی پلیٹ فارمز جیسے کہ چین۔وسطی ایشیا میکانزم اور شنگھائی تعاون تنظیم میں تعاون کو مضبوط کرنا چاہیے، مشترکہ طور پر بین الاقوامی عدل اور انصاف کا دفاع کرنا چاہیے اور بین الاقوامی اقتصادی اور تجارتی نظام کو برقرار رکھنا چاہیے۔
شوکت میرزی یوئیف نے کہا کہ صدر شی جن پھنگ دنیا کے ایک بہترین سیاست دان ہیں۔ انہوں نے موثر ملکی اور خارجہ پالیسیوں کے نفاذ میں چین کی قیادت کی، اقتصادی اور سماجی ترقی کو فروغ دیا اور نتیجہ خیز ثمرات حاصل کیے، اور چینی معیشت عالمی معیشت کا ایک اہم انجن بن گئی ہے

دونوں سربراہان مملکت نے مشرق وسطیٰ کی موجودہ صورتحال پر  بھی تبادلہ خیال کیا۔
ملاقات کے بعد، دونوں سربراہان مملکت نے مشترکہ طور پر ڈبلیو ٹی او میں ازبکستان کی شمولیت سے متعلق دو طرفہ پروٹوکول پر دستخط کا مشاہدہ کیا۔

Post Views: 3.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: کشیدگی میں اضافہ فوجی کارروائی شی جن پھنگ کے لیے

پڑھیں:

کس پہ اعتبار کیا؟

اسلام ٹائمز: ایران کا اسلامی انقلاب جس نوع کی فکر کا علمبردار بن کر آیا تھا وہ فلسطینیوں کی اس وقت کی قیادت کو کسی طور بھی قبول نہیں تھا۔ اسرائیل نے جب یاسر عرفات کی تنظیم ”پی ایل او“ کو لبنان سے نکالنے کے لیے لبنان پر چڑھائی کی تو اس وقت یاسر عرفات نے تمام مسلم ممالک کی افواج سے مدد کی اپیل تھی لیکن اس اپیل پر صرف ایران نے اپنی فوج لبنان بھیجی لیکن یاسر عرفات نے ایرانی فوج کو نہ صرف اسرائیل سے لڑنے کی اجازت نہیں دی بلکہ خود اسرائیل کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے اور اپنی تنظیم کے ساتھ لبنان سے رخصت ہوگئے۔ تحریر: پروفیسر سید تنویر حیدر نقوی

اسلامی انقلاب سے قبل ایران اور اسرائیل کے مابین  تعلقات استوار تھے۔ ایران میں اسرائیل کا سفارت خانہ قائم تھا۔ امام خمینی کی قیادت میں انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد ایران کی خارجہ پالیسی کے افق میں مشرق مغرب کا فرق آگیا۔ اڑھائی ہزار سالہ شہنشاہیت کے خاتمے کے ساتھ ساتھ ایران اور اسرائیل کے مابین تعلقات کی بساط  بھی لپٹ گئی۔ جو ایران کبھی اسرائیل سے یگانگت رکھتا تھا اب اس کی اسرائیل سے مخاصمت اس کی پہچان اور اسرائیل سے دشمنی اس کے ایمان کا تقاضا ٹھہری۔

ایران اب آزادیء فلسطین کے لیے لڑی جانے والی لڑائی کو کسی مقبوضہ علاقے کی آزادی کے لیے لڑی جانے والی جنگ کی بجائے الہی فریضہ کے طور پر دیکھنے لگا۔ امام خمینی فلسطینیوں کی کامیابی کو محض ان کے اسلامی تشخص اور ان کی دین سے وابستگی میں دیکھتے تھے۔ جب کہ اس وقت فلسطینیوں کی سب سے بڑی تنظیم ”پی ایل او“ بنیادی طور پر سیکولر تشخص کی حامل تحریک تھی جس کا مقصد محض فلسطین کے مقبوضہ علاقوں کو آزاد کرانا تھا۔

ایران کا اسلامی انقلاب جس نوع کی فکر کا علمبردار بن کر آیا تھا وہ فلسطینیوں کی اس وقت کی قیادت کو کسی طور بھی قبول نہیں تھا۔ اسرائیل نے جب یاسر عرفات کی تنظیم ”پی ایل او“ کو لبنان سے نکالنے کے لیے لبنان پر چڑھائی کی تو اس وقت یاسر عرفات نے تمام مسلم ممالک کی افواج سے مدد کی اپیل تھی لیکن اس اپیل پر صرف ایران نے اپنی فوج لبنان بھیجی لیکن یاسر عرفات نے ایرانی فوج کو نہ صرف اسرائیل سے لڑنے کی اجازت نہیں دی بلکہ خود اسرائیل کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے اور اپنی تنظیم کے ساتھ لبنان سے رخصت ہوگئے۔

ایران کی مدد کو مسترد کرنے کی وجہ ایک ہی تھی اور وہ یہ کہ یاسر عرفات کو خطرہ تھا کہ کہیں فلسطینی ایران کے انقلابی نظریات سے متاثر نہ ہو جائیں۔ ایران کی اسلامی حکومت شروع دن سے ہی مظلوم فلسطینیوں کی حمایت اور غاصب صیہونی حکومت کی مخالفت میں حالت جنگ میں ہے اور قربانیاں دے رہی ہے لیکن اس کے باوجود فلسطینیوں کی نمائندہ جماعتیں کبھی بھی اسے اس کا اصل مقام دینے کے لیے آمادہ نہیں رہیں۔ فلسطین کی جماعتوں نے اب تک اسرائیل سے جو معاہدے کیے ہیں وہ ایران کو بائی پاس کرکے کیے ہیں۔ مثلاً فلسطینیوں کی سب سے بڑی جماعت ”پی ایل او“ اور اسرائیل  کے مابین جو ”اوسلو امن معاہدہ“ ہوا، ایران کو اس سے الگ رکھا گیا۔

ایران نے اس وقت ہی یہ کہ دیا تھا کہ ایران کو الگ تھلگ کر کے جو بھی معاہدہ کیا جائے گا اس کی کامیابی کا امکان نہیں ہے۔ گزشتہ نصف صدی سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ فلسطین کی آزادی کے حوالے سے مخلصانہ کردار ادا کرنے والے ایران کے مقابلے میں وقتاً وقتاً نام نہاد کرداروں کو ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا رہا ہے۔ لیکن یہ جعلی کردار ایران کے حقیقی کردار کے مقابلے میں آخرکار  فلاپ ہوگئے۔ ایران کے مقابلے میں جو بھی کردار منظر عام پر آیا، چاہے وہ اسامہ بن لادن کی شکل میں ہو، صدام حسین کے روپ میں ہو یا اردگان کی صورت میں، اس نے فلسطینیوں کو ورغلانے کی کوشش کی ہے۔

حتیٰ کہ ایک وقت وہ بھی آیا کہ جب حماس بھی داعش جیسے گروہ کے دام میں آگئی اور شام میں اس کے اراکین بشار الاسد کے خلاف لڑے۔ ایران اور حزب اللہ نے اس پر حماس سے اپنے راستے جدا کر لیے تھے لیکن بعد میں حماس کو احساس ہوا کہ اس سے غلطی سرزد ہوئی ہے اور پھر دوبارہ ایران سے اس کے تعلقات بحال ہوگئے۔ اب لمحہء موجود میں ایک بار پھر فلسطینی اپنے بعض نام نہاد ہمدردوں کے ٹریپ میں آگئے۔

ایسے میں جبکہ کچھ عرصہ قبل ہی امریکہ ایران کے ایٹمی اثاثوں پر حملہ کر چکا تھا، فلسطینی تنظیموں نے ایران کو ایک طرف رکھتے ہوئے، ٹرمپ کے دھوکے میں آ کر اور قطر، ترکی اور مصر جیسی دوہرے معیار رکھنے والی حکومتوں کو درمیان میں لاکر ایک امن معاہدہ کیا اور اسرائیل کے وہ تمام قیدی چھوڑ دیے جو حماس کے پاس ” ٹرمپ کارڈ “ کے طور پر تھے۔ لیکن اسرائیل نے آخر وہی کچھ کیا جو وہ ہمیشہ سے کرتا آیا ہے اور اپنے وعدے اور معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غزہ کے مظلوم فلسطینیوں پر ایک بار پھر آتش و آہن کی بارش شروع کردی ہے اور غزہ کے لوگوں نے جو جشن منایا تھا وہ ایک بار پھر ان کے سوگ میں بدل گیا ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ اگر آج آزادیء فلسطین کے لیے لڑنے والی کوئی بھی فلسطینی تحریک یا قیادت، مظلومین جہان کی سب سے بڑی حامی قوت، اسلامی جمہوری ایران سے مکمل ہم آھنگی نہیں رکھتی اور اس کی قیادت، جو تمام عالم اسلام کی حقیقی قیادت ہے، اس کے فرمائے ہوئے کو اپنے لیے حکم کا درجہ نہیں دیتی، عالمی فریب کاروں کے دام فریب میں آتی رہے گی۔

خود آپ اپنی ہی گردن پہ گویا وار کیا
جو معتبر ہی نہ تھا اس پہ اعتبار کیا

متعلقہ مضامین

  • افغانستان، پاکستان اور ایران سمیت وسطی ایشیائی ممالک زلزلے سے لرز اٹھے
  • مسیحوں کے قتل عام کا الزام،ٹرمپ کی نائیجیریا کیخلاف فوجی کارروائی کی دھمکی
  • سندھ بلڈنگ ،پی ای سی ایچ ایس میں خلاف ضابطہ تعمیرات جاری
  • اسرائیل کی جنوبی لبنان میں حزب اللہ کے خلاف حملے تیز کرنے کی دھمکی
  • کس پہ اعتبار کیا؟
  • عیسائیوں کے قتل عام کا الزام: ٹرمپ کا نائیجیریا میں فوجی کارروائی کیلئے تیاری کا حکم
  • ’عیسائیوں کا قتلِ عام‘: ٹرمپ کی نائجیریا کے خلاف فوجی کارروائی کی دھمکی
  • نائیجیریا میں عیسائیوں کا قتل عام نہ رُکا تو فوجی کارروائی کریں گے، ٹرمپ کی دھمکی
  • وزیر تجارت سے ایرانی سفیر کی ملاقات: اقتصادی تعاون بڑھانے پر اتفاق
  • اسرائیلی حملوں میں مزید 3 فلسطینی شہید، جنگ بندی خطرے میں