منگنی کیوں ٹوڑی؟ 18 سالہ لڑکی کو گن پوائنٹ پر گھر سے زبردستی لیجانے والا نوجوان عوام کے ہتھے چڑھ گیا
اشاعت کی تاریخ: 18th, June 2025 GMT
سرائے مغل کے نواحی علاقے سندھو کلاں میں اغواء کی ایک کوشش اس وقت ناکام بنا دی گئی جب مقامی شہریوں نے بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے دو مسلح نوجوانوں کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کر دیا۔
پولیس کے مطابق ایک نوجوان، جس کی منگنی چند روز قبل ختم ہوگئی تھی، لاہور سے پسٹل لے کر اپنے ایک دوست کے ہمراہ متاثرہ لڑکی کو اغواء کرنے کے ارادے سے سرائے مغل پہنچا۔ دونوں ملزمان گن پوائنٹ پر لڑکی کے گھر میں داخل ہوئے اور 18 سالہ لڑکی کو سر پر پسٹل تان کر موٹر سائیکل پر بٹھا لیا۔
ایف آئی آر کے مطابق ملزمان نے گھر والوں اور پاس آنے والوں کو جان سے مار دینے کی دھمکیاں دیں، لیکن گھر والوں کے شور مچانے پر اہل علاقہ جمع ہو گئے اور بروقت کارروائی کرتے ہوئے دونوں نوجوانوں کو قابو کر لیا۔ لڑکی کو بحفاظت بازیاب کروا کر دونوں ملزمان کو تھانہ سرائے مغل پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔
پولیس نے مقدمہ درج کر کے قانونی کارروائی کا آغاز کر دیا ہے۔ پولیس کے مطابق ملزمان سے اسلحہ برآمد کر لیا گیا ہے اور مزید تفتیش جاری ہے۔
.
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
بلوچستان: لیویز کا پولیس میں انضمام کیوں کیا جا رہا ہے؟
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 31 جولائی 2025ء) صوبہ بلوچستان کے 13 سے زائد اضلاع میں لیویز اہلکاروں نے احتجاجی مظاہروں میں شرکت کی اور واضح کیا کہ وہ پولیس فورس میں ضم ہو کر اپنی منفرد شناخت کھونا نہیں چاہتے۔
لیویز فورس کی تاریخی اہمیتبرطانوی دورِ حکومت میں قائم کی جانے والی لیویز فورس قبائلی نظام کی نمائندگی کرتی ہے۔
صوبے میں مختلف قبائلی جرگوں نے بھی انضمام کے اس فیصلے کی مخالفت کی اور حکومت سے اسے واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ جرگے لیویز کو بلوچستان کے ثقافتی اور قبائلی ڈھانچے کا اہم حصہ سمجھتے ہیں۔ لیویز اہلکار انضمام کے خلاف کیوں ہیں؟دالبندین میں تعینات ایک سینئر لیویز اہلکار نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ ہزاروں لیویز اہلکار اس حکومتی فیصلے کو اپنی شناخت کے خاتمے کے مترادف سمجھتے ہیں۔
(جاری ہے)
انہوں نے کہا، ''حکومت نے لیویز کو پولیس میں ضم کرنے کی، جو حکمت عملی تیار کی ہے، وہ ابہام کا شکار ہے۔ پولیس ایک مرکزی ڈھانچے کے تحت کام کرتی ہے، جبکہ لیویز کا نظام مقامی سطح پر زیادہ مؤثر، روایتی اور ثقافتی تقاضوں سے ہم آہنگ ہے۔ حکومت جو جواز پیش کر رہی ہے، وہ زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا۔ سکیورٹی چیلنجز میں اضافہ ہوا ہے لیکن لیویز فورس کا صوبے کے قبائلی سیٹ اپ میں امن کی بحالی کے لیے کردار ہمیشہ مثالی رہا ہے۔‘‘انہوں نے مزید کہا کہ لیویز کے مقامی ڈھانچے کو ختم کرنے کے فیصلے سے نہ صرف انتظامی مسائل پیدا ہوں گے بلکہ یہ سکیورٹی خلاء کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ ان کے بقول، ''لیویز اہلکاروں کو یہ اندیشہ ہے کہ پولیس میں شمولیت کے بعد ان کا سروس ڈھانچہ، مراعات اور تبادلوں کا نظام ان کی ثقافتی اور جغرافیائی بنیادوں سے منقطع ہو جائے گا۔
لیویز کی موجودگی قبائلی علاقوں میں ثقافتی ہم آہنگی برقرار رکھتی ہے اور جرائم کے تدارک میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔‘‘مستونگ سے تعلق رکھنے والے لیویز انویسٹی گیشن ونگ کے ایک اہلکار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر کہا، ''ہمیں برسوں سے سکیورٹی کی فرنٹ لائن پر رکھا گیا ہے لیکن ہمارے بنیادی مسائل کے حل پر کبھی توجہ نہیں دی گئی۔
اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے لوگ زمینی حقائق کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ اگر انضمام ضروری ہے تو لیویز کے خدشات کو دور کیوں نہیں کیا جاتا؟ یہ زبردستی انضمام صرف نفرت اور بے چینی کو بڑھا رہا ہے۔‘‘انہوں نے مزید کہا کہ پولیس قبائلی علاقوں کے ماحول سے ناواقف ہے، اس لیے لیویز کی کمان پولیس کے حوالے کرنے سے حالات بہتر ہونے کی کوئی امید نہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا، ''پولیس کا نظام شہروں کے لیے موزوں ہو سکتا ہے لیکن دیہی بلوچستان کے لیے وہی فورس کامیاب ہو سکتی ہے، جو مقامی شناخت رکھتی ہو۔ ہم سے توقع کی جاتی ہے کہ ہم جدید مواصلاتی نظام، حفاظتی سہولیات اور بیک اپ کے بغیر دہشت گردی سے نمٹیں۔ ہم دہائیوں سے یہاں کے پہاڑوں، وادیوں اور قبائلی علاقوں میں عوام کی خدمت کر رہے ہیں اور ہمیں مقامی لوگوں کا اعتماد حاصل ہے۔ پولیس ہمیں جانتی بھی نہیں، اس کے آنے سے حالات بہتر نہیں ہوں گے۔‘‘ مبصرین کا نقطہ نظر کیا ہے؟سکیورٹی امور کے تجزیہ کار میجر (ر) عمر فاروق نے کہا کہ بلوچستان میں ایک مضبوط اور یکساں سکیورٹی نظام کی ضرورت ہے لیکن اس حساس اور ثقافتی لحاظ سے منفرد خطے میں فورسز کا زبردستی انضمام امن کے بجائے انتشار کا باعث بن سکتا ہے۔
ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا، ''بلوچستان میں موجودہ شورش اور غیر یقینی صورتحال کے پیش نظر حکومت کو مرحلہ وار اصلاحات اور مقامی مشاورت کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے۔ لیویز صوبے کی ایک تاریخی فورس ہے، جس کا کردار ہمیشہ مؤثر رہا ہے۔ اگرچہ سکیورٹی چیلنجز بڑھ چکے ہیں اور لیویز کی پیشہ ورانہ تربیت ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے اتنی مؤثر نہیں، لیکن فیصلے قبائلی اور سیاسی قیادت کو اعتماد میں لیے بغیر حالات کو مزید خراب کر سکتے ہیں۔‘‘انہوں نے مزید کہا، ''بلوچستان میں دہشت گردی کے بدلتے رجحانات سے نمٹنے کے لیے پیشہ ورانہ پولیسنگ کی ضرورت ہے۔ لیویز فورس کی صلاحیت اور تربیت اس جنگ کے تناظر میں محدود ہے۔ تاہم انضمام کے طریقہ کار میں شفافیت اور شراکت داری کا فقدان لیویز اہلکاروں میں عدم تحفظ کا باعث بن رہا ہے۔‘‘
حکومتی موقف کیا ہے؟ڈائریکٹر جنرل لیویز بلوچستان عبدالغفار مگسی نے کہا کہ لیویز فورس کو پولیس میں ضم کرنے کا فیصلہ سکیورٹی چیلنجز کے تناظر میں کیا گیا ہے۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''بلوچستان میں لیویز اور پولیس کا انضمام امن و امان کے یکساں نظام کے قیام کے لیے ضروری ہے۔ لیویز کے زیر انتظام علاقوں کو پولیس میں ضم کرنے سے امن و امان کی صورتحال میں نمایاں بہتری آئے گی۔ گزشتہ دنوں عسکریت پسندوں کے حملوں کے دوران پیشہ ورانہ غفلت کا مظاہرہ کرنے پر 100 لیویز اہلکاروں کو ملازمتوں سے برطرف کیا جا چکا ہے۔ احتجاج کی آڑ میں کسی اہلکار کو ضابطے کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔‘‘انہوں نے مزید کہا کہ بلوچستان حکومت نے ژوب، مکران اور رخشاں ڈویژن کے 13 اضلاع کو لیویز سے پولیس فورس میں ضم کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔ ان اضلاع میں رخشاں ڈویژن کے چاغی، واشک، نوشکی اور خاران، ژوب ڈویژن کے بارکھان، قلعہ سیف اللہ، لورالائی، موسیٰ خیل، شیرانی اور ژوب جبکہ مکران ڈویژن کے گوادر، کیچ اور پنجگور شامل ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ان تینوں ڈویژنز میں مرحلہ وار لیویز ایریاز کو پولیس میں ضم کیا جا رہا ہے اور انتظامی معاملات پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پولیس میں انضمام کے بعد لیویز اہلکاروں کو خصوصی تربیت بھی فراہم کی جائے گی تاکہ انہیں جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جا سکے۔
ادارت: امتیاز احمد