پاک بھارت تنازع: مودی نے ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی مسترد کردی، انڈیا کا دعویٰ
اشاعت کی تاریخ: 18th, June 2025 GMT
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ٹیلی فونک رابطہ ہوا ہے، جس میں پاک بھارت کشیدگی پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
بھارتی میڈیا نے بھارتی سیکریٹری خارجہ وکرم مسری کے حوالے سے بتایا ہے کہ نریندر مودی نے امریکی صدر سے 35 منٹ طویل گفتگو کے دوران دوٹوک موقف اختیار کیا کہ بھارت پاکستان کے ساتھ تنازعے میں کسی تیسرے فریق کی ثالثی نہ قبول کرتا ہے اور نہ کرے گا۔
یہ بھی پڑھیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ایک بار پھر ثالثی کی پیشکش کردی
وکرم مسری کے مطابق بھارتی وزیراعظم نے صدر ٹرمپ کو آگاہ کیا کہ بھارت کا عسکری آپریشن ابھی جاری ہے۔ اس وقت کسی قسم کے مذاکرات یا ثالثی کی کوشش کی گنجائش نہیں ہے۔
یاد رہے کہ 10 مئی کو پاکستان نے بھارتی جارحیت کے جواب میں آپریشن بنیان مرصوص کا آغاز کیا تھا، جس میں ادھم پور، پٹھان کوٹ، آدم پور ایئربیسز، براہموس میزائل اسٹوریج، ایس-400 دفاعی نظام سمیت کئی اہم اہداف کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
ٹرمپ کا دعویٰ: میری مداخلت سے سیز فائر ہوااسی روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کی مداخلت سے پاکستان اور بھارت فوری اور مکمل سیز فائر پر رضامند ہوئے۔ صدر ٹرمپ نے کہا کہ انہوں نے دونوں ممالک کے رہنماؤں سے کہا کہ اگر وہ گولیاں برساتے رہے، تو امریکا ان کے ساتھ تجارت بند کر دے گا۔
یہ بھی پڑھیے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے صدر ٹرمپ کے بیان کی کتنی اہمیت ہے؟
بھارتی انکار برقراراگرچہ امریکی صدر اس بات پر زور دیتے رہے ہیں کہ سیز فائر میں ان کا کردار فیصلہ کن رہا، تاہم بھارتی حکام مسلسل اس دعوے کو مسترد کرتے آ رہے ہیں۔ بھارت کا کہنا ہے کہ وہ تمام فیصلے اپنی خودمختاری کے تحت کرتا ہے اور کسی بیرونی مداخلت کو تسلیم نہیں کرتا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پاک بھارت تنازع ڈونلڈ ٹرمپ نریندر مودی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پاک بھارت تنازع ڈونلڈ ٹرمپ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ
پڑھیں:
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھارت پر مسلسل دباؤ کیوں بڑھا رہے ہیں؟
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جنہیں پچھلی صدارتی مدّت کے دوران بھارت میں بی جے پی کی حکومت وزیراعظم نریندر مودی کے ذاتی دوست کے طور پر پیش کرتی تھی، اپنے اِس دوسرے عہدِ صدارت میں وہ بھارت اور بھارتی بیانیے کے مخالف سمت کھڑے نظر آتے ہیں۔
’بھارتی معیشت مردہ ہے‘گزشتہ رات صدر ٹرمپ نے ناصرف بھارتی معیشت کو مردہ قرار دیا بلکہ اس پر 25 فیصد ٹیرف کے ساتھ ساتھ روس کے ساتھ تعلقات پر جرمانہ بھی عائد کردیا۔ اس پوری صورتحال پر ایک طرف بھارتی تجزیہ کاروں نے سخت مایوسی کا اظہار کیا تو دوسری طرف اپوزیشن رہنماؤں نے اِسے حکومت کی ناکام خارجہ اور معاشی پالیسی سے تعبیر کیا اور اِس معاملے کو پارلیمنٹ میں اُٹھانے کا عندیہ بھی دیا۔
اس سے قبل اب تک ڈونلڈ ٹرمپ بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی کرانے کے لیے اپنے ثالثی کردار کا 29 بار ذکر کرچکے ہیں اور ہر بار جب وہ ذکر کرتے ہیں تو بھارت کے اندر نریندر مودی کی حکومت پر اپوزیشن کی جانب سے تنقید بڑھ جاتی ہے جس کی وجہ سے حکمران جماعت کو ہر بار ہزیمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
گزشتہ روز بھارتی قائدِ حزب اختلاف راہول گاندھی نے پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وزیرِاعظم مودی کے اندر اگر ہمت ہے تو اس ایوان میں کھڑے ہوکر کہہ دیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ جھوٹ بول رہے ہیں اور بھارت کے 5 طیارے نہیں گرائے گئے۔
امریکی صدر کی جانب سے جنگ بندی کا بار بار اعادہ کرنا بھارت کے لیے نہ صرف ایک بین الاقوامی ہزیمت بن چکا ہے بلکہ اندرونِ ملک اٹھنے والے سوالات سے پریشان بھارتی حکومت بھی بیک فٹ پر دکھائی دیتی ہے۔
دوسری طرف گزشتہ روز ہی صدر ٹرمپ نے بھارت کی امریکا کے ساتھ تجارت پر 25 فیصد ٹیرف عائد کردیا جس کے بعد 8 جولائی کو بنیادی 10 فیصد ٹیرف پر امتناع ختم ہوگیا۔ اب امریکا کو بھارتی الیکٹرانکس مصنوعات اور جم اسٹون برآمدات پر 23 ارب ڈالر کی تجارت کا نقصان ہوگا۔
لیکن سوال یہ ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ کے یہ اقدامات کیا بھارت پر دباؤ بڑھانے کے لیے ہیں اور اگر ایسا ہے تو ڈونلڈ ٹرمپ اس سے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟
کیا پاکستان کے ساتھ بہتر ہوتے تعلقات بھارت پر دباؤ کا سبب بن رہے ہیں؟جہاں امریکی صدر ایک طرف اپنے بیانات اور ٹیرف عائد کرکے بھارت کو دباؤ میں لارہے ہیں وہیں پاکستان کے ساتھ امریکا کی بڑھتی ہوئی قربت بھی بھارت میں شدید بے چینی کا سبب بن رہی ہے۔
امریکی صدر نے جہاں بھارت پر 25 فیصد ٹیرف عائد کیا وہیں پاکستان کے بارے میں ٹیرف کی شرح کا اعلان تو نہیں کیا گیا، لیکن یہ کہا گیا کہ پاک امریکا تجارت میں خاص اضافہ ہوگا جس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان پر ٹیرف کا نفاذ کم ہوگا۔
ساتھ ہی ساتھ صدر ٹرمپ نے پاکستان کے ساتھ مل کر آئل سیکٹر میں کام کرنے کا عندیہ دیا اور سرمایہ کاری کے واضح اشارے بھی دیے۔
اس سے قبل صدر ٹرمپ یا امریکی حکومت کی جانب سے پہلگام حملے کی مذمت کرتے ہوئے پاکستان کا نام نہ لینا بھارت کے لیے ایک بہت بڑی سفارتی ناکامی تھی جس نے بھارت کے اندر امریکا بھارت اسٹریٹجک اتحاد پر کئی سوال اُٹھادیے ہیں۔
دوسری طرف داعش کے دہشتگرد شریف اللہ کی پاکستان کی جانب سے گرفتاری اور امریکا حوالگی سے دونوں ممالک کے تعلقات اب اس نوعیت پر ہیں کہ پاکستان اور امریکا اب دہشتگردی کے خلاف جنگ پر تعاون بڑھانے کے لیے بامعنی مذاکرات کرنے جارہے ہیں۔
شریف اللہ کی گرفتاری پر امریکی سینٹرل کمانڈ کے کمانڈر جنرل مائیکل کُوریلا نے پاکستان کی تعریف کی اور حال ہی میں جب وہ پاکستان کے دورے پر آئے تو صدر پاکستان کی جانب سے انہیں نشان امتیاز ملٹری دیا گیا۔ یہ واقعہ بھی بھارت میں بہت نوٹس کیا گیا اور بھارتی تجزیہ کاروں نے اس پر اپنے اضطراب کا اظہار کیا۔
اس سے قبل فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کو امریکی صدر کی جانب سے وائٹ ہاؤس میں دیا گیا لنچ بھی بھارتی حلقوں میں تشویش کی نگاہ سے دیکھا گیا۔
صدر ٹرمپ کے اس دباؤ کی کچھ ممکنہ وجوہات یہ ہوسکتی ہیں
تجارتی مذاکرات کے ذریعہ دباؤٹرمپ نے کھلے الفاظ میں کہا کہ انہوں نے “trade instead of war” کا تصور پیش کیا، یعنی تجارتی انعامات یا خطرے کے طور پر تجارتی پابندیاں استعمال کرتے ہوئے تنازعے کو کم کرنے کی کوشش کی۔
صدر ٹرمپ کا نام عالمی قیادت میں زیادہ نمایاں ہواصدر ٹرمپ نے اس مداخلت کو ایک بڑی سفارتی کامیابی کے طور پر پیش کیا اور بہت سی مرتبہ یہ دعویٰ بھی کیا کہ انہوں نے اس بحران کو کارآمد ثالثی سے ختم کیا، جس سے عالمی سطح پر ان کی قیادتی تصویر واضح ہوتی ہے۔
علاقائی توازن اور تعلقات کی حکمت عملیپاکستان کے فوجی سربراہ کو وائٹ ہاؤس میں مدعو کرنا اور ان کے ساتھ بات چیت کرنا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ امریکا پاکستان کے ساتھ بھی تعلقات قائم کرنے میں دلچسپی رکھتا تھا، تاکہ چین‑بھارت‑امریکا‑پاکستان توازن برقرار رہے۔
امریکا اور بھارت کے درمیان تعلقات مزید خراب ہوسکتے ہیں، مائیکل کوگلمینامریکا میں ولسن سینٹر سے وابستہ جنوب ایشیائی امور کے ماہر مائیکل کوگلمین اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں ’ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی صدارت سنبھالنے کے حوالے سے بھارت کو بہت امید اور اعتماد تھا۔ بھارت کی یہ امید اور اعتماد جائز بھی تھا کیونکہ ٹرمپ کے پہلے عہد صدارت کے دوران بھارت اور امریکا کے تعلقات بہت مضبوط تھے۔ اس کے باوجود بھارت ایک ایسا ملک ہے جس کے ساتھ ٹرمپ کی افتاد طبع کے پیش نظر تعلقات خطرناک حد تک تبدیل ہوئے ہیں۔
مائیکل کوگلمین ایک اور جگہ لکھتے ہیں کہ بھارت کی امریکا کے ساتھ تجارت پر ٹیرف عائد کیے جانے سے بھارت امریکا تعلقات کو شدید دھچکا پہنچا ہے جو تعلقات بھارت پاکستان جنگ کے بعد سے پہلے ہی مشکلات کا شکار تھے۔ ایک تجارتی معاہدہ کرکے ان تعلقات کو درست کیا جاسکتا تھا لیکن اب ایسے لگتا ہے کہ ان تعلقات کی مشکلیں بڑھ جائیں گی۔
جنہیں ٹرمپ سے امیدیں تھیں وہ مایوس ہوئے، حسین حقانیامریکا میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ پاکستان اور بھارت میں جن لوگوں کو صدر ٹرمپ سے بڑی امیدیں وابستہ تھیں وہی سخت مایوسی کا شکار ہوچکے ہیں۔ بھارت میں مودی کے پرستار اور پاکستان میں عمران خان کے چاہنے والے۔
پاک امریکا تعلقات میں تیز ترین تبدیلیاں واقع ہوتی رہتی ہیں، زاہد حسینبین الاقوامی تعلقات کے ماہر اور کالم نگار زاہد حسین نے اپنے وی لاگ میں کہا کہ پہلے امریکی صدر اور فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کے درمیان غیر روایتی ملاقات اور پھر وزیر خارجہ اسحاق ڈار کی امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو سے ملاقات دونوں ملکوں کی قربت کی گواہی دیتی ہے لیکن پاکستان اور امریکا کے درمیان تعلقات بہت تیزی سے بدلتے رہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں بھی پاکستان امریکا کا قریب ترین اتحادی رہ چکا ہے لیکن دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات بہت خراب بھی رہے اور پچھلے 4، 5 سال کے دوران امریکا کا اسٹریٹجک پارٹنر بن کے سامنے آیا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں