سینیٹ اجلاس،اسرائیلی جارحیت کے خلاف اور ایران سے اظہار یکجہتی کےلئے مسلمان ممالک کے مشترکہ بیان کی کاپی ایوان میں پیش
اشاعت کی تاریخ: 18th, June 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 18 جون2025ء) نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ سینیٹر اسحاق ڈار نے ایران کے خلاف اسرائیل کی جاری فوجی جارحیت کے خلاف اور ایران سے اظہار یکجہتی کےلئے مسلمان ممالک کی جانب سے متفقہ طور پر جاری کئے گئے مشترکہ بیان کی کاپی سینیٹ میں پیش کر دی۔ بدھ کو ایوان بالا کے اجلاس میں انہوں نے یہ کاپی ایوان میں پیش کی ۔
تیزی سے بدلتی علاقائی صورتحال اور مشرق وسطیٰ میں کشیدگی میں غیرمعمولی اضافے بالخصوص ایران کے خلاف اسرائیل کی جاری فوجی جارحیت کے پیش نظر الجزائر، بحرین، برونائی دارالسلام، چاڈ، کوموروس، جبوتی، مصر، عراق، اردن، کویت، لیبیا، موریطانیہ، پاکستان، قطر، سعودی عرب، صومالیہ، سوڈان، ترکیہ، اومان اور متحدہ عرب امارات کے وزرائے خارجہ نے ایک مشترکہ بیان میں 13 جون 2025 سے اسلامی جمہوریہ ایران پر اسرائیل کے حملوں اور کسی بھی ایسے اقدام کو جو بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے مقاصد اور اصولوں کی خلاف ورزی کرے ، کی دوٹوک الفاظ میں مذمت کی۔(جاری ہے)
وزرائے خارجہ نے ریاستوں کی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کے احترام کے ساتھ ساتھ اچھی ہمسائیگی کے اصولوں پر عمل اور تنازعات کے پرامن تصفیے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ ایران کے خلاف اسرائیلی مخامصت کو روکنے کی ضرورت ہے جو مشرق وسطی ٰمیں بڑھتی کشیدگی کے دوران سامنے آئی ۔ موجودہ خطرناک کشیدگی پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس سے پورے خطے کے امن و استحکام پر سنگین نتائج برآمد ہونے کا خدشہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک جامع جنگ بندی اور امن کی بحالی کے لئے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ وزرائے خارجہ نے کہا کہ جوہری اور بڑے پیمانے پر تباہی کے دیگر ہتھیاروں سے پاک مشرق وسطیٰ کے علاقے کے قیام کی فوری ضرورت ہے جو متعلقہ بین الاقوامی قراردادوں کے مطابق خطے کی تمام ریاستوں پر بغیر کسی استثنیٰ کے لاگو ہوں، نیز مشرق وسطیٰ کے تمام ممالک کو جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلائو (این پی ٹی ) کے معاہدے میں شامل ہونے کی فوری ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کی متعلقہ قراردادوں اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے فیصلوں کے مطابق جوہری تنصیبات کو نشانہ بنانے سے گریز کرنے کی انتہائی اہمیت ہے کیونکہ ایسی کارروائیاں بین الاقوامی قانون اور بین الاقوامی انسانی قانون بشمول 1949 کے جنیوا کنونشنز کی خلاف ورزی ہیں۔ انہوں نے مشترکہ بیان میں کہا کہ ایرانی جوہری پروگرام کے حوالے سے پائیدار معاہدے تک پہنچنے کا واحد قابل عمل ذریعے کے طور پر مذاکرات کے راستے پر تیزی سے واپسی کی فوری ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی قانون کے متعلقہ قواعد کے مطابق بین الاقوامی آبی گزرگاہوں میں نیویگیشن کی آزادی کے تحفظ کی اہمیت اور میری ٹائم سکیورٹی کو نقصان پہنچانے سے گریز کرنا ضروری ہے۔ مشترکہ بیان کے مطابق سفارت کاری، بات چیت اور اچھی ہمسائیگی کے اصولوں کی پاسداری، بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق خطے میں بحرانوں کے حل کا واحد قابل عمل راستہ ہے اور یہ کہ فوجی ذرائع جاری بحران کا دیرپا حل نہیں لاسکتے۔\932.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے بین الاقوامی قانون انہوں نے کہا کہ ضرورت ہے کے مطابق کے خلاف
پڑھیں:
جی 7 اجلاس میں پھوٹ پڑ گئی، ایران-اسرائیل تنازع پر مشترکہ اعلامیہ جاری نہ ہو سکا
دنیا کی سات بڑی معیشتوں پر مشتمل جی 7 ممالک کے اجلاس میں ایران اور اسرائیل کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی پر ردعمل کے حوالے سے رائے میں گہرا اختلاف سامنے آ گیا ہے۔
الجزیرہ کے مطابق، جی 7 رہنماؤں کے درمیان اس مسئلے پر واضح اختلاف دیکھا جا رہا ہے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران اسرائیل کشیدگی پر کسی مشترکہ بیان پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا ہے جس سے اجلاس کے اختتام پر متفقہ مؤقف سامنے لانا مشکل ہو گیا ہے۔
اجلاس میں نیٹو اور اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل بھی شریک ہیں، تاہم یورپی ممالک اور جاپان کے مؤقف میں بھی فرق واضح ہے۔ یورپی ممالک سفارتی حل اور کشیدگی میں کمی کی بات تو کرتے ہیں لیکن ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔
اس کے برعکس جاپان جو جی 7 کا واحد غیر مغربی ملک ہے، نے جمعے کو ہونے والے اسرائیلی حملے کی کھل کر مذمت کی تھی۔ موجودہ حالات میں ایران حالت جنگ میں مذاکرات کے لیے تیار نہیں ہے جس سے صورت حال مزید پیچیدہ ہو گئی ہے۔
سفارتی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر جی 7 ممالک ایران-اسرائیل تنازع پر مشترکہ اعلامیہ جاری کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو یہ عالمی سفارتکاری کے لیے ایک بڑا دھچکا ہو سکتا ہے اور ممکنہ طور پر کشیدگی کو مزید بڑھا سکتا ہے۔