data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اسلام آباد:ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے 2025-2026 کے وفاقی بجٹ کو ملک کے پسماندہ طبقات کے لیے خطرناک قرار دیتے ہوئے اسے ’غریب دشمن‘ بجٹ کا نام دیا ہے۔

انسانی  حقوق کمیشن آف پاکستان کے مطابق بجٹ میں نچلے طبقات کے لیے نہ صرف یہ کہ کوئی حقیقی ریلیف شامل نہیں بلکہ یہ مکمل طور پر کفایت شعاری، بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی شرائط اور اعدادوشمار کے تابع تیار کیا گیا ہے، جس میں انسانی وقار اور معاشی انصاف کو بری طرح نظر انداز کیا گیا ہے۔

ایچ آر سی پی نے اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس کے ذریعے اس بجٹ پر اپنا تفصیلی مؤقف پیش کیا۔ پریس بریفنگ میں معروف ماہرین معیشت، انسانی حقوق کے نمائندگان اور سماجی شعبوں کے ماہرین نے شرکت کی اور بجٹ کے مختلف پہلوؤں پر تنقیدی تبصرے کیے۔

ایچ آر سی پی نے اس بات پر زور دیا کہ حکومت نے بجٹ کو آئی ایم ایف کے تقاضوں کے تحت تشکیل دیا ہے، مگر اس میں عام شہری، خاص طور پر تنخواہ دار اور دیہاڑی دار طبقے کے لیے کوئی حقیقی ریلیف موجود نہیں۔ مہنگائی کے بوجھ تلے دبے ان لاکھوں افراد کی زندگی، جو 2022 سے جاری معاشی بحران میں بری طرح متاثر ہو چکے ہیں، اس بجٹ میں مزید دباؤ کا شکار ہو جائے گی۔

ایچ آر سی پی کا کہنا ہے کہ اگرچہ انکم ٹیکس کی شرح میں معمولی کمی کی گئی ہے، تاہم یہ کمی اس قدر محدود ہے کہ اس سے شہریوں کی قوتِ خرید میں کوئی نمایاں بہتری ممکن نہیں۔ گزشتہ کئی برسوں کی مہنگائی نے عوام کی بنیادی خریداری کی طاقت چھین لی ہے اور یہ بجٹ اسے بحال کرنے میں ناکام ہے۔

کمیشن نے وفاقی سطح پر کم از کم اجرت میں کوئی اضافہ نہ کیے جانے کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کا کہنا تھا کہ 37 ہزار روپے ماہانہ اجرت ایک 6 رکنی خاندان کے لیے نہ صرف ناکافی ہے بلکہ یہ غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گزارنے کے مترادف ہے۔

اگرچہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں کم از کم اجرت کو بڑھا کر 40 ہزار روپے کر دیا گیا ہے، مگر ایچ آر سی پی کے مطابق موجودہ مہنگائی کے حالات میں یہ اضافہ بھی حقیقی آمدنی میں کمی کا ازالہ نہیں کر سکتا۔

سندھ کے بارے میں کمیشن نے کہا کہ وہاں کی 80 فیصد صنعتیں کم از کم اجرت کے قانون پر عمل ہی نہیں کر رہیں اور یہ رجحان پورے ملک میں پھیلتا جا رہا ہے، جو ریاستی نااہلی کی علامت ہے۔

ایچ آر سی پی نے بجٹ میں تعلیم، صحت اور سماجی تحفظ کے لیے مختص فنڈز کو انتہائی ناکافی اور عالمی معیار سے کمتر قرار دیا۔ اعلامیے میں کہا گیا کہ صحت کے لیے جی ڈی پی کا صرف 0.

96 فیصد، تعلیم کے لیے 1.06 فیصد اور سماجی تحفظ کے لیے 1.1 فیصد بجٹ مختص کیا گیا ہے۔

یہ اعداد نہ صرف اقوامِ متحدہ کے تجویز کردہ اہداف سے کم ہیں بلکہ ہمسایہ ممالک بھارت، بنگلا دیش اور سری لنکا کے مقابلے میں بھی بہت پیچھے ہیں۔

ایچ آر سی پی کے سیکرٹری جنرل حارث خلیق نے وزیر خزانہ کی جانب سے کم از کم اجرت میں اضافہ نہ کرنے پر مایوسی کا اظہار کیا اور کہا کہ جب پارلیمنٹیرینز کی تنخواہوں میں غیر معمولی اضافہ کیا جا رہا ہو، تو یہ عمل غریب عوام سے کھلا مذاق محسوس ہوتا ہے۔

کمیشن کے نائب صدر راجا اشرف نے کہا کہ تعلیم اور صحت جیسی بنیادی خدمات کی فراہمی ریاست کی آئینی ذمے داری ہے اور ان شعبوں میں عدم سرمایہ کاری مستقبل میں ملک کو مزید معاشرتی انتشار کی طرف دھکیل سکتی ہے۔

ایچ آر سی پی کی سینئر منیجر فیروزہ بتول نے بجٹ کو خواتین دشمن قرار دیتے ہوئے کہا کہ جب معاشی پالیسیوں میں پسماندہ طبقوں کو نظر انداز کیا جائے، تو سب سے زیادہ نقصان خواتین کو ہوتا ہے، جو پہلے ہی گھریلو، معاشی اور سماجی دباؤ کا شکار ہوتی ہیں۔

ماہرِ معیشت ڈاکٹر فہد علی نے نشاندہی کی کہ ملک کی 45 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے جبکہ 88 فیصد افراد کی آمدنی 75 ہزار روپے ماہانہ سے کم ہے ۔ ایسے میں بجٹ میں معاشی انصاف کی عدم موجودگی ایک لمحۂ فکریہ ہے۔

ایچ آر سی پی نے وفاقی و صوبائی حکومتوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنی مالی ترجیحات پر نظرِ ثانی کریں اور ترقیاتی پالیسیوں کو صرف قرض دہندگان کی خوشنودی کے بجائے عوام کی بنیادی ضروریات کے مطابق ڈھالیں۔

کمیشن نے واضح کیا کہ جب تک صحت، تعلیم اور سماجی تحفظ کے شعبوں میں سنجیدہ اور مستقل سرمایہ کاری نہیں کی جائے گی، اس وقت تک مساوی شہری حقوق کا تصور صرف ایک خوبصورت نعرہ ہی رہے گا۔

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ایچ آر سی پی نے ہے ایچ آر سی پی اور سماجی کے لیے کہا کہ گیا ہے

پڑھیں:

انسانی امدادی سرگرمیوں کے لیے جنگی اخراجات کا صرف ایک فیصد درکار، فلیچر

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 16 جون 2025ء) امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے اعلیٰ سطحی رابطہ کار ٹام فلیچر نے دنیا بھر میں 114 ملین لوگوں کی زندگی کو تحفظ دینے کے لیے رواں سال 29 ارب ڈالر کے امدادی وسائل مہیا کرنے کی اپیل کی ہے جو گزشتہ سال دنیا بھر میں جنگوں پر خرچ کیے جانے والے وسائل کا صرف ایک فیصد ہے۔

انہوں نے کہا ہے کہ حالیہ عرصہ کے دوران امدادی وسائل میں آنے والی کمی دنیا کے طول و عرض میں بہت سے لوگوں کی زندگیوں کو بری طرح متاثر کر رہی ہے۔

ان حالات میں لوگوں کی بڑی تعداد ضروری مدد سے محروم رہ جائے گی لیکن امدادی برادری دستیاب وسائل میں زیادہ سے زیادہ زندگیوں کو تحفظ دینے کی کوشش کرے گی۔ Tweet URL

دسمبر 2024 میں رواں سال کے لیے جاری کردہ عالمگیر امدادی جائزے (جی ایچ او) میں بتایا گیا تھا کہ 70 سے زیادہ ممالک میں پناہ گزینوں سمیت تقریباً 180 ملین لوگوں کو مدد کی ضرورت ہے۔

(جاری ہے)

اس مقصد کے لیے مجموعی طور پر 44 ارب ڈالر درکار ہیں جن میں سے اب تک 5.6 ارب ڈالر یا 13 فیصد سے بھی کم وسائل مہیا ہو سکے ہیں۔امدادی اقدامات کی ترجیح نو

ٹام فلیچر نے کہا ہے کہ امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کا رابطہ دفتر (اوچا) ہر ملک کے حوالے سے امدادی منصوبوں کی نئے سرے سے ترجیح بندی کر رہا ہے۔ اس میں سب سے پہلے ان لوگوں تک پہنچا جائے گا جن کی ضروریات سب سے زیادہ اور ہنگامی نوعیت کی ہیں۔

اس مقصد کے لیے ایسا پیمانہ استعمال کیا جانا ہے جس سے انسانی ضروریات سے آگاہی ملے گی اور اندازہ ہو سکے گا کہ یہ ضروریات کس قدر شدید ہیں۔

اس کے بعد 2025 میں امدادی اقدامات کے حوالے سے کی گئی منصوبہ بندی کی بنیاد پر ضروری مدد کی فراہمی کو ترجیح دی جائے گی۔ اس میں یہ یقینی بنایا جائے گا کہ محدود وسائل جلد از جل وہیں مہیا کیے جائیں جہاں ان کا سب سے زیادہ فائدہ ہو۔

وسائل میں ظالمانہ کمی

انہوں نے بتایا کہ امدادی شراکت داروں نے لوگوں کو مدد پہنچانے کے منصوبوں میں تحفظ کو مرکزی جگہ دی ہے۔ ضروری امداد کی فراہمی کو کسی مخصوص فہرست تک محدود کرنے کے بجائے ایسے انداز میں انتہائی ہنگامی ضروریات کو پورا کیا جائے گا جس سے لوگوں کا وقار متاثر نہ ہو۔ اس میں جہاں ممکن ہو نقد امداد کی فراہمی اور لوگوں کو اپنی فوری ضروریات کے حوالے سے فیصلے کا اختیار دینا بھی شامل ہے۔

ٹام فلیچر کا کہنا ہے کہ امدادی وسائل میں ظالمانہ انداز میں کی جانے والی کمی کے باعث امداد کی فراہمی کے حوالے سے بھی سخت فیصلے کرنا پڑے ہیں۔ یہ محض رقم کے لیے کی جانے والی اپیل نہیں بلکہ عالمگیر ذمہ داری، انسانی یکجہتی اور لوگوں کے مصائب کو ختم کرنے کے لیے کیے جانے والے عزم کی یاد دہانی بھی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • وفاقی و صوبائی بجٹس کو صنعت دشمن ،صدر فباٹی شیخ محمد تحسین
  • پناہ گزینوں کے حقوق کی عوامی حمایت برقرار, سروے رپورٹ
  • مسلح تنازعات میں خواتین اور بچوں کی ہلاکتوں میں چار گنا اضافہ
  • ایچ آر سی پی نے وفاقی بجٹ کو غریب دشمن اور تشویشناک قرار دے دیا
  • ایران اسرائیل جنگ: انسانی حقوق دفتر کا کشیدگی فوری کم کرنے پر زور
  • اقوامِ متحدہ کا بنگلہ دیش میں سیاسی جماعتوں پر پابندیوں پر گہری تشویش کا اظہار
  • دنیا کے ہر بحران کا خمیازہ عوام بھگتتے ہیں، فولکر ترک
  • انسانی امدادی سرگرمیوں کے لیے جنگی اخراجات کا صرف ایک فیصد درکار، فلیچر
  • پریم یونین نے عوام دشمن بجٹ کو مستردکردیا