لوگوں کو انصاف دلائیں گے، پہلی ترجیح عوامی شکایات دُور کرنا ہے، چیف جسٹس
اشاعت کی تاریخ: 18th, June 2025 GMT
پشاور ہائی کورٹ بار سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ نومنتخب کابینہ کو مبارک باد دیتا ہوں۔ بار اور بینچ کو کوئی علیحدہ نہیں کر سکتا۔ اسلام ٹائمز۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا ہے کہ لوگوں کو انصاف دلائیں گے۔ ہماری پہلی ترجیح عوامی شکایات دُور کرنا ہے۔ پشاور ہائی کورٹ بار سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ نومنتخب کابینہ کو مبارک باد دیتا ہوں۔ بار اور بینچ کو کوئی علیحدہ نہیں کر سکتا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا ہر اقدام قانون کی حکمرانی کے لیے ہوگا۔ آپ اپنے بڑوں کو بھولیں نہیں، نوجوانوں کو اپنے بڑوں کو فالو کرنا ہوگا۔ نوجوانوں کو آگے آنے کی ضرورت ہے۔ترقیاتی منصوبوں کو سپورٹ کریں۔ بار ایسوسی ایشن اس کی حمایت کریں، اس کا فائدہ سب کو ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ پشاور میں کچہری کمپلیکس بنا رہے ہیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے اپنے خطاب سے قبل تمام چینلز کے مائیک ہٹا دیے، اپنے خطاب میں انہوں نے مزید کہا کہ ہماری پہلی ترجیح عوام کی شکایات کو دور کرنا ہے۔ ہمارے ہاں اچھے وکلا رہے ہیں وہ ہمارے رہنما تھے۔
چیف جسٹس نے عبداللطیف آفریدی، بیرسٹر ظہور الحق اور دیگر سینئر وکلا کو خراج عقیدت پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ وکلا اور ججز کو سہولیات کی فراہمی کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں۔ماتحت عدلیہ کی مشکلات کا احساس ہے، لوگوں کو انصاف دلائیں گے۔ بعد ازاں قائم مقام چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ جسٹس سید محمد عتیق شاہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس آف پاکستان کی تقریب میں شرکت قابل ستائش ہے ۔ ہمیں جدید سہولیات سے فائدہ اٹھانا چاہیے یہ وقت کی ضرورت ہے۔ ہمیں قانون کی حکمرانی کی بالادستی کے لیے کوشش کرنی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ 2لاکھ 36 ہزار کیسز ماتحت عدلیہ میں زیرالتوا ہیں جو بڑی تعداد ہے۔ فیملی کورٹس میں بہت سے کیسز زیر سماعت ہیں، ہمیں اس طرف توجہ دینا ہوگی۔ تمام بار ایسوسی ایشنز کو کیسز کو جلد نمٹانے میں تعاون کرنا چاہیے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ آف پاکستان چیف جسٹس
پڑھیں:
انکم ٹیکس مسلط نہیں کرسکتے تو سپرکیسے کرسکتے ہیں : سپریم کورٹ
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ کے جج جسٹس حسن اظہر رضوی نے سپر ٹیکس سے متعلق کیس میں ریمارکس دیئے ہیں کہ جب انکم ٹیکس مسلط نہیں کر سکتے تو سپر ٹیکس کیسے مسلط کر سکتے ہیں۔ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بنچ نے درخواستوں پر سماعت کی۔ ایف بی آر کی وکیل نے موقف اختیار کیا کہ مقننہ نے پروویڈنٹ فنڈ والوں کو سپر ٹیکس میں کسی حد تک چھوٹ دی ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دئیے سیکشن 53 ٹیکس میں چھوٹ سے متعلق ہے، فنڈ کسی کی ذاتی جاگیر تو نہیں ہوتا، ٹرسٹ اتھارٹیز سے گزارش کرتا ہے اور پھر ٹیکس متعلقہ کو دیا جاتا ہے۔ جسٹس امین الدین نے ریمارکس دئیے سپر ٹیکس کی ادائیگی کی ذمہ داری تو شیڈول میں دی گئی ہے۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا جب انکم ٹیکس مسلط نہیں کر سکتے تو سپر ٹیکس کیسے مسلط کر سکتے ہیں۔ ایک مثال لے لیں کہ ابھی فنڈ پر 100 روپے ٹیکس لگتا ہے، 25 سال بعد یہ سو روپے بڑھتے بڑھتے 550 روپے ہو جائیں گے۔ مطلب یہ کہ ریٹائرمنٹ کے بعد جو فوائد ملتے ہیں وہ نہیں ملیں گے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا سیکنڈ شیڈول میں پروویڈنٹ فنڈ پر سپر ٹیکس سمیت ہر ٹیکس پر چھوٹ ہوتی ہے۔ جسٹس جمال نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ تو آپکو محترمہ کو راستہ دکھا رہے ہیں۔ وکیل عاصمہ حامد نے موقف اپنایا مقننہ حکومت کے لیے انتہائی اہم سیکٹر ہے، ٹیکس پئیرز اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کا ایک حصہ اور سیکشن فور سی کو اکٹھا کرکے پڑھ رہے ہیں، شوکاز نوٹس اور دونوں کو اکٹھا کر کے پڑھ کر وہ کہہ رہے ہیں کہ وہ سپر ٹیکس دینے کے پابند نہیں ہیں، جس بھی سال میں اضافی ٹیکس کی ضرورت ہو گی وہ ٹیکس ڈیپارٹمنٹ بتائے گا، ایک مخصوص کیپ کے بعد انکم اور سپر ٹیکس کم ہوتا ہے، ختم نہیں ہوتا۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دئیے آج کل تو ہر ٹیکس پیئر کو نوٹس آ رہے ہیں کہ ایڈوانس ٹیکس ادا کریں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا سپر ٹیکس ایڈوانس میں کیسے ہو سکتا ہے، ایڈوانس ٹیکس کے لیے کیلکولیشن کیسے کریں گے؟ وکیل نے موقف اختیار کیا مالی سال کا منافع موجود ہوتا ہے اس سے کیلکولیشن کی جا سکتی ہے۔ ایف بی آر کے دوسرے وکیل نے کہا کہ میں سپر ٹیکس سے متعلق قانونی اور آئینی نقطوں پر معاونت کروں گا۔